سات مہلک گناہ !
اہم عناصرِ خطبہ :
01. سات مہلک گناہ کون سے ہیں ؟
02. سات مہلک گناہوں کا اجمالی تذکرہ
03. سات مہلک گناہوں کا تفصیلی تذکرہ
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! بحیثیت مسلمان ہم سب پر یہ لازم ہے کہ ہم اللہ تعالی اور اس کے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کریں ۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کریں اور ممنوعات ومحرمات سے اپنے دامن کوبچائیں ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے اجتناب کریں، اور ان تمام گناہوں اور برائیوں سے پرہیز کریں جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نقصان دہ ہیں اور جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہیں ۔ ایک مسلمان کیلئے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ‘ ویسے تو تمام گناہوں سے بچنا ضروری ہے ، تاہم کچھ گناہ ایسے ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر بچنے کا حکم دیا ہے ۔
آج کے خطبۂ جمعہ کا موضوع صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات مہلک گناہوں سے بچنے کی تلقین فرمائی ۔ آئیے سب سے پہلے وہ حدیث سماعت کیجئے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ )) ’’ تم سات ہلاک کردینے والے گناہوں سے اجتناب کرتے رہنا ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کہنے لگے : ( وَمَاہُنَّ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ ) ’’ یا رسول اللہ ! وہ کونسے ہیں ؟ ‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
01. ((اَلشِّرْکُ بِاللّٰہِ )) ’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ۔‘‘
02. (( وَالسِّحْرُ )) ’’اور جادو کرنا ۔ ‘‘
03. (( وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بِالْحَقِّ )) ’’ اور اُس جان کو قتل کرنا جسے قتل کرنا اللہ نے حرام کردیا ہے ، سوائے اس کے کہ اسے حق کے ساتھ قتل کیا جائے ۔ ‘‘
04. (( وَأَکْلُ الرِّبَا )) ’’ اور سود کھانا ۔ ‘‘
05. (( وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ)) ’’ اور یتیم کا مال کھانا ۔ ‘‘
06. (( وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ)) ’’ اور اُس دن پیٹھ پھیرنا جب مسلمان اور کافر لڑنے کیلئے آمنے سامنے ہوں۔ ‘‘
07. ((وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ)) ’’ اور پاکدامن ، بد کاری سے بے خبر اور مومنہ عورتوں پر بد کاری کا الزام لگانا ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 2766 ،5764 ،6857،وصحیح مسلم : 89
اِس حدیث مبارک میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سات گناہوں سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے جو انسان کی ہلاکت وبربادی کا سبب بن سکتے ہیں۔
آئیے اب ہم ان گناہوں کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہیں ۔
01. اللہ کے ساتھ شرک کرنا
اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کی ربوبیت میں کسی کو اس کا شریک بنائے ، یعنی وہ یہ عقیدہ رکھے کہ کائنات کو پیدا کرنے میں ، یا اس کا نظام چلانے میں ، یا مخلوقات کو رزق دینے میں ، یا عزت وذلت ، یا موت وحیات کے اختیارات میں کوئی اس کا شریک ہے ۔
اسی طرح اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے سے مراد یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اللہ کی الوہیت میں کسی کو اس کا شریک بنائے ۔ یعنی وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی کی عبادت میں کسی اور کو اس کا شریک بنایا جا سکتا ہے ۔ چاہے وہ کوئی پتھر ہو یا انسان ، سورج ہو چاند ، نبی ہو یا ولی ، فرشتہ ہو یا جن ۔
جیسا کہ بہت سارے لوگ
٭ اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے رکوع وسجود کرتے ہیں اور عقیدت ومحبت کے ساتھ کسی اور کے سامنے جھکتے اور اس کی قدم بوسی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ شرک ہے ۔
٭ یا اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی نذرونیاز پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ بھی شرک ہے ۔
٭ یا اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی شرک ہے ۔
٭یا اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھولی پھیلاتے ہیں یا کسی اور سے دعا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ بھی شرک ہے
٭ یا اپنی ضروریات کو پورا کرنے میں اللہ کے علاوہ کسی اور پر توکل کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ بھی شرک ہے ۔
