سلام کے آداب

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى المَاشِي وَالمَاشِي عَلَى القَاعِدِ وَالقَلِيلُ عَلَى الكَثِير (متفق عليه) وَفِي رِوَايَةِ البُخارى: وَالصَّغِيرُعَلَى الكَبِير۔ (متفق عليه).

(صحیح بخاری: کتاب الاستيذان، باب يسلم الماشي على القاعد، وصحيح مسلم: کتاب السلام، باب يسلم الراكب على الماشي والقليل على الكثير.)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سوار پیادہ چلنے والے کو اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔

بخاری کی روایت میں ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔

وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ البَاهِليَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِاللَّهِ مَنْ بَدَأَهُم بِالسَّلَامِ (أخرجه أبو داود والترمذي).

(سنن ابو داود: كتاب الأدب، باب في فضل من بدأ بالسلام، سنن ترمذى: أبواب الاستذان، باب ما جاء في فضل الذي یبدأ بالسلام، وقال حديث حسن، وصححه الألباني في المشكاة (4646)

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک لوگوں میں اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو انہیں سلام کہنے میں پہل کرے۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ : إِذَا لَقِي أَحَدُكُم أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَإِنْ حَالَت بَيْنَهُمَا شَجَرَةٌ أَوْ جِدَارٌ أَوْ حَجَرٌ ثُمَّ لَقِيَهُ فَلْيُسَلِّمُ عَلَيْهِ أيضًا. (أخرجه أبو داود).

(سنن أبو داود: كتاب الأدب، باب في الرجل يفارق الرجل ثم یلقاء أيسلم عليه، وصححه الألباني في الصحيحة (189).

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو ملے تو اسے سلام کہے، پس اگر ان کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا پھر حائل ہو جائے، اور پھر اسے ملے تو اسے چاہئے کہ پھر سلام کرے۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا انْتَهٰى أَحَدُكُم إِلٰى مَجْلِسٍ فَلْيُسَلِّمْ فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَّجْلِسَ فَلْيَجْلِسُ، ثُمَّ إِذَا قَامَ فَلَيُسَلِّمُ فَلَيْسَتِ الْأُولَى بِأَحَقِّ مِنَ الآخرَةِ. (أخرجه الترمذي وأبو داود).

(سنن ترمذی: كتاب الاستئذان، باب ما جاء في التسليم عند القيام وعند القعود، وقال حديث حسن، سنن أبو داود كتاب الأدب، باب في السلام إذا قام من المجلس، والألباني حسن صحيح في الصحيحة (183)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو چاہیے کہ سلام کہے اور جب وہاں سے اٹھنا چاہے تو بھی سلام کرے اور پہلی دفعہ سلام کہنا دوسری دفعہ کے مقابلے میں کوئی زیادہ اہم نہیں ہے۔

تشریح:

رسول اکرم ﷺ نے سلام کے آداب و سنن کو بیان فرمایا ہے کہ سواری پے چلنے والا پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھنے والے کو، چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے کیونکہ اس میں تو اضع اور خاکساری ہے اور پیدل چلنے والے کی عزت اور بڑے کا احترام مقصود ہے، جب دو مسلمان آپس میں ملیں تو ان میں سلام میں پہل کرنے والا آدمی اللہ تعالی کے نزدیک بہت ہی محبوب ہوتا ہے کیونکہ اس نے بھلائی میں سبقت کی ہے، اسی طرح جب مسلمان اپنے بھائی سے کچھ لمحہ کے لئے جدا ہو اور پھر ملاقات ہو تو اس سے پھر سلام کرنا مستحب ہے، نیز مجلس میں پہنچنے اور نکلنے کے وقت بھی سلام کرنا مسنون ہے۔ آج اگر اس سنت پر عمل کیا جائے کہ جب بھی ملاقات ہو تو سلام کریں تو لوگ اسے مذاق اور برا تصور کریں گے اور سوچیں گے کہ اس سلام کے پیچھے ضرور کوئی مطلب یا راز پوشیدہ ہے اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے۔

فوائد:

٭ سوار پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھنے والے کو، چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے یہی مسنون ہے۔

٭ دو مسلمانوں کا آپس میں بار بار سلام کرنا مستحب ہے اگر چہ دونوں کے درمیان ایک دیوار ہی حائل کیوں نہ ہو۔