افضلیت و فوقیت کا حقیقی و سطحی تصور

﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)
شیطان کی چالوں سے آگاہی کے سلسلے میں بات ہو رہی تھی کہ جن سے وہ انسان کو بہکاتا اور گمراہ کرتا ہے لڑاتا ہے، پریشان کرتا ہے، اکساتا ہے اور اسے اس کے ہر معاملے میں نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔
تو اس کی چالوں، تدبیروں اور حربوں کی ایک طویل فہرست میں سے ایک حربہ کہ جس کا چند جمعوں سے ذکر ہو رہا ہے، تحریش بین الناس“ ہے کہ لوگوں میں کسی نہ کسی طریقے سے پھوٹ ڈالنا، انہیں آپس میں لڑانا، ایک دوسرے کے خلاف نفرت، بغض اور عداوت پیدا کرنا، انہیں ایک دوسرے کے خلاف اکسانا اور انگیختہ کرنا ہے۔
لوگوں کو آپس میں لڑانے اور ان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت، بغض اور عداوت پیدا کرنے کے لیے اس کی بہت سی چالوں میں سے ایک چال لوگوں کو اپنے اپنے قبیلے اور برادری پر فخر و غرور اور تکبر کرنے پر ابھارنا اور دوسروں کو کم تر اور حقیر خیال کرواتا ہے۔ گذشتہ جمعوں میں قبیلے اور برادری پر فخر و غرور اور تکبر کرنے اور اترانے اور ناز کرنے کے شرعی، عقلی اور معاشرتی نقصانات اور قباحتوں کا، نا معقولیت کا اور کراہت و ممانعت کا ذکر ہوا۔
اور یہ بھی ذکر ہوا کہ قبیلے اور برادریاں کئی حکمتوں، مصلحتوں اور ضرورتوں کے پیش نظر وجود میں آئیں اور لوگوں کو ان میں تقسیم کیا گیا اور ان کے متعدد معاشی اور معاشرتی فوائد بھی ہیں کہ شریعت جن کا اقرار اور تاکید کرتی ہے، مگر لوگ انہیں یکسر نظر انداز کرتے اور پس پشت ڈالتے ہوئے اس کے منفی پہلووں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہر طرف لڑائی جھگڑا، دھینگا مشتی اور دنگا و فساد برپا ہے، نفرتیں اور عداد میں پھیل رہی ہیں، جنگ و جدل اور کشت و خون کا بازار گرم ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں زیادہ تر اختلافات کا ایک بڑا سبب برتری ، افضلیت اور فوقیت کا نظریہ اور تصور ہے کہ جس کی بنیاد ابلیس نے یہ کہہ کر رکھی کہ ﴿أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ﴾ (الاعراف:12)
’’میں اس سے بہتر ہوں ۔‘‘
چنانچہ شیطان ابلیس کی تمام تر کوششوں کا مرکز ومحور وہی نظریہ، وہی خیال اور احساس اور وہی تصور ہے کہ وہ انسان سے بہتر ہے۔
اسلام نے تو بڑے واضح اور دوٹوک الفاظ میں یہ حقیقت بیان فرما رکھی ہے، جسے آپ ﷺنے خطبہ حجۃ الوداع میں یوں بیان فرمایا:
(( يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ))
’’لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے ۔‘‘
((أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلٰى عَرَبِيٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلا لأسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى)) (صحيح الترغيب:2964)
’’خبردار رہوا کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کسی سرخ کو کسی سیاہ پر اور کسی سیاہ کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت اور فوقیت نہیں ہے، مگر تقوی کی بنیاد پر ۔‘‘
لیکن شیطان نے اس کے باوجود لوگوں کی غالب اکثریت کو اس فتنے میں مبتلا کر رکھا ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہے، یہ عقیدہ سراسر اسلام کی تعلیمات کے منافی اور اس سے متصادم ہے۔ اس عقیدے کی نفی اور تردید میں عقلی اور نقلی دلائل کی اک بھر مار ہے۔
اک مسلمان کی حقیقی دوستی، اس کا بھائی چارہ اور رشتہ داری اسلام کی بنیاد پر ہے۔ نسل اور قوم کی بنیاد پر جو رشتہ داریاں ہیں وہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے، اس کا انکار نہیں، اس کی یقینًا ضرور تمہیں اور فوائد ہیں بلکہ اس ضمن میں لوگوں پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، کچھ فرائض و واجبات لازم ہوتے ہیں لیکن اک محدود دائرے میں رہتے ہوئے ، ان سے تجاوز نہیں کر سکتے ، آپ اپنے کسی فوت شدہ کافر و مشرک رشتہ دار کے لیے دعاء نہیں کر سکتے تو پھر کیسا فخر و غرور اور کیسا تکبر اور کیسا دعوی برتری و فوقیت؟