٭ یا مشکلات کے وقت اللہ کے علاوہ کسی اور کو غوث اور مشکل کشا سمجھتے ہوئے اسے پکارتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ بھی شرک ہے ۔
٭ یا اللہ کے علا وہ کسی اور سے امیدیں رکھتے یا ان سے خوف کھاتے ہیں ۔۔۔۔ یہ بھی شرک ہے ۔
الغرض یہ ہے کہ کوئی بھی عبادت غیر اللہ کیلئے سر انجام دینا شرک اکبر ہے ۔ اور یہ ایسا گناہ ہے کہ اگر ایک مشرک دنیا میں اس سے سچی توبہ نہ کرے اور اس کی موت شرکیہ عقیدے پر آجائے تو قیامت کے روز اللہ تعالی اس کے اس گناہ کو معاف نہیں کرے گا ۔ اور جہنم اس کا دائمی ٹھکانا ہو گی۔ والعیاذ باللہ
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا ﴾ النساء4 :116
’’ بے شک اﷲ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کئے جانے کو معاف نہیں کرتا اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے لئے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے ۔ اور جو شخص اﷲ کے ساتھ شریک بناتا ہے وہ بہت دور کی گمراہی میں چلا جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے :
﴿اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ﴾ المائدۃ5 :72
’’ یقین مانو کہ جو شخص اﷲ کے ساتھ شرک کرتا ہے اﷲ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔اور ظالموں کیلئے کوئی مدد گار نہ ہونگے ۔ ‘‘
02. جادو کرنا
سات مہلک گناہوں میں سے دوسرا گناہ جادو کرنا ہے ۔ اور جادو کے لئے عربی زبان میں سِحْر کالفظ استعمال ہوتا ہے جس کی تعریف علماء نے یوں کی ہے:
’’سحر وہ عمل ہے جس میں پہلے شیطان کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اس سے مدد لی جاتی ہے۔‘‘
جبکہ عربی زبان کے مشہور امام الأزھری کہتے ہیں کہ ’’سحر دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کا نام ہے۔‘‘ تہذیب اللّغۃ :290/4
اور ابن منظور اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ساحر (جادوگر) جب باطل کو حق بنا کر پیش کرتا ہے اور کسی چیز کو اس کی حقیقت سے ہٹا کر سامنے لاتا ہے تو گویا وہ اسے دینی حقیقت سے پھیر دیتا ہے۔‘‘ لسان العرب :348/4
اسی طرح امام ابن قدامہ المقدسی کہتے ہیں:
’جادو‘ ایسی گرہوں اور ایسے دَم درود اور اُن الفاظ کا نام ہے جنہیں بولا یا لکھا جائے، یا یہ کہ جادو گر ایسا عمل کرے جس سے اس شخص کا بدن یا دل یا عقل متاثر ہوجائے جس پر جادو کرنا مقصود ہو۔ المغنی:10 / 104
خلاصہ یہ ہے کہ ’ سحر‘ جادوگر اور شیطان کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کا نام ہے جس کی بنا پر جادوگر کچھ حرام اور شرکیہ امور کا ارتکاب کرتا ہے اور شیطان اس کے بدلے میں جادوگر کی مدد کرتا اور اس کے مطالبات کو پورا کرتا ہے۔
شیطان کو راضی کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جادوگروں کے مختلف وسائل ہیں۔
٭ چنانچہ بعض جادوگر اس مقصد کے لئے قرآن مجید کو ( نعوذ باللہ ) اپنے پاؤں سے باندھ کر بیت الخلا میں جاتے ہیں۔
٭ اور بعض قرآن مجید کی آیات کو ( نعوذ باللہ) گندگی سے لکھتے ہیں ۔ اور بعض انہیں ( نعوذ باللہ ) حیض کے خون سے لکھتے ہیں ۔
٭ بعض قرآنی آیات کو ( نعوذ باللہ ) اپنے پاؤں کے نچلے حصوں پر لکھتے ہیں ۔
٭کچھ جادوگر سورۃ الفاتحہ کو الٹا لکھتے ہیں ۔
٭کچھ بغیر وضو کے نماز پڑھتے ہیں ۔
٭کچھ ہمیشہ حالت ِجنابت میں رہتے ہیں۔
٭ کچھ جادوگروں کو شیطان کے لئے جانور ذبح کرنا پڑتے ہیں اور وہ بھی بسم اللہ پڑھے بغیر۔ اور ذبح شدہ جانور کو شیطان کی بتائی ہوئی جگہ پر پھینکنا پڑتا ہے ۔
٭بعض جادوگر ستاروں کو سجدہ کرتے اور ان سے مخاطب ہوتے ہیں ۔
٭ بعض کو اپنی ماں یا بیٹی سے زنا کرنا پڑتا ہے۔
٭اور کچھ جادو گروں کو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں ایسے الفاظ لکھنا پڑتے ہیں جن میں کفریہ معانی پائے جاتے ہیں۔
شیطان اس طرح کے کفریہ وشرکیہ اعمال جادو گروں سے کرواتے ہیں ، پھر ان کی ’ خدمت ‘ کرتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا جادو واقعتا اثر رکھتا ہے یا اس کی کوئی تاثیر نہیں ہوتی ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جادو واقعتا اللہ کے حکم سے اثر رکھتاہے۔ چنانچہ جادو سے کوئی شخص قتل بھی ہوسکتا ہے، بیمار بھی ہوسکتا ہے اور اپنی بیوی کے قریب جانے سے عاجز بھی آسکتا ہے۔ بلکہ جادو اللہ تعالی کے حکم سے خاوند بیوی کے درمیان جدائی بھی ڈال سکتا ہے اور ایک دوسرے کے دل میں نفرت بھی پیدا کرسکتا ہے اور محبت بھی۔
