زکوٰۃ و صدقات کی اہمیت، فضلیت اور فرضیت
===============
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ [آل عمران : 92]
تم پوری نیکی ہر گز حاصل نہیں کرو گے، یہاں تک کہ اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والاہے۔
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا قیمتی باغ وقف کردیا
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : ’’یا رسول اللہ ! میری جائداد میں سے مجھے سب سے محبوب ’’بَيْرُحَاء‘‘ باغ ہے (جو عین مسجد نبوی کے سامنے تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا نفیس پانی پیا کرتے تھے) اور اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ » سو میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں، آپ اس کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرما دیں۔‘‘ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الأقارب … : ۱۴۶۱، مختصرًا ]
عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بہترین زمین اللہ کی راہ میں وقف کر دی
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول! مجھے خیبر میں سے جو حصہ ملا ہے اس سے بڑھ کر نفیس مال مجھے آج تک حاصل نہیں ہوا، میں نے ارادہ کیا ہے کہ اسے صدقہ کر دوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اصل اپنے پاس رکھو اور اس کے پھل کو اللہ کے راستے میں تقسیم کر دو۔‘‘ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے وقف کر دیا۔ [ بخاری، الشروط، باب الشروط فی الوقف : ۲۷۳۷۔ ابن ماجہ :۲۳۹۶، ۲۳۹۷ ]
نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں
إن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، كان إذا اشتد عجبه بشيء من ماله قربه لربه. [طبقات ابن سعد ١٦٦/٤]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے مال میں سے جو چیز بہت زیادہ اچھی لگتی تو وہ اسے اپنے رب کے راستے میں قربان کر دیتے
مرنے کے بعد دوبارہ اٹھ کر صدقہ کرنے کی تمنا کیوں
قرآن میں ہے
وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ [المنافقون : 10]
اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمھیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے، پھر وہ کہے اے میرے رب! تونے مجھے قریب مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا۔
یہاں ایک عالم نے بہت لطف کی بات کی ہے کہتے ہیں مرنے والا دوبارہ اٹھنے اور دنیا میں آنے کے ساتھ خاص صدقے کی تمنا ہی کیوں کرے گا ❓
اس لیے کہ وہ دیکھ چکا ہوگا کہ صدقے کی اس کے رب کے ہاں کتنی فضیلت اور اہمیت ہے
زکوٰۃ، اسلام کا بنیادی رکن ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة والحج وصوم رمضان [بخاري 8]
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا
زکوٰۃ کے منکر کے خلاف قتال کرنے کا حکم*
ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
«أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاَةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ» [بخاري 25]
مجھے ( اللہ کی طرف سے ) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ ( رہا ان کے دل کا حال تو ) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔
منکرین زکوٰۃ کے خلاف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سخت ترین موقف
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا
وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ [بخاري 7285]
واللہ ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے ‘ واللہ اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکارپر بھی جنگ کروں گا ۔
زکوٰۃ، مال کو پاک کرتی ہے
زکوٰۃ کا لفظی معنی ہی پاک کرنا ہے یعنی جس مال سے زکوٰۃ ادا کر دی جائے تو وہ مال پاک صاف ہوجاتا ہے اور فتنوں اور نقصانات سے بچ جاتا ہے
جیسے کنویں سے پانی نہ نکالا جائے تو خشک یا بدبودار ہو جاتا ہے
گاڑی کو چلایا نہ جائے تو خراب ہو جاتی ہے
مکان میں رہائش نہ رکھی جائے تو بوسیدہ ہوجاتا ہے
ایسے ہی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے تو مال متعفن ہوکر فتنہ بن جاتا ہے
مفت میں چالیس روپے دینے والا ایک روپیہ واپس مانگ لے تو انکار کی گنجائش نہیں بنتی
چالیس روپے دے کر دینے والا ایک روپیہ واپس مانگ لے تو انکار بنتا نہیں ہے
اور اگر وہ کہے کہ یہ ایک روپیہ بھی ایک وقت آنے پر پورا پورا واپس کردیا جائے گا پھر تو بالکل ہی انکار نہیں بنتا
اور اگر وہ یہ کہہ دے کہ یہ ایک روپیہ سات سو روپے بنا کر واپس کروں گا پھر تو انکار کرنے والے سے بڑا بےوقوف کوئی نہیں ہوگا