اپنی قوم اور قبیلے کی برتری کا عقیدہ رکھنے والوں کو یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ زیادہ تر لڑائیاں اور جھگڑے اور جنگ و جدل جو حصول اقتدار و اختیار کے لیے، امارت دریاست کے لیے اور قوم و ملک کی سربراہی اور چودھراہٹ کے لیے لڑی گئیں، اپنے اپنے قبیلے کے قریبی رشتہ دار افراد کے مابین ہی لڑی گئیں ۔ ۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں، کوئی قبیلہ اور خاندان اس سے مستقلی نظر نہیں آتا، حصول اقتدار کے لیے، قبیلے کی سربراہی کے لیے سگے بھائیوں میں جنگیں ہوئیں، چچاؤں اور بھتیجوں میں جنگیں ہوئیں اور عرب کی تاریخ تو بھری پڑی ہے ان واقعات ہے۔
قوم اور قبیلے پر فخر کرنے والوں کے لیے یہ اک لمحہ فکر یہ ہے، اور ابھی یہ تو دنیا میں حال ہے، قیامت کے دن کیا ہو گا،
﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ۝۳۴
وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ۝۳۵
وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ۝۳۶
لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِؕ۝﴾ (عبس (34 تا 37)
’’اس روز آدمی اپنے بھائی ، اپنی ماں اور اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا، ان میں سے ہر شخص کے لیے خود اپنا ہی معاملہ اسے مشغول رکھنے کے لیے کافی ہوگا۔‘‘
اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے بھائی کا ذکر کیا گیا کہ انسان اپنے بھائی سے بھاگے گا، آپ جانتے ہیں کہ اپنی قوت و طاقت ظاہر کرنے کے لیے کس طرح اپنے بھائیوں پر ناز کیا جاتا ہے، انہیں اپنے بازو سمجھا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں سب سے قریبی رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، جب ان کا یہ حال ہو گا تو دوسروں پر کیا بھروسہ کر سکیں گے، اور ویسے بھی قیامت کے دن کسی کی کسی سے کوئی رشتہ داری نہ ہوگی،
﴿فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ۝۱۰۱﴾(المؤمنون:101)
’’جب صور پھونکا جائے گا، ان کے درمیان کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔‘‘
تو جب دنیا و آخرت میں رشتہ داری اور قوم اور قبیلے کی یہ صورت حال ہو تو کیا عقلمندی ہے کہ ان پر فخر و غرور کیا جائے اور اس بنیاد پر دوسروں کو کم تر سمجھا جائے؟ تقومی جو دنیا و آخرت میں برتری اور فوقیت کا معیار ہے، دنیا میں بھی انسان کے حقیقی خیر خواہ اور مخلص اور ہمدردو ہی متقی لوگ ہیں اور آخرت میں بھی وہی ہوں گے۔
﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠۝۶﴾ (الزخرف:68)
’’ اس دن دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے (الا المتقين ) مگر متقی لوگ وہاں بھی دوست ہی رہیں گے۔‘‘
مگر آج تقوی کی بنیاد پر دوستیاں کہاں ہیں۔ صرف دنیاوی لالچ اور مادی فوائد کی بنیاد پر دوستیاں ہوتی ہیں یا ایک جیسی فطرت اور ایک جیسے خیالات اور ایک جیسے طرز زندگی کی بنیاد پر دوستیاں ہوتی ہیں۔
کبوتر با کبوتر باز با باز
کنند ہم جنس باہم جنس پرواز
دوستی اور بھائی چارے کا معیار اگر تقوی نہ ہو تو انسان سراسر خسارے میں ہے، اسے دنیوی لحاظ سے مادی فائدہ ہو سکتا ہے مگر اخروی لحاظ سے اور حقیقی فائدہ حاصل نہ ہو سکے گا اور دنیا داری کی بنیاد پر دوستی کے نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ اس ماحول سے نکل کر دین کی طرف راغب ہونے کے امکانات کم سے کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں، بلکہ وہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، اگر کبھی نیکی کا خیال آہی جائے تو دوست و احباب کہتے ہیں کہ چھوڑو یار تم کیا مولوی بنتے جارہے ہو۔ اور ایک نقصان یہ ہے کہ حدیث میں ہے: ((مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلٰى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا لَا يُشْرِكُونَ بِاللهِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمْ اللهُ فِيهِ)) (مسلم:933)
