ماحول کا بہانہ یا نفس کی کمزوری۔؟
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ [الکہف: 28]
ذی وقار سامعین!
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو انسان کے لیے ایک آزمائش گاہ بنایا اور اِسے مختلف حالات و ماحول دیے۔ انسان اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے اور اسی کے مطابق اپنی شخصیت اور اعمال تشکیل دیتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ماحول کی اہمیت کو بار بار اجاگر کیا گیا ہے تاکہ انسان اس پہلو کو سمجھ کر اپنی زندگی میں نیکی کو فروغ دے اور برائی سے بچے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کو اچھے ماحول اور اچھی صحبت اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
”اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھ جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں اور تیری آنکھیں ان سے آگے نہ بڑھیں کہ تو دنیا کی زندگی کی زینت چاہتا ہو اور اس شخص کا کہنا مت مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام ہمیشہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔“ [الکہف: 28]
یہ آیت ہمیں نصیحت کرتی ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیے جو نیک ہوں اور اللہ کی یاد میں مشغول رہتے ہوں، کیونکہ ان کی صحبت سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور گناہوں سے بچنے کا موقع ملتا ہے ، جب اللہ تعالی نے حکم دیا کہ ابراہیم اپنی بیوی کو اور اپنے بیٹے کو بیت اللہ کے پاس جنگل بیابان میں چھوڑ دو تو سیدنا ابراہیم نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور وہاں چھوڑ دیا اور اس کا مقصد یہ بیان کیا ؛
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
”اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں اور انھیں پھلوں سے رزق عطا کر، تاکہ وہ شکر کریں۔“ [ابراھیم: 37]
اولاد کے لئے اچھے ماحول کا انتخاب کیا کہ یہاں رہیں تاکہ نماز ادا کریں۔ نبی کریم ﷺ نے بھی ماحول کے اثرات پر زور دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِيسِ السَّوْءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ وَكِيرِ الْحَدَّادِ لَا يَعْدَمُكَ مِنْ صَاحِبِ الْمِسْكِ إِمَّا تَشْتَرِيهِ أَوْ تَجِدُ رِيحَهُ وَكِيرُ الْحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ أَوْ ثَوْبَكَ أَوْ تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً
”نیک ساتھی اوربرے ساتھی کی مثال مشک بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے۔ یا تو مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پاسکو گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تمہارے بدن اور کپڑے کو جھلسا دے گی ورنہ بدبو تو اس سے تم ضرورپالو گے۔“ [صحیح بخاری: 2101]
یہ حدیث ہمیں اچھے اور برے ماحول کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور یہ سکھاتی ہے کہ انسان کے دوست اور ارد گرد کا ماحول اس کی شخصیت اور کردار پر براہ راست اثر ڈالتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ
”آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے ، اس لیے تم میں سے ہرشخص کویہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہاہے۔“ [ترمذی: 2378 حسنہ الالبانی]
