زبان کی حفاظت

الحمد لله العليم الخبير، يعلم خائنة الأعين وما تخفي الصدور، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، أحمده سبحانه وأشكره على ترادف آلائه، وأشهد أن لا إله إلا الله، وحده لا شريك له في توحيده وصفاته وأسمائه، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله المصطفى من العالمين. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد الناصح الأمين وعلى آله وأصحابه والتابعين لهم بإحسان إلى يوم الدين:
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے آنکھوں کی چوری تک جانتا اور دل کی چھپی بات سے بھی باخبر ہے اس کی بادشاہی ہے اور اس کے لئے تعریف ہے اور وہی ہر چیز پر قادر بھی ہے اللہ سبحانہ کی بے پایاں نعمتوں پر میں اس کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کی وحدانیت اور اس کے اسماء و صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں، ساتھ ہی یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد – صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ الہی! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے آل و اصحاب پر نیز ان کی سچی پیروی کرنے والوں پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ سے ڈرو اس کے احکام مانو اور نافرمانی سے بچو اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام و اوامر کی اتباع کا حکم دیا ہے اور ناراضگی و غضب کے کاموں سے بچنے اور اعضاء و جوارح کو گناہوں سے محفوظ رکھنے کی تلقین کی ہے اس کا حکم ہے کہ ہم اپنے کان، نگاہ، زبان اور جملہ اعضاء و جوارح کو حرام کاموں سے بچائیں اور انہی کاموں میں انہیں استعمال کریں جو ہمارے دین ودنیا کے لئے بہتر اور مفید ہوں۔ اللہ تعالی کے بارے میں از راہ بے دانٹی کچھ کہنے کذب وافتراء مسلمانوں کی عیب جوئی یا ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے لئے نہ استعمال کریں۔ یہ بدسلوکی خواہ ان کی پردہ دری کی شکل میں ہو یا آبروریزی کی شکل میں ان کا جانی مالی نقصان پہنچا کر ہو یا حقوق کی پامالی کر کے۔
اعضاء وجوارح میں سب سے خطر ناک اور دین کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ زبان ہے۔ زبان ایک ایسا عضو ہے جو خیر و ہدایت اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے کلمات ادا کر کے آدمی کو محبت و مودت اور بخشش و مغفرت کا مستحق بنا دیتی ہے لیکن ضلالت و گمراہی اور نافرمانی کے جملے نکال کر شر و شقاوت اور غضب الہی میں مبتلا بھی کر دیتی ہے، کتنے نیک کلمات رضائے الہی کا ذریعہ ہوتے ہیں جبکہ کتنے برے جملے عتاب و عقاب کا سبب بن جاتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(إن الرجل ليتكلم بالكلمة من رضوان الله ما يظن أن تبلغ ما بلغت، يكتب الله له بها رضوانه، وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله لا يظن أن تبلغ ما بلغت، يَهْوِي بِها فِي النَّار أبعد مما بين المشرق والمغرب) [یہ حدیث صحیح بخاری کتاب الرقاق (6478) میں ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مروی ہے، دیکھئے: ’’خطبہ مردوزن کے اختلاط سے ممانعت‘‘]
’’آدمی اللہ کی رضا و خوشنودی کا کوئی ایسا کلمہ اپنی زبان سے ادا کرتا ہے جس کی اہمیت نہیں سمجھ پاتا اور اللہ تعالٰی اس کلمہ کی بدولت اس کے حق میں اپنی خوشنودی لکھ دیتا ہے اور ایک آدمی اللہ کے غضب کا کوئی جملہ کہہ جاتا ہے جس کی حقیقت پر غور نہیں کرتا اور اس کے نتیجہ میں جہنم میں اتنی دور جاگرتا ہے جو آسمان اور زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:
(إذا أصبح ابن آدم فإن أعضاءه تكفر للسان، تقول: اتق الله فينا، فإنك إن استقمت استقمنا، وإن اعوججت اعوججناه) [مسند احمد:22/3 (11908) و جامع ترمذی: ابواب الزهد، باب حفظ اللسان (2531)]
’’انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے اعضائے جسمانی عاجزی کے ساتھ زبان سے کہتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں تو اللہ سے ڈرتی رہ کیونکہ اگر تو سیدھی رہے تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب ٹیڑھے ہو جائیں گے۔‘‘
ایک اور مقام پر آپﷺ نے فرمایا:
(اضمَنُوا لي ستا من أنفسكم أضمن لكم الجنَّةَ، اصدقُوا إِذَا حدثتم، وأدوا إذا اؤتمنتم، وأوفوا إذا وعدتم، واحفظوا فُرُوجَكُم، وغَضوا أبصاركم، وَكُفُوا أَيدِيكُم) [مسند احمد: 323/5 (22821)]
’’تم اپنے نفسوں پر چھ باتوں کا ذمہ لے لو تو میں تمہارے لئے جنت کا ذمہ لیتا ہوں۔ وہ با تیں یہ ہیں کہ جب بات کرو تو سچ بولو۔ امین بنائے جاؤ تو امانت کا حق ادا کرو۔ وعدہ کرو تو نبھاؤ۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔ نگاہیں نیچی رکھو اور ہاتھوں کو (ظلم و زیادتی سے) روکے رکھو۔‘‘
نیز فرمایا:
(عَلَيْكُم بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصَّدْقَ يَهْدِي إِلَى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا، وإياكم والكذب، فإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وما يزالُ الرَّجُلُ يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذاب)[صحیح مسلم، کتاب البر، باب قبح الکذب و حسن الصدق (2607) و مسند احمد: 383/1 (3638)]
’’تم سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ سچائی نیکی کی راود کھاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے آدمی ہمیشہ سچ بولتا اور سچ کی جستجو میں لگارہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنے سے بچو کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں داخل کر دیتا ہے آدمی ہمیشہ جھوٹ بکتا اور جھوٹ کے پیچھے لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے یہاں وہ جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
اللہ کے بندو! قوت ایمانی کی ایک علامت یہ ہے کہ آدمی سب وشتم گالی گلوج، بخش گوئی و بدکلامی اور لعن و طعن سے دور رہے جیسا کہ رسول صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
(لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بالطعان، ولا اللعان، ولا الفاحش، ولا البذي) ‎[اس حدیث کا حوالہ گذر چکا ہے دیکھئے: خطبہ "نفس سے جہاد کرتا]
’’مومن طعنہ زن نہیں ہوتا لعنت گر نہیں ہوتا، فخش گو نہیں ہوتا اور بدزبان نہیں ہوتا۔ اللہ کے مومن بندوں کی شان میں بد کلامی اور ایذارسانی دین کی کمی، عقل و مروت کے فقدان اور بد اخلاقی کی دلیل ہے لہذا ان چیزوں سے بچو جو دین کے لئے نقصان دہ، عقل و مروت کے لئے قادح اور اخلاق کے لئے باعث عیب ہوں زبان کی سب سے خطر ناک آفت چغلخوری ہے جو بگاڑ پیدا کرنے کی نیت سے ایک شخص کی بات دوسرے تک پہنچائی جاتی ہے؟ چغلخوری ایک ایسی خطرناک چیز ہے جو بغض و حسد پیدا کرتی ہے احباب واقارب کے درمیان تفریق ڈالتی ہے اور معاشرہ کے اندر عداوت و دشمنی اور منافرت پھیلاتی ہے۔ ایسے کتنے واقعات ہیں کہ چغلخوری نے دو صاف دل دوستوں کو جدا کر دیا۔ کتنے رشتے ناطے توڑ دیئے ان کے مابین موجود تعلقات اور الفت و محبت کو پامال کر کے رکھ دیا اور معاشرہ میں بگاڑ اور رنجش کا سبب بنی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ’’حالقہ‘‘ (مونڈنے والی) قرار دیا ہے جو ہر خیر کا استیصال کرتی اور شر کو دعوت دیتی ہے اس کے نتیجہ میں بڑے بڑے گناہ جہنم لیتے ہیں روحانیت کا خاتمہ ہوتا ہے اور قبیلے اور جماعتیں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتی ہیں۔ چغلخور کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید فرمائی ہے اور اسے بدترین لوگوں میں شمار کیا ہے فرمایا:
(خيار عبادِ اللهِ الَّذِينَ إِذا رُؤُوا ذكر الله، وشرار عباد الله المشاؤون بالنميمة، المفرقون بين الأحبة، الباعون للبرآء العنت) [مسند احمد: 227/4 (18020)]
’’اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آجائے اور بدترین لوگ وہ ہیں جو چغلخوری کرنے والے دوستوں کے مابین تفریق ڈالنے والے اور بری و پاکدامن لوگوں کو مشقت و پریشانی میں مبتلا کرنے والے ہیں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(وَتَجِدُون شر الناس ذا الوجهين الذي يأتي هؤلاء بوجه ويأتي هؤلاء يوجه) [صحیح بخاری: کتاب المناقب باب اول (3494) صحیح مسلم: کتاب البر، باب ذم في الوجهين (2603)]
’’سب سے بدترین اس شخص کو پاؤ گے جو دو رخا ہو، جو اس کے پاس ایک منہ لے کر آتا ہے اور دوسرے کے پاس دوسرا منہ لے کر۔‘‘
ایسے شخص کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں فریق سے قربت حاصل کرلے اور دونوں کو علیحدہ طور پر اپنی حمایت و تائید کا یقین دلا دے پھر ان سے ایک دوسرے کی باتیں بتائے جس سے ان کے درمیان نفرت و عداوت بڑھے، ظلم و زیادتی میں اضافہ ہو، بغض و حسد کی جڑیں مضبوط ہوں اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور ایک شخص کے بارے میں ان سے کچھ بیان کرنے لگا حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کہو تو ہم خود تمہیں دیکھیں اگر تم جھوٹ کہہ رہے ہو تو اس آیت کریمہ کے حکم میں ہو:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوْا﴾ (الحجرات:6)
’’اے مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو۔‘‘
اور اگر تم سچے ہو تو اللہ کے اس قول کے مصداق ہو:
﴿هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيْمٍ﴾ (القلم:11)
’’طعن آمیز اشارتیں کرنے والا، چغلیاں لئے پھرنے والا (یعنی ایسے لوگوں کی بھی بات نہ مانو)‘‘
اور تیسری صورت تمہاری یہ ہو سکتی ہے کہ اگر کہو تو تمہیں معاف کر دیا جائے اس شخص نے التجا کی یا امیر المؤمنین! مجھے معاف ہی کر دیا جائے اب کبھی ایسی حرکت نہ کروں گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی خبر دی ہے کہ چغلخور کو قبر میں عذاب ہوتا ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو فرمایا:
(إِنَّهُمَا يُعَذِّبَانِ، وَمَا يُعَذِّبَانِ فِي كَبِيرٍ، على إنه كبير، أما أحدهما فكان يمشي بالنميمة، وأما الآخر فكان لا يستتر من بوله)
[صحیح بخاری میں یہ حدیث ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مختلف مقامات پر مروی ہے دیکھئے: کتاب الوضوء (216) کتاب الجنائز (1361) کتاب الادب (6055٬6052) نیز دیکھئے: صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول و وجوب الاستبراء منه (293)]
ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور (لوگوں کے گمان کے مطابق) یہ کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں دیئے جارہے ہیں حالانکہ وہ در حقیقت بڑے گناہ ہیں ایک کو تو اس وجہ سے عذاب ہو رہا ہے کہ دنیا میں لوگوں کی چغلخوری کیا کرتا تھا اور دوسرا اس وجہ ہے کہ پیشاب (کے چھینٹوں) سے نہیں بچتا تھا۔‘‘
بندگان الٰهی! لہذا اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کرو گناه و معصیت کے کاموں سے دور رہو اور اس کی ناراضگی کے اسباب سے بچنے اور درد ناک عذاب سے چھٹکارا پانے کی فکر کرو اللہ سے ڈرو اور قطع رحم سے بچو، ساتھ ہی اپنے کان نگاه زبان اور دیگر اعضاء و جوارح کی حفاظت کرو کیونکہ بروز قیامت ان سب کے بارے میں باز پرس کی جائے گی ارشاد الہی ہے:
﴿إنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولاً﴾ (الاسراء:36)
’’یقیناً کان نگاہ اور دل ان سب کے بارے میں سوال ہوگا۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب، فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم.
خطبه ثانیه
الحمد لله الولي الحميد، غافر الذنب وقابل التوب، شديد العقاب ذي الطول، لا إله إلا هو إليه المصير، أحمده سبحانه وأشكره، وأشهد أن لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله . اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وأصحابه:
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو مومنوں کا دوست خوبیوں والا گناہ بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور بڑا فضل کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جاتا ہے میں اللہ سبحانہ کی حمد و ثنا بیان کرتا اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندہ ورسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
بندگان الہی! اپنے رب سے ڈرو اس کے احکام کی پابندی کرو، منہیات سے بچو اور مومنوں کو تکلیف پہنچانے سے بازر ہو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایذا رسانی سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠۝۵۸﴾ (الاحزاب: 58)
’’جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام کی تہمت سے جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔‘‘
مومنوں کی عزت و آبرو پر عیب لگانا قیامت کے دن نیکیوں کے ضائع ہو جانے کا سبب ہے۔ اور سب سے بڑے خسارے میں وہ شخص ہے جو قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کی ساری نیکیاں ضائع ہو چکی ہوں گی چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
(ما تعدون المفلس فيكم ؟ قَالُوا: من لا درهم له ولا متاع . فقال صلى الله عليه وسلم: إن المفلس الذي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وصدقة، ويأتي وقد ظلم هذا، وضرب هذا . وشتم هذا، وأخذ مال هذا، فيأخذ هذا من حسناته، وَهَذَا مِن حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته أخذ من سيئاتهم فألقيت عليه، ثم طرح في النار) [یہ حدیث صحیح مسلم، کتاب البر، باب تحریم الظلم (2581) نیز مسند احمد 303/2 (8035) و 334/2 (8322) 372/20 (8851) میں ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔]
’’یعنی اے صحابہ! مفلس تم کسے جانتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس روپے پیسے اور سامان نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: مفلس در حقیقت وہ ہے جو قیامت کے دن نماز روزہ اور صدقات و خیرات لے کر حاضر ہو گا لیکن اس حال میں کہ دنیا کے اندر اس نے کسی پر ظلم کیا ہو گا کسی کو ناحق مارا ہو گا کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی کا ناجائز مال لیا ہو گا، تو ان میں سے ہر ایک اس کی نیکیوں میں سے اس کے ظلم کے بقدر نیکیاں لے لے گا اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس پر لاد دیئے جائیں اور پھر ان گناہوں کے ساتھ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
اللہ کے بندو! لہذا اللہ سے ڈرو اور درست بات زبان سے نکالو رب تعالی تمہارے اعمال درست فرمادے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