وہ اعمال جو لعنت کا موجب بنتے ہیں !
اہم عناصرِ خطبہ :
01. ’ لعنت ‘ کا مفہوم ‘
02. لعنت کا موجب بننے والے اعمال کا تذکرہ
03. وہ خواتین جن پر لعنت پڑتی ہے
پہلا خطبہ
محترم حضرات !
جب اللہ تعالی نے فرشتوں کو جناب آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، جو کہ جنوں میں سے تھا ، لیکن کثرت عبادت کی بناء پر فرشتوں میں گھل مل جاتا تھا ، اللہ تعالی نے اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا : مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے جبکہ اس کو ( آدم علیہ السلام کو ) مٹی سے پیدا کیا ہے ، یعنی میں اس سے افضل اور بہتر ہوں ، میں کیوں اس کے سامنے سجدہ کروں ؟ چنانچہ اللہ تعالی نے اسے جنت سے نکل جانے کا حکم دیا اور فرمایا : ﴿وَ اِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَۃَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ الحجر15 :35
’’ اور تجھ پر لعنت ہے قیامت کے دن تک ۔ ‘‘
یوں ابلیس سب سے پہلے اللہ تعالی کی لعنت کا مستحق ٹھہرا ۔
آئیے سب سے پہلے یہ جان لیں کہ ’ لعنت ‘ کسے کہتے ہیں ؟
عربی زبان کے مشہور ماہر ابن منظور ’ لسان العرب ‘ میں کہتے ہیں :
( وَاللَّعْنُ : اَلْإِبْعَادُ وَالطَّرْدُ مِنَ الْخَیْرِ ، وَقِیْلَ : اَلطَّرْدُ وَالْإِبْعَادُ مِنَ اللّٰہِ )
یعنی ’لعنت ‘ خیر وبھلائی سے دور کرنے اور دھتکارنے کا نام ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ لعنت ‘ اللہ تعالی سے دور کرنے اور دھتکارنے کو کہتے ہیں ۔
اور مفسرین اللہ تعالی کے فرمان ( لَعَنَہُ اللّٰہُ ) کا معنی یوں کرتے ہیں : اللہ تعالی نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا ، اسے پھٹکار دیا اور اسے ذلیل وخوار کیا ۔
گویا لفظ ’ لعنت ‘ کا مطلب ہے : اللہ تعالی کی رحمت سے دور کرنا ، پھٹکارنا اور ذلیل وخوار کرنا ۔
اور جس کو اللہ تعالی اپنی رحمت سے دور کردے اور اسے ذلیل وخوار کرے وہ ’ ملعون ‘ کہلاتا ہے ۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اللہ کی رحمت سے دور کردیا جائے ، جس پر اللہ کی پھٹکار پڑے تو اس کیلئے دنیا وآخرت میں سوائے ذلت ورسوائی کے اور کچھ نہیں ۔ والعیاذ باللہ
آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ۔ ان شاء اللہ ۔ یہ بیان کریں گے کہ اللہ کی لعنت وپھٹکار کن لوگوں پر پڑتی ہے اور کون بد بخت لوگ اس کے مستحق ہوتے ہیں ؟ اور کونسے اعمال اس کا موجب بنتے ہیں ؟
01. شرک اور اس کے وسائل
سب سے پہلے جو عمل اللہ تعالی کی لعنت کا موجب بنتا ہے اور جس کی وجہ سے اللہ کی پھٹکار پڑتی ہے وہ ہے شرک اور اس کے تمام وسائل ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے ، تو اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار ارشاد فرمایا :
(( لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی ، اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ))
’’ یہود ونصاریٰ پر اﷲ کی لعنت ہے جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ ‘‘
پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ظاہر رکھا جاتا ۔ لیکن اس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں اسے سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :1330 وصحیح مسلم : 529
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنا کر شرک کرنا اللہ کی لعنت کا موجب ہے ۔
اور جو لوگ قبروں کو سجدہ گاہ بناتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک سب سے بُرے لوگ ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا کہ انھوں نے حبشہ میں ایک گرجا گھر دیکھا جس میں تصویریں رکھی ہوئی تھیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أُولٰئِکَ إِذَا مَاتَ فِیْہِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلٰی قَبْرِہٖ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوْا فِیْہِ تِلْکَ الصُّوَرَ ، أُولٰئِکَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ)) صحیح البخاری : 427، وصحیح مسلم :528
’’ ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی ( یا نیک بندہ ) مر جاتا تھا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے تھے اور اس
میں ان تصویروں کو رکھ دیتے تھے ۔ یہ اللہ کے نزدیک سب سے برے لوگ تھے ۔ ‘‘
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ)) صحیح مسلم :1978
’’اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے غیر اللہ کیلئے ( جانور ) ذبح کیا ۔ ‘‘
غیر اللہ کیلئے جانور ذبح کرنا بھی شرک ہے ۔ اور جو شخص یہ عمل کرتا ہے وہ اللہ کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے ۔
02. اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاپہنچانا
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا ﴾ الأحزاب33 :57
’’ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت برستی ہے اور اللہ نے ان کیلئے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کی کئی صورتیں ہیں ۔ مثلا یہ کہا جائے کہ اللہ کا بیٹا ہے ! جبکہ اللہ تعالی اولاد سے پاک ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا ٭ لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّا ٭ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا ٭ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا ﴾ مریم19 : 88۔91