یاد رکھئے ! یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے ۔ اللہ کے حکم کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو کا اثر ہو گیا تھا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ قبیلہ بنو زُریق سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے (جسے لبید بن اعصم کہا جاتا تھا) رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم متاثر ہوئے۔ چنانچہ آپ کا خیال ہوتا کہ آپ نے فلاں کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ نہیں کیا ہوتا تھا۔ یہ معاملہ ایسے چلتا رہا یہاں تک کہ آپ ایک دن (یا ایک رات) میرے پاس تھے اور بار بار اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے، اس کے بعد مجھ سے فرمانے لگے:
(( یَا عَائِشَۃُ ! أَشَعَرْتِ أَنَّ اللّٰہَ أَفْتَانِیْ فِیْمَا اسْتَفْتَیْتُہُ، أَتَانِیْ رَجُلَانِ فَقَعَدَ أَحَدُہُمَا عِنْدَ رَأْسِیْ وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَیَّ ))
’’اے عائشہ ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی ہے، میرے پاس دو آدمی آئے تھے،ان میں سے ایک میرے سر اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا ۔ ‘‘
اور ایک نے دوسرے سے پوچھا:
( مَا وَجَعُ الرَّجُلِ ؟ ) ’’ اس شخص کو کیا ہوا ہے؟‘‘
دوسرے نے کہا : ( مَطْبُوْبٌ ) ’’ اس پر جادو کیا گیا ہے۔‘‘
اس نے کہا : کس نے کیا ہے؟
دوسرے نے کہا : لبید بن اعصم نے ۔
اس نے کہا : کس چیز میں کیا ہے؟
دوسرے نے کہا :کنگھی، بالوں اور کھجور کے خوشے کے غلاف میں۔
اس نے کہا :جس چیز میں اس نے جادو کیا ہے، وہ کہاں ہے؟
دوسرے نے کہا : بئر ذَروان میں۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس کنویں کو آئے اور پھر واپس آگئے اور فرمانے لگے:(( یَا عَائِشَۃُ ! کَأَنَّ مَائَ ہَا نُقَاعَۃُ الْحِنَّائِ أَوْ کَأَنَّ رُؤُسَ نَخْلِہَا رُؤُسُ الشَّیَاطِیْنِ ))
’’اے عائشہ! اس کا پانی انتہائی سرخ رنگ کا ہوچکا تھا اور اس کی کھجوروں کے سر ایسے تھے جیسے شیطان کے سر ہوں۔‘‘ (یعنی وہ انتہائی بدشکل تھیں)
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے جادو کو کنویں سے نکالا نہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قَدْ عَافَانِی اللّٰہُ ، فَکَرِہْتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَی النَّاسِ فِیْہِ شَرًّا ))
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے عافیت دی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ لوگ کسی شر اور فتنہ میں مبتلا ہوجائیں۔‘‘
اس کے بعد آپ نے اسے نکالنے کا حکم دیا اور پھر اسے زمین میں دبا دیا گیا۔ صحیح البخاری کتاب السلام، باب السحر حدیث :5763، صحیح مسلم :2189
جادو سیکھنا کفر ہے
یہاں ہم یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ جادو سیکھنا اور اس کی تعلیم دینا کفر ہے ۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
﴿وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوْا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ وَ مَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّھُمْ وَ لَا یَنْفَعُھُمْ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰ ہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :102
’’اور سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت میں شیطان جو پڑھا کرتے تھے، وہ لوگ اس کی پیروی کرنے لگے حالانکہ سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا تھا ، البتہ ان شیطانوں نے کفر کیا تھا جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے او ر وہ باتیں جو شہر بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اتاری گئی تھیں ۔ اور وہ دونوں (ہاروت و ماروت) کسی کو جادو نہیں سکھلاتے تھے جب تک یہ نہیں کہہ لیتے کہ ہم آزمائش ہیں پس تو کفر نہ کر ۔ اس پر بھی وہ ان سے ایسی باتیں سیکھ لیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ خاوند بیوی کے درمیان جدائی کرا دیں حالانکہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی کا جادو
سے کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اور ایسی باتیں سیکھ لیتے ہیں جن میں فائدہ کچھ نہیں، نقصان ہی نقصان ہے۔ اور انھیں (یہودیوں کو )یہ معلوم ہے کہ جو کوئی (ایمان دے کر) جادو خریدے وہ آخرت میں بدنصیب ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہوتے تو جس کے عوض انھوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا اس کا بدلہ برا ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جادو کا علم سیکھنا کفر ہے۔‘‘ فتح الباری:10 / 225
