اسلام بے حیائی کی روک تھام کیسے کرتا ہے

قسط (1)

01.عفت و عصمت اور پاکدامنی اختیار کرنے والوں کو اجر عظیم کی خوش خبری سناتے ہوئے

شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مومن کامیاب ہوگئے

اللہ تعالیٰ نے مومنین کی کامیابی بیان کرتے ہوئے فرمایا

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ.(المؤمنون : 1)

یقینا کامیاب ہوگئے مومن۔

پھر ان کی کئی ایک صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان کی کہ

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ.(المؤمنون : 5)

اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

زبان اور شرمگاہ کی حفاظت اور جنت کی ضمانت

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الجَنَّةَ (بخاری ،كِتَابُ الرِّقَاقِ،بَابُ حِفْظِ اللِّسَانِ،6474)

میرے لئے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز ( زبان ) اور دونوں پاؤں کے درمیان کی چیز ( شرمگاہ ) کی ذمہ داری دے دے میں اس کے لئے جنت کی ذمہ داری دے دوں گا

02.فحاشی کے مرتکب افراد کو عذاب الیم کا پیغام دے کر

فرمایا

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.(النور : 19)

بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

نیم عریاں لباس زیب تن کرنے والی عورتوں کو جہنم کی وعید

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي مِنْ أَهْلِ النَّارِ

میری امت کی دو جماعتیں جہنم میں جائیں گی ان میں ایک

نِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مَائِلَاتٌ مُمِيلَاتٌ عَلَى رُءُوسِهِنَّ أَمْثَالُ أَسْنِمَةِ الْإِبِلِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا

ایسی عورتیں جو بظاہر لباس پہنے ہوئے ہونگیں مگر لباس کی باریکی، تنگی یا فٹنگ کی وجہ سے حقیقت میں ننگی ہونگیں مردوں کی طرف مائل ہونے والی اور مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہونگیں ان کے سروں پر اونٹوں کی کوہانوں کی طرح (فیشن) ہوگا جنت میں داخل ہونگیں اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گی

اور دوسری قسم

وَرِجَالٌ مَعَهُمْ أَسْيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ(مسلم/٢١٢٨ ،مسند احمد /٨٦٦٥)

ایسے آدمی جن کے ہاتھوں میں بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہونگے جن سے وہ لوگوں کو مارتے ہونگے

اللہ تعالیٰ فحش آدمی سے بغض کرتا ہے

ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيءَ(ترمذی/٢٠٠٢) صحيح

اللہ تعالیٰ فحش اور بدزبانی کرنے والے آدمی سے نفرت کرتا ہے

03.دلوں میں ایمان، تقویٰ، یادِ آخرت اور خوفِ خدا پیدا کرتے ہوئے

دین اسلام لوگوں کو برے خیالات سے منع کرتے ہوئے اپنے دلوں کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہے

اور یہ بات ظاہر ہے کہ فحاشی اور بے حیائی کا آغاز ہی غیر محرم کے متعلق برے خیالات سے ہوتا ہے

دل میں برا خیال آتے ہی اگر اسےنکال باہر کیا گیا تو کوئی خیال باعث وبال نہیں بنتا لیکن اگر کسی خیال کو سوچ بنا لیا جائے تو انجام بھیانک ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ(بخاری /52)

سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔

دل میں آخرت کی جتنی یاد ہوگی انسان اتنا ہی برائی سے بچ سکے گا

جب کسی دنیاوی عورت سے متعلق دل میں برے خیالات پیدا ہوں اور حرام کاری کا وسوسہ آئے تو اس وقت جنت کی ان پاکیزہ اور حسین ترین عورتوں کو یاد کرنا چاہئے جن سے اس برائی سے بچنے کی صورت میں ملنے کا سچا ربانی وعدہ ہمارے پاس موجود ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جنت کی نعمت دائمی ہوگی جبکہ دنیاوی لذت کا انجام چند منٹ کے بعد حسرت وافسوس اور ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

یوسف علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے

جب ملکہءِ مصر نے انہیں برائی پر آمادہ کرنا چاہا اور دروازے اچھی طرح بند کرلیے اور کہنے لگی جلدی آ۔

تو انہوں نے فوراً آخرت میں اپنی کامیابی یاد کرتے ہوئے فرمایا

مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ.(يوسف : 23)

اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔

دل میں خیال پیدا کریں کہ مجھے ہروقت اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں

اللہ پر ایمان اور اس کی گرفت کا خوف ایک انسان کو وقتی خواہشات اور عارضی لذتوں سے محفوظ رکھنے کا زبردست ذریعہ ہے۔ اللہ کی نگرانی کا احساس حرام سے بچنے کے لئے ایک مسلمان میں حیرت انگیز کردار ادا کرتا

حدیث میں عرش کا سایہ حاصل کرنے والے سات خوش بختوں کا تذکرہ ہے جن میں ایک وہ بندہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصَبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ] [ مسلم : ۱۰۳۱۔ بخاری، الزکاۃ، باب فضل إخفاء الصدقۃ : ۶۴۷۹ ]

