*یہ نسبتیں اور تعلق ٹوٹنے نہ پائیں، ہلکے بھی ہوں تو بہت وزن رکھتے ہیں*
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
التوبة : 119
اس آیت مبارکہ سے ایک بڑا سبق یہ مل رہا ہے کہ صرف خود نیک ،پارسا اور سچ بولنے والا بننا ہی کافی نہیں ہے بلکہ سچے لوگوں کی طرف منسوب ہونا، ان کا ساتھی بننا ،ان سے تعلق جوڑے رکھنا، ان سے محبت کرنا اور ان سے کوئی نہ کوئی نسبت قائم رکھنا بھی بڑی سعادت کی بات ہے
*امام شافعی فرماتے ہیں:*
أُحِبُّ الصَّالِحِينَ وَلَسْتُ مِنْهُمُ
لَعَلِّي أَنْ أَنَالَ بِهِمْ شَفَاعَةَ
[ديوان الامام الشافعي, ص ۱۸۰]
میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں، حالانکہ میں خود ان میں سے نہیں ہوں،
شاید انہی کی برکت سے مجھے (قیامت کے دن) شفاعت نصیب ہو جائے۔
*ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ*
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللّٰہ نے دوران درس کچھ توقف کیا پھر حاضرین میں سے ایک شخص سے پوچھا :
میں کیا کہہ رہا تھا؟
وہ کہنے لگا : مجھے نہیں معلوم۔
شیخ نے فرمایا : پھر درس میں کس لیے بیٹھے ہو؟
اس نے کہا : حدیث میں آتا ہے کہ ذکر خدا میں مشغول لوگوں کے ساتھ بیٹھنے والے بھی محروم نہیں رہتے!
یہ سننا تھا کہ شیخ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا کہ ہم نے اسے سکھانا چاہا مگر خود ہمیں اس سے سیکھنے کو مل گیا!!
*یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا*
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے راستوں میں گھومتے ہیں، جو ذِکر کرنے والوں کو تلاش کرتے ہیں۔ جب وہ کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو کہتے ہیں : آؤ، یہ وہی چیز ہے جسے تم تلاش کر رہے تھے۔
پھر وہ اپنے پروں سے اُن کو گھیر لیتے ہیں یہاں تک کہ آسمانِ دنیا تک ان کا حلقہ بن جاتا ہے۔
پھر ان کا رب (حالانکہ وہ زیادہ جانتا ہے) فرشتوں سے پوچھتا ہے: میرے بندے کیا کہہ رہے ہیں؟
وہ کہتے ہیں : وہ تیری تسبیح، تکبیر، حمد اور تمجید کر رہے ہیں۔
اللہ پوچھتا ہے : کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟
فرشتے کہتے ہیں : نہیں، اللہ کی قسم، انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔
اللہ فرماتا ہے : اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو کیا کرتے؟
فرشتے کہتے ہیں: اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو اور زیادہ عبادت کرتے، اور زیادہ تعظیم کرتے، اور زیادہ تسبیح کرتے۔
اللہ فرماتا ہے : وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟
فرشتے کہتے ہیں : وہ تجھ سے جنت مانگتے ہیں۔
اللہ فرماتا ہے : کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟
فرشتے کہتے ہیں : نہیں، اللہ کی قسم، انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔
اللہ فرماتا ہے : اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو کیا کرتے؟
فرشتے کہتے ہیں : اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اور زیادہ اس کے طلبگار ہوتے، اور زیادہ رغبت رکھتے۔
اللہ فرماتا ہے : وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟
فرشتے کہتے ہیں : جہنم سے۔
اللہ فرماتا ہے : کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟
فرشتے کہتے ہیں : نہیں، اللہ کی قسم، انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔
اللہ فرماتا ہے : اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو کیا کرتے؟
فرشتے کہتے ہیں : اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اس سے اور زیادہ بھاگتے، اور اس سے اور زیادہ ڈرتے۔
اللہ فرماتا ہے : پس میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا۔
يَقُولُ مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ : فِيهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُمْ، إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ
ایک فرشتہ کہتا ہے : ان میں ایک شخص ایسا ہے جو ان میں سے نہیں، وہ تو کسی ضرورت سے آیا تھا۔
اللہ فرماتا ہے :
هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ ".