زکوٰۃ کا مسئلہ بالکل یہی ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں چالیس روپے دے کر ایک کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں
اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایک بھی پورا پورا واپس مل جائے گا
فرمایا
وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ [الأنفال :60]
اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
صرف پورا پورا ہی نہیں بلکہ اسے سات سو گناہ تک بڑھا کر دے گا
فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ ﷲُ
[ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم : 1638]
’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے
=٪=============
اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا ہلاکت ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [البقرة : 195]
اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
غیر شرعی طریقے سے مال جمع رکھنے والے کے لیے ہلاکت ہے
وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [الهمزة : 1]
بڑی ہلاکت ہے ہر بہت طعنہ دینے والے، بہت عیب لگانے والے کے لیے۔
الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ [الهمزة : 2]
وہ جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا ۔
يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ [الهمزة : 3]
وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
اور فرمایا
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ [التكاثر : 1]
تمھیں ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص نے غافل کر دیا۔
حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ [التكاثر : 2]
یہاں تک کہ تم نے قبرستان جا دیکھے۔
مال جمع کرنے اور اس میں سے اللہ کا حق ادا نہ کرنے والے قارون کا عبرتناک واقعہ
قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا اور اپنی قوم کے خلاف فرعون کا ساتھی بنا ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے قارون کو اتنے خزانے دیے تھے کہ جن سے بھرے ہوئے کمروں کے تالوں کی چابیاں ایک قوت والی جماعت پر اٹھانے میں بھاری تھیں
بنی اسرائیل کے نیک بزرگ اور عالم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے دولت دی ہے تو اپنے آپ میں رہ، اسے اللہ کی نافرمانی میں خرچ مت کر اور پھول مت جا، اللہ تعالیٰ پھول جانے والوں سے محبت نہیں کرتا۔اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس میں آخرت کا گھر تلاش کر اور دنیا سے اپنا حصہ مت بھول اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے
اس نے کہا اللہ کا مجھ پر کوئی احسان نہیں، یہ سب کچھ تو مجھے صرف اس علم کی وجہ سے دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔ یہ اس طرح کی بات ہے جیسے آج کل کے دہر یہ سائنس دان کہتے ہیں کہ ہماری تمام تر ترقی ہمارے علوم کی وجہ سے ہے، اللہ تعالیٰ کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ یہ عقل، ذہانت اور مہارت عطا کرنے والا کون ہے؟
اللہ تعالیٰ کو اس کے تکبر کے اس مظاہرے پر ایسی غیرت آئی کہ اس نے اسے اور اس کے گھر کو جس میں اس کے اہل و عیال، نوکر چاکر اور خزانے تھے، سب کو زمین میں دھنسا دیا۔
سونے اور چاندی سے زکوٰۃ نہ دینے کا نقصان
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ [التوبة : 34]
اور جو لوگ سونا اور چاندی خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری دے دے۔
يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [التوبة : 35]
جس دن اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوئوں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے جو تم نے اپنے لیے خزانہ بنایا تھا، سو چکھو جو تم خزانہ بنایا کرتے تھے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’کوئی بھی شخص جو سونے یا چاندی کا مالک ہو، اس سے اس کا حق ادا نہ کرے، اس کے لیے قیامت کے دن آگ سے (اس سونے یا چاندی کی) سلاخیں یا تختے بنائے جائیں گے، پھر جہنم کی آگ میں انھیں خوب گرم کرکے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو انھیں دوبارہ گرم کر لیا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے، تو وہ جنت یا آگ کی طرف اپنا راستہ دیکھے گا۔‘‘
[ مسلم، الزکاۃ، باب إثم مانع الزکاۃ : 987/24 ]
جانوروں سے زکوٰۃ نہ دینے کا نقصان
ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ فرمارہے تھے۔
” وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ ". أَوْ كَمَا حَلَفَ ” مَا مِنْ رَجُلٍ تَكُونُ لَهُ إِبِلٌ أَوْ بَقَرٌ أَوْ غَنَمٌ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا، إِلَّا أُتِيَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا تَكُونُ وَأَسْمَنَهُ، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، كُلَّمَا جَازَتْ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ ” [بخاري 146]