’’اور ایسا آدمی جسے کوئی منصب اور خوبصورتی والی عورت برائی کی طرف بلائے تو وہ کہے میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں ۔‘‘

04.اپنے آپ کو فاحش قسم کےلوگوں کی بری صحبت سے دور رکھیں

اپنی عزت کی حفاظت کے لئے ہمیں ان تمام مقامات اور اشیاءسے دوری اختیار کرنی چاہئے جو فتنہ وفساد کا باعث ہیں،

بازار سے،

مخرب اخلاق میگزینوں اور رسالوں سے،

حیا سوز فلموں،

ٹی وی چینلز ،

انٹر نیٹ کے ویب سائٹس اور عریاں اشتہارات سے۔وغیرہ وغیرہ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’

الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ  (ترمذي /2378)

آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے ، اس لیے تم میں سے ہرشخص کویہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہاہے

ایسی مجالس اور سوسائٹیز ، بالخصوص غیر اسلامی ممالک میں رہائش پذیر ہونے سے اپنے آپ کو بچا کر رکھا جائے جہاں زنا کاری اور بدکاری کو گناہ نہیں سمجھا جاتا

05.فحاشی کے اسباب و مبادیات سے بھی منع کردیا

فرمایا

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا.(الإسراء : 32)

اور زنا کے قریب نہ جائو، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔

بدکاری منع تھی تو اس کے قریب جانا بھی حرام قرار دیا تاکہ وقوع حرام کا امکان تک باقی نہ رہے

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے چرواہے کی مثال دی ہے کہ ممنوعہ کھیت سے وہی چرواہا بچ سکتا ہے جو اس کے قریب بھی نہیں جاتا

فرمایا

كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللهِ مَحَارِمُهُ (مسلم /4099)

چرواہا (جو) چراگاہ کے اردگرد (بکریاں) چراتا ہے، قریب ہے وہ اس (چراگاہ) میں چرنے لگیں، دیکھو! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہے۔ دھیان رکھو! اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں

06.بلوغت کے بعد بستر الگ کرنے کے ساتھ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلٰی عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَةُ إِلٰی عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ وَ لَا يُفْضِی الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ فِيْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِی الْمَرْأَةُ إِلَی الْمَرْأَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ] [مسلم، الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات : ۳۳۸ ]

’’کوئی مرد دوسرے مرد کی شرم گاہ نہ دیکھے، نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے۔ نہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔‘‘

عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ لِتَنْعَتَهَا لِزَوْجِهَا كَأَنَّمَا يَنْظُرُ إِلَيْهَا

ابو داؤد 2150

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَ هُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِيْنَ وَ فَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ ]

[ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ : ۴۹۵، قال الألباني حسن صحیح ]

’’اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور انھیں اس کی وجہ سے مارو جب وہ دس برس کے ہوں اور انھیں بستروں میں ایک دوسرے سے الگ کر دو۔‘‘

07.عورتوں کو پردے کا حکم دے کر

اسلام میں غیر محرم مردوں سے عورت کا پردہ کرنا اور منہ ڈھانپنا فرض ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ

اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں

یعنی عورتوں کو چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں سر سے لا کر گریبان پر ڈالیں، تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے۔ اسلام سے پہلے کی جاہلیت میں عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتی تھیں، بلکہ وہ دوپٹے کے دونوں کنارے پیچھے کی طرف لٹکا لیتیں، جس سے بسا اوقات ان کی گردن، بال، چوٹی، زیور اور چھاتی صاف نظر آتی تھیں، موجودہ زمانے کی جاہلیت کا حال اس سے بھی بدتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا۔

(تفسیر القرآن الکریم از استادِ محترم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)

عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا :

[ يَرْحَمُ اللّٰهُ نِسَاءَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلَ لَمَّا أَنْزَلَ اللّٰهُ : « وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ» شَقَقْنَ أَكْنَفَ مُرُوْطِهِنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِهَا ]

’’اللہ تعالیٰ پہلی مہاجر عورتوں پر رحم فرمائے، جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری :

«وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ »

تو انھوں نے اپنی سب سے موٹی چادریں پھاڑیں اور انھیں اوڑھا "

[ أبو داوٗد، اللباس، باب في قول اللہ تعالٰی : « و لیضربن بخمرھن علی جیوبھن » : ۴۱۰۲ ]

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

«{ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا }» [ الأحزاب : ۵۹ ]

(اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے)

مراد یہ ہے کہ پردہ کرنے کی وجہ سے ان کی پہچان ہو جائے کہ یہ شریف اور باحیا عورتیں ہیں، پھر کوئی انھیں چھیڑنے کی جرأت نہیں کرے گا، نہ کسی کے دل میں انھیں اپنی طرف مائل کرنے کا لالچ پیدا ہو سکے گا۔ اس کے برعکس بے پردہ عورت کی کیا پہچان ہو سکتی ہے کہ وہ شریف ہے یا بازار میں پیش ہونے والا سامان، جسے کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے۔ پردہ اتارنے کے بعد اسے ایذا سے محفوظ رہنے کے بجائے فاسق و فاجر لوگوں کی چھیڑ چھاڑ، زبردستی اور بعض اوقات اغوا کا منتظر رہنا چاہیے