بخاری : 6408
وہ بھی ان ہی میں ہے، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا ساتھ بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔
*ان سے صرف اس وجہ سے جڑا ہوں کہ کل میرے جنازے میں شرکت کریں گے*
ہمارے یہاں کامونکی میں چوہدری ریاض نام سے ایک بزرگ ہیں، جہاد، جماعت اور مجاہدین سے بہت محبت کرتے ہیں خیر کے ہر کام میں آگے آگے دکھتے ہیں، جبکہ دو چار سال پیچھے ان کی سابقہ زندگی اس سے بالکل مختلف تھی، جب ان سے مجاہدین کے ساتھ وابستگی،نسبت اور تعلق داری کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو بہت زبردست اور ایمان افروز جواب دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں ان سے صرف اس وجہ سے جڑا ہوں کہ کل میرے جنازے میں شرکت کریں گے اور میں ان کی دعائیں لوں گا
أُحِبُّ الصَّالِحِينَ وَلَسْتُ مِنْهُمُ
لَعَلِّي أَنْ أَنَالَ بِهِمْ شَفَاعَةَ
*اچھے لوگوں سے کوئی نہ کوئی تعلق، واسطہ، رشتہ،ناطہ ضرور قائم رکھیں،کیونکہ یہ تعلق قیامت کے دن بھی برقرار اور کارآمد رہے گا*
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ
سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔
الزخرف : 67
*انبیاء کرام علیہم السلام کی چند دعاؤں پر غور کیجیے*
یہ انبیاء ہیں، خود نیک ہیں، بلکہ نیکیوں کی بلند ترین سطح پر ہیں، لیکن وہ فقط نیک بننے پر اکتفاء نہیں کر رہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نیک لوگوں کی صحبت، تعلق اور ساتھ کی تمنا، خواہش، آرزو اور دعا بھی کر رہے ہیں
سلیمان علیہ السلام کی دعا ہے :
« وَ اَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ»
[ النمل : ۱۹ ]
’’اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔‘‘
یوسف علیہ السلام کی دعا ہے :
«تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ »
[ یوسف : ۱۰۱ ]
’’مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ، وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ
ترمذي : 3235
اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُن کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتے ہیں اور ایسے عمل کی محبت مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے۔
اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت کے الفاظ ہیں :
[ فِي الرَّفِيْقِ الْأَعْلٰی ]
[ بخاري، المغازي : 4436 ]
’’مجھے بلند ترین ساتھیوں میں شامل فرما۔‘‘
[ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ بِفَضْلِکَ وَ رَحْمَتِکَ ]
*اللہ والے نہیں بن سکتے تو اللہ والوں جیسا بننے کی کوشش ہی کرلیں اس کا بھی بہت فائدہ ہے*
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
(ابو داؤد : 4031 حسن)
”جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا۔“
باب تفعل میں تکلف ہوتا ہے اس لحاظ سے تشبہ کا معنی ہوگا کہ کسی قوم کی بتکلف نقل اتارنے کی بناوٹ اور شکل ظاہر کرنا
*بسا اوقات بندے کی تعلق داری خود بندے کی ذات سے زیادہ اہمیت اختیار کرلیتی ہے*