’’ اُن کا کہنا یہ ہے کہ رحمن نے بھی اولاد اختیار کی ہے ! یقینا تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو ، جس کی وجہ سے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ، کہ انھوں نے رحمن کیلئے اولاد کا دعوی کیا ! ‘‘
یا یہ کہا جائے کہ کائنات کے نظام کو چلانے میں کوئی اللہ تعالی کا معاون ومددگار ہے ! یا اس کا شریک ہے ! جبکہ اللہ تعالی کو کسی معاون ومددگار کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے ۔
﴿ قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوَاتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِنْ ظَہِیْرٍ٭ وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗ سبأ34 : 22۔23
اِلاَّ لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ ﴾
’’آپ کہہ دیجئے کہ جنہیں تم اﷲ کے سوا معبود بنا بیٹھے ہو انہیں پکارو تو سہی ، وہ تو آسمانوں اور زمین میں ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں اور نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے ۔ اور نہ ان میں سے کوئی اﷲ کا مدد گار ہے اور نہ اس کے نزدیک سفارش کام آئے گی سوائے اس شخص کے جس کے لئے وہ سفارش کی اجازت دے گا ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کی ایک اور صورت یہ ہے کہ کوئی بندہ زمانے کو گالی گلوچ کرے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
(( یُؤْذِیْنِی ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ ، أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ ))
’’ ابن ِ آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے کہ زمانے کو گالی دیتا ہے جبکہ میں ہی زمانہ ہوں ، میں رات اور دن کو بدلتا ہوں ۔ ‘‘ صحیح البخاری :4826، وصحیح مسلم : 2246
جہاں تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زندگی میں اور وفات کے بعد ایذا پہنچانے کی متعدد صورتیں ہیں ۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو گالی گلوچ کا نشانہ بنایا جائے ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی کی جائے ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جائے۔یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کئے جائیں ، یا کارٹون بنائے جائیں ۔ یا کسی اور طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی جائے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے تھے ۔ زبانی بھی اور جسمانی بھی ۔ زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( ساحر ، مجنون ) وغیرہ کہتے تھے ۔ یقینا اِس سے آپ کو ایذا پہنچتی تھی ۔ اسی طرح جسمانی طور پر بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے تھے جس کے واقعات حدیث وسیرت کی کتابوں میں موجود ہیں ۔
کفار کے علاوہ منافق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے تھے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَ مِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُؤذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ ھُوَ اُذُنٌ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍلَّکُمْ یُؤمِنُ بِاللّٰہِ وَ یُؤمِنُ لِلْمُؤمِنِیْنَ وَ رَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ الَّذِیْنَ یُؤذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌاَلِیْمٌ ﴾ التوبۃ9 :61
’’اور ان ( منافقوں ) میں سے بعض ایسے ہیں جو نبی کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کانوں کا ہلکا ہے! آپ کہہ دیجئے کہ وہ تمھارے لئے خیر کی باتیں سنتا ہے ، اللہ پر یقین رکھتا ہے ، مومنوں کی باتوں پر بھروسہ کرتا ہے اور تم میں سے ایمان والوں کیلئے سراپا رحمت ہے ۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان کیلئے دردناک عذاب ہے ۔ ‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی طریقے سے ایذا پہنچانا لعنت کا موجب ہے ۔ جو شخص بھی اللہ تعالی یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائے گا وہ یقینا ملعون ہوگا ۔
03. واضح دلائل اور ہدایت کو چھپانا
بعض لوگ مخصوص نظریات کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے ان نظریات کو برحق ثابت کرنے اور مخالف نظریات کو غلط ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ۔ حتی کہ غلط بیانی ، جھوٹ اور دروغ گوئی سے بھی باز نہیں آتے ۔ بلکہ ان میں سے کئی لوگ تو اس قدر جسارت کرتے ہیں کہ سامنے قرآن مجید اور حدیث کی متعدد کتابیں رکھ لیتے ہیں ، پھر دیدہ دانستہ قرآن وحدیث کے واضح دلائل کو چھپاتے یا ان کا غلط مفہوم بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ یقینا اللہ تعالی کی لعنت اور دیگر تمام لعنت بھیجنے والوں کی لعنت کے مستحق ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :159
’’ جو لوگ ہماری نازل کردہ دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اس کے باوجود کہ ہم اسے کتاب میں لوگوں کیلئے بیان کر چکے ہیں ، ان پر اللہ تعالی بھی لعنت بھیجتا ہے اور تمام لعنت بھیجنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے :
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیْھِمْ وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ البقرۃ2 :174
’’ بے شک جو لوگ اللہ تعالی کی اتاری ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں ، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں ۔ قیامت کے دن اللہ ان سے بات بھی نہ کرے گا ، نہ ہی انھیں پاک کرے گا ۔ بلکہ ان کیلئے دردناک عذاب ہے ۔ ‘‘