اسی طرح ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ’’جادو سیکھنا اور سکھانا حرام ہے۔ اور اس میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہٰذااسے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے خواہ وہ اس کی تحریم کا عقیدہ رکھے یا اباحت کا۔‘‘ المغنی:10 / 106
شریعت میں جادوگر کے متعلق فیصلہ
چونکہ قرآن مجید کی رو سے جادو سیکھنا اور اس کی تعلیم دینا کفر ہے ، اس لئے شریعت کی نظر میں جادو گر انتہائی برا انسان ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطِیِّرَ لَہٗ، أَوْ تَکَھَّنَ أَوْتُکُھِّنَ لَہٗ، أَوْتَسَحَّرَ أَوْتُسُحِّرَ لَہٗ )) صحیح الجامع الصغیر:5435
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو فال نکالے یا نکلوائے ، کہانت کرے یا کروائے، جادو کرے یا کروائے ۔‘‘
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ وہ شخص امت ِ محمدیہ سے خارج ہے جو جادو کرے یا کرائے ۔یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں ایک جادو گر کو دیکھا جو جادو کے کرتب دکھلا رہا تھا تو اسے اپنی تلوار کے ساتھ قتل کردیا ۔
اس واقعہ کی سند کو شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ :1446
اسی طرح بَجالۃ بن عَبدۃ بیان کرتے ہیں کہجناب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اپنے امراء کے نام حکم نامہ جاری فرمایا تھا کہ
( اُقْتُلُوا کُلَّ سَاحِرٍ وَسَاحِرَۃٍ ) ’’ ہر جادو گر مرد اور ہر جادو گر عورت کو قتل کردو ۔ ‘‘ چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا۔ أخرج أصل الحدیث البخاری:3156، وأبوداؤد :3043،والبزار ۔ البحر الزخار:1060۔ وصححہ الألبانی فی تخریج أبی داؤد :3043
اسی طرح امّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بھی یہ مروی ہے کہ ایک لونڈی نے ان پر جادو کردیا تو انھوں نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا۔ معرفۃ السنن والآثار للبیہقی:/12 203
انہی دلائل کی بناء پر علمائے امت کا جادوگر کے بارے میں فیصلہ ہے کہ وہ واجب القتل ہے ۔ چنانچہ
01. امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ جادوگر ‘جو جادو کا عمل خود کرتا ہو اور کسی نے اس کیلئے یہ عمل نہ کیا ہو‘ تواس کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ﴿وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہٗ مَا لَہٗ فِیْ الْآخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ﴾’’ اور وہ یہ بات بھی خوب جانتے تھے کہ جو ایسی باتوں کا خریدار بنا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ ‘‘
لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ وہ جب خودجادو کا عمل کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔‘‘ الموطّا (628) کتاب العقول باب ماجاء فی الغیلۃ والسحر
02. امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جادوگر کی سزا قتل ہے۔ اور یہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مثلا عمر، عثمان، ابن عمر، حفصہ، جندب بن عبداللہ، جندب بن کعب، قیس بن سعد رضی اللہ عنہم اور عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے ۔اور یہی مذہب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔‘‘ المغنی:8 / 106
03. اِمام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿وَلَو اَنَّہُمْ آمَنُوْا وَاتَّقَوْا…﴾ سے ان علماء نے دلیل لی ہے جو جادوگر کو کافر کہتے ہیں۔اور وہ ہیں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ کا ایک گروہ ۔جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور (دوسری روایت کے مطابق) امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جادوگر کافر تو نہیں ہوتا البتہ واجب ُالقتل ضرور ہوتا ہے۔ جادوگر کو قتل کردینا تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح ثابت ہے۔‘‘ تفسیر ابن کثیر:144/1
جادو گر اور نجومی کے پاس جانا حرام ہے
عزیزان گرامی ! ہم نے جو دلائل اب تک ذکر کئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جادوگر جادو کرکے کفر کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اور وہ امت محمدیہ سے خارج ہو جاتا ہے ۔ اسی لئے وہ واجب القتل بھی ہوتا ہے ۔ لہٰذا اِس طرح کے مجرم کے پاس جانا ہی درست نہیں ہے ۔ بلکہ یہ حرام ہے ۔
