فرشتوں کی دعائیں پانے والے !
اہم عناصرِ خطبہ :
01. فرشتے اللہ تعالی کی نورانی مخلوق
02. فرشتوں کی مومنوں سے محبت
03. فرشتوں کی مومنوں کیلئے دعائے رحمت ومغفرت
04. فرشتے کن مومنوں پر نازل ہوتے اور کن کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ؟
پہلا خطبہ
محترم حضرات !
٭ فرشتے اللہ تعالی کی نورانی مخلوق ہیں ۔ اور اللہ کے معزز بندے ہیں جیسا کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَہُ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ٭ لَا یَسْبِقُوْنَہُ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِأَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ﴾ الأنبیاء21:26،27
’’(مشرک لوگ) کہتے ہیں کہ رحمن اولاد والا ہے ! اس کی ذات پاک ہے، بلکہ وہ سب ( فرشتے )اس کے معزز بندے ہیں، کسی بات میں اللہ تعالیٰ پر سبقت نہیں لے جاتے، بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں۔‘‘
٭فرشتے اللہ تعالی کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اس کی نافرمانی نہیں کرتے ۔
اللہ تعالی ا ن کے متعلق فرماتا ہے : ﴿ لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤمَرُوْنَ ﴾ التحریم66:6
’’انھیں اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے، وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ انھیں جو حکم دیا جائے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘
٭ فرشتے اللہ تعالیٰ کیلئے مختلف قسم کی عبادات بجا لاتے ہیں مثلا دعا، تسبیح، رکوع، سجود، خوف، خشیت، محبت وغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ یُسَبِّحُوْنَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ ﴾ الأنبیاء21:20
’’وہ دن رات اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ،سستی اور کمی نہیں کرتے۔‘‘
آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ( ان شاء اللہ ) یہ بیان کریں گے کہ مومنوں میں وہ کون خوش نصیب لوگ ہیں کہ جن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان کی مختلف عبادات میں شریک ہوتے ہیں اور ان کیلئے دعائے مغفرت
ورحمت کرتے ہیں ۔
سب سے پہلے آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ فرشتے مومنوں سے محبت کرتے ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا نَادَی جِبْرِیْلَ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّہٗ ، فَیُحِبُّہٗ جِبْرِیْلُ ، فَیُنَادِیْ جِبْرِیْلُ فِی أَہْلِ السَّمَائِ : إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوْہُ ، فَیُحِبُّہٗ أَہْلُ السَّمَائِ ، ثُمَّ یُوْضَعُ لَہُ الْقَبُولُ فِی الْأَرْضِ )) صحیح البخاری :7485 ، صحیح مسلم :2637
’’ جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو پکار کر کہتا ہے : بے شک اللہ نے فلاں آدمی سے محبت کر لی ہے ، لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو ۔ چنانچہ جبریل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ پھر جبریل آسمان والوں میں پکار کر کہتے ہیں : بے شک اللہ تعالی نے فلاں آدمی سے محبت کر لی ہے ، لہٰذا تم سب بھی اس سے محبت کرو ، چنانچہ آسمان والے ( فرشتے ) اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ اس کے بعد زمین میں بھی اسے مقبول بنا دیا جاتا ہے ۔ ‘‘
فرشتے مومنوں سے نہ صرف محبت کرتے ہیں بلکہ ان کیلئے رحمت ومغفرت کی دعا بھی کرتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ کَانَ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَحِیْمًا ﴾ الأحزاب33 : 43
’’ وہی ( اللہ تعالی ) ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے تمھارے لئے دعا کرتے ہیں ، تاکہ اللہ تمھیں اندھیروں سے نکال کر نورِ ( حق ) تک پہنچا دے ۔ اور اللہ مومنوں پر بے حد رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘
فرشتے کن خوش نصیبوں کیلئے دعا کرتے ہیں ؟
01. توبہ کرنے والوں کیلئے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ٭ رَبَّنَا وَأَدْخِلْہُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِیْ وَعَدْتَّہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾ غافر40: 7
’’جو ( فرشتے ) عرش اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں ، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی
تسبیح کرتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور ایمان والوں کیلئے استغفار کرتے ہیں ( اور کہتے ) ہیں : اے ہمارے رب ! تو نے اپنی رحمت اور علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے ، لہذا جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی انھیں بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچا لے ۔اے ہمارے رب ! انھیں ان ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ۔ اور ان کے آباؤ اجداد ، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں انھیں بھی۔ بلا شبہ تو ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے ۔‘‘
02. لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والوں کیلئے
ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہٗ وَأَہْلَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِیْنَ حَتَّی النَّمْلَۃَ فِی جُحْرِہَا وَحَتَّی الْحُوتَ لَیُصَلُّونَ عَلٰی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرَ)) جامع الترمذی :2685 ۔ وصححہ الألبانی
’’ بے شک اللہ تعالی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے اور آسمانوں اور زمینوں والے حتی کہ چیونٹی اپنی بِل میں اور حتی کہ مچھلی بھی سب چیزیں اُس شخص کیلئے رحمت کی دعا کرتی ہیں جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے ۔ ‘‘
03. اپنی جائے نماز پر بیٹھے رہنے والوں کیلئے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( ۔۔۔۔۔وَالْمَلَائِکَۃُ یُصَلُّوْنَ عَلیٰ أَحَدِکُمْ مَادَامَ فِیْ مَجْلِسِہِ الَّذِیْ صَلّٰی فِیْہِ ، یَقُوْلُوْنَ : اَللّٰہُمَّ ارْحَمْہُ ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ ، اَللّٰہُمَّ تُبْ عَلَیْہِ ، مَا لَمْ یُؤْذِ فِیْہِ ، مَا لَمْ یُحْدِثْ فِیْہِ))
’’اور تم میں سے کوئی شخص جب تک اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے فرشتے اس کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : اے اللہ! اس پر رحم فرما ۔ اے اللہ! اس کی مغفرت فرما ۔ اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما ۔ وہ بدستور اسی طرح دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ کسی کو اذیت نہ دے یا اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 2119 ، مسلم :649
04. پہلی صفوں میں نماز پڑھنے والوں کیلئے
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی الصُّفُوفِ الْأُوَلِ )) سنن أبی داؤد :664۔ وصححہ الألبانی
’’ بے شک اللہ تعالی رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے دعا کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو پہلی صفوں میں نماز
پڑھتے ہیں۔‘‘
05. صفوں میں مل کر کھڑے ہونے والوں کیلئے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ الصُّفُوفَ ، وَمَنْ سَدَّ فُرْجَۃً رَفَعَہُ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً)) سنن ابن ماجہ :995 ۔ وصححہ الألبانی
’’ بے شک اللہ تعالی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے ان لوگوں کیلئے دعائے رحمت کرتے ہیں جو صفوں کو ملاتے ہیں ۔ اور جو شخص خالی جگہ کو پُر کرتا ہے اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے ۔ ‘‘
06. سحری کرنے والوں کیلئے
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اَلسَّحُوْرُ کُلُّہُ بَرَکَۃٌ ، فَلَا تَدَعُوْہُ ، وَلَوْ أَنْ یَّجْرَعَ أَحَدُکُمْ جُرْعَۃً مِّن مَّائٍ ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی الْمُتَسَحِّرِیْنَ)) مسند أحمد ۔ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1070
’’ سحری ‘ پوری کی پوری برکت ہے ، اس لئے اسے مت چھوڑا کرو اگرچہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ اللہ تعالی سحری کرنے والوں پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔ ‘‘
07. مریض کی عیادت کرنے والوں کیلئے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَعُوْدُ مُسْلِمًا غَدْوَۃً إِلَّا صَلّٰی عَلَیْہِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰی یُمْسِیَ ، وَإِنْ عَادَہُ عَشِیَّۃً إِلَّا صَلّٰی عَلَیْہِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰی یُصْبِحَ ، وَکَانَ لَہُ خَرِیْفٌ فِی الْجَنَّۃِ)) جامع الترمذی : 969 ۔ وصححہ الألبانی
’’کوئی مسلمان جب صبح کے وقت مسلمان بھائی کی عیادت کرے تو شام ہونے تک ستر ہزار فرشتے اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر وہ شام کے وقت اس کی عیادت کرے تو صبح ہونے تک ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں۔ اور جنت میں اس کیلئے ایک باغ ہو گا ۔‘‘
08. نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والوں کیلئے
عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصَلِّیْ عَلَیَّ إِلَّا صَلَّتْ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُ مَاصَلّٰی عَلَیَّ ، فَلْیُقِلَّ الْعَبْدُ مِنْ ذَلِکَ
أَوْ لِیُکْثِرْ)) سنن ابن ماجہ :907 ۔ وحسنہ الألبانی ، وأحمد :15727۔ وحسنہ الأرناؤط