کتمانِ حق اتنا بڑا گناہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہُ ثُمَّ کَتَمَہُ ، أُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ ))
’’ جس آدمی سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جو اسے معلوم تھی ، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے روز اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی ۔ ‘‘ جامع الترمذی :2649۔ وصححہ الألبانی
04. کفر پر موت آنا
ایک شخص شروع سے کافر ہو یا وہ مرتد ہو کر کافر ہوا اور کفر پر ہی اس کی موت آئی تو وہ اللہ تعالی کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ ھُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ٭ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَ لاَ ھُمْ یُنْظَرُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :162-161
’’ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ کفر پر ہی مر گئے تو ان پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، ان کے عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی اور نہ ہی انھیں ڈھیل دی جائے گی۔ ‘‘
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ایمان پر ثابت قدم رکھے اور کفر سے اپنی پناہ میں رکھے ۔
اَللّٰہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْإِیْمَانَ وَزَیِّنْہُ فِی قُلُوبِنَا وَکَرِّہْ إِلَیْنَا الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِیْنَ
05. بر ائی سے منع نہ کرنا
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا دین اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے ۔ اور ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق نیکی کی تلقین کرے اور برائی سے روکے ۔
اگر اس فریضے کو چھوڑ دیا جائے اور نہ نیکی کی تلقین کی جائے اور نہ ہی برائی سے منع کیا جائے ، مسلمان انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر اس فریضے سے غافل رہیں اور برائیوں کی کثرت کے باوجود وہ ان پر خاموشی اختیار کر لیں تو جو لوگ ایسا کریں گے وہ اللہ تعالی کی لعنت کے مستحق ہونگے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ٭ کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ﴾ المائدۃ5 :78۔ 79
’’ بنی اسرائیل کے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد ( علیہ السلام ) اور عیسی بن مریم ( علیہ السلام ) کی زبانی لعنت بھیجی گئی ۔ یہ اس لئے کہ وہ نافر مانی کرتے تھے اور اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے تھے ۔ وہ لوگ جس گناہ کا ارتکاب کرتے تھے اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے ۔ یقینا وہ جو کچھ کرتے تھے وہ بہت بُرا تھا ۔ ‘‘
برائی کا حکم دینا اور نیکی سے روکنا منافقوں کا کام ہے جن کے متعلق اللہ تعالی کافرمان ہے :
﴿ اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ٭ وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ھِیَ حَسْبُھُمْ وَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ وَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ ﴾ التوبۃ9 : 67۔68
’’ منافق مرد ہوں یاعورتیں ، ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ، برے کام کا حکم دیتے ہیں اور بھلے کام سے روکتے ہیں ۔ اور اپنے ہاتھ ( صدقہ وغیرہ سے ) بھینچ لیتے ہیں ۔ اور وہ اللہ کو بھول گئے تو اس نے بھی انھیں بھلا دیا۔ یہ منافق در اصل ہیں ہی نافرمان ۔ اللہ نے منافق مردوں ، منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ وہ انھیں کافی ہے ۔ اور ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کیلئے دائمی عذاب ہے ۔ ‘‘
06. قطع رحمی کرنا
حقوق العباد میں صلہ رحمی کی بڑی اہمیت ہے ۔ یعنی اپنے رشتہ داروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا ، ان سے اچھا سلوک کرنا ، ان سے ہمدردی کرنا اور ان پر احسان کرنا ۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور ان اہل ایمان کی بڑی تعریف کی ہے جو صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ اور ان کیلئے جنت کا وعدہ بھی فرمایا ہے ۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اپنے رشتہ داروں سے اچھے تعلقات قائم نہیں کرتے ، ان سے بد سلوکی کرتے اور ان پر ظلم وزیادتی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالی نے اپنی لعنت کا مستحق ٹھہرایا ہے ۔ یعنی ان پر اللہ کی پھٹکار پڑتی ہے اور وہ اللہ تعالی کی رحمت سے دور ہو جاتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ فَہَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَرْحَامَکُمْ ٭ أُوْلئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَأَصَمَّہُمْ وَأَعْمٰی أَبْصَارَہُمْ ﴾ محمد47 : 22۔23
’’ اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے ۔ چنانچہ اس نے ان کے کانوں کو ( حق بات کو سننے سے ) بہرہ کردیا ہے اور آنکھوں کو ( حق بات کو دیکھنے سے ) اندھا کردیا ہے ۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿ وَالَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللّٰہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللّٰہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُوْلٰئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوئُ الدَّار﴾ الرعد13 :25
’’ اور جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اُن پر لعنت ہے اور ان کیلئے برا گھر ہے ۔ ‘‘
07. تہمت لگانا