کیونکہ رسول اکرم ا کا ارشاد گرامی ہے :
(( مَنْ أَتٰی عَرَّافًا أَوْکَاھِنًا فَصَدَّقَہٗ بِمَا یَقُولُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم )) صحیح الجامع الصغیر :5939
’’ جو شخص کسی عرّاف (پوشیدہ چیزوں کی اطلاع دینے والے ، مستقبل کی خبروں اورقسمت کے بارے میں آگاہ کرنے والے شخص) اور کاہن و نجومی کے پاس گیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی شریعت کا انکار کردیا۔‘‘
دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا :
(( مَنْ أَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہٗ عَنْ شَیْیٍٔ لَمْ تُقْبَلْ لَہٗ صَلَاۃُ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً )) صحیح الجامع الصغیر :5940
’’ جو شخص کسی عرّاف کے پاس گیا ، پھر اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو اس کی چالیس راتوں کی نمازیں قبول نہیں کی جائیں گی ۔ ‘‘
03. قتل کرنا
سات مہلک گناہوں میں سے تیسرا گناہ اُس جان کو قتل کرنا ہے جس کو قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے۔
اللہ تعالی نے کسی معصوم جان کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اس کا فرمان ہے :
﴿ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ﴾ الإسراء17 :33
’’ اور تم اُس جان کو قتل نہ کرنا جسے ( قتل کرنا ) اللہ نے حرام کردیا ہے ۔ مگر اس صورت میں کہ اس کا قتل کیا جانا برحق ہو ۔ ‘‘
اور ’’کسی کا قتل کیا جانا برحق ‘‘ اُس وقت ہوتا ہے جب وہ قصداً کسی مومن کوقتل کرے ، یا شادی شدہ ہو اور بدکاری کرے ، یا وہ دین اسلام سے مرتد ہوجائے ۔
جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ یَشْہَدُ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إلِاَّ بِإِحْدَی ثَلاثٍ: اَلثَّیِّبُ الزَّانِیْ ، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ ، وَالتَّارِکُ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَۃِ )) صحیح البخاری : ۶۸۷۸ ، وصحیح مسلم : ۱۶۷۶
’’ کسی ایسے مسلمان کا خون حلال نہیں جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ مگر تین میں سے ایک کے ساتھ : شادی شدہ زانی ، جان کے بدلے جان اور دین ( اسلام ) کو چھوڑنے اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہونے والا ۔ ‘‘
بے گناہ آدمی کے قتل کو اللہ تعالی نے دس اہم محرمات میں شمار فرمایا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ الأنعام6 :151
’’آپ کہہ دیجئے کہ آؤ میں پڑھ کر سناؤں ، وہ چیزیں جو تمھارے رب نے تم پر حرام کردی ہیں ۔ وہ یہ ہیں کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ ۔ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ اور محتاجی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ۔ ہم ہی تمھیں بھی روزی دیتے ہیں اور انھیں بھی ۔ اور بے حیائی کے کاموں کے قریب تک نہ جاؤ چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے ( قتل کرنا ) اللہ نے حرام کردیا ہے ۔ مگر یہ کہ کسی شرعی حق کی وجہ سے کسی کو قتل کرنا پڑے ۔ اللہ نے تمھیں ان باتوں کا تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو ۔ ‘‘
دوسری طرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خونِ مسلم کو مکہ مکرمہ کی حرمت ، ذو الحجہ کے مہینے کی حرمت اور یومِ عرفہ کی حرمت کی طرح حرمت والا قرار دیا ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں پہنچے اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : (( إِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا ۔۔۔۔ )) صحیح مسلم :1218
’’ بے شک تمھارے خون اور تمھارے مال حرمت والے ہیں ، جس طرح تمھارا یہ دن تمھارے اس مہینے میں اور تمھارے اس شہر میں حرمت والا ہے ۔۔۔‘‘
یعنی جس طرح مکہ مکرمہ کی حرمت کو پامال کرنا ، یا ذو الحج کے مہینے کی حرمت کو پامال کرنا ، یا یوم عرفہ کی حرمت کو پامال کرنا حرام ہے ، اسی طرح مومن کا خون بہانا بھی حرام ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ قیامت کے روز سب سے پہلے خونوں کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی الدِّمَائِ)) صحیح البخاری :6533 ،6864، وصحیح مسلم :1678
’’ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا ۔‘‘
اور بے گناہ آدمی کو قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہجو شخص کسی مومن کو عمداًقتل کرتا ہے اس کیلئے اللہ تعالی نے پانچ سخت وعیدیں ذکر کی ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیْمًا﴾ النساء4 :93