(تفسیر القرآن الکریم از استادِ محترم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)

ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا :

[ لَمَّا نَزَلَتْ : « يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ» خَرَجَ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ كَأَنَّ عَلٰی رُءُوْسِهِنَّ الْغِرْبَانَ مِنَ الْأَكْسِيَةِ ]

’’جب آیت {’’ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ‘‘} نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اس طرح نکلیں جیسے ان کے سروں پر (سیاہ) چادروں کی وجہ سے کوّے ہوں۔‘‘

[ أبو داوٗد، اللباس، باب في قول اللّٰہ تعالٰی: « یدنین علیھن من جلا بیبھن » : ۴۱۰۱، و قال الألباني صحیح ]

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا :

[ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا ] [ بخاري، الصلاۃ، باب وجوب الصلاۃ في الثیاب : ۳۵۱ ]

’’یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہیں ہوتی؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کی بہن اسے پہننے کے لیے کوئی اپنی بڑی چادر دے دے۔‘‘

08.عورت کو گھر ٹھہرنے کا حکم دے دیا

دین اسلام نے سد الذرائع کے طور پر عورت کو گھر میں ٹھہرنے کا حکم دیا

فرمایا

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا.(الأحزاب : 33)

اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے ، خوب پاک کرنا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اَلْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ وَ إِنَّهَا إِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ وَ إِنَّهَا لَا تَكُوْنُ أَقْرَبَ إِلَی اللّٰهِ مِنْهَا فِيْ قَعْرِ بَيْتِهَا ]

’’عورت پردے کی چیز ہے، وہ جب نکلتی ہے تو شیطان اسے گردن اٹھا کر دیکھتا ہے اور وہ اللہ کے اس سے زیادہ کبھی قریب نہیں ہوتی جس قدر وہ اپنے گھر کے اندر (رہ کر قریب) ہوتی ہے۔‘‘

[طبراني في الأوسط : 189/3، ح : ۲۸۹۰، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 187/6، ح : ۲۶۸۸ ]

09.عورتوں سے کوئی چیز مانگنی پڑ جائے تو پردے کے پیچھے سے مانگیں

دین اسلام میں حددرجہ کی احتیاط دیکھئیے کہ اگر کبھی عورتوں سے کوئی چیز مانگنی پڑ جائے تو پردے کا پورا اہتمام کیا جائے

فرمایا

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ.(الأحزاب)

اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو ان سے پردے کے پیچھے سے مانگو

اس جملے پر تھوڑی سی توجہ سے بھی یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جب امہات المومنین، جو دنیا کی پاک باز ترین خواتین تھیں اور صحابہ کرام، جو دنیا کے پاک باز ترین مرد تھے، انھیں دلوں کو پاک رکھنے کے لیے ایک دوسرے سے کوئی بات کرتے وقت حجاب کا حکم ہے تو عام لوگوں کو بلاحجاب ایک دوسرے سے ملنے کی، یعنی گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں، پارکوں، عدالتوں اور اسمبلیوں میں مردوں اور عورتوں کے بلا تکلف میل جول اور مخلوط معاشرے کی اسلام میں کیا گنجائش ہو سکتی ہے اور ان کے دلوں کی طہارت و پاکیزگی کی کیا ضمانت ہو سکتی ہے۔ اب جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود کہتے ہیں کہ اصل پردہ دل کا ہے، کیونکہ شرم و حیا کا اور برے خیالات کا تعلق دل سے ہے، یہ ظاہر پردہ کچھ ضروری نہیں، ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو دل سے مانا ہی نہیں

(تفسیر القرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

10.غیر محرم مردوں کے ساتھ لوز دار گفتگو نہ کریں

دین اسلام کی حساسیت ملاحظہ فرمائیں کہ عورتوں کو غیر مردوں کے ساتھ نرم اور لوچدار لہجے میں بات کرنا منع کر دیا ہے

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی آواز میں بھی فطری طور پر دل کشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے، جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے

اس لیے انہیں حکم دیا گیا کہ مردوں سے بات کرتے وقت ایسا لہجہ اختیار کریں جس میں نرمی اور دل کشی کے بجائے قدرے سختی اور مضبوطی ہو،تاکہ دل کا کوئی بیمار کسی غلط خیال میں مبتلا ہو کر آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرے۔

فرمایا

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا.(الأحزاب : 32)

اے نبی کی بیویو! تم عورتوں میں سے کسی ایک جیسی نہیں ہو، اگر تقویٰ اختیار کرو تو بات کرنے میں نرمی نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو۔

واضح رہے کہ یہ حکم امہات المومنین کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ امت کی تمام عورتوں کے لیے ہے، کیونکہ ازواج مطہرات امت کی عورتوں کے لیے نمونہ ہیں۔

11.عورت اکیلی سفر نہ کرے

انسدادِ فحاشی اور بے حیائی کی روک تھام کیلئے اسلام کتنی گہرائی میں جا کر احکامات جاری کرتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيْرَةَ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ ] [ بخاري، التقصیر، باب في کم یقصر الصلاۃ ؟: ۱۰۸۸ ]

