زبان کی بے احتیاطی کی شدتِ مضرت

زبان کی بے احتیاطی کی شدتِ مضرت

﴿یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝﴾( النور:24)
گذشتہ چند جمعوں سے زبان کی ضرورت و اہمیت اور افادیت کی بات ہو رہی ہے اور دوسری طرف اس کے نقصانات کا ذکر بھی ہو رہا ہے اورسمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ زبان کے صحیح استعمال سے کسی طرح مستفید ہوا جا سکتا ہے اور اس کے غلط استعمال اور اس کے نقصانات سے کسی طرح بچا جاسکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اتنے دنوں کی بحث و تمحیص اور آگاہی کے بعد، قرآن وحدیث کے ٹھوس دلائل اور پند و نصائح سننے کے بعد کیا ہم اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ہاں واقعی زبان کے لفاظ استعمال کے اتنے ہی سنگین اور شدید نتائج ہیں کہ اس سے آدمی کی دنیا بھی برباد ہو سکتی ہے اور آخرت بھی تباہ ہو سکتی ہے اور ہمیں ہر حال میں اس سے بچتا ہے یا ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں کہ جہاں سے سفر شروع کیا تھا، اور اگر دوسری بات ہے تو معاملہ انتہائی قابلِ تشویش ہے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ ہم میں سے کون کس حد تک زبان کی سنگینی کو سمجھا ہے، اگر عمومی طور پر دین کی باتیں یوں آسانی سے سمجھ میں نہیں آتیں، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دین کی باتیں کوئی ایسی مشکل ہوتی ہیں کہ سمجھ نہ آسکیں ، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ دنیا کی کشش سمجھ آنے ہی نہیں دیتی، وہ انسان کی عقل پر ایسا ریز پر دو ڈال دیتی ہے کہ لب گور تک ہوش آتے ہیں نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ۝۱
حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ۝﴾ ( التكاثر:1۔2)
’’تم لوگوں کو ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ اس فکر میں تم لبِ گور تک پہنچ جاتے ہو۔‘‘
دین کی باتیں اس لئے سمجھ میں نہیں آتیں کہ ہم نے خواہشات کے جو محل تعمیر کر رکھے ہیں وہ چکنا چور ہوتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں، ورنہ دین انسان سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرتا جو اس کی سمجھ سے بالاتر ہو، جو عقل سلیم کے معارض ہو، بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی معرفت اور پہچان کا ذریعہ بھی عقل و گھر کو قرار دیتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ۝۱۹۰
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝﴾ (آل عمران:190۔191)
’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور دن اور رات کے باری باری سے آنے میں یقینًا عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں تو وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں، پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے، پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔‘‘
تو حقیقتًا دین کی باتیں سمجھنا آسان ہیں کیونکہ وہ عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کے عین مطابق ہیں اور دین کی جن باتوں کا غیب سے تعلق ہے وہ وحی کے ذریعے سمجھ میں آتی ہیں، جب اللہ اور اللہ کے رسولﷺ پر ایمان حاصل ہو گیا تو پھر ہر بات سمجھنا آسان ہوگئی، پھر کوئی بات محیر العقول اور حیرت انگیز تو ہو سکتی ہے مگر سمجھ میں نہ آنے والی نہیں ہو سکتی ۔ ہاں اگر کوئی سمجھتا ہی نہ چاہے تو پھر تو آسان سے آسان بات سمجھنا بھی نا ممکن ہو جائے گا، جیسا کہ شعیب علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا۔
﴿قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًا ۚ وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ ؗ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ۝۹۱﴾ (هود:91)
’’انہوں نے کہا: اے شعیب! تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور ہم تو تمھیں اپنے اندر بہت کمزور پاتے ہیں، اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تو تجھے سنگسار کر دیتے اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں گنتے۔‘‘
اب ملاحظہ کیجئے کون سی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں! کہنے لگے:
﴿قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا ؕ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ۝۸۷﴾ (هود:87)
’’کہا: اے شعیب کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے، یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنی منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو، بس تو ہی تو ایک عالی ظرف شریف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے!‘‘
تو ان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کیسا دین ہے جو کہتا ہے کہ بس ایک اللہ ہی سے مانگتے رہو، تو کیا ہم قبروں پر سجدہ کرنا چھوڑ دیں فوت شدہ لوگوں سے نہ مانگیں، اور ہم اپنے ہی مال میں اپنی مرضی نہ کر سکیں، اپنی مرضی کا کاروبار، لین دین اور خرید و فروخت نہ کر سکیں! چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی پابندیاں لگادی جائیں کہ بہتر نہیں بچ سکتے ، لاٹو نہیں بچ سکتے، سود پر مکان نہیں لے سکتے وغیرہ ہم نے کلمہ ضرور پڑھا ہے، مگر کلمہ اپنی جگہ اور کاروبار اور معاملات اپنی جگہ۔
تو دین کی باتیں اس وقت سمجھ نہیں آتیں جب آدمی ضد، تعصب اور بہٹ دھرمی اختیار کرلے، جب اپنے دل و دماغ میں دنیا کو بسانے اور خواہشات چھا جائیں ، ورنہ دین کی باتیں سمجھنا بہت آسان ہیں۔
اب زبان کی اہمیت، اس کی تکلیفی، اس کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں ہم جو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس میں نہ سمجھ آنے والی کون سی بات ہے، دنیا میں زبان کے غلط استعمال کے کیسے کیسے شدید نتائج برآمد ہوتے ہیں، آپ لوگوں کو اندازہ ہی ہے، حکومت کے خلاف اگر بات کریں تو غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جوں کی نا انصافی کے ما بات کی جائے تو توہین عدالت کا مجرم قرار دیا جاتا ہے، کسی فرد کے ذاتی اخلاق و کردار پر بات کی جائے تو جنگ عزت کا قانون حرکت میں آجاتا ہے، اور ان کیسز کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے جن میں لوگ اپنی عدالت خود لگا لیتے ہیں اور کسی کے منہ سے نکلی ہوئی غلط بات کا جواب ہاتھ سے دیتے ہیں اور بسا اوقات نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ زبان کی ایسی ہی اہمیت اور سنگینی اگر قرآن وحدیث میں بیان ہو تو وہ سمجھ میں نہ آئے! یقینًا آخرت کے حوالے سے زبان کی اہمیت وافادیت بھی ایسی ہی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ اس سے نکلا ہوا ایک چھوٹا سا خیر کا جملہ حد نظر تک پھیلے ہوئے ننانوے دفتروں میں درج گناہوں پر بھی بھاری ہو جاتا ہے اور دوسری طرف بے پروائی اور لا ابالی پن میں زبان سے نکلا ہوا ہلکا سا جملہ آدمی کے مسلسل ستر سال تک جہنم میں گرتے رہنے کے مترادف قرار پاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا سَبْعِينَ خريفًا فِي النَّارِ)) (ترمذي:2314)
’’آدمی بسا اوقات ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں وہ کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے دو ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گا۔‘‘
پھر بھی اگر کسی کو زبان کے غلط ، بے جا اور بے احتیاط استعمال کی سنگینی اور شدت سمجھ نہ آئے تو پھر اسے اس کی کم عقلی اور بدبختی کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
بے احتیاط گفتگو کے سنگین نتائج کے حوالے سے بات تو بہت طویل ہے، جس کے لئے مزید کی ایک نشستیں درکار ہوں گی، تاہم اس سلسلے میں آج چند باتیں ذکر کر کے یہ موضوع ختم کرنا چاہوں گا۔ زبان کے عدم احتیاط کے نتیجے میں سنگین نتائج کے حوالے سے ایک مشہور حدیث ہے،جس میں آپ ﷺایک طویل حدیث میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو زبان کی حفاظت کی نصیحت کرتے ہوئے اپنی زبان کو پکڑ کر فرماتے ہیں:
(( كُفَّ عَلَيْكَ هٰذَا))
’’اس کو روک کر رکھو!‘‘
حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا:
((قُلْتُ: يَانَبِيُّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخِذُونَ بِمَا تَتَكَلَّمُ بِهِ؟))
’’اے اللہ کے نبیﷺ! کیا ہم باتوں کی وجہ سے پکڑے جائیں گے، کیا ہمارا مواخذو اور محاسبہ باتوں پر بھی ہوگا ؟‘‘
تو آپﷺ نے فرمایا:
((ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ! وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ قَالَ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ اِلاَّحَصَائِدُ الْسِنَتِهِمْ)) (ترمذي:2616)
’’تیری ماں تجھے کم پائے اے معاذ! لوگوں کو جہنم میں ان کے چہروں یا ان کے نقتوں کے بل اُن کی زبانوں کی کٹائی اور گھائل شدہ چیز ہی تو پھینکے گی۔‘‘
حصیدہ یا حصائد اس کٹی ہوئی کھیتی کو کہتے ہیں کہ جس کا زمین سے لگا ہوا حصہ جو Crops cutting Machine (فصل کاٹنے کی مشین) میں نہیں آتا، اور پھر اسے بے کار ، فضول اور ناکارہ ہونے کی وجہ سے آگ لگادی جاتی ہے۔
تو ایسے ہی لوگوں کو اپنی زبانوں سے گھائل کرنے والے لوگ جہنم میں پھینکے جائیں گے۔ اسی طرح ایک وہ مشہور حدیث ہے جو یقینًا آپ نے بہت بار سن رکھی ہوگی، جس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ((مَرَّالنَّبِيُّ بِقَبَرَيْنِ))
’’آپﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے‘‘
((فَقَالَ: إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ))
’’ تو فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں ہو رہا، یعنی ایسے بڑے کام نہیں تھے کہ جن سے بچنا مشکل ہو، یا اللہ کے ہاں وہ بہت بڑے ہوں ۔‘‘
((أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ))
’’ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔‘‘
((أما الآخر فَكَانَ يَمْشِي بالنميمة)) (صحيح البخاري:218)
’’اور جو دوسرا تھا وہ چغلیاں کیا کرتا تھا ۔‘‘
چغلی اور غیبت وغیرہ ایسے کام ہیں کہ دنیا کے اکثر لوگ کہ اگر %99 کہیں تو شاید بے جا نہ ہوگا، ان سے بچ نہیں پاتے مگر اس کے باوجود ہر معاشرے میں اسے برا سمجھا جاتا ہے، لیکن زبان کی کچھ لغزشیں ایسی بھی ہیں کہ جنہیں سرے سے گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا، اُن میں سے ایک ہے لوگوں کو ہنسانا، اور جھوٹی باتوں سے لوگوں کو ہنسانا کتنا بڑا جرم ہے۔ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((وَيْلٌ لِّلَّذِي يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ وَيْلٌ لَهُ ، وَيْلٌ لَهُ)) (ترمذي:2315)
’’ ویل ہے ، ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو باتیں کرتا ہے ، لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لئے افسوس ہے، ہلاکت ہے۔‘‘
یہ بات انسانی معاشرے میں کس قدر عام ہے، سب جانتے ہیں، انفرادی اور عوامی لیول پر بھی یہ برائی لوگوں میں رچی بسی ہوئی ہے اور حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کی سطح پر بھی اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بڑے بڑے خوبصورت نام دیئے جاتے ہیں اور اسے Entertainment کہا جاتا ہے، تفریحی پروگرام کا نام دیا جاتا ہے دل لگی، خوش کی ہنسی مذاق اور لطیفے کہا جاتا ہے، جبکہ حدیث میں اس کی کس قدر شدید وعید بیان کی گئی ہے، وہ آپ نے سن ہی لی ہے۔
دوستوں کی جنسی مذاق کی محفلوں میں، خوشی کے موقعوں پر تقریبات میں، عید ملن پارٹیوں میں ہنسی مذاق کے نام پر کتنے کتنے گھنٹے، کتنا کتنا بڑا جھوٹ بولا جاتا ہے آپ سب جانتے ہیں۔ اور محفل میں موجود ہر آدمی کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے سے بڑھ کر کوئی لطیفہ سنائے کہ جس سے محفل ہنسی سے گونج اٹھے۔ تو ایسا ہنسی مذاق جو جھوٹ پر مبنی ہو ہلاکت اور تباہی کا باعث ہے، ہاں اگر کسی کی بات پر ہنسی مذاق بنتا ہے تو کوئی حرج نہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا:
((يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا))
’’ اے اللہ کے رسول ﷺآپ ہم سے دل لگی کرتے ہیں۔‘‘
((قَالَ: إِنِّي لا أقولُ إِلَّا حَقًّا)) (سنن ترمذی:1990)
’’فرمایا: ہاں میں صرف حق بات ہی کہتا ہوں ۔‘‘
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص آپﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا:
((يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْمِلْنِي))
’’ اے اللہ کے رسولﷺ میرے لئے کوئی سواری کا انتظام فرما دیجئے‘‘
تو آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّا حَامِلُوكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ))
’’ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کروا دیں گے۔‘‘
تو اس نے کہا۔ ((وَمَا أَضْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ))
’’ میں اونٹنی کے بچے کو لے کر کیا کروں گا ؟‘‘
تو آپﷺ نے فرمایا:
((وَهَلْ تَلِدُ الإِبِلَ إِلَّا النَّوْقُّ))
’’تو فرمایا کہ اونٹ کو اونٹنی ہیں جنم دیتی ہے، یعنی ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔‘‘
تو زبان سے سرزد ہونے والے بڑے بڑے گناہوں کا اندازہ آپ کو اس بات سے ہو گیا ہو گا کہ جب جھوٹا مذاق بھی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے تو دوسرے بڑے بڑے گناہوں کا کیا انجام ہوگا۔
زبان کی تباہ کاری کا ایک اس سے بڑا نمونہ بھی ملاحظہ کیجیئے کہ وہ اچھی باتیں جو عمل سے عالی ہوں دو بھی تباہی کا باعث ہوتی ہیں ، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَمَّا هَلَكُو قَصُّوا)) (السلسلة الصحيحة:1681)
’’کہ بنی اسرائیل جب ہلاک ہوئے تو وہ قصے بن گئے ۔‘‘
اس کے دو مفہوم بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب بنی اسرائیل نے عمل کو ترک کر کے وعظ ونصیحت اور قصے کہانیاں بیان کرنے شروع کیے تو وہ ہلاک ہو گئے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب انہوں نے عمل ترک کر دیا تو وہ ہلاک ہو گئے اور پھر ان کے قصے بیان کئے جانے لگے۔ داستانیں بن گئے۔
زبان کے غلط استعمال کی سب سے بڑی زد لوگوں کی عزتوں پر پڑتی ہے اور لوگوں کی عزتوں کی حرمت ان کے خون کی حرمت کے برابر ہے، ان کے مال کی حرمت کے برابر ہے اور مکہ المکرمہ کی حرمت کے برابر ہے، جیسا کہ خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ ﷺنے فرمایا:
((فَإِنَّ دِمَاءَ كُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ كَحَرْمَةِ یوْمِكُمْ هَذَا ، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا)) (بخاري . كتاب العلم:67)
’’یقینًا تمھارے خون ، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں تمھارے درمیان حرام ہیں ، تمھارے آج کے دن تمھارے اس مہینے اور تمھارے اس شہر کی حرمت کی طرح بلکہ بندۂ مؤمن کی حرمت کعبتہ اللہ کی حرمت سے بھی بڑھ کر ہے،‘‘
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کعبۃ اللہ کی طرف دیکھ کر فرمایا:
((مَا أَعْظَمَكِ ، وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكَ ، وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ الله منك)) (ترمذي:2032)
’’تو کتنا عظیم ہے، تیری حرمت کتنی عظیم ہے مگر مؤمن کی حرمت اللہ تعالی کے ہاں تیری حرمت سے بڑھ کر ہے۔‘‘
مگر ہم ایک دوسرے کی عزت کی حرمت کا لحاظ کہاں تک کرتے ہیں ہم سب خوب جانتے ہیں، اگر ہم کسی کو بیت اللہ کی بے حرمتی کرتے دیکھیں تو ہم میں سے ہر ایک کا ردعمل کیا ہوگا، جو سب سے کمزور رد عمل ہوگا وہ اس عمل کی مذمت ہوگا، مگر مسلمانوں کی عزت سر بازار اچھائی جاتی ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رکھتی کیونکہ یہ ہمارا اپنا بھی معمول ہے۔
عوام میں لوگوں کی طرف سے جو ایک دوسرے کی عزت اچھالی جاتی ہے وہ اپنی جگہ مگر کمرشل میڈیا، سوشل میڈیا اور جلسوں اور جلوسوں میں جو لوگوں کی عزت کو تار تار کیا جاتا ہے، نہ دنیا کے کسی قانون کا ڈر ہے اور نہ آخرت کے عذاب و عقاب کا خوف، حالانکہ آخرت کے ہلکے سے ہلکے عذاب کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی زبانوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

……………..