’’ اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے اس کی سزا جہنم ہے ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پراللہ تعالی کا غضب ہے ، اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے اور اس نے اس کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔‘‘
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( کُلُّ ذَنْبٍ عَسَی اللّٰہُ أَن یَّغْفِرَہُ إِلَّا الرَّجُلُ یَقْتُلُ الْمُؤْمِنَ مُتَعَمِّدًا ، أَوِ الرَّجُلُ یَمُوتُ کَافِرًا)) سنن النسائی :3984۔ وصححہ الألبانی
’’ ممکن ہے کہ اللہ تعالی ہر گناہ معاف کردے ، سوائے اس آدمی کے جس نے مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا ، یا وہ آدمی جو کفر کی حالت میں مر گیا ۔ ‘‘
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَوْ أَنَّ أَہْلَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِیْ دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَکَبَّہُمُ اللّٰہُ فِیْ النَّارِ))
’’ اگر آسمان اور زمین والے ( سب کے سب ) ایک مومن کا خون بہانے میں شریک ہوجائیں تو اللہ تعالی ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔‘‘ جامع الترمذی :1398 ۔ وصححہ الألبانی
قتل ِ مومن اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر ایک شخص مومن کو قتل کرنے کی کوشش میں خود مارا جائے تو وہ جہنم میں چلا جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْہِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِی النَّارِ))
’’ جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں چلے جاتے ہیں ۔ ‘‘
کہا گیا : یا رسول اللہ ! یہ تو قاتل ہوا ، مقتول کیوں جہنم میں جاتا ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّہٗ کَانَ حَرِیْصًا عَلٰی قَتْلِ صَاحِبِہٖ )) صحیح البخاری :2888
’’ کیونکہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔ ‘‘
سامعین کرام ! قتل تو یہود ونصاری میں سے بھی کسی ایسے شخص کا ہو جس کو اسلامی مملکت میں جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہو تو یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے قاتل کا جنت میں داخل ہونا تو دور کی بات ، وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( مَنْ قَتَلَ مُعَاہَدًا لَمْ یَرَحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ ، وَإِنَّ رَائِحَتَہَا تُوْجَدُ مِن مَّسِیْرَۃِ أَرْبَعِیْنَ عَامًا)) صحیح البخاری :3166
’’ جو شخص کسی ایسے آدمی کو قتل کرے جس کو اسلامی مملکت میں جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دی جا چکی ہو تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا ، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس کی جا سکے گی ۔ ‘‘
04. سود کھانا
سات مہلک اور تباہ کن گناہوں میں سے چوتھا گناہ ہے : سود کھانا
اللہ تعالی نے سود کو واضح طور پر حرام قرار دیا ہے ۔
فرمایا : ﴿وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾ البقرۃ: 275
’’ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کردیا ہے ۔ ‘‘
اسی لئے اللہ تعالی نے تمام اہل ایمان کو سود کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ اس کا فرمان ہے :
﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ آل عمران 3:130
’’ اے ایمان والو ! تم بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو سکو ۔‘‘
ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے سود کو ترک کرنے کاحکم دیا ۔ اور فرمایا : اگر تم ایسا نہیں کروگے تو سمجھ لو کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے ۔
ارشاد ہے : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ ٭ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ﴾ البقرۃ 2 :278۔279
’’ اے ایمان والو ! اللہ تعالی سے ڈرو اور اگر تم سچے مومن ہو توجو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ ۔ ‘‘
اگر کوئی شخص سود کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود سودی لین دین جاری رکھے تو اسے یقین کر لینا چاہئے کہ اس کے معاشی حالات تباہی اور بربادی کی طرف جا رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کو وقتی طور پر ایسا لگے کہ اس کی معاشی حالت بہت بہتر ہو رہی ہے ، لیکن آخر کار اس کا انجام بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ﴾ البقرۃ2 :276