سورہ یس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تین نبیوں کا تذکرہ کیا ہے کہ جنہیں ایک علاقے کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا اور پھر علاقے کے لوگوں نے ان کی بہت مخالفت کی، لیکن اسی قوم میں سے ایک ایسا شخص تھا جو ان انبیاء پر ایمان لایا ان کی تائید کی اور اپنی قوم کو بھی کہا کہ تم بھی ان رسولوں پر ایمان لاؤ
پہلے قرآن کی زبانی اس شخص کا تذکرہ سن لیں
وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ
اور شہر کے سب سے دور کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، اس نے کہا اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔
يس : 20
قرآن کی اس آیت کے اسلوب اور الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص کوئی بہت زیادہ فیمس (مشہور) نہیں تھا اسی لیے تو اس کے لیے "رجل” (نکرہ) کا لفظ بولا گیا ہے
اور "اقصی المدینۃ” پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شہر کی کسی مرکزی جگہ یا اچھی لوکیشن کا مالک بھی نہیں تھا بلکہ نواحی علاقے کا ادنی سا شہری تھا
اور "يَسْعَى” پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غریب آدمی تھا اور غربت کی وجہ سے ایمرجنسی کے باوجود کسی تیز رفتار سواری کا انتظام نہ کر سکا اور بھاگتا ہوا آیا
الغرض کہ دنیاوی طور پر اس کے پاس کوئی عہدہ تھا نہ ہی دولت تھی
جبکہ
وہ بستی خاصی بڑی تھی، جسے پہلے اللہ تعالیٰ نے ’’ الْقَرْيَةِ ‘‘ فرمایا ہے، اس کے بعد اسے ’’ الْمَدِيْنَةِ ‘‘ یعنی شہر کہا ہے۔
تو ظاہر ہے کہ بڑے شہروں میں بڑے بڑے سیٹھ، مالدار اور جاگیردار لوگ رہتے ہیں لیکن ان سیٹھوں کا چونکہ ان رسولوں سے تعلق نہ تھا بلکہ دشمنی تھی سو وہ بڑے ہونے کے باوجود تاریخ کے صفحات سے مٹ گئے اور آج دنیا میں کوئی ان کو یاد کرنے والا نہیں ہے
جبکہ
یہ "رجل”، انبیاء کرام علیہم السلام سے نسبت، محبت، تعلق اور لگاؤ کی وجہ سے غريب، کمزور اور گمنام ہونے کے باوجود آج کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستا ہے
اس واقعہ سے معلوم ہوا
ليس المهم من أنت
المهم ماذا قدمت
وبمن تحب أنت
*کہ بات یہ نہیں کہ تم کون ہو، اصل بات یہ ہے کہ تم کس کے ساتھ ہو اور کیا کررہے ہو۔*
*نسب نہیں ،نسبت دیکھی جائے گی*
ابولہب اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نسب میں بہت فرق ہے لیکن ابولہب کی نسبت شرک کی طرف تھی جبکہ سلمان فارسی توحید سے جڑ گئے، بس یہ نسبتیں ہی دونوں کے انجام میں بہت فرق گئیں
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
لَعمرُک ما الإنسانُ إلا بدینہ
فلا تَترُکِ التقوی اتکالا علی النسبِ
لقد رفعَ الاسلامُ سلمانَ فارِسَ
وقد وضعَ الشرکُ النسیبَ أبا لھبِ
اللہ کی قسم! انسان کی حقیقت صرف اس کے دین سے ہے۔
لہٰذا صرف اپنے خاندانی نسب پر بھروسا کرتے ہوئے تقویٰ کو مت چھوڑو
اسلام نے سلمان فارسی کو بلند مقام دیا،
اور شرک نے ابو لہب جیسے خونی رشتہ دار کو ذلیل کر دیا۔
*اس جانب ہو جاؤ جس جانب اللہ اور اسکے رسول ہیں*
اپنی سمتوں کا تعین کرو، قبلے درست رکھو ، تعلقات پر نظر دوڑاؤ اور دیکھو کہ تم کس طرف اور کون سی صف میں کھڑے ہو
علامہ ابن قیم رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :
كن في الجانب الذي فيه الله ورسوله وإن كان الناس كلهم في الجانب الآخر.
[الفوائد ١٦٧]
اس طرف ہو جاؤ جدھر اللّٰہ اور اس کا رسولؐ ہیں خواہ ساری دنیا دوسری طرف ہو!
