اپنا ماضی بھول جائیں
کسی انسان کے زہن سے ماضی کی تلخیاں بھلا دی جائیں، یہ جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے
اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کے متعلق فرمایا :
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، تو ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
الأحقاف : 13
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
سن لو! بے شک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
يونس : 62
علماء کرام نے خوف اور حزن میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ خوف (ڈر) آنے والی چیز کا ہوتا ہے اور غم (ماضی میں) گزری ہوئی مصیبت کا ہوتا ہے۔
گویا کہ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کا مطلب یہ ہے کہ جنتی لوگوں کو ان کے ماضی کے تلخ لمحات ایسے بھلا دیے جائیں گے کہ وہ ان پر کوئی غم نہیں کریں گے
جنت کا ایک چکر ماضی کی سب تکلیفیں بھلا دے گا
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ويؤتَى بأشدِّ النَّاسِ بؤسًا في الدُّنيا من أَهلِ الجنَّةِ فيُصبَغُ صبغةً في الجنَّةِ فيقالُ لهُ يا ابنَ آدمَ هل رأيتَ بؤسًا قطُّ هل مرَّ بِك شدَّةٌ قطُّ فيقولُ لا واللَّهِ يا ربِّ ما مرَّ بي بؤسٌ قطُّ ولا رأيتُ شدَّةً قطُّ
مسلم : 2807
بھرایک ایسے آدمی کو لایا جائے گا جو جنتی ہوگا لیکن دنیا میں بڑی تکلیف کی زندگ بسر کی ہوگی اسے جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور اسے پوچھا جائے گا”اے ابن آدم ! کبھی دنیا میں تو نے کوئی تکلیف دیکھی یا رنج وغم سے کبھی تمہارا واسطہ پڑا؟” وہ کہے گا ” اے میرے رب! تیری قسم کبھی نہیں، مجھے تو نہ کبھی رنج و غم سے ُواسطہ پڑا اور نہ کبھی کوئی دکھ یا تکلیف دیکھی
ماضی کے نقصانات کی وجہ سے غم نہ کرو
اپنے ماضی پہ غم نہ کرو یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمھارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمھیں عطا فرمائے اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، بہت فخر کرنے والے سے محبت نہیں رکھتا۔
الحديد : 23
اور فرمایا :
لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
تاکہ تم نہ اس پر غم زدہ ہو جو تمھارے ہاتھ سے نکل گیا اور نہ اس پر جو تمھیں مصیبت پہنچی اور اللہ اس کی پوری خبر رکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔
آل عمران : 153
تقدیر پر ایمان رکھو
کیونکہ جب تم جان لو گے کہ ہر چیز اللہ کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی اللہ کی تقدیر سمجھ کر نقصان پر صبر کرے گا اور ہاتھ سے نکلنے والی چیز پر زیادہ غمگین نہیں ہوگا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[وَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ وَلَا تَعْجَزْ وَ إِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلاَ تَقُلْ لَوْ أَنِّيْ فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا وَلٰكِنْ قُلْ قَدَرُ اللّٰهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ ]