’’ اللہ سود کو مٹاتا اور صدقوں کو بڑھاتا ہے ۔‘‘
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( مَا أَحَدٌ أَکْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلَّا کَانَ عَاقِبَۃُ أَمْرِہٖ إِلٰی قِلَّۃٍ )) سنن ابن ماجہ :2279۔ وصححہ الألبانی
’’ کوئی شخص چاہے کتنا سودلے لے اس کا انجام آخر کار قلت اور خسارہ ہی ہو گا ۔‘‘
سودی لین دین کرنے والے شخص کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہئے اور فوری طور پر توبہ کرکے اسے اِس حرام لین دین کو ترک کردینا چاہئے ۔ ورنہ وہ یہ بات یاد رکھے کہ جب تک وہ سودی لین دین کرتا رہے گا اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت اور پھٹکار پڑتی رہے گی ۔
جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ(( لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم آکِلَ الرِّبَا ، وَمُوْکِلَہُ ، وَکَاتِبَہُ ، وَشَاہِدَیْہِ ، وَقَالَ : ہُمْ سَوَائٌ )) صحیح مسلم :1598
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی سود کھانے والے پر ، سود کھلانے والے پر ، اس کے لکھنے والے پر ، اس کے گواہوں پر ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔ ‘‘
05. یتیم کا مال کھانا
سات مہلک اور تباہ کن گناہوں میں سے پانچواں گناہ ہے: یتیم کا مال کھانا ۔
اللہ تعالی نے یتیموں کے سرپرستوں کو ان کامال انھیں دینے کا حکم دیا ہے اور اسے خود کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا ﴾ النساء4 :2
’’اور یتیموں کو ان کے مال واپس کردو ۔ اور ان کی کسی اچھی چیز کے بدلے انھیں گھٹیا چیز نہ دو ۔ اور ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ ۔ یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے یتیموں کے سرپرستوں کو تین قسم کے احکامات جاری فرمائے ہیں ۔
پہلا یہ کہ یتیموں کے مال یتیموں کو واپس کردو ، یعنی جب یتیم بچے بالغ اور با شعورہو جائیں اور مالی معاملات کو خود سنبھالنے کے لائق ہو جائیں تو انھیں ان کے مال واپس لوٹا دو ۔ تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق انھیں استعمال میں لا سکیں ۔
دوسرا یہ کہ ان کی کسی اچھی چیزکے بدلے انھیں کوئی گھٹیا چیز نہ دیا کرو ۔ کیونکہ جاہلیت کے دور میں یتیموں کے سرپرست یتیموں کا عمدہ مال اور ساز وسامان اپنے پاس رکھ لیا کرتے تھے اور اس کے بدلے انھیں اپنا گھٹیا مال اور حقیر ساز وسامان دے دیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالی نے انھیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا ۔
تیسرا یہ کہ اپنے اور یتیموں کے مال خلط ملط کرکے یتیموں کے مال کھانے کی کوشش نہ کیا کرو ۔ کیونکہ جاہلیت کے دور میں لوگ ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ سو اللہ تعالی نے اس سے بھی منع کردیا ۔
پھر آیت کے آخر میں یتیموں کے مال کھانے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ۔
یتیموں کا مال کھانا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کا بدلہ کیا ہے اس کا اندازہ آپ اللہ تعالی کے اس فرمان سے کر سکتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا ﴾ النساء4 :10
’’وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھر تے ہیں اور وہ عنقریب جہنم کی آگ میں داخل ہونگے ۔ ‘‘
عزیز القدر بھائیو ! یتیموں کامال کھانا تو دور کی بات ، اللہ تعالی نے ان کے مال کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغُ اَشُدَّہٗ﴾ الأنعام6 :152
’’اور یتیم کے مال کے قریب تک نہ جاؤ ، مگر ایسے طریقے سے جو اس کے حق میں بہتر ہو ، یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے ۔ ‘‘
یعنی یتیم کے بالغ اور با شعور ہونے تک اس کے مال کی حفاظت کرو اور یتیم کی خیر خواہی کرو ، نہ یہ کہ اس کے مال کو فضول خرچیوں میں اڑا دو ، یا اس میں بے جا تصرف کرکے اسے ٹھکانے لگا دو ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ لَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا ﴾ النساء4 :6
’’اور ان کے بڑے ہوجانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کرو ۔ ‘‘
ہاں اگر یتیم کا سرپرست خود فقیر ہو اور یتیموں کی دیکھ بھال کی وجہ سے کوئی اور کام نہ کر سکتا ہو تو وہ اپنی ضرورت کے مطابق اس کے مال میں سے واجبی طور پرکھا سکتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ النساء4 :6
