ظاہری عمل پر حکم لگانا اور باطن اللہ کے سپرد کرنا ضروری ہے

203۔سیدنا  ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے یمن سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں صاف کردہ چمڑے میں تھوڑا سا سونا بھیجا جو ابھی مٹی سے علیحدہ نہیں کیا گیا تھا۔ آپ نے اسے چار اشخاص عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیل اور چوتھے علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل میں تقسیم کر دیا۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا: ہم ان لوگوں سے اس سونے کے زیادہ حق دار تھے۔ نبی ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا:

((أَلَا تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينٌ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً). (أخرجه البخاري:4351، ومُسْلِمٌ:1064 (144)

’’تم لوگ مجھ پر اعتماد نہیں کرتے، حالانکہ اس پر وردگار کو مجھ پر اعتماد ہے جو آسمانوں پر ہے اور صبح ز شام میرے پاس آسمانی خبر آتی رہتی ہے۔‘‘

 اس دوران میں ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئیں، رخسار پھولے ہوئے، پیشانی ابھری ہوئی، گھنی ڈاڑھی، سرمنڈا اور اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے ڈریں۔

آپ نے فرمایا: ((وَيْلَكَ أَوَ لَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَّتَّقِ الله))

’’تو ہلاک ہو جائے! کیا میں روئے زمین کے لوگوں میں اللہ سے ڈرنے کا زیادہ حق دار نہیں ہوں؟‘‘

 پھر وہ شخص چلا گیا تو سیدنا خالد بن ولید رضی  اللہ تعالی عنہ نے عرض کی:  اللہ کے رسول! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ((لا، لَعَلَّهُ أَنْ يَّكُونَ يُصَلِیْ))

’’نہیں، شاید وہ نماز پڑھتا ہوگا۔‘‘

سیدنا  خالد رضی اللہ تعالی  عنہ نے کہا:  بہت سے نمازی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ منہ سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ قُلُوبَ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَهُمْ))

’’مجھے کسی کے دل ٹولنے یا پیٹ چیرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔‘‘

پھر آپﷺ نے اس شخص کی طرف دیکھا جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر جارہا تھا اور فرمایا:

((إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيءِ هٰذَا قَوْمٌ يَّتْلُونَ كِتَابَ اللهِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ))

’’یقینا اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ کتاب اللہ کی تلاوت سے ان کی زبانیں تر ہوں گی، حالانکہ وہ (کتاب) ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گی۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے پار نکل جاتا ہے۔‘‘

آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا:  ((لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ))

’’اگر میں انھیں پاؤں تو انھیں قوم ثمود کی طرح قتل کروں۔ ‘‘

204۔سیدنا فرات بن حیان رضی اللہ تعالی عنہ (اپنے متعلق) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس کے قتل کاحکم دیا تھا جبکہ وہ ابو سفیان کا جاسوس اور حلیف تھا۔ وہ انصاری ایک جماعت کے پاس سے گزرا اور کہا:  بے شک میں مسلمان ہوں۔ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((إِِنَّ مِنْكُمْ رِجَالًا نَكِلُهُمْ إِلٰى إيمَانِهِمْ، مِنْهُمْ قُرَاتُ بْنُ حَيَّانَ))

’’تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ہم انھیں ان کے ایمان کے سپرد کر دیتے ہیں، ان میں سے فرات بن حیان بھی ہے۔ ‘‘

توضیح و  فوائد: شرعی احکام کا اطلاق ظاہر پر ہوتا ہے۔ دل کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے۔ ظاہری طور پر اگر کوئی اسلام کا اظہار کرتا ہے تو اسے مسلمان ہی تصور کیا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص شرعی حدود کو پامال کرتا ہے تو اُسے سزا دی جائے گی اس کے باطن کو نہیں دیکھا جائے گا۔

(أَخْرَجَهُ أحمد:  18965، وأبو داود: 2652)

…………..