یوم ِجمعہ اہمیت ، فضائل اور احکام و آداب
اہم عناصر خطبہ :
٭ یوم جمعہ کی اہمیت
٭ نمازِ جمعہ کی اہمیت اور فضیلت
٭آدابِ جمعہ
٭ جمعہ کیلئے جلدی آنے کا تاکیدی حکم
٭ تحیۃ المسجد
٭ خطبہ جمعہ کے دوران خاموش رہنے کا تاکیدی حکم
٭ جمعہ کے روز ایک مبارک گھڑی
٭نمازِ جمعہ کے بعد نمازِ سنت
٭ یومِ جمعہ کو روزہ کیلئے یا شبِ جمعہ کو تہجد کیلئے خاص کرنے کا حکم
٭ سورۃ الکہف کی تلاوت کی فضیلت
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود
٭نماز جمعہ کا پانا
پہلا خطبہ
برادران اسلام ! ہفتہ بھر کے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے ۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج کے خطبہ میں ہم اس عظیم الشان دن کی اہمیت ، فضیلت اور اس کے احکام وآداب بیان کریں ۔ اللہ تعالیٰٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو سنت ِ نبویہ سے محبت کرنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق دے ۔
یومِ جمعہ کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے باقی امتوں کو اس دن کی برکات سے محروم رکھا ، صرف اِس امت پر اس نے خصوصی فضل وکرم فرمایا اور اس نے اس کی اس دن کی طرف راہنمائی فرمائی اور اسے اس کی برکات سے نوازا ۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،بَیْدَ أَنَّہُمْ أُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ،وَہٰذَا یَوْمُہُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَیْہِمْ فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ،فَہَدَانَا اللّٰہُ لَہُ،فَہُمْ لَنَا فِیْہِ تَبَعٌ، فَالْیَہُوْدُ غَدًا،وَالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ )) صحیح البخاری:3486 ،صحیح مسلم :855
’’ ہم آخر میں آئے ہیں لیکن قیامت کے روز ہم سبقت لے جائیں گے ، تاہم انہیں ( پہلی امتوں کو ) ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد دی گئی ۔ اور یہی ( یومِ جمعہ ) ہی وہ دن ہے کہ جو ان پر فرض کیا گیاتو انہوں نے اس کے متعلق آپس میں اختلاف کیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہماری اس کیلئے خاص طور پر راہنمائی فرمائی ۔ تو وہ اس میں ہمارے تابع ہیں ، لہٰذا یہودیوں کا ( عید کا) دن کل ( ہفتہ کو ) اور نصاری کا اس سے اگلے دن (اتوار کو ) آئے گا ۔ ‘‘
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَضَلَّ اللّٰہُ عَنِ الْجُمُعَۃِ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا ، فَکَانَ لِلْیَہُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ،وَکَانَ لِلنَّصَارٰی یَوْمُ الْأَحَدِ،فَجَائَ اللّٰہُ بِنَا،فَہَدَانَا اللّٰہُ لِیَوْمِ الْجُمُعَۃِ،فَجَعَلَ الْجُمُعَۃَ وَالسَّبْتَ وَالْأَحَدَ، وَکَذَلِکَ ہُمْ تَبَعٌ لَنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، نَحْنُ الْآخِرُوْنَ مِنْ أَہْلِ الدُّنْیَا ، وَالْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، اَلْمَقْضِیُّ لَہُمْ قَبْلَ الْخَلاَئِقِ )) صحیح مسلم :856
’’ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے لوگوں کو جمعہ سے محروم رکھا ، چنانچہ یہودیوں کیلئے ہفتہ اور نصاری کیلئے اتوار کا دن تھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ ہمیں لے آیا اور اس نے ہماری یومِ جمعہ کی طرف راہنمائی فرمائی ۔ اور اس نے ( ایام کی ترتیب اس طرح بنائی کہ ) پہلے جمعہ ، پھر ہفتہ اور اس کے بعد اتوار ۔ اور اسی طرح وہ قیامت کے روز بھی ہمارے پیچھے ہی ہونگے ۔ ہم دنیا میں آئے تو آخر میں ہیں لیکن قیامت کے روز ہم پہلے ہونگے ۔ اور تمام امتوں میں سب سے پہلے ہمارے درمیان فیصلہ کیا جائے گا ۔ ‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ جمعہ کو سب سے افضل دن قرار دیا ہے ۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ ، فِیْہِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِیْہِ أُدْخِلَ الْجَنَّۃَ ، وَفِیْہَ أُخْرِجَ مِنْہَا ، وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ إِلَّا فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ )) صحیح مسلم :854
’’ سب سے بہتر دن ‘ جس کا سورج طلوع ہوا ‘ جمعہ کا دن ہے ۔ اس میں حضرت آدم ( علیہ السلام ) کو پیدا کیا گیا اور اسی میں انہیں جنت میں داخل کیا گیا ۔ اور اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا ۔ اورقیامت بھی جمعہ کے دن ہی قائم ہو گی ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ فِیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ : فِیْہِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِیْہِ أُہْبِطَ ، وَفِیْہِ تِیْبَ عَلَیْہِ،وَفِیْہِ مَاتَ ،وَفِیْہِ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ إِلَّا وَہِیَ مُسِیْخَۃٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ مِنْ حِیْن تُصْبِحُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِّنَ السَّاعَۃِ ، إِلَّا الْجِنَّ وَالْإِنْسَ،وَفِیْہِ سَاعَۃٌ لَا یُصَادِفُہَا
عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَہُوَ یُصَلِّیْ یَسْأَلُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَاجَۃً إِلَّا أَعْطَاہُ إِیَّاہُ )) سنن أبی داؤد :1046۔وصححہ الألبانی
’’سب سے بہتر دن ‘ جس کا سورج طلوع ہوا ‘ جمعہ کا دن ہے ، اس میں حضرت آدم ( علیہ السلام ) کو پیدا کیا گیا ، اور اسی میں انہیں زمین پر اتارا گیا ، اور اسی دن ان کی توبہ قبول کی گئی ، اور اسی دن ان کا انتقال ہوا ، اوراسی دن قیامت قائم ہو گی ، اور ہر جانور جمعہ کے دن صبح سے لے کر طلوعِ آفتاب تک قیامت سے ڈرتے ہوئے اس کا منتظر رہتا ہے ، سوائے جن وانس کے ، اور جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ عین اسی گھڑی میں جو مسلمان بندہ نماز پڑھ رہاہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرے ، تواللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا کر دیتا ہے ۔‘‘
اور حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ:فِیْہِ خُلِقَ آدَمُ،وَفِیْہِ قُبِضَ،وَفِیْہِ النَّفْخَۃُ،وَفِیْہِ الصَّعْقَۃُ)) سنن أبی داؤد :1047۔ وصححہ الألبانی
’’ تمھارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے ، اسی میں حضرت آدم ( علیہ السلام ) کو پیدا کیا گیا ، اسی میں ان پر موت آئی ، اسی میں صور پھونکا جائے گا اور اسی میں زور دار چیخ کی آواز آئے گی ۔۔۔‘‘
بلکہ ایک حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ جمعہ کو عید کا دن قرار دیا ہے۔
جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ ہٰذَا یَوْمُ عِیْدٍ جَعَلَہُ اللّٰہُ لِلْمُسْلِمِیْنَ،فَمَنْ جَائَ إِلَی الْجُمُعَۃِ فَلْیَغْتَسِلْ ، وَإِنْ کَانَ طِیْبٌ فَلْیَمَسَّ مِنْہُ ، وَعَلَیْکُمْ بِالسِّوَاکِ )) سنن ابن ماجہ : 1098۔ وصححہ الألبانی
’’ بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے صرف مسلمانوں کیلئے ( عید کا دن ) بنایا ہے ، لہٰذا جو شخص نمازِ جمعہ کیلئے آئے وہ غسل کرے ۔ اور اگر عطر موجود ہو تو ضرور لگا لے ۔ اور تم پر مسواک کرنا لازم ہے ۔ ‘‘
ایک اور حدیث میں پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ جمعہ کو تمام دنوں کا سردار قرار دیا ہے اور اسے یومِ عید الاضحی اور یومِ عید الفطر سے بھی افضل بیان فرمایا ۔
حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ سَیِّدُ الْأَیَّامِ،وَأَعْظَمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ،وَہُوَ أَعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ یَوْمِ الْأضْحٰی وَیَوْمِ الْفِطْرِ،فِیْہِ خَمْسُ خِلَالٍ:خَلَقَ اللّٰہُ فِیْہَ آدَمَ،وَأَہْبَطَ اللّٰہُ فِیْہِ آدَمَ إِلَی
الْأرْضِ،وَفِیْہِ تَوَفَّی اللّٰہُ آدَمَ،وَفِیْہِ سَاعَۃٌ لَا یَسْأَلُ اللّٰہَ فِیْہَا الْعَبْدُ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَاہُ مَا لَمْ یَسْأَلْ حَرَامًا،وَفِیْہِ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ،مَا مِنْ مَلَکٍ مُقَرَّبٍ ،وَلَا سَمَائٍ،وَلَا أَرْضٍ،وَلَا رِیَاحٍ،وَلَا جِبَالٍ،وَلَا بَحْرٍ،إِلَّا وَہُنَّ یُشْفِقْنَ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ )) سنن ابن ماجہ:1084۔ وصححہ الألبانی
’’ بے شک یومِ جمعہ تمام ایام کا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔اوروہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عید الأضحی اور عید الفطر سے بھی زیادہ فضیلت والا ہے ۔اور اس کی پانچ خصوصیات ہیں : ( پہلی یہ کہ) اللہ تعالیٰ نے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ اور ( دوسری یہ کہ ) اللہ تعالیٰ نے اسی دن انہیں زمین کی طرف اتارا ۔ اور ( تیسری یہ کہ ) اللہ تعالیٰ نے اسی دن انہیں فوت کیا ۔ اور ( چوتھی یہ کہ) اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے بشرطیکہ وہ حرام کا سوال نہ کرے۔ اور ( پانچویں یہ کہ ) اسی دن قیامت قائم ہوگی ۔ اور مقرب فرشتے ، آسمان ، زمینیں ، ہوائیں ، پہاڑ اور سمندر۔۔۔ سب کے سب یومِ جمعہ سے ڈرتے ہیں ۔‘‘
ان تمام احادیث مبارکہ میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ جمعہ کی اہمیت وفضیلت بیان فرمائی وہاں اس کی خصویات کی بھی نشاندہی فرمائی۔ اور وہ بالاختصار یہ ہیں :
01. یومِ جمعہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا 02. اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا 03. اسی دن انہیں زمین پر اتارا 04. اسی دن ان کی توبہ قبول کی 05. اسی دن ان کی موت آئی 06. اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے 07. اور اسی دن صور میں پھونکا جائے گا اور قیامت قائم ہو گی ۔
نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا تاکیدی حکم اور اسے چھوڑنے والے کیلئے سخت وعید
جمعہ کے روز سب سے اہم عبادت نمازِ جمعہ ہے اور یہ ہر مکلف ، مستطیع پر فرض عین ہے۔ اس کی فرضیت قرآن مجید سے ثابت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلاَۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ الجمعۃ62:9
’’ اے ایمان والو ! جمعہ کے دن جب نماز کیلئے اذان کہی جائے تو ذکر الٰہی کی طرف جلدی آنے کی کوشش کرو اور خرید وفروخت چھوڑ دو ۔ اگر تم جانو تو یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے ۔ ‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اَلْجُمُعَۃُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ جَمَاعَۃٍ إِلَّا أَرْبَعَۃً:عَبْدٌ مَمْلُوْکٌ، أَوِ امْرَأَۃٌ ، أَوْ صَبِیٌّ،أَوْ مَرِیْضٌ )) سنن أبی داؤد:1067۔وصححہ الألبانی
’’ نمازِ جمعہ باجماعت ادا کرنا ہر ( مکلف ) مسلمان پرحق اور واجب ہے ، سوائے چار افراد کے ۔ ایک غلام جو کسی کی ملکیت ہو ، دوسری عورت ، تیسرا بچہ اور چوتھا مریض ۔‘‘
اس حدیث میں نمازِ جمعہ کوجہاں ہر مکلف مسلمان پر واجب قرار دیا گیا ہے وہاں چار افراد کو اس سے مستثنی بھی کیا گیا ہے اور وہ ہیں : غلام ، عورت ، نابالغ بچہ اور وہ مریض جو نمازِ جمعہ کیلئے مسجد میں جانے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ اسی طرح مسافر پر بھی جمعہ فرض نہیں ہے ۔ اور اس پر امت کا اجماع ہے ۔
اسی طرح اس حدیث میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ نمازِ جمعہ باجماعت ادا کرنا فرض ہے ۔ لہٰذا اسے انفرادی طور پر ادا کرنا درست نہیں ۔ اور جس شخص کی نمازِ جمعہ فوت ہو جائے وہ ظہر کی چار رکعات ادا کرے ۔
اور نمازِ جمعہ کوبغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑنے والے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید سنائی ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو الجعد الضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَہَاوُنًا بِہَا ،طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِہٖ )) سنن أبی داؤد :1052۔وصححہ الألبانی
’’ جو آدمی غفلت کی بناء پر تین جمعے چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر ثبت کردیتا ہے ۔ ‘‘
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( لَیَنْتَہِیَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِہِمُ الْجُمُعَاتِ،أَوْ لَیَخْتِمَنَّ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ، ثُمَّ لَیَکُوْنَنَّ مِنَ الْغَافِلِیْنَ )) صحیح مسلم:865
’’ لوگ نمازِ جمعہ چھوڑنے سے باز آجائیں ، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہریں لگا دے گا ، پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے ۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جمعہ سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے متعلق فرمایا :
(( لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا یُّصَلِّیْ بِالنَّاسِ،ثُمَّ أُحَرِّقَ عَلیٰ رِجَالٍ یَتَخَلَّفُوْنَ عَنِ الْجُمُعَۃِ بُیُوْتَہُمْ )) صحیح مسلم:652
’’ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے ، پھر میں ان لوگوں کو ان کے گھروں سمیت آگ لگا دوں جو نمازِ جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں ۔ ‘‘
آدابِ جمعہ