’’جس مسلمان کے جنازے میں ایسے چالیس آدمی شامل ہوں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللہ تعالی اس میت کے حق میں ان کی سفارش یعنی ان کی میت کے لیے کی جانے والی مغفرت کی دعا میں اللہ تعالی قبول کرتا ہے۔‘‘
اور آپ جانتے ہیں کہ عموما یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے دوست و احباب بھی جنازے میں شریک ہوتے ہیں تو جس طرح کے لوگوں سے دوستی رکھے گا وہی آئیں گے۔
اور ایسے لوگوں کی دوستی کہ جو متقی نہیں ہیں آدمی کے کتنے فائدہ مند ہو سکتے ہیں، اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ کئی بار اس بات کا مشاہدہ ہوا ہے کہ جنازے کے لیے آئے ہوئے بعض لوگ نماز جنازہ کے انتظار میں مسجد کے باہر کھڑے رہتے ہیں جبکہ اندر فرض نماز ہو رہی ہوتی ہے اور جب ان سے کہا جائے کہ آئیے پہلے فرض نماز تو پڑھ لیں تو بڑی بے نیازی سے کہہ دیتے ہیں کہ جی میرے کپڑے پاک نہیں ہیں، اور پھر جب نماز جنازہ شروع ہوتی ہے تو آکر ساتھ شامل ہو جاتے ہیں، اس لیے دوستی کے انتخاب میں اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ وہ دیندار ہو۔ حدیث میں ہے کہ
((اَلرَّجُلُ عَلٰى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ)) (ابو داود:4833)
’’ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے اس بات کا خیال رکھو کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو ۔‘‘
تو بات نسلی برتری کے عقیدے کی ہو رہی تھی کہ وہ دین اور معاشرے کے لیے اک نہایت ہی مہلک اور تباہ کن عقیدہ ہے، نسلی برتری کے عقیدے کا لازمی نتیجہ غرور اور تکبر میں مبتلا ہوتا ہے جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں، دوسروں کو حقیر جاننا جو کہ ایمان اور اسلام کے منافی ہے اور دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت، بغض اور عداوت کا پیدا ہوتا ہے جو کہ معاشرے کی تباہی کا کھلم کھلا اعلان ہے، اور اپنی کم عقلی اور نادانی کا اظہار ہے۔ تکبر کرنے والا لوگوں کے بارے میں جو کچھ سوچتا ہے اسے معلوم نہیں کہ لوگ بھی اس کے بارے میں کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں اور اس کی مثال کچھ ایسے ہے کہ پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہوئے شخص کو پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہوئے لوگ اگر چھوٹے نظر آتے ہیں تو انہیں بھی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوا شخص ویسا ہی نظر آتا ہے۔ تو لوگ بحیثیت انسان سب برابر ہیں، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے البتہ ایک استثنا ضرور موجود ہے اور وہ یہ کہ آپ میں قیام کے خاندان کے لیے مال نقیمت میں پانچواں حصہ مقرر ہے اور دوسرے یہ کہ ان کو زکاۃ نہیں دی جاسکتی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
((وَ إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لَآلِ مُحَمَّدٍ)) (مسلم:1072)
’’یہ صدقہ محمد اور آل محمدﷺ کے لیے جائز نہیں ۔‘‘
اور یہ محض عزت و تکریم کی خاطر ہے، آپﷺ سے ان کی قرابت اور رشتہ داری کی وجہ سے ہے، اور چونکہ آپ ﷺکے امت پر احسانات ہیں اس لیے آپ کے اعزہ و اقارب کا حق ہے، اس لیے کسی ہائی کو زکاۃ نہیں دی جاسکتی، بلکہ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ وہ ہاشمی کو زکاۃ دے رہا ہے، زکاة دے گا تو گناہ گار ہوگا، اور وہ دی ہوئی زکاۃ شمار نہیں ہوگی بلکہ عام صدقہ تصور ہوگا۔ اور بنو ہاشم میں کہ جنہیں زکاۃ نہیں دے سکتے ، ان میں آل عباس آل عقیل، آل علی ، آل جعفر اور آل حارث بن عبد المطلب شامل ہیں، البتہ ابولہب کی اولاد میں اختلاف ہے کہ انہیں زکاۃ دی جاسکتی ہے کہ نہیں ، اسی طرح بنو ہاشم کے ساتھ ساتھ بنو مطلب کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے کہ نہیں ۔ یادر ہے کہ بنومطلب اور بنو عبد المطلب میں فرق ہے۔
………………