[مسلم : 2664 ]
’’ اور اللہ سے مدد مانگ اور عاجز نہ ہو اور اگر تجھے کوئی (نقصان دہ) چیز پہنچے تو یہ مت کہہ کہ اگر میں اس طرح کرتا تو اس طرح اور اس طرح ہو جاتا، بلکہ یوں کہہ کہ اللہ نے قسمت میں (اسی طرح) لکھا تھا اور جو اس نے چاہا کر دیا، کیونکہ ’’لَوْ‘‘ (اگر) کا لفظ شیطان کا کام کھول دیتا ہے۔‘‘
اپنے غم صرف اللہ تعالیٰ سے ہی شیئر کریں
جیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے فرمایا تھا :
قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اس نے کہا میں تو اپنی ظاہر ہوجانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
يوسف : 86
اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں
اگر آپ پر بہت سی توقعات کا بوجھ ہے، غیر حل شدہ رنجشیں ہیں، گھر اور کاروبار کی الجھنیں ہیں ،ظالموں کی زیادتیوں کا سامنا ہے اور آپ بے بس ہیں
تو
اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے سامنے پوری عاجزی سے جھکا دیں اور کہیں
وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّه
اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں
غافر : 44
اور اپنے خلاف سازشیں کرنے والوں سے مخاطب ہو کر کہہ دیں :
فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ
سو (میرا کام) اچھا صبر ہے اور اللہ ہی ہے جس سے اس پر مدد مانگی جاتی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔
يوسف : 18
یہ کہہ کر اپنی روح کا سارا بوجھ اتار پھینکیں۔ جب بھی ذہن میں کسی زیادتی، نا انصافی یا تلخ کلامی کا خیال آئے ۔ پورے رجوع کے ساتھ ذہن کو یکسو کر کے یہی دہرائیں۔
وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّه
اے میرے پروردگار میں نے اپنا معاملہ آپ کے سپرد کیا۔
اب آپ کا معاملہ آپکی ذمہ داری نہیں رہا۔ اپنے ذہن کو آزاد چھوڑ دیں اور پر سکون ہو جائیں۔
شاعر نے بہت خوب کہا
استودع الله جراحك وانسها
ان ودائع الله لا تضيع …..!!!
اپنے زخموں کو اللہ پر چھوڑ کر بھول جاؤ کیونکہ اللہ ” کے پاس امانتیں ضائع نہیں ہوتی …..!!
بھول جانا بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے
ذرا تصور کریں، اپنے شہر اور گلی محلے میں دیکھیں، خود اپنے آپ پر بیتنے والے کسی صدمے کو دیکھیں، جب کوئی پیارا عزیز فوت ہوجاتا ہے ،والدہ، والد، بھائی، بہن، اہلیہ یا اولاد کی وفات پر لوگوں کی پہلے دن جو حالت ہوتی ہے اگر ہر روز وہی کیفیت برقرار رہے تو کیا لوگ اپنا ذہنی اور جسمانی توازن برقرار رکھ پائیں گے؟
یقیناً بھول جانا بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ایک انسان کے اندر جہاں یاد کرنے کی صلاحيت ہے وہاں بھُول جانے کی صفت بھی ہے۔ آپ سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے یادداشت عطا کی، پھر آپ شکر ادا کریں کہ بھُول جانے کی صفت دی ہے ورنہ ایک غم ہمیشہ کے لیے غم بن جاتا ہے ۔
لھذا اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو اچھی یادداشت کا مالک نہ بنیں
