خط کھینچنے کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی نبی کو عطا فرمایا تھا، اس کے بعد یہ کسی کے لیے بوجہ عدم موافقت درست نہیں
826۔ سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم میں سے کچھ
لوگ لکیریں کھینچتے ہیں (ان سے کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں)۔ آپﷺ نے فرمایا:
((كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ)) (أخرجه مسلم:537)
’’(اللہ کے) انبیاء میں سے ایک نبی لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں ان کے موافق ہوں وہ درست ہے (لیکن اب اس کے بارے میں جاننا مشکل ہے)۔
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ زمین پر خط لگا کر حساب لگانے کا علم اللہ تعالی نے اپنے ایک نبی کو دیا تھا جو اس نبی کے لیے اللہ کی طرف سے ایک نشانی تھی۔ اگر کسی کے پاس وہ علم ہے اور اس کی نبی سے بے ساختہ موافقت ہو جاتی ہے تو ٹھیک ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایسی موافقت ناممکن اور محال ہے کیونکہ کسی کے پاس اللہ کی نشانی نہیں ہے، اس لیےیہ نا جائز ہے۔ کا ہن اور نجومی اس طرح کے علم کا بھی دعوی کرتے ہیں جس کی تردید سابقہ اوراق میں گزر چکی ہے۔ یہ سب شرک کی راہیں ہیں جنھیں اسلام نے بند کر دیا ہے۔
827۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم ﷺ سے ارشاد باری تعالیٰ: ﴿أَوْ أَثٰرَةِ مِنْ عِلْمِهِ﴾ (الأحقاف4:46) (اگر تم ( تم سچے ہو تو اس سے پہلے ہی کی کوئی کتاب یا کوئی علم ہی جونقل کیا جاتا ہو) میرے پاس لاؤ‘‘ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((الخَطُّ)) ’’اس سے مراد خط ہے۔‘‘ (أخرجه أحمد: 1992)
828۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے (ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے خط کے متعلق
دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: وہ ﴿آثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ﴾ ہے۔‘‘ (أخرجه الطبراني في الكبير:10725)
829۔ سیدنا قبیصہ بن مخارق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
((الْعِيَافَةُ وَالطِّيَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ)) (أخرجه أحمد: 15915،20603، وأبو داود:3907، وابن حبَّان: 6131، و إسناده ضعيف، ففيه حيان
الراوي عن قطن بن قبيصة غير منسوب، وبقية رجاله ثقات)
’’پرندوں کو اڑا کر فال لینا، بدشگونی لینا اور زمین پر خط اور لکیریں کھینچتا، یہ سب جادو کی قسمیں ہیں۔‘‘
عوف بن ابو جمیلہ کہتے ہیں کہ عیافہ سے مراد پرندوں کو بطور فال اڑانا اور طرق سے مراد خط کھینچتا ہے۔