’’کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ ایک دن رات کا سفر محرم کے بغیر کرے۔‘‘

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لاَ تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلاَّ مَعَ ذِيْ مَحْرَمٍ وَلاَ يَدْخُلُ عَلَيْهَا رَجُلٌ إِلاَّ وَ مَعَهَا مَحْرَمٌ ] [ بخاری، جزاء الصید، باب حج النساء : ۱۸۶۲ ]

’’کوئی عورت سفر نہ کرے مگر کسی محرم کے ساتھ اور اس کے پاس کوئی مرد نہ جائے مگر اس صورت میں کہ اس عورت کے پاس کوئی محرم موجود ہو۔‘‘

"#تعدو_الكلاب_على_من_لا_أسود_له”

قدِمـت امــرأة إلى مكــة ، تريد الحـج والعمرة ، وكانت من أجمل النساء فلما ذهبت ترمي الجمـار ، رآها عمر بن أبي

ربيعة الشـاعر المعـروف ، وكان مغـرماً بالنساء والتغـزل بهن فكلمها فلم تجبه فلمــا كـانت الليلة الثانية ، تعــرّض لها

فصاحت به: إليك عني فإني في حرم الله ، وفي أيام عظيمة الحـرمة ، فَألحّ عليهـا ، فخــافت مـن افتضــاح أمـرها

فتركـته ، ورجعـت إلى خيمتهـا ، وفي الليلة الثالثة قالت لأخيها: أُخرج معي وأرني المناسـك ، فلما رأى عمر بن أبي

ربيعة أخاها معها مكث في مكانه ولم يتعرّض لها ، فضحكت ،

وقالت كلمتهاالمشهورة :

تعدو الكلاب على من لا أسود له

وتتّقي صولة المستأسد الضاري

فلما سمـع الخليفة أبي جعفـر المنصور هذه القصة قال: "وددتُ لو أنه لم يبق فتاة من قريش إلا سمعت بهذا الخبر”

وكان في إحدى البلاد ، امـرأة صـالحة عاقلة ، وكانت معهـا فتاة ، فإذا أرادتةالخروج من البيت، تقول لابنها : أُخرج

مع أختك فإن المرأة دون رجل يحميها ويوسع لها الطـريق كالشاة بين الذئاب يتجرأ عليها أضعفهم .

رســـالة : إلـى الآبـاء والأمهـــات واﻹخوة والأزواج :

تعرّض لها وهي في بيت الله الحرام !!

فكيف بأسواقنا وشوارعنا ؟!! .

يا أيها المحــارم لا تتركوهن ليس شكاً فيهـن ، وإنمـا حرصــاً عليهـن وصـيانةً لعرضهن .

"عيون الأخبار – ١٠٧/٤ للإمام بن قتيبة”

منقول

12.حکم دیا کہ عورتیں اپنی نظریں نیچی رکھیں اور زینت ظاہر نہ کریں

فرمایا

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ.(نور 31)

اور مومن عورتوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں

ہمارے اس آخری زمانے میں عورتوں میں ایسے ایسے لباس رواج پاچکے ہیں،جن سے پاکیزہ نفوس نفرت اور ناگواری محسوس کرتے ہیں،حریص قسم کے شکاریوں نے ان کے ڈیزائن تراشےاور فیشن کے نام سے ایسے ملبوسات تیار کردیئے جن کا پہنناہی عورت کو داغ دارکردیتاہے،بلکہ اس کےخاندان تک کو قابلِ مذمت بنادیتاہے۔

جلیل القدر صحابی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس آیت سے یہی بات سمجھی ہے۔ چنانچہ ان کے شاگرد علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انھوں نے فرمایا :

[ لَعَنَ اللّٰهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰهِ ]

’’اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو جلد میں سوئی کے ساتھ نیل بھر کر نقش و نگار بنانے والی ہیں اور جو بنوانے والی ہیں اور جو چہرے کے بال اکھاڑنے والی ہیں اور جو خوب صورتی کے لیے سامنے کے دانتوں میں فاصلہ بنانے والی ہیں، اللہ کی پیدا کردہ شکل کو بدلنے والی ہیں۔‘‘

بنو اسد کی ایک عورت ام یعقوب کو یہ بات پہنچی تو وہ آئی اور کہنے لگی :

’’مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے فلاں فلاں کام کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے؟‘‘

تو انھوں نے فرمایا :

’’میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو اللہ کی کتاب میں موجود ہے؟‘‘

اس عورت نے کہا :

’’میں نے دو تختیوں کے درمیان جتنا قرآن ہے سارا پڑھا ہے، مگر مجھے اس میں یہ بات نہیں ملی جو آپ کہہ رہے ہیں۔‘‘

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

’’اگر تم اسے پڑھتی تو تمھیں ضرور مل جاتی، کیا تم نے یہ نہیں پڑھا :

«وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا » [ الحشر : ۷ ]

’’ اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ ۔‘‘

اس نے کہا :

’’کیوں نہیں؟‘‘

فرمایا :

’’تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔‘‘

اس نے کہا :

’’میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ کے گھر والے یہ کام کرتے ہیں۔‘‘