اپنے دماغ کی میموری سے کچھ لہجوں،باتوں،یادوں اور نامناسب رویوں کو ڈلیٹ کرتے رہیے ورنہ آپ هینگ ہو جائیں گے
غزوہ تبوک کو "ساعة العسرة” کیوں کہا گیا
غزوہ تبوک شدائد و مشکلات سے بھرپور غزوہ تھا، جو لگ بھگ ایک مہینے پر مشتمل تھا۔ لیکن اللہ نے قرآن مجید میں اسے "ساعة العسرة” (تنگی کا ایک لمحہ) کہا ہے۔
علامہ برھان الدین البقاعی رحمہ اللہ (٨٨٥ھ) فرماتے ہیں :
”محض ایک لمحہ اس لیے قرار دیا، تاکہ انسان کرب کے لمحات کو (طوالت کے باوجود) ہلکا سمجھے، اور مشکلات جھیلنے پر دلیر رہے؛ کیونکہ ان کا دورانیہ مختصر مگر اجر بے بہا ہوتا ہے۔“
(نظم الدرر في تناسب الآيات والسور : 36/9)
کربناک ماضی سے الجھنے کی بجائے کسی مفید کام میں مصروف ہو کر اپنے آپ کو ضائع ہونے سے بچائیں
ہر شخص کی زندگی میں کچھ ایسے کربناک لمحات اور واقعات ضرور گزرے ہوتے ہیں کہ جن کی یاد اسے مسلسل جھنجھوڑتی رہتی ہے، خواہ وہ خود اس کے اپنے ہاتھوں سے کیے گئے ہوں یا کسی دوسرے کی طرف سے اس پر ظلم و زیادتی ہوئی ہو
لیکن
بہرحال جو ہو گیا سو گیا
اب ماضی کا روگ اور لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، ایسے خیالات کو جھاڑتے ہوئے آگے بڑھئے اور کوشش کیجیے
حافظ بدر الدين العينى رحمه الله اپنی کتاب "رمز الحقائق شرح كنز الدقائق” کے مقدمے میں لکھتے ہیں :
”میرے بہترین دوست بدترین دشمن بن گئے، قریبی دوست سب سے بڑھ کر طعنے کسنے لگے، دنیا مجھ پر اندھیری ہو گئی … میں نے سوچا کہ ان غموں سے چھٹکارا پانے کیلیے کسی کتاب کی شرح لکھنے میں مصروف ہو جاؤں، سو میں نے کتاب "کنز الدقائق” کو اختیار کیا۔“
عائشہ رضی اللہ عنہا کی مثال
مقبل بن هادی الوادعي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کیا آپ جانتے ہیں؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہیں تھی
کیا آپ جانتے ہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی، یعنی آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد 47 سال زندہ رہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بے انتہا، بے لوث محبت کرتے تھے، اور آپ انتہائی غیرت والی تھیں۔۔۔
گویا کہ آپ کا ماضی دکھوں سے بھرا ہوا تھا
اِس سب کے باوجود آپ نے اپنی زندگی اسی رنج وغم میں یوں ہی نہیں گُزار دی بلکہ خُود کو علم وعبادت میں مشغول رکھا اور کِبار صحابہ کرام کی معلمہ اور مفتیہ بنی رہیں۔۔۔
یاد رکھیں۔۔۔
زندگی کا انحصار صرف ان ہی چیزوں پر ہرگز نہیں ہے؛
نہ اولاد پر
نہ شادی پر
نہ گھر پر
نہ مال پر
اور نہ ہی ان چیزوں سے زندگی رُک سکتی ہے،
نہ ہی والدین کے گزر جانے سے اور نہ ہی اولاد کے نہ ہونے سے زندگی رک سکتی ہے۔
ان سب کے نہ ہونے کے باوجود آپ محنت اور کوشش کرکے بہت کچھ کرسکتے ہیں
تین چیزوں میں خوامخواہ غور نہ کریں
لا تتفكر في الفقر :
فيكثر همك وغمك، ويزيد في حرصك
اپنی غربت میں بے جا غور و فکر نہ کرو ورنہ آپ کے غم اور پریشانی میں اضافہ ہی ہوگا
ولا تتفكر في ظلم من ظلمك :
فيغلظ قلبك. ويكثر حقدك ويدوم غيظك.