یہ نصیحت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ایک مومن کو ہمیشہ نیک اور صالح لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے تاکہ اس کے اعمال بھی نیکی کے راستے پر گامزن رہیں ، نیک اور صالح لوگوں کی بیٹھک اور ماحول بڑے سے بڑے گنہگار کو سدھار دیتا ہے ، بلکہ انسان صرف اچھے ماحول کا قصد اور ارادہ ہی کرلے تو اللہ اس کے لئے جنتوں کے دروازے کھول دیتا ہے ، بنی اسرائیل کا وہ شخص جو سو بندوں کا قاتل تھا ، نیک ماحول تلاش کرنے کے لئے نکلا ، راستے میں وفات ہوئی ، ابھی نیک ماحول میں پہنچا نہیں تھا ، بلکہ صرف اس کا قصد اور ارادہ کیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا اور جنت کا داخلہ دے دیا۔ ] تفصیل کے لئے دیکھئےصحیح بخاری: 3407[ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم ، سب سے پہلے اس بات کو سمجھیں گے کہ انسان پر ماحول کا اثر ہوتا ہے اور وہ ماحول کا اثر قبول کرتا ہے ، اس کے بعد یہ بات سمجھیں گے کہ برے ماحول میں جا کر برے بن نہیں بن جانا ، بلکہ ماحول کو ٹھیک کرنا ہے۔
ماحول کا انسان پر اثر
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص فطرت پر پیدا کیا ہے اور اسے اچھائی اور برائی کا شعور عطا کیا ہے۔ انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، چاہے وہ اثر اچھائی کی طرف لے جانے والا ہو یا برائی کی طرف۔ اس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
❄ سیدنا انس کہتے ہیں:
كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّارِ
”ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا‘ ایک دن وہ بیمار ہوگیا۔ آپ ﷺ اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہوجا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا‘ باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسم ﷺ جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب آنحضرت ﷺ باہر نکلے تو آپ نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔ ] صحیح بخاری: 1356[
یہ یہودی لڑکا اچھے ماحول میں رہتا تھا ، اچھے ماحول میں رہنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کلمہ نصیب ہو گیا اور اللہ کی جنتوں کا مہمان بن گیا۔
❄سیدنا ثمامہ بن اثال کو گرفتار کیا گیا ، مسجدِ نبوی کے ستون سے باندھا گیا ، تین دن تک وہ عظیم ترین ماحول میں رہے ، اسلام کے اور نبی مکرمﷺکے شدید مخالف ہونے کے باوجود اس عظیم ماحول نے ان کو اسلام لانے پر مجبور کردیا ، وہ کلمہ پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں:
يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ
”اے محمد ! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لئے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لئے محبوب نہیں ہے ۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے ۔ اللہ کی قسم ! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میر ا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔“ ] تفصیل کے لئے دیکھئےصحیح بخاری: 4372[
ماحول کا بہانہ یا نفس کی کمزوری۔۔۔؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے عقل، اختیار اور ارادہ عطا کیا تاکہ وہ نیکی اور بدی کے درمیان تمیز کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو امتحان کی جگہ بنایا، جہاں انسان کو مختلف آزمائشوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج برے ماحول کا اثر ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ لوگ اپنے گناہوں یا غلطیوں کا ذمہ دار ماحول کو ٹھہراتے ہیں اور یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ”کیا کریں، ماحول ہی ایسا ہے!“ لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی برے اعمال کا ذمہ دار صرف ماحول ہے؟ یا اس کے پیچھے انسان کا اپنا نفس بھی شامل ہے؟ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور اس کی فطرت کے بارے میں فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
”بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے۔“ ] التین: 4[
اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ
”اور ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیے۔“ ] البلد: 10[
ایک اور مقام پہ فرمایا:
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
”بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ ناشکرا۔“ ] الدھر: 3[
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو نیکی اور بدی کا شعور دیا گیا ہے اور وہ اپنے اعمال کے لیے خود ذمہ دار ہے۔ برے ماحول کا اثر انسان پر ضرور پڑتا ہے، لیکن یہ اثر اس وقت غالب ہوتا ہے جب انسان خود اپنے نفس کی کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے۔ ماحول محض ایک آزمائش ہے، اصل امتحان یہ ہے کہ انسان اس آزمائش میں کیسے ثابت قدم رہتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان کو اپنے نفس پر قابو پانا اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنا ہے، چاہے ماحول کتنا ہی خراب کیوں نہ ہو۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
”بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“ ] یوسف: 53[
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان کے اعمال میں نفس کا بہت بڑا کردار ہے اور برے اعمال کو صرف ماحول پر ڈالنا درست نہیں۔ اب ہم ان چند لوگوں کا تذکرہ کریں گے ، جو برے ماحول میں بھی نیکی پر قائم رہے ، جن کی زندگیاں ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ لکیر کے فقیر نہیں بننا ، بلکہ اپنی لکیر کھینچنی ہے۔
اہلِ ایمان:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کے کئی مقامات پر یہ بات بیان کی ہے کہ سچے مومن اورمسلمان برے ماحول کا حصہ نہیں بنتے ، اللہ تعالیٰ عبادلرحمٰن کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
”اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔“ ]الفرقان : 63[
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا
”اور وہ جو جھوٹ میں شریک نہیں ہوتے اور جب بے ہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔“ ]الفرقان : 72[
ایک اور مقام پہ فرمایا:
وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ
”اور جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال۔ سلام ہے تم پر، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔“]القصص: 55[
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ برے ماحول میں جانا ہی نہیں ، برے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا ہی نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا
”اور ان لوگوں کو چھوڑ دے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل اور دل لگی بنا لیا اور انھیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا۔“ ]الانعام : 70[
دوسری جگہ فرمایا:
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
”اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔“ ]الانعام : 68[
حضرت نوح :
ساڑھے نو سو سال کا ایک لمبا عرصہ حضرت نوح نے اپنی قوم کو تبلیغ کی ، ان کو ہر طریقے سے دعوت دی ، خود نوح فرماتے ہیں:
قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا
”اس نے کہا اے میرے رب! بلاشبہ میں نے اپنی قوم کو رات اور دن بلایا۔
تو میرے بلانے نے دور بھاگنے کے سوا ان کو کسی چیز میں زیادہ نہیں کیا۔ اور بے شک میں نے جب بھی انھیں دعوت دی، تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور اڑ گئے اور تکبر کیا، بڑا تکبر کرنا۔“ ] نوح: 7-5[
سیدنا نوح اتنے برے اور شرک والے ماحول میں رہے ، ان کو مسلسل دعوت رہے ، وہ نہیں مانے ، پھر بھی نوح نے ان کے ماحول کا اثر قبول نہیں کیا ، بلکہ توحید پر کاربند رہے اور اس پر ڈٹے رہے۔
حضرت ابراہیم :
حضرت ابراہیم نے جس گھر میں آنکھ کھولی ، اس گھر میں بت بنائے جاتے تھے ، ان کا والد آزار بت فروش تھا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
”اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے؟ بے شک میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔“ ]الانعام : 74[
پتہ چلا کہ بت فروشی گھر میں ہوتی ہے ، اس ماحول کے اثر کو قبول نہیں کیا ، بلکہ اس ماحول کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ، باپ کو ہی س سے پہلے تبلیغ کی ، قرآن کہتا ہے:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا يا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِيًّا ياأَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا
”اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر، بے شک وہ بہت سچا تھا، نبی تھا۔جب اس نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ! تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تیرے کسی کام آتی ہے؟ اے میرے باپ! بے شک میں، یقیناً میرے پاس وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا، اس لیے میرے پیچھے چل، میں تجھے سیدھے راستے پر لے جاؤں گا۔اے میرے باپ! شیطان کی عبادت نہ کر، بے شک شیطان ہمیشہ سے رحمان کا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ! بے شک میں ڈرتا ہوں کہ تجھ پر رحمان کی طرف سے کوئی عذاب آپڑے، پھر تو شیطان کا ساتھی بن جائے۔“ [مریم: 45-41]
حضرت یوسف :
قرآن مجید میں سورۃ یوسف میں بیان کیا گیا کہ جب عزیز مصر کی بیوی نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنی پاکیزگی اور اللہ کے خوف کی بنا پر اس گناہ سے بچ گئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِۦ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ أَن رَّءَا بُرْهَٰنَ رَبِّهِۦ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ ٱلسُّوٓءَ وَٱلْفَحْشَآءَ ۚ إِنَّهُۥ مِنْ عِبَادِنَا ٱلْمُخْلَصِينَ
”اور اس عورت نے، جس کے گھر میں وہ تھا، اسے اس کے نفس سے پھسلایا اور دروازے اچھی طرح بند کرلیے اور کہنے لگی جلدی آ۔ اس نے کہا اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔اور بلاشبہ یقیناً وہ اس کے ساتھ ارادہ کرچکی تھی اور وہ بھی اس عورت کے ساتھ ارادہ کرلیتا اگر یہ نہ ہوتا کہ اس نے اپنے رب کی دلیل دیکھ لی۔ اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ہٹا دیں۔ بے شک وہ ہمارے خالص کیے ہوئے بندوں سے تھا۔“ ]یوسف : 23،24[
ان آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگرچہ ماحول اور حالات گناہ کی طرف مائل کرنے والے تھے، لیکن یوسف نے فرمایا:
قَالَ مَعَاذَ ٱللَّهِ ۖ إِنَّهُۥ رَبِّىٓ أَحْسَنَ مَثْوَاىَ ۖ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّٰلِمُونَ
”اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔“
فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بھٹوی سورہ یوسف کی آیت نمبر23 کے تحت لکھتے ہیں:
”اہل علم فرماتے ہیں کہ اس وقت یوسف کو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہر چیز موجود تھی اور روکنے والی دنیا کی کوئی چیز نہ تھی۔ یوسف کی صحت، جوانی، قوت، خلوت، فریق ثانی کا حسن، پیش کش، اس پر اصرار، غرض ہر چیز ہی بہکا دینے والی تھی، جب کہ انسان کو روکنے والی چیز اس کی اپنی جسمانی یا جنسی کمزوری ہو سکتی ہے، یا فریق ثانی کے حسن کی کمی، یا اس کی طرف سے انکار یا مزاحمت کا امکان یا راز فاش ہونے کا خطرہ یا اپنے خاندان، قوم اور لوگوں میں رسوائی کا خوف، ان میں سے کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔ اٹھتی جوانی تھی، بے مثال حسن تھا، دروازے بند تھے، دوسری طرف سے پیش کش بلکہ درخواست اور اس پر اصرار تھا، اپنے وطن سے دور تھے کہ قبیلے یا قوم میں رسوائی کا ڈر ہو۔ یہاں کتنے ہی لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو اپنوں سے دور ہونے کی وجہ سے بہک جاتے ہیں، پھر دروازے خوب بند تھے، راز فاش ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی اور جب مالکہ خود کہہ رہی ہو تو سزا کا کیا خوف؟“