*ہر آدمی قیامت کے دن اپنے دوستوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا*
یہ دوستیاں، یہ نسبتیں اور یہ تعلقات بڑے فخر کے ہوتے ہیں، بڑے فائدے اور بڑے کام کے ہوتے ہیں
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ»
(بخاري : 6168)
تم قیامت کے دن ان کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو
اور ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ»
(بخاری : 6168)
انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے
*عدي بن زيد نے کہا ہے*
إِذَا كُنْتَ فِي قَوْمٍ فَصَاحِبْ خَيَارَهُمْ
وَلَا تُصَاحِبِ الأَرْدَى فَتَرْدَى مَعَ الرَّدِي
جب آپ کا کسی قوم میں جانا ہو تو ان میں سے بہترین شخص کو اپنا ساتھی بناؤ اور یاد رکھو کہ خراب اور بدمزاج انسان کو اپنا ساتھی اور دوست نہ بنانا، چونکہ اس سے دوستی آپکی خرابی کا باعث بنے گی۔
*تعلق جوڑنے کا کمال بہانہ*
*میں بارش میں اس لیے نہا رہا ہوں کہ یہ ابھی ابھی میرے رب تعالیٰ کے پاس سے آ رہی ہے*
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظيم
کسی کے ساتھ تعلق جوڑنے ،وفا کرنے اور اظہار محبت کا کیا کمال طریقہ ہے کہ اس کی طرف سے آنے والی چیزوں کو بھی محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے
ایک خوبصورت مثال ملاحظہ کیجئے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو اس چیز سے جوڑ دیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف جڑی ہوئی تھی
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش برسنے لگی
فَحَسَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَهُ حَتَّى أَصَابَهُ مِنْ الْمَطَرِ
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا (سر اور کندھے کا کپڑا) کھول دیا حتیٰ کہ بارش آپ پر آنے لگی۔
ہم نے عرض کیا :
اے اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟
آپ نے فرمایا :
لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى
مسلم : 898
"کیونکہ وہ نئی نئی (سیدھی) اپنے رب عزوجل کی طرف سے آرہی ہے۔”
*قرآن سے بھی اس نیت سے جڑ جائیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہوا ہے*
*حدیث رسول سے بھی اس نیت سے جڑ جائیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے*
*دین اسلام سے محض اس وجہ سے دل و جان سے محبت کیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا دین ہے*
*روزے کی بھوک اور پیاس یہ سوچ کر خوش دلی سے برداشت کر لیا کرو کہ یہ ہماری محبتوں کے محور و مرکز رب کائنات کا حکم ہے*
*بوقت نماز خود بخود مسجد کی طرف چل دیا کرو کہ محبوب کو سجدہ کرنے جانا ہے*
*مسجد کے ساتھ تعاون اور اس کی صفائی ستھرائی یہ سوچ کر کیا کرو کہ اسے اللہ کا گھر کہتے ہیں*
یہ سب اللہ تعالیٰ سے اظہار محبت ہے
*صرف محبوب ہی نہیں ،اس کے شہر سے بھی محبت*
جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش سے اس لیے محبت کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ رہی ہے، اسی طرح اللہ نے بھی آپ کے شہر مکہ سے یہ کہہ کر اظہارِ محبت کیا کہ آپ اس شہر میں رہتے ہیں
سبحان اللہ
کیا کمال انداز ہے محبت اور تعلق جوڑنے کا
فرمایا :
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ
نہیں، میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں!
البلد : 1
وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ
اور تو اس شہر میں رہنے والا ہے۔
البلد : 2
*جب اللہ تعالیٰ مکہ سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ مکہ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے تو ہمیں بھی چہروں پر داڑھیوں سے اس لیے محبت کرلینی چاہیے کہ یہ ہمارے نبی کی سنت ہے، اسلامی اور مسنون طرز کے لباس محض اس وجہ اوڑھ لینے چاہئیں کہ یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے*
*میں یہ چادر کیوں اوڑھے رکھتا ہوں*
تعلق قائم رکھنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے
تابعی ابو سفر الهمداني رحمه الله بیان کرتے ہیں :
سيدنا علي بن أبي طالب رضي الله عنه ایک چادر بہت اوڑھا کرتے تھے. آپ سے کہا گیا :
"امیر المؤمنین! کیا وجہ ہے کہ آپ یہ چادر بہت ذیادہ اوڑھتے ہیں؟”
سيدنا علي رضي الله عنه نے فرمایا :
"إنه كسانيه خليلي وصفيي وصديقي وخاصتي عمر بن الخطاب، إن عمر ناصح الله فنصحه الله.”