01. غسل جمعہ : یومِ جمعہ کے آداب میں غسل کو خاص اہمیت حاصل ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور اسے ہر بالغ پر واجب قرار دیا ہے ۔ لہٰذا اس دن غسل ،صفائی، خوشبو اور اچھے لباس کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہئے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا أَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّأْتِیَ الْجُمُعَۃَ ، فَلْیَغْتَسِلْ)) صحیح البخاری :877، صحیح مسلم:844
’’ تم میں سے کوئی شخص جب جمعہ کیلئے آنے کا ارادہ کرے تووہ غسل کرلے ۔ ‘‘
اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( غُسْلُ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَاجِبٌ عَلیٰ کُلِّ مُحْتَلِمٍ )) صحیح البخاری:879، صحیح مسلم : 846
’’ روزِ جمعہ کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے ۔ ‘‘
اور جناب عکرمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عراق کے کچھ لوگ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : آپ کا کیا خیال ہے کہ یومِ جمعہ کا غسل واجب ہے ؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں ، واجب تو نہیں ہے لیکن غسل کرنا بہتر اور باعثِ خیرہے اور اس سے غسل کرنے والے کو زیادہ پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ غسل کیسے شروع ہوا تھا ؟ در اصل لوگ اونی لباس پہنتے تھے اور بہت محنت مزدوری کرتے تھے اور اپنی پیٹھوں پر سامان وغیرہ اٹھاتے تھے ۔اس وقت ان کی مسجد چھوٹی اور بہت تنگ تھی ۔ اور ایک دن جبکہ گرمی زوروں پر تھی اور لوگوں کو اونی لباس میں شدید پسینہ آیا ہوا تھا اور ان سے ایسی بو آ رہی تھی کہ جس سے وہ ایک دوسرے کیلئے اذیت کا سبب بن رہے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کے پسینے کی بو محسوس فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَیُّہَا النَّاسُ!إِذَا کَانَ ہٰذَا الْیَوْمُ فَاغْتَسِلُوْا،وَلْیَمَسَّ أَحَدُکُمْ مَا یَجِدُ مِنْ دُہْنِہٖ وَطِیْبِہٖ ))
’’ اے لوگو ! جب یہ دن آئے تو غسل کر لیا کرو ۔ اور تم میں سے ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق تیل اور خوشبو ضرور لگائے ۔ ‘‘
پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مال دے دیا جس سے انہوں نے اون چھوڑ کر دوسرا لباس پہننا شروع کردیا اور سخت محنت مزدوری سے انہیں نجات مل گئی ۔ مسجد کی توسیع کردی گئی اور وہ بو جو ان کے پسینوں سے پھوٹتی تھی اور جوان کیلئے اذیت کا سبب بنتی تھی ‘ ختم ہو گئی ۔ سنن أبی داؤد :353۔ وحسنہ الألبانی
02. عطر لگانا 03. گردنیں نہ پھلانگنا
حضرت سلما ن فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا یَغْتَسِلُ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ، وَیَتَطَہَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُہْرٍ ، وَیَدَّہِنُ مِنْ دُہْنِہٖ ، أَوْ یَمَسُّ مِنْ طِیْبِ بَیْتِہٖ ، ثُمَّ یَخْرُجُ فَلَا یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ ، ثُمَّ یُصَلِّیْ مَا کُتِبَ لَہُ،ثُمَّ یُنْصِتُ إِذَا تَکَلَّمَ الْإِمَامُ،إِلَّا غُفِرَ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأخْرٰی)) صحیح البخاری:883
’’ جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرے ، حسب استطاعت پوری طہارت کرے اور تیل لگائے یا اپنے گھر کی عطر لگائے ، پھر(مسجد میں پہنچ کر) دو آدمیوں کو جدا جدا نہ کرے ( جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جائے ) پھر وہ نماز ادا کرے جتنی اس کے ( مقدر میں ) لکھی گئی ہے ، پھر جب امام خطبہ دے تو وہ خاموشی سے سنے تو دوسرے جمعہ تک اس کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ ‘‘
اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنِ اغْتَسَلَ ثُمَّ أَتَی الْجُمُعَۃَ،فَصَلّٰی مَا قُدِّرَ لَہُ،ثُمَّ أَنْصَتَ حَتّٰی یَفْرُغَ مِنْ خُطْبَتِہٖ،ثُمَّ یُصَلِّیْ مَعَہُ،غُفِرَ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأخْرٰی وَفَضْلُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ )) صحیح مسلم:857
’’ جو شخص غسل کرے ، پھر نمازِ جمعہ کیلئے آئے اور ( مسجد میں پہنچ کر ) نماز ادا کرے جتنی اس کیلئے مقدر کی گئی ہے ۔ پھر وہ خطیب کا خطبہ ختم ہونے تک خاموشی سے خطبہ سنتا رہے ، پھر اس کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کرے تو دوسرے جمعہ تک اس کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور مزید تین دن کے بھی ۔ ‘‘
ان دونوں احادیث میں جہاں غسل ِ جمعہ ، خوشبو لگانے ، گردنیں نہ پھلانگنے ، خطبۂ جمعہ خاموشی سے سننے اور نماز جمعہ پڑھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہاں ان سے یہ مسئلہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ نمازِ جمعہ سے قبل کوئی سنت نماز نہیں ہے ۔ بلکہ امام کے منبر پر جانے سے پہلے مسجد میں آنے والے شخص کیلئے مشروع یہ ہے کہ وہ حسب توفیق جتنی چاہے نماز ( نفل ) پڑھ لے ۔ اس میں تحیۃ المسجد کے دو نفل بھی شامل ہیں ۔ جہاں تک خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں پہنچنے والے شخص کا تعلق ہے تو وہ صرف دو رکعات تحیۃ المسجد ہی پڑھے گا اور اس کے بعد خطیب کا خطبہ توجہ سے سنے گا ۔ ( ہم اس بارے میں وارد احادیث بعد میں ذکر کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ)
اسی طرح حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ غَسَّلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَاغْتَسَلَ ، وَبَکَّرَ وَابْتَکَرَ ، وَمَشٰی وَلَمْ یَرْکَبْ ، وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ ، فَاسْتَمَعَ وَلَمْ یَلْغُ ، کَانَ لَہُ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ عَمَلُ سَنَۃٍ ، أَجْرُ صِیَامِہَا وَقِیَامِہَا )) سنن أبی داؤد :345، سنن ابن ماجہ :1087 ۔ وصححہ الألبانی
’’ جس شخص نے جمعہ کے روز غسل کرایا اور خود غسل کیا ، اور نماز کے اول وقت میں آیا اور خطبۂ جمعہ شروع سے سنا ۔ اور چل کر آیا اور سوار نہیں ہوا ۔ اور امام کے قریب بیٹھ کر غور سے خطبہ سنا اور اس دوران کوئی لغو حرکت نہیں کی تو اسے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور ایک سال کے قیام کا اجر ملے گا۔‘‘
جمعہ کیلئے جلدی آنے کی فضیلت
نمازِ جمعہ کیلئے مسجد میں جلدی آنا چاہئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلاَۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ الجمعۃ62 :9