فرمایا : ’’جاؤ اور دیکھو۔‘‘

وہ گئی، دیکھا مگر اسے اپنے مطلب کی کوئی چیز دکھائی نہ دی

تو (ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے) فرمایا :

’’اگر وہ (میری بیوی) ایسی ہوتی تو ہمارے ساتھ نہ رہتی۔‘‘

[ بخاري، التفسیر، باب : «وما آتاکم الرسول فخذوہ» : ۴۸۸۶ ]

13.حکم دیا کہ عورتیں گھر سے خوشبو لگا کر نہ نکلیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے

أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِيَ زَانِيَةٌ.(نسائی)

جس عورت نے بھی خوشبو لگائی پھر مردوں کے پاس سے گزری کہ وہ اس کی خوشبو پائیں تو وہ زانیہ ہے

14.حکم دیا کہ آہستہ پاؤں سے چلیں کہ چلتے ہوئے آواز پیدا نہ ہو

فرمایا

وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ.(نور 31)

اور اپنے پائوں (زمین پر) نہ ماریں، تاکہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں

طبری نے حسن سند کے ساتھ (عن علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ) بیان کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت مردوں کی موجودگی میں ایک پازیب کو دوسری کے ساتھ کھڑکائے۔ اس کے پاؤں میں پازیبیں ہوں، جنھیں وہ مردوں کے پاس حرکت دے تو اللہ سبحانہ نے اس سے منع کر دیا، کیونکہ یہ شیطان کا عمل ہے۔

[ طبري : ۲۶۲۱۷ ]

پاؤں کو زور سے زمین پر مارنے سے منع کیا کہ مردوں کو ان کے زیور کی آواز سے شہوانی خیال پیدا نہ ہو۔ اب ایک عورت جو معلوم نہیں جوان ہے یا بوڑھی، خوبصورت ہے یا بدصورت، اس کی پازیب کی آواز دلوں میں خرابی پیدا کرتی ہے اور اسے چھپائے رکھنے کا حکم ہے، تو چہرہ جس پر کسی عورت کے خوبصورت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے، وہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو گیا؟

(تفسیر القرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

15.عورت کو دوران نماز امام کے بھول جانے پر بھی بولنے کی اجازت نہیں دی

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ (بخاري 1145)

یعنی نماز میں ’’سبحان اللہ‘‘ کہنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ مار کر امام کو اس کی خطا پر متنبہ کرنے کا حکم ہے۔

16.نکاح کے ذریعے سے

شریعت میں اسلامی معاشرے کو بے راہ روی سے بچانے کے لیےنوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ فطری خواہش کو جائز طریقہ سے پورا کرنے کا موقعہ موجود ہو

اللہ تعالیٰ نے نکاح کا حکم دیا ہے

فرمایا :

«وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ » [ النور : ۳۲ ]

’’اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں، عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے، جوان تھے اور کوئی چیز نہ پاتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا :

[ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ] [ بخاري، النکاح، باب من لم یستطع البائۃ فلیصم : ۵۰۶۶، ۵۰۶۵ ]

’’اے جوانو کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کر سکتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ وہ نظر کو بہت نیچا کرنے والا اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھنے والا ہے اور جو نکاح کا سامان نہ پائے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نکاح کرنے والے کی مدد کرتے ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَی اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَوْنُهُمُ الْمُكَاتَبُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْأَدَاءَوَالنَّاكِحُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْعَفَافَ وَالْمُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ]

[ نسائي، النکاح، باب معونۃ اللہ الناکح الذي یرید العفاف : ۳۲۲۰۔ ترمذي : ۱۶۵۵، قال الترمذي والألباني حسن ]

’’تین آدمیوں کی مدد اللہ پر حق ہے،

وہ مکاتب جو ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہے

اور وہ نکاح کرنے والا جو حرام سے بچنے کا ارادہ رکھتا ہے

اور مجاہد فی سبیل اللہ۔‘‘

فرمایا

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ

عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے

اپنی بیوی سے کھیل کود اور دل لگی کرنے کی ترغیب

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ فَإِنَّهُنَّ مِنْ الْحَقِّ(ترمذی/١٦٣٧)

تیر اندازی کرنے، گھوڑے کو سدھانے اور اپنی بیوی سے کھیلنے کے علاوہ ہر کھیل باطل ہے

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

أَتَزَوَّجْتَ

کیا تو نے شادی کرلی ہے

میں نے کہا

نَعَمْ

جی

تو آپ نے فرمایا

بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا

کنواری سے بیوہ سے

میں نے کہا

ثَيِّبًا

بیوہ سے

تو آپ نے فرمایا

أَفَلَا بِكْرٌ تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ

کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تو اس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے کھیلتی

ابو داؤد 2048

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی بیویوں سے محبت کرنا

باہر کسی عورت سے محبت کرنے کو دل کرے تو گھر آ کر اپنی بیوی سے محبت کرلے

عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً فَدَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ لَهُمْ

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عورت کو دیکھا تو اپنی بیوی زینب رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے اور اپنی حاجت پوری کی پھر صحابہ کرام کی طرف نکلے اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ فَإِنَّهُ يُضْمِرُ مَا فِي نَفْسِهِ