(مصنف ابن أبي شيبة: ٣١٩٩٧، الإخوان لابن أبي الدنيا: 248، الشريعة للآجري: 1815، إسناده حسن)
"یہ تو میرے جگری یار، میرے چنیدہ، میرے دوست اور میرے خاص ساتھی عمر بن خطاب رضي الله عنه نے پہنائی تھی. بے شک عمر اللہ کیلیے خالص ہو گئے تو اللہ نے بھی عمر کے ساتھ بھلائی کا معاملہ رکھا!”
اور پھر امیر المؤمنین رو دییے!
*امام احمد رحمہ اللہ سے نسبت قائم کرنے کا ایک انوکھا طریقہ*
*ایک دکان دار نے امام احمد کے شاگرد سے پیسے لینے سے انکار کر دیا*
حسین بن حسن رازی (رحمه الله) بیان کرتے ہیں کہ میں مصر میں ایک دکاندار کے پاس گیا۔ گفتگو کے دوران میں نے اسے بتایا کہ مجھے امام احمد (رحمه الله) سے حدیث لکھنے کا شرف حاصل ہے۔ اس نے سامان کی قیمت لینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا : ”میں احمد بن حنبل کے جاننے والوں سے پیسے نہیں لیتا۔“
(مقدمة الجرح والتعديل : ٦٢٣)
*چاہتی ہوں میرا نام بھی یوسف کے خریداروں میں لکھا جائے*
یہ واقعہ اگرچہ سندا پایا ثبوت کو نہیں پہنچتا، ضعیف بلکہ من گھڑت ہے مگر موضوع کی مناسبت سے فقط سبق کی غرض سے قارئین کے لیے نقل کرتا ہوں
جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بازار میں فروخت کے لیے لائے گئے، لوگ قیمتی مال و دولت لے کر انہیں خریدنے آئے۔ ایک بوڑھی عورت بھی ہاتھ میں دھاگے کی ایک اٹی لے کر خریداروں کی صف میں آ کھڑی ہوئی۔
لوگوں نے حیرت سے پوچھا :
"اماں! تم یوسف کو کیسے خرید سکو گی؟”
اس نے جواب دیا :
"خرید نہیں سکتی، مگر چاہتی ہوں میرا نام بھی یوسف کے خریداروں میں لکھا جائے۔”
*فقط پھونک مار کر اپنے آپ کو رب کے خلیل سے جوڑ دیا*
مندرجہ بالا واقعہ سے ملتا جلتا ایک سچا واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں :
محدث عبد الرزاق نے اپنی مصنف (۸۳۹۲) میں معمر عن الزہری عن عروہ عن عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ كَانَتِ الضِّفْدَعُ تُطْفِئُ النَّارَ عَنْ إِبْرَاهِيْمَ وَكَانَ الْوَزَغُ يَنْفُخُ فِيْهِ فَنَهَی عَنْ قَتْلِ هٰذا وَ أَمَرَ بِقَتْلِ هٰذَا ]
’’مینڈک ابراہیم علیہ السلام سے آگ بجھاتے تھے اور چھپکلی اس میں پھونکیں مارتی تھی، سو انھیں قتل کرنے سے منع فرمایا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔‘‘
*بس اک یہی رشتہ میری اوقات بدل دیتا ہے*
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
ہوں تو خاک مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نسبت میری
بس اک یہی رشتہ میری اوقات بدل دیتا ہے
*میں الله کے رسول کی محبوبہ ہوں*
سبحان اللہ بعض، تعلق، نسبتیں اور رشتہ داریاں واقعی بے حد قابلِ رشک ہوتی ہیں
ام المؤمنين سيده عائشة خطوط یا کوئی مراسلہ لکھتی تو اپنا تعارف ایسے کرواتی تھیں :
"الله کے رسول کی محبوبہ جسے اللہ کی کتاب نے پاک صاف قرار دیا عائشہ بنت ابی بکر”
(تاریخ الطبري: ٤٧٦/٤)
*مجھے فخر ہے کہ میں آپ کا برادر نسبتی ہوں*
معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے فخر اور مان سے کہا کرتے تھے کہ میرے جیسا کون ہے
لا تجدون رجلا منزلته من رسول اللہ منزلتی…… کنت ختنہ وکنت فی کتابہ وکنت ارحل لہ راحلتہ…
الشریعہ للآجری
تم کوئی ایسا آدمی نہیں پاؤ گے جس کی منزلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق میں میرے مقام کی طرح ہو
میں آپ کا برادر نسبتی ہوں
میں آپ کے کاتبوں میں سے ایک ہوں
اور میں آپ کی سواری کا انتظام کیا کرتا تھا
*کوئی ایسا بندہ تلاش کرو جو نبی تو پھر نبی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ساتھی کے کسی ساتھی کے ساتھ رہا ہو*