’’ اے ایمان والو ! جمعہ کے دن جب نماز کیلئے اذان کہی جائے تو ذکر الٰہی کی طرف دوڑ کر آؤ اور خرید وفروخت چھوڑ دو ۔ اگر تم جانو تو یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے ۔ ‘‘
اس آیت ِ کریمہ میں جہاں نمازِ جمعہ کیلئے جلدی آنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں اذانِ جمعہ کے بعد خرید وفروخت سے منع بھی کیا گیا ہے ۔ اوراس سے معلوم ہوا کہ اذان ( ثانی ) کے بعد خرید وفروخت کرنا حرام ہے ۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جمعہ کیلئے جلدی آنے کی بڑی فضیلت ذکر فرمائی ہے۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ غُسْلَ الْجَنَابَۃِ،ثُمَّ رَاحَ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَۃً، وَمَنْ رَاحَ فِیْ السَّاعَۃِ الثَّانِیَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَۃً،وَمَنْ رَاحَ فِیْ السَّاعَۃِ الثَّالِثَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ کَبْشًا أَقْرَنَ،وَمَنْ رَاحَ فِیْ السَّاعَۃِ الرَّابِعَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ دُجَاجَۃً،وَمَنْ رَاحَ فِیْ السَّاعَۃِ الْخَامِسَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَیْضَۃً،فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِکَۃُ یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ )) صحیح البخاری :881،صحیح مسلم :850
’’ جس شخص نے جمعہ کے دن غسل ِ جنابت جیسا غسل کیا ، پھر وہ نماز جمعہ کیلئے مسجد میں چلا گیا تو اس نے گویا ایک اونٹ کی قربانی کی ۔ اور جو آدمی دوسری گھڑی میں گیا اس نے گویا ایک گائے قربان کی ۔ اور جو تیسری گھڑی میں پہنچا اس نے گویا سینگوں والے ایک مینڈھے کی قربانی کی ۔ اور جو چوتھی گھڑی میں گیا اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی کی ۔ اور جو پانچویں گھڑی میں گیا اس نے گویا ایک انڈے کی قربانی کی۔پھر جب امام منبر کی طرف چل نکلے تو فرشتے (مسجد میں ) حاضر ہو کر ذکر ( خطبہ ) سنتے ہیں ۔ ‘‘
اس حدیث کے پیش ِ نظر ہمیں بھی جمعہ کی پہلی گھڑی میں مسجد میں آنا چاہئے تاکہ ہمیں اونٹ کی قربانی کا ثواب مل سکے ۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا کَا نَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ کَانَ عَلٰی کُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ المْلَائِکَۃُ یَکْتُبُوْنَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ،فَإِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ طَوَوُا الْصُّحُفَ،وَجَاؤُوْا یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ ۔۔۔۔)) صحیح البخاری : 929،صحیح مسلم:850
’’ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے پہنچ جاتے ہیں جو آنے والوں کے نام باری باری لکھتے ہیں ( یعنی جو پہلے آتا ہے اس کا نام پہلے اور جو اس کے بعد آتا ہے اس کانام بعد میں لکھتے ہیں ) پھر جب امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنے صحیفوں کو لپیٹ کر خطبہ سننے مسجد میں آجاتے ہیں ۔ ‘‘
محترم حضرات ! اگر ہم بھی یومِ جمعہ کو فرشتوں کے صحیفوں میں نام لکھوانا چاہتے ہیں تو ہمیں امام کے منبر پر جانے ( دوسری اذان ) سے پہلے مسجد میں پہنچنا چاہئے ۔ ورنہ یہ بات یاد رہے کہ اگر ہم امام کے منبر پر جانے کے بعد مسجد میں پہنچیں گے تو نہ ہمیں قربانی کا ثواب ملے گا اور نہ ہی ہمارا نام فرشتوں کے صحیفوں میں لکھا جائے گا ۔
تحیۃ المسجد کا تاکید ی حکم
نمازِ جمعہ کیلئے مسجد میں پہنچنے کے بعد سب سے پہلا کام تحیۃ المسجد کی ادائیگی ہے ، چاہے نمازی خطبہ شروع
ہونے سے پہلے مسجد میں آئے یا اس کے منبر پر جانے کے بعد۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(( دَخَلَ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالنَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم یَخْطُبُ فَقَالَ : صَلَّیْتَ ؟ قَالَ : لَا ، قَالَ : فَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ )) صحیح البخاری:931،صحیح مسلم :875
یعنی ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا تم نے نماز پڑھی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ دو رکعت نماز پڑھو ۔‘‘
وفی روایۃ لمسلم : (( جَائَ سُلَیْکٌ اَلْغَطْفَانِیُّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَخْطُبُ،فَجَلَسَ،فَقَالَ لَہُ : یَا سُلَیْکُ ! قُمْ،فَارْکَعْ رَکْعَتَیْنِ،وَتَجَوَّزْ فِیْہِمَا، ثُمَّ قَالَ: إِذَا جَائَ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ، وَلْیَتَجَوَّزْ فِیْہِمَا )) صحیح مسلم:875
یعنی حضرت سلیک الغطفانی رضی اللہ عنہ جمعہ کے روز اس وقت آئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ وہ آکر بیٹھ گئے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے سلیک ! کھڑے ہو جاؤ اور دو ہلکی پھلکی رکعات ادا کرو ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ تم میں سے کوئی شخص جب جمعہ کے دن اس وقت آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعت نماز ادا کرے ۔ اور انہیں ہلکی پھلکی پڑھے ۔ ‘‘
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ روک کر اس شخص کو تحیۃ المسجد کی ادائیگی کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ تحیۃ المسجد کا پڑھنا لازمی امر ہے ۔
دورانِ خطبہ خاموش رہنے کی خصوصی تاکید
خطیب کے خطبہ کے دوران مکمل خاموشی اختیار کرنا واجب ہے حتی کہ کسی بولنے والے شخص کو خاموش رہنے کا حکم دینا بھی لغو قرار دیا گیا ہے۔جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِکَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ : أَنْصِتْ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ)) صحیح البخاری:934، صحیح مسلم :851
’’جب تم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے یوں کہا کہ خاموش رہو ، تو تم نے لغو حرکت کی ۔ ‘‘
خطبہ کے دوران خاموش رہنا اس قدر ضروری امر ہے کہ اس میں گفتگو کرنے کی وجہ سے جمعہ کا اجر ضائع ہو جاتا ہے۔جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خطبۂ جمعہ کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہوئے سورۃ الملک پڑھی ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے بڑے ایام ( جن میں بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے تھے ) یاد کرائے ۔ اسی دوران حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے میری طرف آنکھ کا اشارہ کیا اور کہنے لگے : یہ سورۃ ( الملک ) کب نازل ہوئی ؟ میں نے تو اسے آج پہلی مرتبہ سنا ہے !