حضرت آسیہ :
حضرت آسیہ ، فرعون کی بیوی، ایک عظیم اور نیک خاتون تھیں جنہوں نے بدترین ماحول میں اپنی پاکیزگی اور ایمان کو برقرار رکھا۔ قرآن مجید میں ان کی مثال مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ التحریم میں فرماتے ہیں:
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
”اور اللہ نے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی، جب اس نے کہا اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔“ ]الانعام : 11[
حضرت آسیہ نے کتنے بُرے ماحول میں رہتے ہوئے خود کو نیک بنایا اور اللہ کی جنتوں کی مہمان بن گئیں۔
حضرت محمد کریمﷺ:
نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل مکہ کا معاشرہ شرک کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لوگ بتوں کو اپنے معبود مانتے تھے اور ان کے سامنے جھکتے تھے۔ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے گئے تھے، جنہیں مقدس سمجھا جاتا تھا۔ لات، منات، عزیٰ اور ہبل جیسے بڑے بتوں کی پوجا عام تھی۔ مکہ کے لوگ نہ صرف ان بتوں کی عبادت کرتے تھے بلکہ ان کے لیے جانوروں کی قربانی بھی کرتے تھے۔ قبائل کے اپنے اپنے مخصوص بت تھے، جنہیں وہ اپنا محافظ تصور کرتے تھے۔ شرک کے ساتھ ساتھ بدعات اور جاہلانہ رسومات بھی عام تھیں۔ توہم پرستی اور نجومیوں پر یقین زندگی کا حصہ تھا۔ قبائل کے لوگ اپنے بتوں سے مدد مانگتے اور مشکلات میں ان سے رجوع کرتے تھے۔ معاشرہ روحانی طور پر تباہ حالی کا شکار تھا، اور توحید کا تصور تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ ان حالات میں جبنبی مکرمﷺنے مکہ میں توحید و رسالت کا اعلان کیا ، اپنے پرائے سب مخالف ہو گئے ، ان سب کے باوجود آقا نے مکہ کے ماحول کا اثر قبول نہیں کیا ، بلکہ اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کیا ہے ، مفسر قرآن مولانا عبدالرحمٰن کیلانیاپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”کفار مکہ نے جب دیکھا کہ ان کی مقدور بھر کوششوں کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جارہا ہے۔ تو انہوں نے کئی بار آپ سے باہمی سمجھوتہ کی کوششیں کیں۔ ایک دفعہ یہ پیش کش کی اگر آپ ہمارے بتوں سے متعلقہ آیات پڑھنا چھوڑ دیں تو ہم آپ کے مطیع بننے کو تیار ہیں۔ لیکن آپ ان کی یہ بات کیسے مان سکتے تھے؟ اور ایک دفعہ یہ پیشکش کی کہ اگر آپ حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا حاکم بنانے پر تیار ہیں۔ اگر مال و دولت چاہتے ہیں تو تمہارے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور اگر آپ کو کسی عورت سے محبت ہے تو ہم اس سے آپ کی شادی کردیں گے بشرطیکہ آپ جو دعوت پیش کر رہے ہیں اس سے باز آجائیں۔ گویا ان کے خیال کے مطابق ایک عام انسان کا منتہائے مقصود یہی تین چیزیں ہوسکتی ہیں۔ جو انہوں نے پیش کردیں۔ اور یہ پیش کش آپ کے ہمدرد و غمخوار اور سرپرست چچا ابو طالب کی موجودگی میں کی گئی۔ چونکہ سب سرداران قریش مل کر آئے تھے اس لیے ابو طالب کے پائے استقلال میں بھی لغزش آگئی اور وہ بھی آپ کو سمجھانے لگے۔ یہ معاملہ دیکھ کر آپ روپڑے اور اپنے چچا سے کہنے لگے ’’چچا جان! اگر ان لوگوں میں اتنی طاقت ہو کہ وہ میرے ایک ہاتھ پر سورج لا کر رکھ دیں اور دوسرے پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آسکتا۔ یا تو یہ کام پورا ہو کے رہے گا یا پھر میری جان بھی اسی راہ میں قربان ہوگی‘‘ بھتیجے کا یہ استقلال دیکھ کر چچا کی بھی ہمت بندھ گئی اور کہنے لگا’’بھتیجے جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرتے جاؤ۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہاری حمایت پر کمر بستہ رہوں گا‘‘ چنانچہ قریشیوں کا وفد ناکام اٹھ کر چلا گیا۔“
سیدنا عثمانِ غنی :
دورِ جاہلیت بے حیائی اور اخلاقی گراوٹ کا زمانہ تھا، جہاں شرم و حیا کی قدریں معدوم ہو چکی تھیں۔ زنا اور بے حیائی کے کام عام تھے اور ان پر کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ لوگ کھلے عام گناہ کرتے اور اسے اپنی ثقافت کا حصہ سمجھتے تھے۔ یہ ایسا دور تھا ، جس میں نکاح کی کئی قسمیں باقاعدہ زنا پر مشتمل تھیں ، لوگ اعلانیہ زنا کرتے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے ، ایسے ماحول میں سیدنا عثمان غنی اس ماحول سے متاثر نہیں ہوئے ، ابوامامہ بن سہل بن حنیف کہتے ہیں:
أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَشْرَفَ يَوْمَ الدَّارِ فَقَالَ أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ ارْتِدَادٍ بَعْدَ إِسْلَامٍ أَوْ قَتْلِ نَفْسٍ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقُتِلَ بِهِ فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَتَلْتُ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ فَبِمَ تَقْتُلُونَنِي
”جب باغیوں نے عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کررکھاتھا توانہوں نے اپنے گھر کی چھت پر آکرکہا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتاہوں، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’ تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں: شادی کے بعدزناکرنا ، یااسلام لانے کے بعدمرتد ہوجانا، یا کسی کو ناحق قتل کرنا جس کے بدلے میں قاتل کوقتل کیاجائے ، اللہ کی قسم! میں نے نہ جاہلیت میں زناکیا ہے نہ اسلام میں، نہ رسول اللہﷺ سے بیعت کرنے کے بعد میں مرتدہواہوں اورنہ ہی اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کا قاتل ہوں ، پھر (آخر) تم لوگ کس وجہ سے مجھے قتل کررہے ہو ؟۔ [ترمذی: 2158 صححہ الالبانی ]
سیدنا أبو اُمامہ باھلی :
سیدنا ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے میری قوم ”باہلہ“ کی طرف ( بحیثیت مبلغ) بھیجا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو بھوکا تھا اور وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے، (ایک روایت میں ہے کہ خون کھا رہے تھے) وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور میری عزت و آبرو کی، انہوں نے کہا: صدی بن عجلان کو خوش آمدید۔ انہوں نے کہا: ہمیں یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ تم اس آدمی (محمد ﷺ ) کی طرف مائل ہو گئے ہو؟ (کیا بات اسی طرح ہے) میں نے کہا: نہیں نہیں۔ میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں اور اب رسول اللہ ﷺ نے مجھے ( قاصد بنا کر) بھیجا ہے تاکہ تم پر اسلام اور اس کے شرعی قوانین پیش کروں۔ انہوں نے کہا: آؤ کھانا کھاؤ۔ میں نے کہا: تمہارا ستیاناس ہو، میں تو تمہیں اس (قسم کے کھانوں سے) منع کرنے کے لیے آیا ہوں، میں رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں، میں تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ تم لوگ مومن بن جاؤ۔ میں انہیں دعوت اسلام دیتا رہا اور وہ مجھے جھٹلاتے اور جھڑکتے رہے۔ میں نے انہیں کہا: تمہارا ناس ہو، میں سخت پیاسا ہوں، پانی تو پلاؤ، اس وقت میرے پاس ایک پگڑی بھی رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا: نہیں۔ ہم تجھے یوں ہی چھوڑے رکھیں گے، حتیٰ کہ تو مر جائے گا۔ میں سخت بھوک اور پیاس کی حالت میں وہاں سے چل دیا، میں اس وقت بری طرح تھک ہار چکا تھا اور دم گھٹ رہا تھا، میں نے اپنا سر پگڑی میں دیا اور گرمی کی شدت میں تپتی ہوئی زمین پر سو گیا، خواب میں میرے پاس دودھ لایا گیا (اور اتنا لذیذ کہ) لوگوں نے اس جیسا لذت والا دودھ نہیں دیکھا ہو گا، مجھے اس کو پینے کا موقع دیا گیا، میں نے پیا اور سیراب ہو گیا اور میرا پیٹ بڑا ہو گیا۔ لوگوں نے کہا: تمہارے پاس ایک اعلی و اشرف آدمی آیا تھا، لیکن تم نے (اس کی کوئی عزت نہیں کی) اور اسے دھتکار دیا، جاؤ اور اسے اس کی چاہت کے مطابق کھانا کھلاؤ اور مشروب پلاؤ۔ وہ میرے پاس کھانا لائے، لیکن میں نے کہا:
لَا حَاجَةَ لِي فِي طَعَامِكُم وَشَرَابِكُم، فَإِنَّ اللهَ قَد أَطعَمَنِي وَسَقَانِي
”مجھے تمہارے کھانے پینے کی کوئی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے کھلایا بھی ہے اور پلایا بھی ہے۔“
یہ میرا وجود دیکھ لو۔ پھر میں نے ان کو اپنا (سیر و سیراب) پیٹ دکھایا، جب انہوں نے یہ (کرامت) صورتحال دیکھی تو وہ مجھ پر اور جو کچھ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے لایا تھا، اس پر ایمان لے آئے اور سارے کے سارے مسلمان ہو گئے۔ ]سلسلہ صحیحہ : 3442[
یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ برے ماحول میں جا کر ان جیسے نہیں بن جانا ، کہ آپ کسی جگہ گئے ہیں اور وہاں لوگ نماز نہیں پڑھتے ، آپ بھی نہ پڑھیں ، لوگ وہاں حرامکاری میں ملوث ہیں ، آپ بھی حرام کاری میں ملوث ہو جائیں ، یہ بات انتہائی غلط ہے ، ہمارا کردار ایسا ہونا چاہئے جیسا سیدنا أبو امامہ باہلی کا تھا ، ان کا کردار دیکھ کر سارے کا سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔
سیدنا أبو مرثد غنوی :
عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں:
مرثد بن ابی مرثد غنوی ایک سخت اور زور آور آدمی تھے، قیدیوں کو مکہ سے مدینہ منتقل کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے ایک شخص کو بلایا کہ اسے سواری پر ساتھ لیتا جاؤں، مکہ میں عناق نامی ایک بدکار عورت تھی جو ان کی آشنا تھی، وہ (گھر سے باہر) نکلی، دیوار کی پرچھائیوں میں میرے وجود کو (یعنی مجھے) دیکھا، بولی:
مَنْ هَذَا مَرْثَدٌ مَرْحَبًا وَأَهْلًا يَا مَرْثَدُ انْطَلِقْ اللَّيْلَةَ، فَبِتْ عِنْدَنَا فِي الرَّحْلِ
”کون ہے؟ مرثد! خوش آمدید اپنوں میں آ گئے، مرثد! آج رات چلو ہمارے ڈیرے پر ہمارے پاس رات کو سوؤ۔“
میں نے کہا:
يَا عَنَاقُ , إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ الزِّنَا
”عناق! رسول اللہ ﷺ نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے۔“
اس نے کہا:
يَا أَهْلَ الْخِيَامِ هَذَا الدُّلْدُلُ هَذَا الَّذِي يَحْمِلُ أُسَرَاءَكُمْ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ
”خیمہ والو! یہ دلدل ہے یہ وہ (پرندہ) ہے جو تمہارے قیدیوں کو مکہ سے مدینہ اٹھا لے جائے گا۔“
(یہ سن کر) میں خندمہ (پہاڑ) کی طرف بڑھا (مجھے پکڑنے کے لیے) میری طلب و تلاش میں آٹھ آدمی نکلے اور میرے سر پر آ کھڑے ہوئے، انہوں نے وہاں پیشاب کیا جس کے چھینٹے مجھ پر پڑے (اتنے قریب ہونے کے باوجود وہ مجھے دیکھ نہ سکے کیونکہ) میرے حق میں اللہ نے انہیں اندھا بنا دیا۔ میں (وہاں سے بچ کر) اپنے (قیدی) ساتھی کے پاس آیا اور اسے سواری پر چڑھا کر چل پڑا۔ پھر جب میں اراک پہنچا تو میں نے اس کی بیڑی کھول دی، پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے کہا: اللہ کے رسول! میں عناق سے شادی کر لوں؟ تو آپ خاموش رہے پھر آیت
الزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك
”زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی۔“ (النور: ۳)
نازل ہوئی، پھر (اس کے نزول کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا، مذکورہ آیت پڑھی پھر فرمایا:”اس سے شادی نہ کرو۔“ [نسائی: 3230 حسنہ الالبانی]
سیدنا أبو مرثد غنوی پر عورت کے بنائے گئے ماحول نے کوئی اثر نہیں کیا بلکہ انہوں نے زنا کرنے سے انکار دیا۔