’’اور جو مالدار ہو تو وہ ( ان کے مال سے ) بچتا رہے ۔ اور جو فقیر ہو تو دستور کے مطابق واجبی طور پر کھا سکتا ہے ۔ ‘‘
06. میدانِ جنگ سے پیٹھ پھیرنا
سات مہلک اور تباہ کن گناہوں میں سے چھٹا گناہ ہے : میدان جنگ سے پیٹھ پھیرنا۔
اللہ تعالی نے اہل ِایمان کو میدان ِ جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنے سے منع کیاہے ۔ اس کا فرمان ہے :
﴿ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْھُمُ الْاَدْبَارَ﴾ الأنفال8 :15
’’ اے ایمان والو ! جب تم کافروں کے بالمقابل صف آرا ہو جاؤ تو ان سے پیٹھ مت پھیرنا ۔ ‘‘
اِس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان جب کافروں سے بر سر پیکار ہوں اور میدان کارزار میں ان کے آمنے سامنے ہوں تو میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہونا حرام ہے ۔ اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ تعالی اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ مَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاْوٰہُ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ ﴾ الأنفال8 :16
’’ اور جو شخص ان سے اس موقع پر پیٹھ پھیرے گا ، سوائے اس کے کہ اس میں کوئی جنگی چال ہو ، یا ( اسلامی فوج کی کسی ) جماعت سے مل جانا مقصود ہو تو وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہوگا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا ۔اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے ۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ دو مقاصد کیلئے میدان ِ جنگ سے پیٹھ پھیرکر بھاگنا جائز ہے ۔ ایک یہ کہ جنگی چال چلتے ہوئے دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کی غرض سے ایک طرف پھرنا اور پھر اچانک پلٹ کر حملہ کرکے اسے زیادہ نقصان
پہنچانے کا ارادہ ہو ۔ دوسرا یہ کہ پیچھے ہٹ کر اپنی جماعت کے ساتھ ملنا اور اس کے ساتھ مل کر دوبارہ زوردار حملہ کرنا مقصود ہو ۔
ان دو مقاصد کے علاوہ میدان ِ جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنے والا شخص گناہ ِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اور اللہ تعالی کے غضب کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم بنا دیا جاتا ہے ، جو کہ بہت ہی بری جگہ ہے ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو ان تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق دے ۔ اور اگر ہم میں سے کسی نے ان گناہوں میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو وہ ہمیں معاف فرمائے اور ہمیں ان سے سچی توبہ کرنے کی توفیق دے ۔
دوسرا خطبہ
سامعین گرامی ! پہلے خطبہ میں ہم نے سات مہلک گناہوں میں سے چھ گناہوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ اب اس موضوع کو مکمل کرتے ہوئے ساتویں گناہ کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
07. بے گناہ، پاکدامن اورمومنہ عورتوں پر بد کاری کا الزام لگانا
مہلک اور تباہ کن گناہوں میں سے ساتواں گناہ ہے :بے گناہ، پاکدامن اورمومنہ عورتوں پر بد کاری کا الزام لگانا ۔
یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر الزام تراشی کرنے والے لوگ چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو اللہ تعالی نے انھیں اس دنیا میں اسی (۸۰)کوڑوں کی سزا دینے کا حکم دیا ہے ۔ اور انھیں فاسق وفاجر قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ﴾ النور24 :4
’’ اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں ، پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو انھیں تم اسی (۸۰) کوڑے مارو ۔ اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو ۔ اور یہی لوگ ہی فاسق ہیں ۔ ‘‘
اور دوسری آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو دنیا وآخرت میں ملعون قرار دیا ہے ۔ اور آخرت میں انھیں بڑے عذاب کی وعید دی ہے ۔ اس کا فرمان ہے :
﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ النور24: 23
’’ جو لوگ پاکدامن ، بدکاری سے بے خبر ، مومنہ عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں ، وہ یقینا دنیا وآخرت میں ملعون ہیں ۔ اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے ۔ ‘‘
لہٰذا ہمیں اپنی زبانوں کو تہمت بازی اور الزام تراشی سے بچانا چاہئے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق دے ۔
وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین