یہود سے فلسطین ویسے ہی آزاد ہوگا جیسے مدینہ آزاد ہوا تھا
یہ جو اسرائیلی یہودی ہیں یہ یہاں کے مقامی نہیں ہیں یہ دور سے آ کر یہاں آباد ہوئے ہیں
ایسے ہی مدینہ منورہ کے یہود وہاں کے مقامی نہیں تھے باہر سے آ کر آباد ہوئے تھے
لھذا ہمیں آج کے یہود سے فلسطین کو آزاد کروانے کے لیے ان سب اقدامات کو اپنانا ہوگا جو اقدامات مدینہ کو یہود سے آزاد کروانے کے لیے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنائے تھے
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں کھڑے نبی پر یہ وحی نازل کی تھی
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [الأحزاب : 21]
بلاشبہ یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔
مدینہ کے یہودیوں نے مقامی آبادی کو کیسے کنٹرول کیا تھا
انہیں دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت تھی۔وہ غلّے،کھجور،شراب اور کپڑے کے تاجر تھے۔ یہ غلے،کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے۔یوں عربوں سے دوگنا تین گنا منافع لیتے تھے اور اسی پر بس نہ کرتے تھے بلکہ وہ سود خور بھی تھے۔ اس لیے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کوسودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے۔ جنہیں یہ سردار حصولِ شہرت کے لیے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کردیتے تھے۔ ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے ان کی زمینیں ، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گروی رکھوالیتے تھے۔ اورچند سال گزرتے گزرتے ان کے مالک بن بیٹھے تھے۔
یہ لوگ جنگ وفساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے۔ ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں ایک دوسرے کے خلاف دشمنی کے بیج بوتے کہ انہیں احساس تک نہ ہوتا۔ اس کے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپارہتی اور اگر کبھی جنگ کی یہ آگ سرد پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آجاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی۔ کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کاتماشا دیکھتے۔ البتہ بھاری بھرکم سودی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی بند نہ ہونے پائے اور اس طرح دوہرا نفع کماتے رہتے۔ ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود کا بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے بلکہ سود در سود کے ذریعے بڑی بڑی دولت کماتے۔
یہود اہل مدینہ کا مال کھانا گناہ نہیں سمجھتے تھے
ان کا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال ان کے لیے جائز ہے جیسے چاہیں کھائیں۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :
﴿ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ ﴾ (۳: ۷۵)
’’انہوں نے کہا ہم پر اُمیوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں۔‘‘
یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کوئی پکڑ نہیں۔
آج کے یہود بھی مسلمانوں کو ویسے ہی کنٹرول کررہے ہیں
ان کا طریقہ واردات بعینہ آج بھی وہی ہے جو کل تھا
آج بھی دنیا کی معیشت پر کنٹرول کرنے کے بعد ایک طرف آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے مسلمانوں کو سودی قرضوں سے جھکڑ کر اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو باہم لڑا کر جنگ کی آگ کو مسلسل تیز کرکے اپنا اسلحہ بھی خوب بیچ رہے ہیں اور یوں دھرا نفع کما رہے ہیں
موجودہ کا حل بھی وہی ہے جو قدیم کا تھا
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"لن يُصلِحَ آخرَ هذه الأمةِ إلا ما أصلَحَ أولَها”
اس امت کے بعد والے لوگوں کے معاملات بھی اسی طرح ٹھیک ہوں گے جس طرح پہلے والے لوگوں کے ٹھیک ہوئے تھے
اب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غاصب یہودیوں کو کیسے کمزور اور پسپا کرتے ہوئے مدینہ بدر کیا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے مقابلے میں چند اقدامات کئے
پہلا قدم
اپنی قوم کو زھد،رزقِ حلال،قناعت اور سود سے بچنے کی ترغیب دی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوررس نگاہیں اور بصیرت یہ سمجھتی تھی کہ جب تک یہ لوگ یہود کے قرضوں سے باہر نہیں نکلتے تب تک یہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈال سکتے کیونکہ مقروض بندہ قرض دینے والے کے سامنے سینہ تان کر بات نہیں کرسکتا
بقول شاعر :
اے طائرِ لاہُوتی! اُس رزق سے موت اچھّی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
لھذا آپ نے لوگوں کو دنیا سے بے رغبتی،سادگی، تھوڑے پر گزارا کرنے، رزق حلال کھانے اور حرام سے بچنے کی بے حد ترغیب دی تاکہ لوگ بے جا پروٹوکول سے دور رہیں
کیونکہ سودی قرضے ہمیشہ وہی لیتا ہے جو لگزری زندگی بسر کرتا ہے
چنانچہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ (مسلم : 2426)
” وہ انسان کا میاب و بامراد ہو گیا جو مسلمان ہو گیا اور اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور اللہ تعا لیٰ نے اسے جو دیا اس پر قناعت کی توفیق بخشی
ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ (مسلم : 7430)
"اس کی طرف دیکھو جو(مال ور جمال میں) تم سے کمتر ہے،اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے ،یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے جو تم پر کی گئی۔”
اور فرمایا :
لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا
سود نہ کھاؤ
وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا
سود چھوڑ دو
حَرَّمَ الرِّبَا
اللہ تعالیٰ نے سود حرام کیا ہے
يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے
آج کے مسلم عوام بالعموم اور مسلم حکام بالخصوص اسرائیل کے سامنے کھڑے ہونے سے صرف اسی لیے ڈر رہے ہیں کہ ایک تو یہود سے سودی قرضے لے رکھے ہیں اور دوسرا حرام سے کمایا ہوا پیسہ انہی یہودیوں کے بینکوں میں پڑا ہوا ہے
جہاد کی آیات کے درمیان میں سود کی آیت کیوں نازل ہوئی
اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی 130 نمبر آیت میں فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [آل عمران : 130]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مت کھاؤ سود کئی گنا، جو دگنے کیے ہوئے ہوں اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اس آیت سے پہلے اور بعد والی آیات میں احد کے جہاد کا تذکرہ ہے اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہاد کی آیات کے درمیان سود کی آیت کا کیا تعلق بنتا ہے؟
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں :
سود کا ذکر یہاں(جنگ احد کے تذکرے میں)اس لیے فرمایا کہ سود کھانے سے نامردی(بزدلی)آتی ہے دو سبب سے : ایک یہ کہ مال حرام کھانے سے توفیق اطاعت کم ہوتی ہے اور بڑی اطاعت جہاد ہے اور دوسرے یہ کہ سود لینا کمال بخل ہے۔
لھذا آج اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ امت مسلمہ کو سود سے پاک معاشی نظام اپنانے کی ترغیب اور اقدامات کیے جائیں
دوسرا قدم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو متحد کیا
آپ نے دیکھا کہ اوس اور خزرج بہت سی باہم لڑائیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں بلکہ یہودی ہی ہیں کہ جو انہیں ایک دوسرے سے لڑا کر رکھتے اور جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودی ان پر قابض ہیں
لھذا آپ نے باہمی اتفاق و اتحاد کی فضا قائم کی
یہود کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی ایک مثال
ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی شاش بن قیس، ایک بار صحابہ کرام (اوس اور خزرج) کی ایک مجلس کے پاس سے گذرا ، جس میں اوس و خزرج دونوں ہی قبیلے کے لوگ بیٹھے باہم گفتگو کررہے تھے۔ اسے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا۔ کہنے لگا : ”اوہ ! اس دیار میں بنو قَیلہ کے اشراف متحد ہوگئے ہیں۔ واللہ ! ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گذر نہیں۔” چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو جو اس کے ساتھ تھا حکم دیا کہ ان کی مجلس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث(یہ ایک جنگ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد سے پہلے اوس اور خزرج کے درمیان ہوئی تھی) اور اس کے پہلے کے حالات کا ذکر کرے۔ اور اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں کچھ ان میں سنائے۔ اس یہودی نے ایساہی کیا۔ اس کے نتیجے میں اوس وخزرج میں تو تو میں میں شروع ہوگئی۔ لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے حتی ٰ کہ دونوں قبیلوں کے ایک ایک آدمی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ردّ وقدح شروع کردی ، پھر ایک نے اپنے مدّ ِ مقابل سے کہا : اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں – مقصد یہ تھا کہ ہم اس باہمی جنگ کے لیے پھر تیار ہیں جو اس سے پہلے لڑی جاچکی ہے- اس پر دونوں فریقوں کو تاؤ آگیا اور بولے : چلو تیار ہیں، حَرہ میں مقابلہ ہوگا — ہتھیا ر … ! ہتھیار …!
اب لوگ ہتھیار لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے، قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اللہﷺ کو اس کی خبر ہوگئی۔ آپﷺ اپنے مہاجرین صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا :”اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ۔ اللہ۔ کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار ! اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرماچکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کاٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دے کر تمہارے دلو ں کو آپس میں جوڑ چکا ہے۔” آپﷺ کی نصیحت سن کر صحابہ کو احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطان کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال تھی ، چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس وخزرج کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ اطاعت شعار وفرمانبردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اللہ نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھادی تھی [الرحیق المختوم ص324]
تم آپس میں بھائی بھائی ہو
آپ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ کر سنایا :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ [الحجرات : 10]
مومن تو بھائی ہی ہیں۔
اور فرمایا :
[ اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ، وَلاَ يُسْلِمُهُ ] [ بخاري : ۲۴۴۲ ]
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے۔‘‘
تم ایک جسم ہو
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی باہمی محبت کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا :
« كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى» (بخاري : 6011 )
تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت ومحبت کا معاملہ کرنے اورایک دوسرے کے ساتھ لطف ونرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤگے کہ جب اس کا کوئی ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے ، تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ۔ ایسی کہ نینداڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔
مسلمانوں کی یہی شان ہونی چاہیئے مگر آج یہ چیز بالکل نایاب ہے۔ اسی وجہ سے دشمن ان پر حملہ آور ہے
بقولِ شاعر :
نہیں دستیاب اب دو ایسے مسلماں
کہ ہو ایک کو دیکھ کر ایک شاداں
تم ایک دوسرے کو مضبوط کرو
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«إِنَّ المُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا» (بخاري : 481)
ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔
آپ نے مواخات مدینہ قائم کی یہ اخوۃ اس قدر مضبوط قرار دی گئی کہ شروع میں اسی بنا پر وراثت میں حصہ دار بننے لگے
لوگوں نے اپنے اموال، جائیدادیں، زمینیں، کھیت اور باغات تک آدھے آدھے تقسیم کرکے اپنے بھائیوں میں بانٹنا شروع کر دیے
ایسے شیروشکر اور متحد ہوئے کہ سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور کوئی ان کے درمیان دراڑ نہ پیدا کرسکا اور یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے مقابلے میں ایک مضبوط جمعیت کھڑی کردی اور یہ ذہن پیدا گیا :وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ کہ تم اپنے دشمنوں کے خلاف ایک ہو
آج بھی مسئلے کا حل یہی ہے کہ تمام مسلمان باہمی اختلافات ختم کرکے ایک ہو جائیں فرقوں اور گروہوں میں بٹنے کی بجائے ایک دوسرے کو برداشت کریں مشترکات پر ایک دوسرے کی مدد کریں اور دشمن کی چالیں سمجھ کر انہیں ناکام بنائیں
تیسرا قدم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی یہ تربیت کی کہ اپنی تہذیب اپنائیں
دشمن سے ٹکرانے اور اس پر غلبہ پانے کے لیے اس کی تہذیب سے ٹکرانا اور اس پر غلبہ پانا بہت ضروری ہے
کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی معاشرہ اپنے دشمن کی تہذیب، کلچر، اور فکر سے متاثر ہو اور پھر اسی دشمن پر قابو بھی پا لے
لھذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کو یہود کے چُنگل سے آزاد کروانے کے لیے ان کی تہذیب سے آزاد کروانا بھی بہت ضروری سمجھا
یہود کی تہذیب کو دفع کریں
آپ نے کتنے ہی موقعوں پر فرمایا :
خَالِفُوا الْيَهُودَ
یہودیوں کی مخالفت کرو
لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ
یہود کی مشابہت نہ اختیار کرو
چھوٹی چھوٹی چیزوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی تربیت کر کر کے یہود کے خلاف ذہن سازی کی
یہود اپنے سفید بالوں کو نہیں رنگتے تھے آپ نے فرمایا :
غَيِّرُوا الشَّيْبَ وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ [سنن النسائي | 5073]
سفید بالوں کو تبدیل کرو اور یہودیوں کی مشابہت نہ کرو
یہود جوتا پہن کر نماز نہیں پڑھتے تھے آپ نے ان کی مخالفت میں جوتا پہن کر نماز پڑھی اور پڑھنے کا حکم دیا :
” خَالِفُوا الْيَهُودَ ؛ فَإِنَّهُمْ لَا يُصَلُّونَ فِي نِعَالِهِمْ وَلَا خِفَافِهِمْ ". [ كِتَابُ الصَّلَاةِ | 652]
یہود کی مخالفت کرو کہ وہ جوتے پہن کر نماز نہیں پڑھتے
بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ اگر کوئی کسی غیر مسلم قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ انہیں میں سے ہوگا
” مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ” [سنن أبي داود | 4031]
جو کسی غیر مسلم قوم کی مشابہت کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں کو ان کے ساتھ سلام میں پہل کرنے سے ہی روک دیا
فرمایا :
لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ، وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ [صحيح مسلم | 2167]
یہود و نصاریٰ کو سلام کہنے میں پہل نہ کرو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہود کے ساتھ مل کر روزہ رکھنا بھی برداشت نہیں کیا
آپ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے جب آپ کو پتہ چلا کہ یہود بھی اسی دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا :
” لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ ؛ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ ". [صحيح مسلم | 1134]
اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نو کا روزہ رکھوں گا
ان کے ساتھ ایک قبلہ رخ ہونا بھی پسند نہ کیا
مدینہ میں گئے تو مسلمانوں اور یہود کا ایک ہی قبلہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے بہت الجھن سی رہتی تھی کہ ہمارا اور ان کا قبلہ ایک کیوں ہے
بار بار آسمان کی طرف دیکھتے کہ کاش تبدیلیءِ قبلہ کا کوئی حکم نازل ہو جائے
بالآخر اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ خواہش پوری کر ہی دی
فرمایا :
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا [البقرۃ : 144]
یقینا ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں، تو یقینا ہم تجھے اس قبلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے تو پسند کرتا ہے
یہود کو آمین اور سلام سے چڑ تھی تو آپ نے اس پر خصوصی توجہ دی
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَا حَسَدَتْكُمُ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ ” [سنن ابن ماجه | 856]
یہودی لوگ جس قدر تمہارے آپس میں سلام کہنے اور اونچی آمین کہنے سے چڑتے ہیں اس قدر کسی اور چیز سے نہیں چڑتے
الغرض دشمن کی غلامی سے نکلنے کے لیے اس کی تہذیبی غلامی سے نکلنا بھی بے حد ضروری ہے آج معیشت کے میدان میں ہمارے آئیڈیل یہودی ہیں ان کے بنائے ہوئے بینکاری سسٹم کو ہی جھوٹا اسلامائز کرکے مسلمانوں میں نافذ کیا گیا ہے، سیاست میں بھی وہی یہود کے وضع کردہ طور طریقے ہیں، کھیل اور شوبز کی دنیا میں ہمارے ہیروز یہودی اور عیسائی پلیئرز اور اسٹارز ہیں، ہمارا لباس اسلامی کم اور یہودی زیادہ ہے بالوں کی کٹنگ، داڑھیوں اور چہروں کے حلیے، گھر باہر کا ماحول، مخلوط تعلیمی نظام اور سلیبس، عدالتی فیصلے، مقننہ ادارے الغرض ہر جگہ غیر اسلامی چھاپ واضح نظر آرہی ہے
ہم بات تو کرتے ہیں کہ فلسطین کو یہود سے آزاد کروانا ہے مگر ہم فرینڈلی کرکٹ اور فٹبال میچ انہی یہود و نصاریٰ سے کھیلتے ہیں، کھیل تو دور کی بات، ہمارے نبی تو ان کے ساتھ مل کر روزہ رکھنا اور قبلہ رخ ہونا بھی پسند نہیں کرتے تھے، تو پھر کھوکھلے نعروں سے بھلا کیسے آزادی مل سکتی ہے؟؟؟
چوتھا قدم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کو سمجھایا کہ یہ لوگ تمہارے دشمن ہیں اور اپنے دشمن کو دشمن ہی سمجھو
جیسے شیطان کے متعلق فرمایا ہے :
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا [فاطر : 6]
بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی سمجھو۔
ایسے ہی اہل مدینہ کو یہود کے متعلق سمجھایا :
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا
کہ یہ یہودی تمہارے لیے سب لوگوں سے بڑھ کر بدترین دشمن ہیں
دشمن سے آزادی حاصل کرنے کے لیے دشمن کو پہچاننا اور پھر اسے دشمن ہی سمجھنا، بے حد ضروری ہے اگر کسی قوم کو یہ ہی پتہ نہ چلے کہ ہمارا دشمن کون ہے تو یہ بہت بڑا المیہ ہوتا ہے اور اگر پتہ چل جانے کے بعد اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اس پر اعتماد کرلے تو یہ اس سے بڑا المیہ ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کو بتایا کہ دشمن کو دشمن ہی سمجھنا ہے اس پر بھروسہ نہیں کرنا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ [الممتحنة : 1]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ
اور یہ کہ :
لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ [المائدۃ : 51]
یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو
طبری نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے :
مسلمانوں میں سے کچھ آدمی یہودیوں سے میل جول اور تعلقات رکھتے تھے، کیونکہ اسلام سے پہلے وہ آپس میں ہمسائے اور حلیف تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ [آل عمران : 118]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے سوا کسی کو دلی دوست نہ بنائو، وہ تمھیں کسی طرح نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے، وہ ہر ایسی چیز کو پسند کرتے ہیں جس سے تم مصیبت میں پڑو۔ ان کی شدید دشمنی تو ان کے مونہوں سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو کچھ ان کے سینے چھپا رہے ہیں وہ زیادہ بڑا ہے۔ بے شک ہم نے تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کر دی ہیں، اگر تم سمجھتے ہو۔
آج ہمارا المیہ ہے کہ ہم انہیں اپنا دشمن ہی تسلیم نہیں کرتے چند دن گولا بارود کا تبادلہ ہوتا ہے تو ہم جذباتی ہو کر نعرے لگاتے ہیں اور پھر کچھ دن گزرنے کے بعد دوبارہ انہی کی تعریفیں شروع کر دیتے ہیں جی وہ بڑے انصاف پسند ہیں ان کا ڈسپلن بہت اچھا ہے ان میں امانت داری بہت ہے وہاں تو کتے اور بلی کی بھی کیئر ہوتی ہے ملاوٹ اور دو نمبری نہیں کرتے صرف یہ کہ ان کی گولی ٹافیاں بہت اچھی ہیں چاکلیٹ بڑی شاندار بناتے ہیں؟جہاں بھی چار مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں اگر ان میں کوئی اوور سیز بھی مل جائے تو بس یہود و نصاریٰ کی تعریفوں کے قلابے ملائے جاتے ہیں جبکہ زمانہ نبوت میں کبھی کسی یہودی کو بطور نمونہ اور آئیڈیل پیش نہیں کیا گیا
ہمیں مقامی پروڈیکٹس کی بجائے غیر ملکی کمپنیز کی چیزیں زیادہ پسند ہیں ہم دیسی اشیاء کی بجائے امپورٹڈ اشیاء پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں
پانچواں قدم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیا
رزق حلال، زھد و ورع ،قناعت،اتفاق و اتحاد، تعاونِ باہمی کا پیکر ،سود سے بیزار، اور تہذیب اغیار سے کنارہ کش رہنے والا ایک معاشرہ تیار ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مخلصین کو لے کر جہاد فی سبیل اللہ کا رخ کیا
لوگوں کو بتایا کہ ان ظالموں اور غاصبوں کے خلاف چپ بیٹھے رہنے کا وقت ختم ہو گیا ہے
اٹھو کہ تمہارا رب اجازت دے رہا :
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ [الحج : 39]
ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے، اجازت دے دی گئی ہے، اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا پوری طرح قادر ہے۔
اور بتایا کہ یہ بہترین تجارت ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ [الصف : 10]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمھاری ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچا لے ؟
تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ [الصف : 11]
تم اللہ اور اس کے رسو ل پر ایمان لاؤ اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
اور بتایا کہ جہاد کرو اس سے تمہارے سینے ٹھنڈے ہوں گے :
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [التوبة : 14]
ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔
وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [التوبة : 15]
اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک مبارک آیت نازل کی جس میں یہود کے خلاف لڑنے کی چار وجہیں بیان کیں
ایک یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے
دوسری یہ کہ یوم آخرت کے متعلق ان کا عقیدہ درست نہیں ہے
تیسری یہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں (سود، زنا، بے حیائی، ظلم) کو حرام نہیں سمجھتے
چوتھی یہ کہ دین حق کو اپنانے کی بجائے اپنی ہی بے کار تہذیب کو فالو کرتے ہیں
فرمایا :
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ [التوبة : 29]
یہود کی طرف سے ایک مسلمان عورت کی بے عزتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاد
ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنوقینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے)ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا ایک طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی تو اس سے بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگایا۔
اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مارڈالا۔ جوابا یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد بھی مسلمان کے گھروالوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی قینقاع کے یہودیوں کا گھیرا کیا اور مظلوموں کا بدلہ لیا گیا (ابن ہشام 2/ 47 ، 48) بحوالہ الرحیق المختوم ص327
مدینے میں ایک چھوٹی بچی کا قتل اور یہودی کی گرفت
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :
کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے چاندی کے زیور کے لالچ میں مارڈالا تھا۔ اس نے لڑکی کو پتھر سے مارا پھر لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں جان باقی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے انکار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا، کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارہ سے اقرار کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو دوپتھروں میں کچل کر قتل کردیا۔ (بخاري : 6879)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے بڑے بڑے سرداروں، ائمۃ الکفر اور سازشی تھنک ٹینکس کو بہترین طریقے سے خاموش کروایا کعب بن اشرف، حیی بن اخطب ،ابو رافع اور دیگر بہت سے سرغنوں کو بروقت پکڑا اور یوں مدینہ کے عوام کو یہود کی شرارتوں سے نجات دلائی
آج فلسطین اور دیگر سبھی مسلم علاقوں کو پنجہءِ یہود سے چھڑانے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ ناگزیر ہے جب تک امت مسلمہ جہاد کے لیے تیاری نہیں کرتی اور ان ظالموں غاصبوں کی گردنیں نہیں اڑتیں تب تک یہ ذلت و رسوائی ختم نہیں ہو سکتی
سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے :
” إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ ؛ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ ” (ابو داؤد، : 3462صحیح)
” جب تم عینہ کی بیع کرنے لگو گے ، بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے ، کھیتی باڑی ہی پر مطمئن ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو کسی طرح زائل نہ ہو گی حتیٰ کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ ۔ “
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” جُعِلَ رِزْقِي تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِي، وَجُعِلَ الذِّلَّةُ وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي "
[بخاري،معلقا تحت الحديث 2757]
[مسند احمد، 5093]
میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے اور جو میرے حکم کی مخالفت کرے گا اس پر ذلت اور رسوائی مسلط کر دی گئی ہے