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا ( آپ نے قسم اس طرح کھائی ) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپ نے قسم کھائی ہو ( اس تاکید کے بعد فرمایا ) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا۔ دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازہ کرکے۔ پھر وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی اور سینگ مارے گی۔ جب آخری جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا۔اور اسے اپنے سینگ مارے گا اور کھروں سے روندے گا ) اس وقت تک ( یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا ) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں سے رحمت کی بارش روک دی جاتی ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا [ابن ماجہ 4019]
جب وہ اپنے مالوں کی زکاۃ دینا بند کرتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے۔
=================
خرچ کرنے کے فوائد
سخی اور بخیل کے لیے فرشتوں کی دعائیں
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا : اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الْآخَرُ : اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا ". [بخاري 1442]
کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! ممسک اور بخیل کے مال کو تلف کردے۔
سب سے بہترین آدمی اور سب سے بدترین آدمی
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ مَنْزِلًا ؟ ” قُلْنَا : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” رَجُلٌ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، حَتَّى يَمُوتَ أَوْ يُقْتَلَ.
وَأُخْبِرُكُمْ بِالَّذِي يَلِيهِ ؟ ” قُلْنَا : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” رَجُلٌ مُعْتَزِلٌ فِي شِعْبٍ ، يُقِيمُ الصَّلَاةَ وَيُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَيَعْتَزِلُ شُرُورَ النَّاسِ.
وَأُخْبِرُكُمْ بِشَرِّ النَّاسِ ؟ ” قُلْنَا : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” الَّذِي يُسْأَلُ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يُعْطِي بِهِ ". [نسائی 2569]
کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ لوگوں میں سے بہترین رتبے والا کون شخص ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! (ضرور بتائیں!) آپ نے فرمایا: ’’وہ آدمی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنا گھوڑا لیے پھرتا ہے حتیٰ کہ اسے موت آجاتی ہے یا وہ شہید ہو جاتا ہے۔ اور میں تمھیں وہ شخص بتاؤں جو اس کے قریب ہے؟‘‘ ہم نے کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’وہ شخص جو کسی پہاڑ کی گھاٹی میں علیحدہ رہتا ہے، نماز قائم کرتا ہے، زکاۃ ادا کرتا ہے اور لوگوں کے شر سے علیحدہ رہتا ہے،نیز بتاؤں، بدترین شخص کون ہے؟‘‘ ہم نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’جو اللہ کے نام پر خود تو (لوگوں سے) مانگے، لیکن اس کے نام پر (کسی کو) نہ دے۔‘‘
سخي پر اللہ تعالیٰ خرچ کرتا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
” قَالَ اللَّهُ : أَنْفِقْ يَا ابْنَ آدَمَ، أُنْفِقْ عَلَيْكَ ". [بخاري 5352]
اے ابن آدم ! تو خرچ کر تو میں تجھ کو دیئے جاؤں گا ۔
جو بھی خرچ کرو گے پورا پورا واپس مل جائے گا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ [الأنفال :60]
اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ صدقے کو بڑھاتا ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ [البقرة : 276]
اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ایسے شخص سے محبت نہیں رکھتا جو سخت نا شکرا، سخت گناہ گار ہو۔
چھوٹا سا صدقہ گھوڑی کے بچے کی طرح بڑھتا بڑھتا پہاڑ بن جاتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاک مال ہی کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح پالتا پوستا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ صدقہ (بڑھ کر) پہاڑ کی طرح ہو جاتا ہے۔‘‘
[بخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب : ۱۴۱۰۔ مسلم : ۱۰۱۴، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]
ایک بیج سے اگنے والے خوشے کی مثال
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ [البقرة : 261]
ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، ایک دانے کی مثال کی طرح ہے جس نے سات خوشے اگائے، ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والاہے۔