کسی خاتون پر تہمت لگانا اور اس کی عزت کو داغدار بنانا بہت بڑا گناہ ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات مہلک اور تباہ کن گناہوں میں شامل فرمایا ہے ۔ اور اللہ تعالی نے چار گواہوں کی گواہی کے بغیر کسی پر تہمت لگانے والے شخص کیلئے اسی (۸۰)کوڑوں کی سزا مقرر فرمائی ہے ۔ اور اسے اپنی لعنت کا مستحق ٹھہرایا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ النور24 :23
’’ جو لوگ پاکدامن ، گناہوں سے بے خبر ، مومنہ عورتوں پر زناکی تہمت لگاتے ہیں ، وہ یقینا دنیا وآخرت میں ملعون ہیں ۔ اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے ۔ ‘‘
08. شراب نوشی کرنا
شراب نوشی کرنا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے ۔ اور یہ اِس قدر سنگین جرم ہے کہ اس کی وجہ سے دس آدمیوں پر اللہ تعالی کی لعنت برستی ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :((لَعَنَ اللّٰہُ الْخَمْرَ وَشَارِبَہَا وَسَاقِیَہَا وَبَائِعَہَا وَمُبْتَاعَہَا، وَعَاصِرَہَا وَمُعْتَصِرَہَا ، وَحَامِلَہَا وَالْمَحْمُولَۃَ إِلَیْہِ)) وفی المسند : (( وَآکِلَ ثَمَنِہَا)) سنن أبی داؤد :3674۔ وصححہ الألبانی ، المسند :5716 ۔ وصححہ الأرناؤط
’’ اللہ کی لعنت ہے شراب پر ، اس کے پینے والے پر ، اس کے پلانے والے پر ، اس کے بیچنے والے پر ، اس کے خریدار پر ، اس کو نچوڑنے والے پر ، جس کیلئے نچوڑا گیا اس پر ، اس کو اٹھانے والے پر اور جس کی طرف اسے اٹھا کر لے جایا گیا اس پر ۔ ‘‘ مسند احمد کی روایت میں دسویں شخص کا بھی ذکر ہے ۔ یعنی ’’ اس کی قیمت کھانے والے شخص پر بھی لعنت ہے ۔ ‘‘
09. رشوت دینا اور لینا
رشوت دینا اور لینا بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہے ، جس کے ذریعے کسی کا حق مارا جاتا ہے اور ظلم وزیادتی کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔ جو آدمی اس کا ارتکاب کرتا ہے اس پر اللہ تعالی کی پھٹکار پڑتی ہے اور وہ اس کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((لَعَنَ اللّٰہُ الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِی فِی الْحُکْمِ)) مسند أحمد :9011 ، 9019۔ وصححہ الأرناؤط
’’اللہ کی لعنت ہے فیصلے میں رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر ۔ ‘‘
جبکہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ((لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِی)) سنن أبی داؤد :3580، جامع الترمذی :1337۔ وصححہ الألبانی
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر لعنت بھیجی ۔ ‘‘
ان دونوں روایات کو سامنے رکھا جائے تو ان سے معلوم ہوتا ہے کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں پر اللہ تعالی کی بھی لعنت ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ۔
10. سودی لین دین کرنا
سودی لین دین جاری رکھنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے ۔ اور جو شخص سود کھاتا اور جو کھلاتا ہے دونوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے ۔ بلکہ جو شخص سودی لین دین کا معاملہ لکھتا ہے اور جو اس کا گواہ بنتا ہے وہ بھی ملعون ہیں ۔ اور یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (( لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم آکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ ، وَکَاتِبَہُ وَشَاہِدَیْہِ ، وَقَالَ : ہُمْ سَوَائٌ ))
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی سود کھانے والے پر ، اس کے کھلانے والے پر ، اس کے لکھنے والے پر اور اس کے دو گواہوں پر ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سب ( گناہ کے لحاظ سے ) برابر ہیں ۔ ‘‘ صحیح مسلم : 1598
11. چوری کرنا
اسلام میں ہر شخص کے مال کو تحفظ حاصل ہے ۔ اس لئے کوئی شخص کسی بھی نا جائز طریقے سے کسی کے مال پر قبضہ نہیں کر سکتا ۔ نا جائز طریقوں میں سے ایک طریقہ مال چوری کرنا ہے ۔ یہ اس قدر سنگین جرم ہے کہ ایک شخص اگر چھوٹی سی چیز بھی چوری کرے تو اس پر اللہ کی پھٹکار پڑتی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَعَنَ اللّٰہُ السَّارِقَ یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ ، وَیَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ )) صحیح البخاری :6783۔ وصحیح مسلم :1687
’’اللہ کی لعنت ہے چور پر جو ایک انڈا چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے ۔ اور ایک رسی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے ۔ ‘‘
12. مردو زن کا ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرنا
یعنی بول چال ، ظاہری وضع قطع اور لباس وغیرہ میں جو مرد وزن ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ان پر لعنت ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
((لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہ صلي الله عليه وسلم الْمُتَشَبِّہِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَائِ،وَالْمُتَشَبِّہَاتِ مِنَ النِّسَائِ بِالرِّجَالِ))
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ۔ اسی طرح ان عورتوں پر بھی لعنت بھیجی جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔ ‘‘ صحیح البخاری :5885
جبکہ ایک روایت میں ہے کہ (( لَعَنَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم الْمُخَنَّثِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ ، وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَائِ ، وَقَالَ : أَخْرِجُوہُمْ مِنْ بُیُوتِکُمْ)) صحیح البخاری : 5886