تعلق داری اور نسبت کس قدر مفید ثابت ہوتی ہے ذار اس حدیث پر غور کریں
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ يَأْتِيْ زَمَانٌ يَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَأْتِيْ زَمَانٌ فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ، ثُمَّ يَأْتِيْ زَمَانٌ فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ صَاحِبَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ ]
[بخاري : 2897 ]
’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی ہے جو اس کے ساتھ رہا ہو جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔‘‘
*اچھی تعلق داری، عبادت میں ذوق شوق، حدت اور شدت پیدا کرتی ہے*
نیک لوگوں کی قربت سے نیکی کا زیادہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کی ایک بہت شاندار مثال صحیح بخاری کی وہ حدیث ہے جس میں آتا ہے کہ جبریل امین علیہ السلام روزانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیلئے آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ قرآن کا دور بھی کرتے تھے، اس میں ساتھ یہ الفاظ بھی ہیں کہ :
*فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ*
(صحیح بخاری: 1902)
*جب سیدنا جبریل علیہ السلام آپ سے ملنے لگتے تو آپ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔*
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت سے بندے کے مزاج اور طبیعت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بہت زیادہ شوق رکھنے والے تھے، اگر ایک نیک فرشتے سے ملاقات کی وجہ سے ان کا شوقِ عبادت مزید بڑھ سکتا ہے تو ہمیں تو بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم نیک لوگوں سے تعلق قائم رکھیں تاکہ ہمارے اندر عبادت کا ذوق پیدا ہوتا رہے
*نیک لوگوں کو دیکھتے رہنا بھی باعث خیر ہے*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا»
(بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ،بَابٌ: خَيْرُ مَالِ المُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الجِبَالِ،3303)
جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو ، کیوں کہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیو ںکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے
*اگر ایک مرغ کو محض نیک فرشتے کو دیکھنے کی وجہ سے یہ شرف مل سکتا ہے کہ ایسے موقع پر اس کی آواز سننے والا بندہ اگر اللہ کا فضل مانگے تو اسے فضل مل جاتا ہے تو سوچئے کہ نیک اور متقی انسانوں کو دیکھنے ،ملنے، سننے، پڑھنے اور ان کے ساتھ جڑنے کا کس قدر فائدہ ہوگا؟*
*جس طرح کے لوگوں سے تعلق ہوگا اسی طرح کا مزاج بنے گا*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«وَالفَخْرُ وَالخُيَلاَءُ فِي أَهْلِ الخَيْلِ وَالإِبِلِ، وَالفَدَّادِينَ أَهْلِ الوَبَرِ، وَالسَّكِينَةُ فِي أَهْلِ الغَنَمِ»
(بخاری : 3301)
اور فخر اور تکبر کرنا گھوڑے والوں ، اونٹ والوں اور زمینداروں میں ہوتا ہے جو ( عموماً ) گاوں کے رہنے والے ہوتے ہیں اور بکری والوں کے دلوں میں سکینت(نرمی) ہوتی ہے ۔
*اگر نرم دل بکریوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے دلوں کی سختی دور ہوتی ہے اور دلوں میں نرمی پیدا ہوتی ہے تو یقینا صالحین کی صحبت اور نصیحت ضرور اثر انداز ہو کر رہے گی سو یہ نسبتیں اور تعلق ٹوٹنے نہ پائیں، ہلکے بھی ہوں تو بہت وزن رکھتے ہیں*