چنانچہ میں نے انہیں اشارہ کرکے کہا کہ خاموش رہو ۔۔۔ پھر جب لوگ نماز پڑھ کر چلے گئے تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی ، لیکن آپ نے مجھے کچھ نہیں بتایا ؟ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا : آج آپ کو آپ کی نماز سے کچھ نہیں ملا سوائے اس لغو بات کے جو آپ نے کی۔ یہ سن کر حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور انہیں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی بات سے آگاہ کیا ۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( صَدَقَ أُبَیّ ) یعنی ’’ ابی رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔ ‘‘ سنن ابن ماجہ :1111۔ وصححہ الألبانی
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو حرکت یا بے ہودہ گفتگو کرنے والے شخص کے بارے میں فرمایا کہ اسے جمعہ کا اجر نہیں ملے گا اور اس کی نماز ‘ نمازِ ظہر شمار ہو گی ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ،وَمَسَّ مِنْ طِیْبِ امْرَأَتِہٖ إِنْ کَانَ لَہَا،وَلَبِسَ مِنْ صَالِحِ ثِیَابِہٖ،ثُمَّ لَمْ یَتَخَطَّ رِقَابَ النَّاسِ،وَلَمْ یَلْغُ عِنْدَ الْمَوْعِظَۃِ،کَانَتْ کَفَّارَۃً لِمَا بَیْنَہُمَا،وَمَنْ لَغَا وَتَخَطّٰی رِقَابَ النَّاسِ،کَانَتْ لَہُ ظُہْرًا )) سنن أبی داؤد :347۔ وصححہ الألبانی
’’ جس شخص نے جمعہ کے دن غسل کیا اور اگر اس کی بیوی کے پاس عطر تھی تو اس نے اس سے کچھ خوشبو لگائی ، اچھے کپڑے پہنے ، پھر لوگوں کی گردنوں کو نہیں پھلانگا اور خطبہ کے دوران کوئی بے ہودہ حرکت نہیں کی تو اس کا یہ جمعہ اگلے جمعہ تک اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔ اور جس شخص نے بے ہودہ حرکت کی اور لوگوں کی گردنوں کو پھلانگا تو اس کا یہ جمعہ نمازِ ظہر شمار ہو گا۔ ‘‘
برادران اسلام ! ایک اور حدیث مکمل توجہ کے ساتھ سنئے اورفیصلہ کیجئے کہ اس میں لوگوں کی جن تین قسموں کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے آپ کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں ؟
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( یَحْضُرُ الْجُمُعَۃَ ثلَاَثَۃُ نَفَرٍ: رَجُلٌ حَضَرَہَا یَلْغُوْ وَہُوَ حَظُّہُ مِنْہَا،وَرَجُلٌ حَضَرَہَا یَدْعُوْ،فَہُوَ رَجُلٌ دَعَا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ،إِنْ شَائَ أَعْطَاہُ،وَإِنْ شَائَ مَنَعَہُ،وَرَجُلٌ حَضَرَہَا بِإِنْصَاتٍ وَسُکُوْنٍ،وَلَمْ یَتَخَطَّ رَقَبَۃَ مُسْلِمٍ، وَلَمْ یُؤْذِ أَحَدًا ، فَہِیَ کَفَّارَۃٌ إِلَی الْجُمُعَۃِ الَّتِیْ تَلِیْہَا وَزِیَادَۃُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ،وَذَلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُوْلُ :﴿مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا﴾ )) سنن أبی داؤد :1113وصححہ الألبانی
’’ نمازِ جمعہ کیلئے آنے والے لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں : ایک وہ شخص ہے جو نمازِ جمعہ کیلئے آتا ہے اور اس دوران وہ لغو (بے ہودہ) بات یا کام کرتا ہے تو اسے صرف بے ہودگی ہی ملتی ہے۔ دوسرا وہ آدمی ہے جو جمعہ کیلئے حاضرہوتا ہے اور اس کا مقصد صرف دعا کرنا ہوتا ہے تویہ ایسا آدمی ہے جو اللہ تعالیٰ سے محض دعا ہی کرتا ہے اوراگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کی دعا قبول کرلے اور چاہے تو اسے رد کردے ۔ اور تیسرا وہ آدمی ہے جو جمعہ کیلئے حاضر ہو کر پر سکون رہتا ہے اور خاموشی اور توجہ کے ساتھ خطیب کا خطبہ سنتا ہے اور کسی مسلمان کی گردن کو نہیں پھلانگتا اور نہ ہی کسی کواذیت پہنچاتا ہے۔ تو اسی شخص کا جمعہ آنے والے جمعہ تک بلکہ مزید تین دن ( یعنی مکمل دس دن تک) اس کیلئے کفارہ بنتا ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ( ترجمہ) ’’ جو شخص ایک نیکی لاتا ہے اس کیلئے اس جیسی دس نیکیوں کا اجر ہے ۔ ‘‘
جمعہ کے روز ایک مبارک گھڑی
جمعہ کے روز ایک ایسی مبارک گھڑی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے آدمی کی دعا قبول فرماتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ جمعہ کا ذکر کیا اور پھر ارشاد فرمایا :
(( فِیْہِ سَاعَۃٌ لَا یُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَہُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ یَسْأَلُ اللّٰہَ تَعَالٰی شَیْئًا إِلَّا أَعْطَاہُ إِیَّاہُ)) وَأَشَارَ بِیَدِہٖ یُقَلِّلُہَا صحیح البخاری :935،صحیح مسلم :852
’’ اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اس میں ایک مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا کردیتا ہے ۔ ‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گھڑی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اسے بہت ہی مختصر گھڑی بتایا ۔
وہ مبارک گھڑی کونسی ہے ؟ اس سلسلے میں دو قسم کی روایات ذکر کی گئی ہیں ۔ ایک روایت جس کے راوی حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ہیں، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مبارک گھڑی کے بارے میں ارشادفرمایا : (( ہِیَ مَا بَیْنَ أَنْ یَّجْلِسَ الْإِمَامُ إِلیٰ أَنْ تُقْضَی الصَّلَاۃُ )) صحیح مسلم :853
’’ وہ ( مبارک گھڑی ) امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز ختم ہونے کے درمیان ہوتی ہے ۔ ‘‘
اور دوسری روایت کے راوی حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ہیں جو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( یَوْمُ الْجُمُعَۃِ ثِنْتَا عَشْرَۃَ ۔ یُرِیْدُ سَاعَۃً ۔ لَا یُوْجَدُ مُسْلِمٌ یَسْأَلُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ شَیْئًا إِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ،فَالْتَمِسُوْہَا آخِرَ سَاعَۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ)) سنن أبی داؤد :1048۔ وصححہ الألبانی
’’ جمعہ کے روز بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں ۔ ( اور ان میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ ) اس میں کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا بھی سوال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کر دیتا ہے ۔ لہٰذا تم اسے عصر کے بعد آخری گھڑی میں تلاش کرو ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کہا : ہم اللہ کی کتاب ( توراۃ ) میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ جمعہ کے روز ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جس میں کوئی مومن نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ گھڑی مختصر سی ہوتی ہے ؟ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے سچ فرمایا ہے ، وہ گھڑی واقعتا مختصر سی ہوتی ہے ۔ پھر میں نے پوچھا : وہ گھڑی کونسی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ہِیَ آخِرُ سَاعَۃٍ مِنْ سَاعَاتِ النَّہَارِ)) ’’ وہ دن کی گھڑیوں میں سے آخری گھڑی ہے ‘‘ میں نے کہا : وہ گھڑی نماز کی گھڑی تو نہیں ہوتی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں ، بے شک ایک بندہ جب نمازپڑھ لیتا ہے اور پھر وہ نماز کیلئے ہی بیٹھا رہتا ہے تو اس کا بیٹھنا نماز ہی تصور کیا جاتا ہے ۔ ‘‘ سنن ابن ماجہ :1139۔ وصححہ الألبانی