اور جس نے آپ پر ظلم کیا ہے ہر وقت اسی کے بارے مت سوچتے رہو ورنہ آپ بے جا کڑھتے ہوئے اپنی طبیعت خراب کر بیٹھو گے
▪️ولا تتفكر في طول البقاء في الدنيا
فتحب الجمع، وتضيع العمر، وتسوِّف في العمل،
📙السمرقندي/ تنبيه_الغافلين ٥٧٢/١
بڑے لوگوں کے بڑے واقعات
یوسف علیہ السلام نے جیل سے نکلنے اور حاکم بننے کے بعد ایک مرتبہ بھی نہیں پوچھا کہ تم نے مجھے جیل میں کیوں ڈالا تھا؟
اور نہ ہی سوائے پہلے تعارف کے ،دوبارہ کبھی اپنے بھائیوں سے پوچھا کہ تم نے مجھے کنویں میں کیوں پھینکا تھا؟
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کرنے کے بعد کبھی کسی مکی، قریشی سے پرانے مظالم پر باز پرس نہیں کی
طائف فتح کرنے کے بعد طائف والوں سے آدھی زبان سے بھی کبھی ان کی بدسلوکی کا تذکرہ نہیں کیا
ابوسفیان، خالد بن ولید ،عکرمہ بن ابی جہل،عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم اجمعین، یہ سب وہ لوگ تھے جو اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمانوں کے خلاف ہر مہم جوئی کے سرخیل سمجھے جاتے تھے اور ان کے ہاتھوں متعدد بار مسلمانوں کا نقصان بھی ہوا
لیکن
ان کے قبول اسلام کے بعد کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی مسلمان نے انہیں ان کے ماضی کی بنیاد پر کبھی طعنہ دیا ہو
دور والی گاڑی چھوٹے سٹاپ پہ نہیں رکتی
جن کی منزل بڑی ہوتی ہے وہ چھوٹی چھوٹی الجھنوں کو سر درد بنا کر رک نہیں جاتے, کبھی غور کیا کہ لاہور سے اسلام آباد جانے والی اچھی گاڑی شاید کہ گوجرانوالہ تک ایک سٹاپ بھی نہ کرے اور لاہور سے فقط گوجرانوالہ جانے والی گاڑی، گوجرانوالہ سے پہلے پہلے دسیوں سٹاپ کر لیتی ہے
لھذا آپ نے اپنی منزل بڑی رکھنی ہے اور چھوٹے چھوٹے سپیڈ بریکروں سے نہیں الجھنا
سو نظر انداز کریں اور آگے چلتے بنیں
امام ابوزرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان والدي، يحثني على التغافل.
طرح التثريب [۱۰٩/٨].
میرے والد گرامی مجھے نظر اندازی پر ابھارتے تھے
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی بریکروں سے نہ الجھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ
در گزر اختیار کر اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کر۔
الأعراف : 199
میں، مسطح رضی اللہ عنہ کو معاف کرتا ہوں میرا رب مجھے معاف کر دے
عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان لگانے والوں کے پروپیگنڈہ کا شکار ہونے والوں میں مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ زاد بہن کے بیٹے تھے (بعض نے انھیں خالہ زاد بھی کہا ہے)، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قرابت اور ان کے فقر کی وجہ سے ان کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، جب مسطح نے بہتان والی یہ بات کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ وظیفہ بند کر دیا لیکن جب یہ آیت اتری
وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
النور : 22
تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : کیوں نہیں، میں تو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔ چنانچہ انھوں نے وہ وظیفہ دوبارہ جاری کر دیا اور کہا، میں اس میں کبھی کمی نہیں کروں گا۔
وہ کہا کرتا تھا : گزری ہوئی باتیں یاد نہیں کی جاتیں
اس نے کہا "جو گزر گیا سو گزر گیا” رب العزت نے بھی اسے یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ "جو گزر گیا سو گزر گیا”*
امام ذھبی نے مسعود الهمذاني کے حالات میں لکھا ہے کہ
أنه كان من خيار الناس، وكان كثيرا ما يصفح عن الناس بقوله: "الماضي لا يُذكر”
وہ بہت اچھا آدمی تھا (اور لوگ اس پر زیادتی کرتے تو بعد میں) لوگوں کو یہ کہہ کر معاف کر دیا کرتا تھا کہ گزری ہوئی باتیں یاد نہیں کی جاتیں جو گزر گیا سو گزر گیا
قيل إنّه رؤي في المنام بعد موته فقيل له: ما فعل الله بك؟
پھر ان کی وفات کے بعد کسی نے خواب میں ان سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا گیا
تو کہنے لگے :
أوقفني بين يديه، وقال لي: يامسعود الماضي لايُذْكَر، انطلقوا به إلى الجنة”.
تاريخ الإسلام (٤٢/٣٢٧)
مجھے میرے رب نے اپنے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا :اے مسعود گزری ہوئی باتیں یاد نہیں کی جاتیں جو گزر گیا سو گزر گیا (اور فرشتوں سے کہا 🙂 اسے جنت میں لے چلو
یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے
شعب ابی طالب میں معاشی بائیکاٹ کرنے والوں پر جب قحط سالی کا کوڑا برسا تو رحم دل نبی نے اپنے ماضی کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان کے لیے دعا کی
قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت سرکشی کی تو انھیں قحط اور بھوک نے آ لیا
حَتّٰی أَكَلُوا الْعِظَامَ
حتیٰ کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے ۔
وفی روایۃ
حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ
ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے
آدمی آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا
تو ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کہا :
’’یا رسول اللہ! مضر (قبیلے) کے لیے بارش کی دعا کریں، کیونکہ وہ تو ہلاک ہو گئے۔‘‘
وفی روایۃ
فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ
ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے
فَاسْتَسْقٰی فَسُقُوْا
[ بخاري : 4821 ]
خیر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا کر دی اور ان پر بارش ہو گئی
دشمنیاں نہ پالیں،پرانے قتل بھول جائیں
اس وقت بہت سے لوگوں نے پرانی پرانی دشمنیاں اور رنجشیں پال رکھی ہیں، جس کا سب سے بڑا نقصان خود ان کی اپنی ذات کو ہوتا ہے، مستقل خطرہ اور خوف ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے، ہر وقت گن اٹھانے پر مجبور ہیں، حتی کہ قبرستان میں دعا کرنے، حمام میں حجامت بنوانے ،مسجد میں نماز پڑھنے یا ہوٹل پہ کھانا کھانے بھی جانا ہو تو باڈی گارڈز کا دستہ ساتھ لیجانا پڑتا ہے
اف یہ مصیبت، اللہ کی پناہ
امرتسر والوں سے ہمارے پڑدادے کی لڑائی ہوئی تھی
میں نے ایک طے شدہ رشتہ محض کئی سال پرانی لڑائی کی وجہ سے ٹوٹتا دیکھا ہے
واقعہ یوں ہے کہ رشتہ دیکھنے والوں نے رشتہ دیکھ کر اوکے کیا، سب کچھ پسند آیا، لڑکا مطلوبہ معیار کے عین مطابق تھا، پھر کیا ہوا کہ باتوں ہی باتوں میں پتہ چلا کہ پاکستان بننے سے پہلے لڑکے کے اجداد امرتسر میں رہتے تھے جبکہ جو رشتہ دیکھنے آئے تھے ان کے اجداد ہشیار پور میں رہتے تھے اور کئی دھاہیاں پرانی بات ہے کہ امرتسر والوں سے ہشیار پور والوں کی لڑائی ہوئی تھی بس پرانی دشمنی کی یاد تازہ ہو گئی اور یہ کہہ کر رشتہ ختم کر دیا کہ امرتسر والوں سے ہمارے پڑدادے کی لڑائی ہوئی تھی
اللہ۔ اللہ۔ کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار
ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھے یہودی شاش بن قیس نے ایک بار انصار کے دو قبائل اوس اور خزرج کے درمیان ان کی زمانہ جاہلیت میں ہونے والی ایک جنگ جسے جنگ بعاث کہتے ہیں ،کا تذکرہ چھیڑ کر انہیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے لیے کھڑا کر دیا، قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اللہﷺ کو اس کی خبر ہوگئی۔ آپﷺ اپنے مہاجرین صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا :”اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ۔ اللہ۔ کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار ! اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرماچکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کاٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دے کر تمہارے دلو ں کو آپس میں جوڑ چکا ہے۔” آپﷺ کی نصیحت سن کر صحابہ کو احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطا ن کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال تھی ، چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس وخزرج کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ اطاعت شعار وفرمانبردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اللہ نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھادی تھی
الرحیق المختوم ص324
شیخ الاسلام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا :
کہ اگر کوئی شخص آپ کو کسی وجہ سے ناراض کرتا ہے اور پھر وہ اپنی غلطی کی آپ سے معافی طلب کرتا ہے تو عاجزی اور تواضع کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اس کی معذرت کو قبول کریں چاہے وہ سچا ہو یا جھوٹا ہو
اس کے دل کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے
مدارج السالکین 2/321