ابو داؤد 2151

بے شک عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے تو جو اس (کی خوبصورتی) میں سے کچھ پائے تو وہ اپنی بیوی کے پاس آجائے

17.روزے رکھنے کا حکم دے کر

جو لوگ کسی وجہ سے نکاح نہ کر سکیں،

مثلاً رشتہ نہ ملے،

یا مہر میسر نہ ہو،

یا غلام کو اس کا مالک نکاح کی اجازت نہ دے،

یا کسی اور وجہ سے حالات سازگار نہ ہوں

تو وہ حرام سے بچنے کی بہت زیادہ کوشش کریں، یعنی زنا، قوم لوط کے عمل اور استمنا بالید وغیرہ سے باز رہیں۔ اس کوشش میں نگاہ نیچی رکھنا، بلااجازت دوسروں کے گھروں میں نہ جانا اور خیالات کو پاکیزہ رکھنا وغیرہ آداب شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کی اس منہ زور قوت یعنی شہوت کی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے نکاح کا حکم دیا اور جسے نکاح میسر نہ ہو اسے زیادہ سے زیادہ نفلی روزے رکھنے کا حکم دیا

فرمایا :ِ

وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ[ دیکھیے بخاري : ۱۹۰۵ ]

اور جو نکاح کا سامان نہ پائے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہے

18.مردوں کو حکم دیا کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں

اللہ تعالیٰ نے خصوصاً نظر کا ذکر فرمایا، کیونکہ عموماً زنا کی ابتدا اس سے ہوتی ہے

فرمایا

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ.(النور : 30)

مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔

زنا اور بہتان سے محفوظ رکھنے کے لیےنظر کی حفاظت کا حکم دیا، کیونکہ آدمی کے دل کا دروازہ یہی ہے اور تمام شہوانی فتنوں کا آغاز عموماً یہیں سے ہوتا ہے۔

احمد شوقی نے کہا ہے :

{’’نَظْرَةٌ فَابْتِسَامَةٌ فَسَلَامٌ فَكَلَامٌ فَمَوْعِدٌ فَلِقَاءٌ‘‘}

’’نظر ملتی ہے، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر گفتگو، پھر وعدہ اور پھر ملاقات تک بات جا پہنچتی ہے۔‘‘

(تفسیر القرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)

غیر محرم کی طرف دیکھنا آنکھ کا زنا ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذٰلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَ تَشْتَهِيْ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذٰلِكَ كُلَّهُ وَ يُكَذِّبُهُ ] [ بخاري، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ۶۲۴۳ ]

’’اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ حاصل کرے گا، چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کر دیتی ہے۔‘‘

اچانک غیر ارادی نظر

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظْرَةِ الْفَجْأَةِ فَقَالَ اصْرِفْ بَصَرَكَ[ مسلم، الآداب، باب نظر الفجائۃ : ۲۱۵۹ ]

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھ سے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری جانب موڑتے ہیں جب وہ ایک غیر محرم عورت کی طرف دیکھ رہے تھے

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ يَوْمَ النَّحْرِ خَلْفَهُ عَلَى عَجُزِ رَاحِلَتِهِ وَكَانَ الْفَضْلُ رَجُلًا وَضِيئًا فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ يُفْتِيهِمْ وَأَقْبَلَتْ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ وَضِيئَةٌ تَسْتَفْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَأَعْجَبَهُ حُسْنُهَا فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا فَأَخْلَفَ بِيَدِهِ فَأَخَذَ بِذَقَنِ الْفَضْلِ فَعَدَلَ وَجْهَهُ عَنْ النَّظَرِ إِلَيْهَا (بخاری)

19.راستے پر کھڑے ہونے سے منع کر دیا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ قَالُوا وَمَا حَقُّهُ قَالَ غَضُّ الْبَصَرِ وَكَفُّ الْأَذَى وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْكَرِ(بخاری و مسلم)

راستوں پر بیٹھنے سے بچو

انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول اس کے بغیر ہمارا کوئی چارہ نہیں ہے تو آپ نے فرمایا اگر ضروری ہو تو پھر راستے کو اس کا حق دو اور اس کا حق یہ ہے کہ کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھو اور تکلیف دہ چیز کو ہٹاؤ اور سلام کا جواب دو اور نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرو

20.حکم دیا کہ اجازت لے کر کسی کے گھر جائیں

دور جاہلیت میں عرب لوگ بلا تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے، کسی سے ملنے کے لیے اس کے دروازے پر کھڑے ہوکر اجازت لینے یا انتظار کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی، بلکہ ہر شخص گھر کے اندر جا کر عورتوں سے بات کر لیتا اور صاحب خانہ کے متعلق پوچھ لیتا اور عورتیں بھی پردہ نہیں کرتی تھیں۔ بعض اوقات اس سے بہت سی اخلاقی خرابیوں کا آغاز ہوتا تھا، اس لیے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی دوست ہو یا رشتہ دار اجازت کے بغیر آپ کے گھروں میں داخل نہ ہو

فرمایا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُم ْإِلَى طَعَامٍ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نبی کے گھروں میں مت داخل ہو مگر یہ کہ تمھیں کھانے کی طرف اجازت دی جائے

پھر سورۂ نور میں تمام گھروں میں داخلے کے لیے اس قاعدے کا اعلان کر دیا گیا

فرمایا

وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ(النور : 59)

اور جب تم میں سے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو اسی طرح اجازت طلب کریں جس طرح وہ لوگ اجازت طلب کرتے رہے جو ان سے پہلے تھے۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے پوچھا :

’’کیا میں اپنی بہن کے پاس جانے کے لیے بھی اجازت مانگوں؟‘‘

فرمایا : ’’ہاں!‘‘

میں نے پھر سوال دہرایا :

’’میری پرورش میں میری دو بہنیں ہیں، ان کا خرچہ میرے ذمے ہے، ان کے پاس بھی اجازت لے کر جاؤں؟‘‘

فرمایا : ’’ہاں! کیا تم پسند کرتے ہو کہ انھیں برہنہ حالت میں دیکھو۔‘‘

پھر یہ آیت پڑھی :

«{ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ }» [ النور : ۵۸ ] {’’ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ ‘‘} تک،

تو ان لوگوں کو صرف ان تین اوقات میں اجازت مانگنے کا حکم دیا گیا،

پھر فرمایا :

«{ وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا }» [ النور : ۵۹ ]

ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا :

’’اب اجازت لینا واجب ہے۔‘‘

[ الأدب المفرد للبخاري : ۱۰۶۳ ]

اجازت مانگنے کا طریقہ

بنو عامر کا ایک آدمی آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی،

کہنے لگا : ’’کیا میں اندر آ جاؤں؟‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے کہا :

’’اس کے پاس جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ وہ اس طرح کہے : [ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟ ] ’’السلام علیکم، کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘

اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا :

[اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟]

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اور وہ داخل ہو گیا۔‘‘

[ أبوداوٗد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۷ ]

کَلَدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کے پاس سیدھا چلا آیا، میں نے نہ سلام کہا ( اور نہ اجازت مانگی)،

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اِرْجِعْ فَقُلْ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ ] [ أبوداوٗد، الأدب، باب کیف الاستئذان؟ : ۵۱۷۶، صححہ الألباني ]

’’واپس جاؤ اور کہو السلام علیکم۔‘‘

اجازت زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ مانگے

اجازت زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ مانگے

اگر اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ [ دیکھیے بخاري، الاستئذان، باب التسلیم و الاستئذان ثلاثا : ۶۲۴۵، عن أبي موسٰی رضی اللہ عنہ ]

اپنا تعارف بھی کروائیں

دروازہ کھٹکھٹانے یا سلام کہنے پر اگر گھر والے پوچھیں، کون ہے تو اپنا نام بتائے۔

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں حاضر ہوا، جو میرے والد کے ذمے تھا، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :

[ مَنْ ذَا؟ فَقُلْتُ أَنَا، فَقَالَ أَنَا أَنَا ]

’’کون ہے؟‘‘ میں نے کہا : ’’میں ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں، میں۔‘‘

گویا آپ نے اسے ناپسند فرمایا۔

[ بخاري، الاستئذان، باب إذا قال من ذا؟ فقال أنا : ۶۲۵۰ ]

اجازت مانگتے وقت دروازے کے بالکل سامنے مت کھڑے ہوں

ہزیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک آدمی آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا،

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ هٰكَذَا عَنْكَ أَوْ هٰكَذَا، فَإِنَّمَا الْاِسْتِئْذَانُ مِنَ النَّظَرِ ] [ أبوداوٗد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۴، صححہ الألباني ]

’’اس طرف ہو جاؤ یا اس طرف، کیونکہ دیکھنے ہی کی وجہ سے اجازت مانگی جاتی ہے۔‘‘

21.کسی کےگھربلا اجازت جھانکنے والے کی آنکھ رائیگاں قرار دی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لَوِ اطَّلَعَ فِيْ بَيْتِكَ أَحَدٌ وَ لَمْ تَأْذَنْ لَهُ خَذَفْتَهُ بِحَصَاةٍ فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ مَا كَانَ عَلَيْكَ مِنْ جُنَاحٍ ] [ بخاري، الدیات، باب من أخذ حقہ… : ۶۸۸۸ ]

’’اگر کوئی آدمی تیرے گھر میں جھانکے، جبکہ تو نے اجازت نہ دی ہو اور تو کنکری پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کچھ گناہ نہ ہو گا۔‘‘

اندازہ کیجئے کہ دینِ اسلام عفت و عصمت کے دفاع کیلئے کس قدر اقدامات کرتا ہے وہ آنکھ کہ جس کی قیمت پچاس اونٹوں کے برابر تھی لیکن جب خائن بنتے ہوئے کسی کے گھر جھانکنے لگی تو خس وخاشاک سے بھی نیچے گرا دی گئی

22.اجنبی عورت کے ساتھ خلوت حرام فرما دی

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نےمردوں کو عورتوں سے عام میل جول سے بھی منع فرما دیا۔

مسلم کی ایک روایت میں ہے :

آپ نے فرمایا

[ لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ ] [ مسلم، الحج، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ : ۱۳۴۱ ]

’’کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ اکیلا نہ ہو۔‘‘

کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت منع ہے، حتیٰ کہ خاوند کے بھائی کے ساتھ بھی تنہائی میں بیٹھنا منع ہے، بلکہ دیور اور جیٹھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت قرار دیا۔

عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

[ إِيَّاكُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَی النِّسَاءِ، فقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ ] [ بخاری، النکاح، باب لا یخلون رجل بامرأۃ… : ۵۲۳۲۔ مسلم : ۲۱۷۲ ]

’’عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔‘‘ ایک انصاری آدمی نے پوچھا : ’’آپ {’’حَمْوٌ‘‘} (خاوند کے قریبی مثلاً اس کے بھائی یا چچا زاد یعنی کزن وغیرہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟‘‘ فرمایا : ’’حمو‘‘ تو موت ہے۔‘‘

23.زانی کو زنا کرتے دیکھنے والوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا تاکہ وہ گندگی جہاں ہے وہیں تک محدود رہے،معاشرے میں لوگوں کے ناجائز تعلقات کے چرچے نہ ہوں، کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں، ماحول میں زنا کا تذکرہ اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے

ایک، دو یا تین افراد کسی مرد و عورت کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھ لیں تو جب تک چوتھا عینی شاہد نہیں ملتا انہیں یہی حکم ہے کہ خاموشی اختیار کریں تاکہ معاشرے میں گندی خبریں نہ پھیلیں

اور اگر وہ خاموش نہیں رہتے تو انہیں اسی کوڑے مارنے کا حکم دیا ہے

فرمایا

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.(النور : 4)

اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ لائیں تو انھیں اسی (۸۰) کوڑے مارو اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہی نافرمان لوگ ہیں۔

ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تین حکم دیے ہیں

پہلا یہ کہ اسے اسّی (۸۰) کوڑے مارو

دوسرا یہ کہ اس کی کوئی شہادت کبھی قبول نہ کرو

اور تیسرا یہ کہ یہی لوگ فاسق (نافرمان) ہیں

ایک اور آیت میں انہیں لعنت کے مستحق ٹھہرا دیا

فرمایا

إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ.(النور : 23)

بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

دوسرے کسی جرم کے ثبوت کے لیے چار گواہ مقرر نہیں کیے گئے۔ اگر کسی شخص نے کسی کو زنا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے تو اگر اس کے پاس مزید تین گواہ نہیں تو اسے اجازت نہیں کہ اس کا ذکر کرے، بلکہ اسے خاموش رہنے کا حکم ہے، تاکہ وہ گندگی جہاں ہے وہیں تک محدود رہے، معاشرے میں لوگوں کے ناجائز تعلقات کے چرچے نہ ہوں، کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں، ماحول میں زنا کا تذکرہ اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے۔

کوئی شخص اگر چھپ کر زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا اتنا نقصان نہیں جتنا زنا کی اشاعت (بے حیائی کی بات پھیلانے) سے معاشرے کا نقصان ہوتا ہے۔ ہاں، اگر کوئی شخص اتنی دیدہ دلیری سے زنا کرتا ہے کہ چار مرد اسے عین حالت زنا میں دیکھتے ہیں تو انھیں اجازت ہے کہ اسے حاکم کے پاس لے جائیں، تاکہ وہ اس پر حد نافذ کرکے اس خبیث فعل کی روک تھام کرے۔ ایک طرف زنا کی سخت ترین حد مقرر فرمائی، دوسری طرف لوگوں کی عزتوں کی حفاظت اور ان کی کمزوریوں پر پردے کے لیے حکم دیا کہ جو شخص کسی پاک دامن پر زنا کا الزام لگائے، پھر چار گواہ پیش نہ کرے تو اسے بہتان کی حد لگاؤ

24.بدکاری کی سخت سزا مقرر کرنے کے ساتھ

اسلام نے بدکاری کی اتنی کڑی سزائیں مقرر کی ہیں کہ اگر وہ نافذ کردی جائیں تو کوئی بھی شخص بے حیائی کے ارتکاب کا سوچ بھی نہیں سکتا

فرمایا

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ.(النور : 2)

جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمھیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔

اس آیت میں مسلم حکام کو حکم ہے کہ جو عورت یا جو مرد بھی زنا کا ارتکاب کرے، خواہ وہ کسی دین یا ملت سے تعلق رکھتا ہو، اگر ان کا مقدمہ تمھارے پاس لایا جائے، جب وہ شادی شدہ نہ ہوں تو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو

شادی شدہ زانیہ اور زانی کے لیے رجم کا حکم ہے

عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ خُذُوْا عَنِّيْ، خُذُوْا عَنِّيْ، قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلاً، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَ نَفْيُ سَنَةٍوَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ [ مسلم، الحدود، باب حد الزنٰی : ۱۶۹۰ ]

’’مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل پیدا فرما دی ہے۔ کنوارا، کنواری کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور شادی شدہ، شادی شدہ کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔‘‘

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