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی مردوں میں سے مخنث لوگوں پر اور عورتوں میں سے مردوں کی شکل وصورت اختیار کرنے والوں پر ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں اپنے گھروں سے نکال دیا کرو ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(( لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم ۔ وفی روایۃ : لَعَنَ اللّٰہُ ۔ الرَّجُلَ یَلْبَسُ لِبْسَۃَ الْمَرْأَۃِ ، وَالْمَرْأَۃَ تَلْبَسُ لِبْسَۃَ الرَّجُلِ)) سنن أبی داؤد :4098،وصححہ الألبانی۔ وصحیح الجامع :9226
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالی نے ) اس مرد پر لعنت بھیجی جو عورت والالباس پہنے ۔اور اس عورت پر لعنت بھیجی جو مرد والا لباس پہنے ۔ ‘‘
13. حلالہ کرنا یا کروانا
اسلام نے طلاق دینے کیلئے ایک قانون اور ضابطہ بنایا ہے ۔ اگر کوئی شخص اس قانون اور ضابطے کی پابندی کرتے ہوئے طلاق دے تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور خاوند بیوی کے درمیان علیحدگی بڑے ہی عمدہ طریقے سے عمل میں آجاتی ہے ۔ مثلا ایک ضابطہ یہ ہے کہ جو شخص طلاق دینا چاہتا ہو وہ بیوی کے طہر کا انتظار کرے اور پھر جماع کئے بغیر وہ اپنی بیوی کو ایک ہی مرتبہ طلاق دے ۔ اس کے بعد تین ماہ کی عدت گزرنے دے ۔ اس دوران اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھے ، شاید رجوع کے امکانات پیدا ہو جائیں اور ان دونوں کے درمیان صلح ہو جائے ۔ اور اگر صلح نہیں ہوتی تو عدت گزرنے کے ساتھ ہی بیوی اپنے خاوند سے الگ ہو جائے گی ۔ لیکن اب بھی ان دونوں کے درمیان رجوع کی ایک صورت باقی ہے اور وہ ہے نکاحِ جدید کے ذریعے ۔
یہ کتنا اچھا ضابطہ ہے ! لیکن اسے کیا کہئے کہ لوگ جلد بازی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں ! حالانکہ اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام ہے اور حدیث نبوی کے مطابق کتاب اللہ کو کھلونا بنانے کے مترادف ہے ۔ پھر اس پر ستم یہ ہوتا ہے کہ تین طلاقوں کو تین ہی شمار کر لیا جاتا ہے ۔ حالانکہ وہ ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے اور اس کے بعد بھی رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ پھر اس پر دوسرا ستم یہ ہوتا ہے کہ اگر خاوند اکٹھی تین طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرنا چاہے تو کہا جاتا ہے : نہیں ، یہ نا ممکن ہے ، جب تک کہ بیوی کا حلالہ نہ ہو ! حالانکہ حلالہ کرنے والا اور کروانے والا دونوں ملعون ہیں اور اللہ کی پھٹکار کے مستحق ہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ)) سنن أبی داؤد : 2078 ۔ صححہ الألبانی
’’ اللہ کی لعنت ہو حلالہ کرنے والے پر اور اس پر جس کیلئے حلالہ کیا جائے ۔ ‘‘
حلالہ کرنے والا شخص ادھار لئے ہوئے سانڈھ کے مترادف ہے ۔
جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :
( أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِالتَّیْسِ الْمُسْتَعَارِ ؟ )
’’ کیا میں تمھیں ادھار پر لئے ہوئے سانڈھ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ‘‘
لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیوں نہیں ، ضرور بتائیے ۔ تو آپ نے فرمایا :
(( ہُوَ الْمُحَلِّلُ ، لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ)) سنن ابن ماجہ :1936 ۔ صححہ الألبانی
’’ وہ حلالہ کرنے والا ہے ۔ اللہ تعالی کی لعنت ہو حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں پر ۔ ‘‘
14. صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردان گرامی تھے ۔ اور اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے تھے جنھیں اس نے اپنے پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کیلئے چن لیا تھا ۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرنا اور انھیں خیر کے ساتھ یاد کرنا ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے ۔ اور جو شخص اس کے برعکس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کا مرتکب ہو اور انھیں برا بھلا کہے تو وہ یقینا ملعون ہے ۔ اس پر نہ صرف اللہ تعالی کی پھٹکار پڑتی ہے بلکہ فرشتوں کی بھی اور تمام لوگوں کی بھی لعنت پڑتی ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ سَبَّ أَصْحَابِیْ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَآئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ))
’’جس شخص نے میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیں اس پر اﷲ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ ‘‘ الطبرانی فی الکبیر : 3/174، وانظر : الصحیحۃ للألبانی :2340
15. کسی مجرم کو پناہ دینا
16. والدین پر لعنت بھیجنا
17. زمین کے نشانات کو تبدیل کرنا
ان تینوں امور کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ آوَی مُحْدِثًا ، وَلَعَنَ اللّٰہُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَیْہِ ، وَلَعَنَ اللّٰہُ مَنْ غَیَّرَ الْمَنَارَ ))
’’ اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جو کسی مجرم کو پناہ دے ۔ اور اللہ کی لعنت ہے اس آدمی پر جو اپنے والدین پر لعنت بھیجے ۔ اور اللہ کی لعنت ہے اس پر جو زمین کے نشانات کو تبدیل کردے ۔ ‘‘ صحیح مسلم :1978
جہاں تک والدین پر لعنت بھیجنے کا تعلق ہے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ أَنْ یَّلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ)) ’’بے شک کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ !
(( وَکَیْفَ یَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟)) کوئی شخص اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیجتا ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ ، وَیَسُبُّ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ ))
’’ وہ کسی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے تو اُس کے نتیجے میں وہ اِس کے باپ کو گالیاں دیتا ہے ۔ اور وہ کسی کی ماں کو گالیاں دیتا ہے تو وہ اِس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے ۔ ‘‘ البخاری،الأدب باب لا یسب الرجل والدیہ :5973مسلم : الإیمان باب الکبائر وأکبرہا:90
18. غیر فطری طریقے سے شہوت پوری کرنا
اللہ تعالی نے ہر انسان میں ( چاہے وہ مرد ہو یا عورت ) شہوانی جذبات ودیعت کئے ہیں اور انھیں پورا کرنے کیلئے اس نے نکاح کو مشروع کیا ہے ۔ چنانچہ نکاح کے بعد خاوند بیوی اپنے جذبات کو تسکین پہنچا سکتے ہیں۔ اِس جائز طریقے کو چھوڑ کر نا جائز طریقے سے شہوانی جذبات کو پورا کرنے والا شخص ملعون ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَومِ لُوطٍ ۔ ثَلَاثًا ۔)) البخاری فی الأدب المفرد :892، النسائی فی الکبری :7297
’’ اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جس نے قوم لوط والا عمل کیا ۔ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا ۔
اسی طرح فرمایا : (( مَلْعُونٌ مَنْ وَّقَعَ عَلٰی بَہِیْمَۃٍ ، وَمَلْعُونٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَومِ لُوطٍ)) مسند أحمد :1875۔ وحسنہ الأرناؤط
’’ وہ شخص ملعون ہے جو چوپائے جانور سے بد فعلی کرے ۔ اور وہ آدمی ملعون ہے جو قوم لوط والا عمل کرے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : (( لَعَنَ اللّٰہُ مَن وَّقَعَ عَلٰی بَہِیْمَۃٍ )) النسائی فی الکبری : 7299
’’ اللہ کی لعنت ہے اس پر جو چوپائے جانور سے بد فعلی کرے ۔ ‘‘
نیز فرمایا : (( مَلْعُونٌ مَنْ أَتَی امْرَأَۃً فِیْ دُبُرِہَا )) سنن أبی داؤد :2162۔ وحسنہ الألبانی
’’ وہ شخص ملعون ہے جس نے اپنی بیوی کی دبر میں بد فعلی کی ۔ ‘‘
19. مسلمان بھائی پر اسلحہ تان لینا !
جناب ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( مَنْ أَشَارَ إِلٰی أَخِیْہِ بِحَدِیْدَۃٍ فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَلْعَنُہُ حَتّٰی یَنْتَہِیَ وَإِنْ کَانَ أَخَاہُ لِأبِیْہِ وَأُمِّہِ)) صحیح مسلم: 2616
’’ جو شخص اپنے بھائی پر لوہا تان لے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس سے باز آجائے ۔ خواہ وہ اس کا سگا بھائی کیوں نہ ہو ۔ ‘‘
20. اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنا
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ أَوِ انْتَمٰی إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیْہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ )) صحیح مسلم :1370
’’ جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے ، یا وہ اپنی آزادی کو آزاد کرنے والوں کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے تو اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ ‘‘
21. مدینہ منورہ میں جرم یا ظلم کرنا یا مجرم یا ظالم کو پناہ دینا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :((اَلْمَدِیْنَۃُ حَرَمٌ مَا بَیْنَ عَیْرٍ إِلٰی ثَوْرٍ ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِیْہَا حَدَثًا أَوْ آوَی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ صَرْفًا وَّلَا عَدْلًا)) صحیح البخاری :1870، وصحیح مسلم :1370۔ واللفظ لمسلم
’’ مدینہ منورہ عیر سے ثور تک حرم شریف ہے ۔ لہذا جو شخص اس میں جرم کرتا یا مجرم کو پناہ دیتا ہے ( یا اس میں بدعت کو ایجاد کرتا یا بدعتی کو پناہ دیتا ہے ) تو اس پر اللہ تعالی کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ اللہ تعالی اُس سے قیامت کے روز کوئی نفل یا فرض عبادت ( یا کسی قسم کا فدیہ ) قبول نہیں کرے گا ۔ ‘‘
22. غداری کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( ذِمَّۃُ الْمُسْلِمِیْنَ وَاحِدَۃٌ ، یَسْعٰی بِہَا أَدْنَاہُمْ ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا ذِمَّتَہُ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ لَا یُقْبَلُ مِنْہُ یَومَ الْقِیَامَۃِ صَرْفٌ وَّلَا عَدْلٌ ))
’’ مسلمانوں کا عہد ایک ہی ہے ، اس کی ذمہ داری ان میں کوئی ادنی سا شخص بھی اٹھا سکتا ہے ۔ ( یعنی کوئی ادنی سا مسلمان بھی اگر کسی کافر کو امان دے دے تو تمام مسلمانوں کو اس کی پاسداری کرنا ہوگی ) لہذا جس نے کسی مسلمان کے عہد کو توڑا ( غداری کی ) تو اس پر اللہ تعالی کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ ایسے شخص سے ( قیامت کے دن ) کسی قسم کا فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا ۔ ‘‘ صحیح البخاری :1870، وصحیح مسلم :1370۔ واللفظ لمسلم
23. دنیا کی ہر چیز ملعون ہے سوائے چار کے !
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( اَلدُّنْیَا مَلْعُونَۃٌ ، مَلْعُونٌ مَا فِیْہَا إِلَّا ذِکْرَ اللّٰہِ وَمَا وَالَاہُ ، أَوْ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا )) جامع الترمذی :2322، سنن ابن ماجہ :4112۔ وحسنہ الألبانی
’’ دنیا ملعون ہے اور اس میں جو کچھ ہے وہ سب بھی ملعون ہے ، سوائے اللہ کے ذکر کے اور جو عمل اللہ کو پسند ہو ، یا عالم یا متعلم ۔ ‘‘
اِس حدیث کا معنی یہ ہے کہ دنیا اور اس کی ہر چیز ملعون ہے سوائے چار چیزوں کے :
01. ذکر اللہ
02. ہر وہ عمل جو اللہ تعالی کو پسند ہو ۔
03. دین کا عالم
04. دین کی تعلیم حاصل کرنے والا
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی رحمتوں سے نوازے ۔ اور اپنی پھٹکار سے محفوظ رکھے ۔
دوسرا خطبہ
عزیزالقدر بھائیو اور بہنو ! آج کے خطبۂ جمعہ کے موضوع کو مکمل کرتے ہوئے آخر میں ہم ان خواتین کا تذکرہ کرتے ہیں جن پر اللہ تعالی کی پھٹکار پڑتی ہے اور وہ اس کی لعنت کی مستحق ہوتی ہیں ۔
24. بعض خواتین جن پر لعنت بھیجی گئی !
01. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
((لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ،وَالْمُتَنَمِّصَاتِ،وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، اَلْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ)) صحیح البخاری :4886، صحیح مسلم :2125 واللفظ للبخاری
’’ اللہ تعالیٰ نے گودنے والی اور گدوانے والی ، چہرے کے بال اُکھڑوانے والی اور خوبصورتی کیلئے دانتوں کو
جدا کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے جو اس کی خلقت کو تبدیل کرتی ہیں ۔ ‘‘
اور مسلم کی روایت میں الفاظ یہ ہیں : ((وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَات)) ’’ چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور اکھڑوانے والی ۔ ‘‘ یعنی وہ خود اپنے چہرے کے بال اکھاڑیں یا وہ کسی سے طلب کریں ، دونوں صورتوں میں ملعون ہیں۔
02. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاصِلَۃَ وَالْمُسْتَوصِلَۃَ وَالْوَاشِمَۃَ وَالْمُسْتَوْشِمَۃَ)) صحیح البخاری :5933
’’ اللہ تعالی نے مصنوعی بال لگانے والی عورت اور لگوانے والی عورت پر لعنت بھیجی ۔ اسی طرح ( رنگ بھرنے کیلئے ) گودنے والی اور گدوانے والی عورت پر بھی لعنت بھیجی ۔ ‘‘
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک انصاری لڑکی کی شادی ہوئی اور وہ بیمار پڑ گئی ۔ جس کے نتیجے میں اس کے بال جھڑ گئے ۔ چنانچہ اس کے گھر والوں نے ارادہ کیا کہ اسے مصنوعی بال لگوا دیں ۔ تو انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : (( لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاصِلَۃَ وَالْمُسْتَوصِلَۃَ)) صحیح البخاری : 5934
’’ اللہ تعالی کی لعنت ہے مصنوعی بال لگانے والی اور لگوانے والی عورت پر ۔ ‘‘
جبکہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ (( لَعَنَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم الْوَاصِلَۃَ وَالْمُسْتَوصِلَۃَ)) صحیح البخاری : 5936
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصنوعی بال لگانے والی اور لگوانے والی عورت پر لعنت بھیجی ۔ ‘‘
ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنوعی بال لگوانے والی عورت اور لگانے والی عورت دونوں پر اللہ کی بھی لعنت ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ۔
03. حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (( أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَعَنَ الْخَامِشَۃَ وَجْہَہَا وَالشَّاقَّۃَ جَیْبَہَا وَالدَّاعِیَۃَ بِالْوَیْلِ وَالثُّبُورِ))
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر لعنت بھیجی جو اپنا چہرہ نوچے ، جو اپنا گریبان پھاڑے اور جو ہلاکت وبربادی کا واویلا کرے ۔ ‘‘ سنن ابن ماجہ :1585 ۔ وصححہ الألبانی
04. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
((إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ إِلٰی فِرَاشِہٖ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْہَا ، لَعَنَتْہَا الْمَلاَئِکَۃُ حَتّٰی تُصْبِحَ)) صحیح البخاری ۔ بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ :3237، صحیح مسلم ۔ النکاح : 1736
’’ جب ایک خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے ، پھر وہ اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گذار دے تو فرشتے صبح ہونے تک اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔ ‘‘
05. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ )
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ۔ ‘‘
یاد رہے کہ خواتین کبھی کبھار ، عبرت حاصل کرنے کیلئے قبرستان جا سکتی ہیں ، بشرطیکہ وہ با پردہ ہو کر جائیں اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں ۔
06. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( سَیَکُونُ فِی آخِرِ أُمَّتِی رِجَالٌ یَرْکَبُونَ عَلٰی سُرُوجٍ کَأَشْبَاہِ الرِّحَالِ یَنْزِلُونَ عَلٰی أَبْوَابِ الْمَسَاجِدِ ، نِسَاؤُہُمْ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ عَلٰی رُؤُسِہِنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْعِجَافِ، اِلْعَنُوہُنَّ فَإِنَّہُنَّ مَلْعُونَاتٌ)) السلسلۃ الصحیحۃ :2683
’’ میری امت کے آخر میں ایسے لوگ ہونگے جو کجاووں کی مانند زینوں پر سوار ہونگے ۔ وہ مسجدوں کے دروازوں پر اتریں گے ۔ ان کی عورتیں نیم برہنہ لباس پہنیں گی ، ان کے سروں پر ایسے ہوگا جیسے دبلی پتلی اونٹنیوں کی کوہانیں ہوتی ہیں ۔ تم ان پر لعنت بھیجنا کیونکہ وہ ملعون عورتیں ہیں ۔ ‘‘
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ ’ کجاووں کی مانند زینوں ‘ کے الفاظ میں گھوڑوں کی پشت پر رکھی جانے والی زینوں کو جو تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ کجاووں کی مانند ہونگی ، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان زینوں سے مراد وہ زینیں نہیں جو گھوڑوں کی پشت پر رکھی جاتی ہیں ۔ بلکہ ان سے مراد دور جدید کی ایجاد کردہ کاروں کی بڑی بڑی سیٹیں ہیں ۔ اِس کی تائید اِس حدیث کی بعض روایات میں ذکر کئے گئے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے : ( یَرْکَبُونَ عَلَی الْمَیَاثِر ) یعنی ( سروج ) کی جگہ پر ( المیاثر ) کا لفظ ہے جو جمع ہے : (میثرۃ) کی ۔ اور اس کا معنی ہے : نرم و ملائم سِیٹ۔ اور کاروں کی سیٹیں نرم اور ملائم ہونے کے ساتھ ساتھ وسعت میں بڑے بڑے کجاووں کی مانند بھی ہوتی ہیں ۔ گویا اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاروں پر سوار ہونے والے لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ جوکہ مساجد کے دروازوں پر اپنی کاروں سے اتریں گے ۔
اور اِس دور میں ہم یہ چیز بکثرت دیکھ رہے ہیں کہ لوگ نماز جمعہ کیلئے مسجد کے دروازوں کے قریب اترتے
ہیں ، پھر نماز جمعہ ادا کرکے دوبارہ ان پر سوار ہو کر چلے جاتے ہیں ۔ اور ان میں سے اکثرلوگ مساجد کا منہ صرف جمعہ کے روز ہی دیکھتے ہیں ! یا پھر اس وقت دیکھتے ہیں جب انھیں کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کی نمازجنازہ میں شرکت کرنی پڑے ! کیونکہ ایسے لوگ نماز جنازہ کیلئے بھی کاروں پر سوار ہوکر میت کے ساتھ ساتھ جاتے ہیں ، چاہے نماز جنازہ مسجد میں ادا کی جائے یا جنازہ گاہ میں ۔ اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی عورتیں نیم برہنہ لباس پہنتی ہیں ۔ الا ما شاء اللہ بہت کم ایسی ہونگی جو مکمل پردہ کرتی ہوں گی ۔
جبکہ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا : (( صِنْفَانِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ لَمْ أَرَہُمَا : قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ ، یَضْرِبُوْنَ بِہَا النَّاسَ ، وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ ، مُمِیْلَاتٌ مَائِلَاتٌ ، رُؤُوْسُہُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ ، لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ ، وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَہَا ، وَإِنَّ رِیْحَہَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ کَذَا وَکَذَا)) صحیح مسلم ۔الجنۃ باب النار یدخلہا الجبارون :2128
’’ دو قسم کے جہنمیوں کو میں نے نہیں دیکھا ہے ۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس گائے کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ہانکیں گے ۔ اور دوسری وہ خواتین ہیں جو ایسا لباس پہنیں گی کہ گویا برہنہ ہوں گی۔ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف لبھانے والی اور تکبر سے مٹک کر چلنے والی ہوں گی ، ان کے سر اونٹوں کی کہانوں کی مانند ایک طرف جھکے ہوں گے ۔ ایسی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو تو بہت دور سے محسوس کی جائے گی ۔ ‘‘
آخر میں ہم ایک بار پھر اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سائے تلے رکھے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ آمین