جبکہ سنن سعید بن منصور میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جمع ہوئے اور انہوں نے آپس میں یومِ جمعہ کی اس مبارک گھڑی کے بارے میں مذاکرہ کیا ۔ اور جب انہوں نے
مجلس برخاست کی تو وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ وہ گھڑی یومِ جمعہ کی آخری گھڑی ہے ۔ زاد المعاد :379/1
ان مختلف روایات کی بناء پر اس مبارک گھڑی کی تحدید میں علماء کے درمیان بھی شدید اختلاف پایا جاتا ہے حتی کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فتح الباری میں چالیس اقوال ذکر کئے ہیں ۔ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ گھڑی متعین ہی نہیں ہے اور اسے لیلۃ القدر کی طرح مخفی رکھا گیا ہے تاکہ اللہ کے بندے اسے تلاش کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دعا کریں ۔
جبکہ پہلی روایت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ مبارک گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے نمازِ جمعہ کے ختم ہونے کے دوران کسی وقت آتی ہے ۔ اور دوسری روایات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ گھڑی جمعہ کے روز عصر کے بعد آتی ہے۔ اور جناب سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی قول نقل کیا ہے اور اسی وجہ سے وہ ( سعید بن جبیر رحمہ اللہ ) عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک کسی سے کوئی بات نہیں کرتے تھے اور یہ وقت ذکر اور دعا میں گذارتے تھے۔ زاد المعاد ::382/1
امام ابن القیم الجوزیۃ رحمہ اللہ نے انہی دو اقوال کو راجح قرار دیا ہے کیونکہ یہ دونوں اقوال صحیح احادیث پر مبنی ہیں ۔ اور ان میں سے دوسرے قول کو زیادہ راجح بتایا ہے۔ زاد المعاد ::378/1
جبکہ بعض علماء ان دونوں روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ کبھی یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے نمازِ جمعہ کے ختم ہونے کے دوران آتی ہے اور کبھی عصر کے بعد آتی ہے ۔ لہٰذا ان دونوں اوقات میں اس کی امید رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے ۔ واللہ اعلم
نمازِ جمعہ کے بعد نمازِ سنت
عزیزان گرامی ! ہم اس سے پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ نمازِ جمعہ سے پہلے کوئی سنت نماز نہیں ہے۔ اور جہاں تک نمازِ جمعہ کے بعد سنتوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے یہ ثابت ہے کہ آپ دو رکعات ادا فرماتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ
أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ الظُّہْرِ رَکْعَتَیْنِ،وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَہَا، وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ رَکْعَتَیْنِ فِیْ بَیْتِہٖ ، وَبَعْدَ الْعِشَائِ رَکْعَتَیْنِ،وَکَانَ لَا یُصَلِّیْ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ فَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ ۔ صحیح البخاری :937،صحیح مسلم :882
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعتیں ، اس کے بعد دو رکعتیں ، مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں ، عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔ اور نمازِ جمعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ نماز ختم کرکے ( گھر ) چلے جاتے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات ادا کرتے ۔
یہ تو ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فعل ۔ جبکہ امت کیلئے آپ کا ارشاد یہ ہے کہ جو شخص نمازِ جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہے تو وہ چار رکعات پڑھے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مُصَلِّیًا بَعْدَ الْجُمُعَۃِ فَلْیُصَلِّ أَرْبَعًا )) صحیح مسلم :881
’’ تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہے تو وہ چار رکعات پڑھے ۔ ‘‘
وفی روایۃ عنہ : (( إِذَا صَلَّیْتُمْ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ فَصَلُّوْا أَرْبَعًا )) قال سہیل:فَإِنْ عَجِلَ بِکَ شَیْئٌ فَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ فِیْ الْمَسْجِدِ،وَرَکْعَتَیْنِ إِذَا رَجَعْتَ صحیح مسلم :881
’’ جب تم جمعہ کے بعد نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو چار رکعات پڑھو ۔ ‘‘ سہیل ( راویٔ حدیث ) کہتے ہیں کہ اگر تمہیں کسی کام کی جلدی ہو تو دو رکعات مسجد میں پڑھ لو اور دو رکعات گھر میں لوٹ کر پڑھ لو ۔
ان تمام روایات کی بناء پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نمازِ جمعہ کے بعد اگر کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھنا چاہے تو وہ چار رکعات پڑھے ۔ اور اگر اسے جلدی ہو تو دو رکعات مسجد میں پڑھ لے اور دو گھر جا کر پڑھ لے ۔ اور اگر وہ چاہے تو مسجد میں نماز نہ پڑھے اور اپنے گھر پہنچ کر دو رکعات ادا کر لے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے ۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ چنانچہ جنابِ نافع رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ نماز جمعہ پڑھنے کے بعد گھر چلے جاتے تھے اور وہاں دو رکعات پڑھتے تھے اور اس کے بعد کہتے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے ۔ صحیح مسلم :882
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ یومِ جمعہ کو مسجد میں جاتے ، پھر چند رکعات پڑھتے جن میں لمبا قیام کرتے ، پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد گھر کو لوٹ جاتے اور دو رکعات ادا کرتے ۔ اس کے بعد کہتے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ أخرجہ احمد وصححہ سندہ الألبانی فی ارواء الغلیل:91/3
جبکہ سنن ابو داؤد میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے روز ( نماز جمعہ کے بعد ) اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے دو رکعتیں پڑھ رہا ہے تو انہوں نے اسے دھکا دیا اور فرمایا : کیا تم جمعہ کی چار
رکعات پڑھتے ہو ؟ سنن أبی داؤد:1127۔ وصححہ الألبانی
جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اعتراض مسجد میں دو رکعت پڑھنے پر نہیں ، بلکہ اس بات پر تھا کہ اس نے سلام پھیرنے کے فورا بعد اسی جگہ پر سنت شروع کردی جہاں اس نے فرض نماز ادا کی تھی ۔ جس سے یوں لگا کہ جیسے وہ جمعہ کی چار رکعتیں پڑھ رہا ہے ۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں یومِ جمعہ کی برکات سے مستفید ہونے کی توفیق دے ۔
دوسرا خطبہ
محترم حضرات !آئیے اب یومِ جمعہ کے حوالے سے بعض مخصوص احکامات بھی سماعت کر لیجئے۔
01. یومِ جمعہ کو روزہ کیلئے اور شبِ جمعہ کو قیام کیلئے خاص کرنا
ہفتہ بھر کے دنوں میں صرف جمعہ کے دن کو روزہ کیلئے ، اور پورے ہفتہ کی راتوں میں صرف جمعہ کی رات کو تہجد کیلئے خاص کرنا درست نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا تَخْتَصُّوْا لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ بِقِیَامٍ مِنْ بَیْنِ اللَّیَالِیْ وَلَا تَخُصُّوْا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ بِصِیَامٍ مِنْ بَیْنِ الْأیَّامِ، إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ فِیْ صَوْمٍ یَصُوْمُہُ أَحَدُکُمْ )) مسلم :1144
’’ باقی راتوں کو چھوڑ کر صرف جمعہ کی رات کو قیام کیلئے خاص نہ کرو ۔ اسی طرح باقی دنوں کو چھوڑ کر صرف جمعہ کے دن کو روزہ کیلئے خاص نہ کرو ۔ ہاں اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو اور وہ جمعہ کے دن آجائے تو ( کوئی حرج نہیں ) ‘‘
اور محمد بن عباد کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے سوال کیا ‘ جبکہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ‘ کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یومِ جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا : اِس گھر کے رب کی قسم ! ہاں آپ نے منع فرمایا تھا ۔ صحیح البخاری : 1984،صحیح مسلم :1143
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا یَصُوْمُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ إِلَّا یَوْمًا قَبْلَہُ أَوْ بَعْدَہُ )) صحیح البخاری :1985، صحیح
مسلم :1144
’’ تم میں سے کوئی شخص صرف یومِ جمعہ کا روزہ نہ رکھے ۔ ہاں اگر ( اس کے ساتھ ) اس سے ایک روز پہلے یا ایک روز بعد کا بھی روزہ رکھے تو ( کوئی حرج نہیں ) ۔ ‘‘
اور حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ یومِ جمعہ کو ان کے پاس آئے جبکہ انھوں ( حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ) نے روزہ رکھا ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : ’’ کیا تم نے کل بھی روزہ رکھا تھا ؟‘‘ انھوں نے کہا : نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم آنے والی کل کا روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتی ہو ؟ انھوں نے کہا : نہیں ۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تب تم ابھی روزہ کھول دو ۔ ‘‘ صحیح البخاری :1986
یہ تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف یومِ جمعہ کا روزہ رکھنا درست نہیں ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص جمعرات کا روزہ رکھ کر جمعہ کا روزہ بھی رکھ لے ، یا جمعہ کا روزہ رکھ کر ہفتہ کا روزہ بھی رکھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
02. یومِ جمعہ کو سورۃ الکہف کی تلاوت
جمعہ کے روز یا جمعہ کی رات سورۃ الکہف کی تلاوت کا اہتمام خصوصی طور پر کرنا چاہئے، کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ قَرَأَ سُوْرَۃَ الْکَہْفِ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ،أَضَائَ لَہُ مِنَ النُّوْرِ فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ )) صحیح الجامع :6471
’’ جس شخص نے جمعہ کی رات سورۃالکہف کی تلاوت کی تو اس کے سامنے اس کے اور خانہ کعبہ کے درمیان مسافت کے برابر نور آ جاتا ہے ۔ ‘‘
اور دوسری روایت میں ارشاد فرمایا :
(( مَنْ قَرَأَ سُوْرَۃَ الْکَہْفِ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ،أَضَائَ لَہُ مِنَ النُّوْرِ مَا بَیْنَ الْجُمُعَتَیْنِ )) صحیح الجامع للألبانی:6470
’’ جو آدمی یومِ جمعہ کو سورۃ الکہف پڑھتا ہے تو اس کیلئے اگلے جمعہ تک نور ہی نور ہو جاتا ہے ۔ ‘‘
03. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود
اسی طرح جمعہ کی رات اور جمعہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنا چاہئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے ۔
جیسا کہ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی بعض خصوصیات ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا :
(( ۔۔۔ فَأَکْثِرُوْا عَلَیَّ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیْہِ ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَۃٌ عَلَیَّ۔قَالَ: قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟قَالَ: یَقُوْلُوْنَ:بَلَیْتَ،فَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْأرْضِ أَجْسَادَ الْأنْبِیَائِ )) سنن أبی داؤد :1047۔ وصححہ الألبانی
’’ لہٰذا تم اس دن مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو ، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ ( قبر میں آپ کا جسدِ اطہر ) تو بوسیدہ ہو جائے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر یہ بات حرام کردی ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے ۔ ‘‘
اور حضرت ابو مامۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( صَلَاۃُ أُمَّتِیْ تُعْرَضُ عَلَیَّ فِیْ کُلِّ یَوْمِ جُمُعَۃٍ،فَمَنْ کَانَ أَکْثَرَہُمْ عَلَیَّ صَلَاۃً کَانَ أَقْرَبَہُمْ مِنِّیْ مَنْزِلَۃً )) أخرجہ البیہقی:362/3برقم :6089بسند لا باس بہ
’’ میری امت کا درود مجھ پر ہر جمعہ کو پیش کیا جاتا ہے۔پس جو شخص مجھ پر زیادہ درود پڑھے گا وہ سب سے زیادہ میرے قریب ہو گا ۔‘‘
اللہ رب العزت نے مومنوں کو اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے اور سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿إِنَّ اللّٰہَ وَمَلاَئِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ الأحزاب33 :56
’’ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔ ‘‘
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! سلام کا طریقہ تو ہمیں اللہ تعالیٰ نے سکھلا دیا ہے ، ہم درود کیسے بھیجیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم یوں کہا کرو :
(( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ )) صحیح البخاری :3370
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : (( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ آلِ إِبْرَاہِیْمَ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ )) صحیح البخاری :3369
سب سے افضل درود یہی درود ہے جو کہ درود ابراہیمی کہلاتا ہے اورجوخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلایا تھا ۔ اس کے مختلف الفاظ مختلف روایات میں موجود ہیں ۔ اور درود کے سب سے زیادہ بابرکت الفاظ بھی وہی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک سے سکھلائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر نہیں بولتے تھے۔ لہٰذا انھیں چھوڑ کر کسی اور شخص کے بنے ہوئے درود کے الفاظ کو نہ بہتر قرار دیا جا سکتا ہے اورنہ ان کے پڑھنے کی کوئی فضیلت ہے ۔
درود بھیجنے کی فضیلت میں کئی احادیث ثابت ہیں ۔یہاں ہم صرف تین احادیث ذکر کرتے ہیں :
01. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ،صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا )) صحیح مسلم :409
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ ‘‘
02. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً،صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ،وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ )) صحیح الجامع :6359
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کرتا ہے۔ ‘‘
03. حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مََنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا،وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا،أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) صحیح الجامع:6357
’’ جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی ۔‘‘
04. نمازِ فجر میں ( السجدۃ ) اور( الدہر ) کی قراء ت
یومِ جمعہ کو نمازِ فجر کی پہلی رکعت میں سورتِ فاتحہ کے بعد سورۃ السجدۃ اور دوسری رکعت میں سورۃ الدہر کا پڑھنا مسنون ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ﴿ألم تنزیل﴾ اور﴿ہَلْ أَتٰی عَلَی الْإِنْسَانِ﴾ پڑھتے تھے۔ صحیح البخاری:891،صحیح مسلم:880
05.نمازِجمعہ میں(الأعلی)اور( الغاشیۃ)یا(الجمعۃ)اور (المنافقون) کی قراء ت
یومِ جمعہ کو نمازِ جمعہ کی پہلی رکعت میں سورتِ فاتحہ کے بعد سورۃ الأعلی اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیۃ یا پہلی رکعت میں سورۃ الجمعۃ اور دوسری رکعت میں سورۃ المنافقون کا پڑھنا مسنون ہے ۔ جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں اور نمازِ جمعہ میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأعْلٰی ﴾ اور ﴿ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ﴾ پڑھتے تھے ۔ اور جب ایک دن میں عید اور جمعہ اکٹھے ہو جاتے تو پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نمازوں میں انہی سورتوں کی قراء ت کرتے ۔ صحیح مسلم :878
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یومِ جمعہ کو نمازِ فجر میں ﴿ألم تنزیل السجدۃ﴾ اور ﴿ ہَلْ أَتٰی عَلَی الْإِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ﴾ پڑھتے ۔ اور نمازِ جمعہ میں سورۃ الجمعہ اورسورۃ المنافقون کی قراء ت کرتے۔ صحیح مسلم :879
اور ابن ابی رافع روایت کرتے ہیں کہ خلیفہ مروان جب مکہ مکرمہ میں گئے تو انہوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا جانشین مقرر کیا ۔ چنانچہ انہوں نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی اور پہلی رکعت میں سورۃ الجمعۃ اور دوسری میں سورۃ المنافقون پڑھی ۔ نماز کے بعد میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ملا اور میں نے کہا : آج آپ
نے وہ سورتیں پڑھی ہیں جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں پڑھا کرتے تھے۔تو حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن یہی دو سورتیں پڑھتے ہوئے سنا تھا ۔ صحیح مسلم :877
نمازِ جمعہ کیسے پائی جا سکتی ہے ؟
نمازِ جمعہ کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ نمازی امام کے ساتھ کم از کم آخری رکعت پا لے ۔ اور اگر وہ آخری رکعت نہیں پاتا بایں صورت کہ وہ امام کے ساتھ دوسری رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہوتا ہے تو اسے امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہو کر صرف دو رکعات نہیں بلکہ ظہر کی چار رکعات پڑھنی ہونگی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ أَدْرَکَ مِنَ الْجُمُعَۃِ رَکْعَۃً فَلْیُصَلِّ إِلَیْہَا أُخْرٰی )) سنن ابن ماجہ :1121۔ وصححہ الألبانی
’’ جو شخص نمازِ جمعہ کی ایک رکعت ( امام کے ساتھ ) پا لے ، وہ اس کے ساتھ ایک اور رکعت کو ملائے ۔ ‘‘
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا :
(( مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنْ صَلَاۃِ الْجُمُعَۃِ أَوْ غَیْرِہَا ، فَقَدْ أَدْرَکَ الصَّلَاۃَ )) النسائی:557،ابن ماجہ :1123۔ وصححہ الألبانی
’’ جو آدمی نمازِ جمعہ یا کسی اور نماز کی ایک رکعت ( امام کے ساتھ ) پا لے ، تو اس نے نماز( با جماعت کا ثواب) حاصل کر لیا ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
(( إِذَا أَدْرَکْتَ رَکْعَۃً مِنَ الْجُمُعَۃِ فَأَضِفْ إِلَیْہَا أُخْرٰی،فَإِذَا فَاتَکَ الرُّکُوْعُ فَصَلِّ أَرْبَعًا )) أخرجہ ابن ابی شیبۃ والطبرانی والبیہقی،وصححہ الألبانی فی إرواء الغلیل :82/3
’’ جب تم جمعہ کی ایک رکعت کو پا لو تو اس کے ساتھ ایک اور رکعت کو ملا لینا ، اور جب تم سے (دوسری رکعت کا) رکوع فوت ہو جائے تو تم چار رکعات پڑھنا۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
(( إِذَا أَدْرَکْتَ مِنَ الْجُمُعَۃِ رَکْعَۃً فَأَضِفْ إِلَیْہَا أُخْرٰی،وَإِنْ أَدْرَکْتَہُمْ جُلُوْسًا فَصَلِّ أَرْبَعًا )) أخرجہ البیہقی ۔ إرواء الغلیل :82/3
’’ جب تمہیں جمعہ کی ایک رکعت مل جائے تو تم اس کے ساتھ ایک اور رکعت ملا لینا ۔ اور جب تم ان کے ساتھ تشہد میں ملو تو تم چار رکعات پڑھ لینا ۔ ‘‘
ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کا ثواب پانے کیلئے ضروری ہے کہ کم از کم ایک رکعت امام کے ساتھ ملے۔ اور جس شخص کو ایک رکعت بھی نہیں ملتی اور وہ دوسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہوتا ہے تو اس سے نماز جمعہ کا ثواب فوت ہو جاتا ہے اور اس صورت میں امام کے سلام پھیرنے کے بعد اسے چار رکعات پڑھنی ہوں گی۔
اللہ ہم سب کو دین ِ حنیف پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں دنیا وآخرت میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین