زبان کی خطرناکی

ارشا در بانی ہے: ﴿مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ) (سورہ ق آیت:18)

ترجمہ: (انسان ) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔

عَنْ سَهْلِ بْن سَعدٍ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ : مَنْ يَضْمَنُ لِي مَا بَيْنَ لِحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنُ لَهُ الجَنَّةَ ، (أخرجه البخاري)

(صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان وقول النبي من كان.)

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے لئے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں پاؤں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی حفاظت کی ذمہ داری لے لے تو میں اس کے لئے جنت کی ذمہ داری لے لوں گا۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: إن العبد ليتكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ يَنزِلُ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَيْنَ المَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ. (متفق عليه)

(صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان وقول النبيﷺ من كان، صحيح مسلم: كتاب الزهد والرقائق، باب حفظ اللسان.)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سے مروی ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے مگر اس کے متعلق سوچتا نہیں ( کہ کتنی کفر اور بے ادبی کی بات ہے) جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گر پڑتا ہے جتنی کہ پچھم سے پورپ دور ہے۔

وَعَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أخْبِرْنِي عَنْ بِعَمَلٍ يُدْخِلْنِي الجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ، قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتِي عَنْ عظِيمٍ وَإِنَّهُ لَيَسِيرُ عَلَى مَن يَسْرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا وتُقِيمُ الصَّلاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُبُّ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الخَيرِ الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِي الخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِي المَاءِ النَّارَ، وَصَلاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيلِ، قَالَ : ثُمَّ ﴿تَلَا تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ المَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُم خوفاً وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ۔ فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ثُمَّ قَالَ: الا أُخْبِرُكُمْ بِرَأْسِ الأَمْرِ كُلَهُ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سِنَامِهِ ۚ قُلتُ : بَلَى يَا رَسُولَ الله، قَالَ : رَأْسُ الأَمْرِ الإسلام وَعَمُودُهُ الصَّلاةَ وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الجِهَادُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ ؟ قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ قال: فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ: كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا، فَقُلْتُ: يَا نَبِيُّ اللَّهِ، وَإِنَّا لمؤاخذونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: ثكِلَتكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذَ، وَهَلْ يَكُبُ الناس في النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِم أَو عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ السنتهم؟ . (أخرجه الترمذي).

(سنن ترمذی، ابواب الإيمان عن رسول الله باب ماجاء في حرمة الصلاة، وقال حسن صحيح

ح (2616)، وصححه الألباني في صحيح سنن ابن ماجه (3973)

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں اور جہنم مجھ سے دور ہو جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک تم نے بہت بڑی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے لیکن اس کے لئے آسان ہے جس کے لئے اللہ تعالی آسان کر دے۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کردہ نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں خیر کے دروازے (کیا کیا ہیں) کے بارے میں نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو بجھا دیتی ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتی ہے، اور آدمی کا رات کے حصہ میں نماز پڑھنا۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ، فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (سورہ سجدہ: آیت: 16،17)

(ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔

پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں دین کی بنیاد، اس کے کھمبے اور اس کے کوہان کی بلندی کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تو میں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا: دین کی بنیاد اسلام ہے، اس کا کھمبا نماز ہے اور اس کی کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جس پر ان ساری چیزوں کا دارو مدار ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا: اس کو رو کے رکھو، تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا اس پر ہمارا مواخذہ ہوگا جو کچھ باتیں ہم اپنی زبان سے نکالتے ہیں؟ آپ نے کہا اے معاذ! تجھے تیری ماں گم کرے، لوگوں کی زبانوں نے جو کچھ کاتا ہے اسی وجہ سے لوگ اوندھے منہ یا نتھنے کے بل جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔

تشریح:

انسان کی زبان کے دو پہلو ہیں ایک اچھائی دوسری برائی ۔ اچھائی اس اعتبار ہے کہ اگر وہ نیکی، بھلائی اور دینی کاموں میں استعمال کی گئی تو وہ جنت میں جانے کا سبب بنے گی۔ برائی اس اعتبار سے ہے کہ اگر اسے برے کاموں میں استعمال کیا گیا تو اس کی وجہ سے انسان جہنم رسید ہوگا ۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کریں وہ چھوٹی ضرور ہے لیکن بہت ہی خطرناک ہے اس کی وجہ سے کافی لوگ جہنم میں جائیں گے۔ اللہ تعالی ہمیں زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق دے۔

فوائد:

٭ زبان سے غیر مناسب الفاظ کی ادائیگی جہنم میں جانے کا سبب ہے۔

٭ زبان کی حفاظت جنت میں جانے کا سبب ہے۔

٭ زبان کو لا یعنی باتوں میں استعمال کرنا ممنوع ہے۔