ایک اونٹنی کے بدلے 7 سو اونٹنیاں
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے روایت کی، کہا:
جَاءَ رَجُلٌ بِنَاقَةٍ مَخْطُومَةٍ، فَقَالَ : هَذِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعُمِائَةِ نَاقَةٍ كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ ". [مسلم 1892]
ایک شخص اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے آیا اور کہنے لگا: یہ اللہ کی راہ (جہاد) میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں اس کے بدلے میں قیامت کے دن سات سو اونٹنیاں ملیں گی اور سبھی نکیل سمیت ہوں گی۔”
صدقہ ٹالتا ہے رب تعالیٰ کے غصے اور بری موت کو
نس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ ” [ترمذي 664]
‘صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتاہے اور بری موت سے بچاتاہے’
نوٹ:( حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے ) (سندمیں حسن بصری مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے، اورعبداللہ بن عیسیٰ الخزارضعیف ہیں لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجودہیں دیکھئے الصحیحۃ رقم:۱۹۰۸)
صدقہ سے علاج کا حیرت انگیز واقعہ
ذہبی رحمہ اللہ نے ابن شقیق سے روایت کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن المبارک سے ایک آدمی کے بارے میں سنا جو ان سے اپنے عارضہ کے بارے میں پوچھتے ہیں جو سات سالوں سے گھٹنے میں لاحق تھا اور مختلف قسم کا علاج کراچکا تھا اورمختلف قسم کے اطباء سے پوچھا مگر ان لوگوں کی کوئی دوا کام نہ آئی تو اس سے ابن المبارک نے کہا کہ جاؤ اور ایک ایسی جگہ کنواں کھودو جہاں لوگ پانی کے لئے محتاج ہوں ، مجھے امید ہے کہ وہاں سے چشمہ نکلے گا تو تیرے قدم سے بہنے والا خون رک جائے گا،اس آدمی نے ایسا ہی کیا اور اللہ کے حکم سے وہ ٹھیک ہوگیا۔ (سير أعلام النبلاء 8/ 408)
صدقہ زریعہ ہے بخشش کا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ [النور : 22]
اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
اللہ تعالیٰ کی محبت پر کھانا کھلانے والے قیامت کے دن بڑے شر سے محفوظ رہیں گے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا [الإنسان : 8]
اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا [الإنسان : 9]
(اور کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ کے چہرے کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔
إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا [الإنسان : 10]
یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہو گا۔
فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا [الإنسان : 11]
پس اللہ نے انھیں اس دن کی مصیبت سے بچا لیا اور انھیں انوکھی تازگی اور خوشی عطا فرمائی۔
وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [الإنسان : 12]
اور انھیں ان کے صبر کرنے کے عوض جنت اور ریشم کا بدلہ عطا فرمایا۔
کتے کو پانی پلا کر جنت میں جانے والا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ يَأْكُلُ الثَّرَى مِنْ الْعَطَشِ فَقَالَ الرَّجُلُ لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنْ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ مِنِّي فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ مَاءً ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيهِ حَتَّى رَقِيَ فَسَقَى الْكَلْبَ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنَّ لَنَا فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ لَأَجْرًا فَقَالَ فِي كُلِّ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ [مسلم 2244]
” ایک بار ایک شخص راستے میں چلا جا رہا تھا اس کو شدید پیاس لگی، اسے ایک کنواں ملا وہ اس کنویں میں اترااورپانی پیا ،پھر وہ کنویں سے نکلا تو اس کے سامنے ایک کتا زور زور ہانپ رہا تھا پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا تھا ،اس شخص نے (دل میں) کہا : یہ کتابھی پیاس سے اسی حالت کو پہنچا ہے جو میری ہو ئی تھی۔وہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے کو پانی سے بھرا پھر اس کو منہ سے پکڑا یہاں تک کہ اوپر چڑھ آیا ،پھر اس نے کتے کو پانی پلا یا ۔اللہ تعا لیٰ نے اسے اس نیکی کا بدلہ دیا اس کو بخش دیا ۔وگوں نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے ان جانوروں میں اجرہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :”نمی رکھنے والے ہر جگرمیں (کسی بھی جاندار کا ہو۔)اجرہے۔”
مقروض سے نرمی کرنے والے کی مغفرت
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تَلَقَّتْ الْمَلَائِكَةُ رُوحَ رَجُلٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ قَالُوا أَعَمِلْتَ مِنْ الْخَيْرِ شَيْئًا قَالَ كُنْتُ آمُرُ فِتْيَانِي أَنْ يُنْظِرُوا وَيَتَجَاوَزُوا عَنْ الْمُوسِرِ قَالَ قَالَ فَتَجَاوَزُوا عَنْهُ [بخاری 1971]
تم سے پہلے گذشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس ( موت کے وقت ) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں؟ روح نے جواب دیا کہ میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں کو ( جو ان کے مقروض ہوں ) مہت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں۔ اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔
وفی روایۃ
كَانَ تَاجِرٌ يُدَايِنُ النَّاسَ فَإِذَا رَأَى مُعْسِرًا قَالَ لِفِتْيَانِهِ تَجَاوَزُوا عَنْهُ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا فَتَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهُ [بخاری 1972]
ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے نوکروں سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کر جاؤ۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے ( آخرت میں ) درگزر فرمائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ( اس کے مرنے کے بعد ) اس کو بخش دیا
کھجور کے ٹکڑے کے ذریعے جہنم سے بچو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَيَقِفَنَّ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْ اللَّهِ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ حِجَابٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ ثُمَّ لَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أُوتِكَ مَالًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى ثُمَّ لَيَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ شِمَالِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ فَلْيَتَّقِيَنَّ أَحَدُكُمْ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ [بخاري 1347]
تم میں سے ہر شخص ضرور اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو گا پھر اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا اور نہ ترجمہ کے لیے کوئی ترجمان ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا میں نے تجھے دنیا میںمال نہیں دیا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں بھیجا تھا۔ پھر وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا پھر بائیں طرف دیکھے گا اور ادھر بھی آگ ہی آگ ہوگی۔ پس تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے ہی ( کاصدقہ کرکے اس سے اپنا بچاؤ کرسکو ) اگر یہ بھی میسر نہ آسکے تو اچھی بات ہی منہ سے نکالے۔
سخي آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی لوگوں سے پہلے ملے گا
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَسْرَعُكُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا قَالَتْ فَكُنَّ يَتَطَاوَلْنَ أَيَّتُهُنَّ أَطْوَلُ يَدًا قَالَتْ فَكَانَتْ أَطْوَلَنَا يَدًا زَيْنَبُ لِأَنَّهَا كَانَتْ تَعْمَلُ بِيَدِهَا وَتَصَدَّقُ [مسلم 2452]
"تم میں سب سے جلدی میرے ساتھ آملنے والی(میری وہ اہلیہ ہوگی جو)تم میں سب سے لمبے ہاتھوں والی ہے۔” انھوں نے کہا:ہم لمبائی ناپا کرتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ انھوں نے کہا:اصل میں زینب ہم سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی تھیں کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرتیں اور (اس کی اجرت) صدقہ کرتی تھیں
مرنے کے بعد بھی جاری رہنے والی نیکیوں میں سے ایک نیکی صدقہ جاریہ ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ [مسلم :4223]
"جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) : صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے
================
بڑھاپے،موت اور لوگوں کے غناء سے پہلے پہلے خرچ کرو
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ [المنافقون : 10]
اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمھیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے، پھر وہ کہے اے میرے رب! تونے مجھے قریب مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا ؟ قَالَ : ” أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى، وَلَا تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ، قُلْتَ : لِفُلَانٍ كَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا. وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ ” [بخاری 1419]
کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید ہو اور ( اس صدقہ خیرات میں ) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آجائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہوچکا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تَصَدَّقُوا ؛ فَإِنَّهُ يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ يَمْشِي الرَّجُلُ بِصَدَقَتِهِ، فَلَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا، يَقُولُ الرَّجُلُ : لَوْ جِئْتَ بِهَا بِالْأَمْسِ لَقَبِلْتُهَا، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا حَاجَةَ لِي بِهَا ". [بخاری 1424]
صدقہ کیا کرو پس عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا ( کوئی اسے قبول کرلے مگر جب وہ کسی کو دے گا تو وہ ) آدمی کہے گا کہ اگر اسے تم کل لائے ہوتے تو میں لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی حاجت نہیں رہی۔
=============
سخاوت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
رمضان میں تیز آندھی سے بڑھ کر صدقہ کرتے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ [بخاري 6]
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد ( سخی ) تھے اور رمضان میں ( دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب ) جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔
احد پہاڑ برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا لَسَرَّنِي أَنْ لَا تَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثُ لَيَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ [بخاري 6080]
اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتو بھی مجھے اس میںخوشی ہوگی کہ تین دن بھی مجھ پر اس حال میں نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی بچے۔ البتہ اگر کسی کا قرض دورکرنے کے لئے کچھ رکھ چھوڑوں تو یہ اور بات ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا بوجھ اٹھاتے اور جس کے پاس کچھ نہ ہوتا اسے کما کر دیتے
ام المؤمنين خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا "تحمل الکل”
آپ تو لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر کوئی مقروض آدمی فوت ہو جاتا تو آپ اس
مقروض کا قرض اپنے ذمے لے لیتے
ام المومنین نے آپ کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا "تکسب المعدوم” کہ آپ اسے کما کر دیتے تھے جس کے پاس کچھ نہ ہوتا تھا
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حنین کے بعد کچھ مانگنے والے آئے تو آپ نے لوگوں سے یہ کہہ کر مال انہیں دلوادیا کہ جب میرے پاس نیا مال آئے گا تب میں تمہیں دے دوں گا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سائل کو نفی میں جواب نہیں دیا
حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا
«مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا»
(مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6018)
: ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کو ئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے (ناں یا نہیں ) فرمایا ہو۔
ایک سوالی کو بھری ہوئی وادی بکریوں کی دے دی
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
آپ فرماتے ہیں
” مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ، قَالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَةَ "
(مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6020)
ضرورت کے باوجود مانگنے والے کو چادر دے دی
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ” بردہ “ (یعنی وہ لنگی جس میں حاشیہ بنا ہوا ہوتا ہے) لے کر آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں یہ لنگی آپ کے پہننے کے لئے لائی ہوں ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لنگی ان سے قبول کر لی ۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ نے پہن لیا ۔
صحابہ میں سے ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پروہ لنگی دیکھی تو عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ بڑی عمدہ لنگی ہے ، آپ یہ مجھے عنایت فرما دیجئے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے لو ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر تشریف لے گئے تو اندر جا کروہ لنگی بدل کرتہہ کرکے عبدالرحمن کو بھیج دی
(بخاري، كِتَابُ الأَدَبِ، بَابُ حُسْنِ الخُلُقِ وَالسَّخَاءِ، وَمَا يُكْرَهُ مِنَ البُخْلِ،6036)
==============٪
سخاوت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین
چراغ بجھا کر بیوی بچوں کو بھوکا رکھ کر خرچ کیا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس پیغام بھیجا، ان کی طرف سے جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيْفُ هٰذَا؟ ] ’’اس مہمان کو اپنے ساتھ کون لے جائے گا؟‘‘ انصار میں سے ایک آدمی نے کہا: ’’میں لے جاؤں گا۔‘‘ چنانچہ وہ اسے لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کرو۔‘‘ اس نے کہا: ’’ہمارے پاس بچوں کے کھانے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’کھانا تیار کر لو، چراغ جلا لو اور بچے جب کھانا مانگیں تو انھیں سلا دو۔‘‘ اس نے کھانا تیار کر لیا، چراغ جلا دیا اور بچوں کو سلا دیا۔ پھر وہ اس طرح اٹھی جیسے چراغ درست کرنے لگی ہے اور اس نے چراغ بجھا دیا۔ میاں بیوی دونوں اس کے سامنے یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ کھا رہے ہیں، مگر انھوں نے وہ رات خالی پیٹ گزار دی۔ جب صبح ہوئی اور وہ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ ضَحِكَ اللّٰهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا ] ’’آج رات تم دونوں میاں بیوی کے کام پر اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا فرمایا کہ اس نے تعجب کیا۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : « وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ » [ الحشر: ۹ ] ’’اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔‘‘
[ بخاري، مناقب الأنصار، باب قول اللّٰہ عزوجل: «و یؤثرون علی أنفسہم …» : ۳۷۹۸۔ مسلم : ۲۰۵۴ ]
صحیح مسلم میں اس انصاری کا نام بھی مذکور ہے کہ وہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تھے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گھر کا سارا مال خرچ کیا
عمر رضی اللہ عنہ نے آدھا کیا
عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لے آئے اس خیال سے کہ اگر بڑھ سکا تو آج ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ جاؤں گا، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو گھر کا سارا مال لے آئے تھے۔ [ ترمذی، المناقب، باب رجاؤہ أن یکون أبوبکر… : ۳۶۷۵، وقال حسن صحیح وحسنہ الألبانی ]
عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت
عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کی تیاری کے وقت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار دینار لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں رکھ دیے۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دیناروں کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے دو مرتبہ فرمایا : ’’آج کے (اس عمل کے) بعد عثمان جو بھی عمل کریں وہ انھیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘
[ ترمذی، المناقب، باب فی عد عثمان تسمیتہ شہیدا… : ۳۷۰۱ ]
ساری رات مزدوری کر کے جہاد فنڈ میں خرچ کیا
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ابوعقیل (مزدوری کرکے) آدھا صاع (ایک کلو غلہ) لائے
[ بخاری، التفسیر، باب قولہ : الذین یلمزون المطوعین… : ۴۶۶۹ ]
عائشہ رضی اللہ عنہا نے ستر ہزار خرچ کیے جبکہ اپنے کپڑوں پر پیوند لگے ہوئے تھے
سیدنا عروہ بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رأيت عائشة رضي الله عنها تصَّدق بسبعين ألفًا، وإنها لترقع جانب درعها».
طبقات ابن سعد ٦٦/٨
میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا انہوں نے ستر ہزار صدقہ کیا جبکہ انکی قمیص کی ایک طرف پیوند لگے ہوئے تھے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی سخاوت
ایوب بن وائل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أُتي ابن عمر بعشرة آلاف ففرقها وأصبح يطلب لراحلته علفاً بدرهم بنسيئة – سير أعلام النبلاء ( ٢١٨/٣) –
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دس ہزار درھم دیے گئے انہوں نے سارے پیسے لوگوں کو بانٹ دیے اور اپنے اونٹ کو چارا ڈالنے کے لئے ایک درہم ادھار طلب کرنے لگے
قال الحسن البصري رحمه الله لقد رأيت أقواما يمسي أحدهم وما يجد عنده إلا قوتا فيقول لا أجعل هذا كله في بطني لأجعلن بعضه لله عز و جل فيتصدق ببعضه وإن كان هو أحوج ممن يتصدق به عليه [الحلية [2/ 134]
امام حسن بصري رحمه الله فرماتے ہیں میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے انکے ایک شخص کے پاس صرف ایک وقت کا کھانا موجود ہوتا تھا تو وہ شام کے وقت کہتا یہ سارا کھانا اپنے پیٹ میں نہیں ڈالوں گا لازمی اس میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کروں گا وہ اس کا کچھ حصہ صدقہ کرتا حالانکہ وہ خود صدقے کا زیادہ محتاج ہوتا