’’ جو بھی مسلمان میرے اوپر درود بھیجتا ہے تو جب تک وہ درود بھیجتا رہتا ہے تب تک فرشتے اس کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا بندہ چاہے تو کم درود بھیجے یا چاہے تو زیادہ بھیجے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ فرشتے مومنوں کیلئے نہ صرف دعائے رحمت کرتے ہیں بلکہ مومن جب اپنے بھائیوں کیلئے دعا کرتے ہیں تو فرشتے ان کی دعا پر آمین بھی کہتے ہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( دَعْوَۃُ الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ لِأَخِیْہِ بِظَہْرِ الْغَیْبِ مُسْتَجَابَۃٌ،عِنْدَ رَأْسِہِ مَلَکٌ مُّوَکَّلٌ،کُلَّمَا دَعَا لِأَخِیْہِ بِخَیْرٍ قَالَ الْمَلَکُ الْمُوَکَّلُ : آمِیْن وَلَکَ بِمِثْل)) صحیح مسلم :2733
’’ مسلمان کی اپنے بھائی کیلئے غائبانہ دعا قبول کی جاتی ہے ۔ اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ متعین ہوتاہے ، وہ جب بھی اپنے بھائی کیلئے دعائے خیر کرتا ہے تو متعین فرشتہ کہتا ہے ( آمین ) اور تمھیں بھی اس جیسی خیر نصیب ہو ۔ ‘‘
عزیز القدر بھائیو اور بہنو ! فرشتے جن خوش نصیب لوگوں کیلئے دعائے رحمت کرتے ہیں ان کا تذکرہ آپ نے سنا ۔ اب آئیے ان سعادت مند لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جن پر فرشتے نازل ہوتے اور ان کے ساتھ بعض اعمال ِ خیر میں شریک ہوتے ہیں ۔
فرشتے کن پر نازل ہوتے اور کن کے ساتھ شریک ہوتے ہیں؟
01. استقامت اختیار کرنے والوں پر
اللہ تعالی کافرمان ہے :﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ ٭ نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْآخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُونَ ٭ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیْمٍ﴾ فصلت41 :30 ۔32
’’ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ تعالی ہے ، پھر اس ( عقیدۂ توحید اور عمل صالح ) پر جمے رہے ان پر فرشتے ( دنیا میں یا موت کے وقت یا قبر میں ) اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ( آنے والے مراحل سے ) نہ
ڈرو اور نہ ہی ( اہل وعیال کو چھوڑنے کا ) غم کرو ۔ اور تم اُس جنت کی خوشخبری سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں تمھارے دوست اور مدد گار رہے اور آخرت میں بھی رہیں گے ۔ اور وہاں تمھیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی تمھارا نفس خواہش کرے گا اور وہ چیز جس کی تم تمنا کرو گے ۔ یہ اُس کی طرف سے تمھاری میزبانی ہوگی جو نہایت معاف کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے ۔‘‘
02. نماز فجر اور نماز عصر با جماعت پڑھنے والوں پر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( یَتَعَاقَبُوْنَ فِیْکُمْ مَلَائِکَۃٌ بِاللَّیْلِ وَمَلَائِکَۃٌ بِالنَّہَارِ ،وَیَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ ، ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِیْنَ بَاتُوْا فِیْکُمْ ، فَیَسْأَلُہُمْ رَبُّہُمْ وَہُوَ أَعْلَمُ بِہِمْ : کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ ؟ فَیَقُوْلُوْنَ : تَرَکْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ ، وَأَتَیْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّوْن)) صحیح البخاری:555، 3223، صحیح مسلم :632
’’ تم میں دن اور رات کے فرشتے باری باری آتے ہیں ۔ وہ نماز فجر اور نماز عصر کے وقت جمع ہوتے ہیں ۔ پھر وہ فرشتے اوپر جاتے ہیں جنھوں نے تمھارے پاس رات گذاری ہوتی ہے ۔ چنانچہ ان کا رب ان سے سوال کرتا ہے حالانکہ وہ ان کے بارے میں زیادہ جانتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ تو وہ کہتے ہیں : ہم نے انھیں جب چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس آئے تب بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے ۔ ‘‘
03. اہل الذکر اور مجالس ِ علم پر
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((إِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً یَطُوْفُوْنَ فِی الطُّرُقِ ، یَلْتَمِسُوْنَ أَہْلَ الذِّکْرِ ، فَإِذَا وَجَدُوْا قَوْمًا یَذْکُرُونَ اللّٰہَ تَنَادَوْا : ہَلُمُّوْا إِلٰی حَاجَتِکُمْ ) قَالَ : ( فَیَحُفُّوْنَہُمْ بِأَجْنِحَتِہِمْ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا))
’’ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ کے ایسے فرشتے ہیں جو راستوں میں چلتے پھرتے رہتے ہیں ، ان کا اور کوئی کام نہیں سوائے اس کے کہ وہ اہل ِ ذکر کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ لہذا جب وہ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو پکار کر کہتے ہیں : آ جاؤ تم جس چیز کے متلاشی تھے وہ یہاں ہے ۔ پھر وہ بھی اہل الذکر کے ساتھ بیٹھ کر انھیں اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ۔( اور ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ) اس مجلس سے آسمانِ دنیا تک سارے فرشتے ہی فرشتے ہوتے ہیں ۔ ‘‘
’’ پھر (جب وہ آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں تو ) اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان کے حال کو
زیادہ جانتا ہے : میرے بندے کیا کہہ رہے ہیں ؟
وہ جواب دیتے ہیں : وہ تیری تسبیح ، تیری بڑائی ، تیری تعریف اور تیری بزرگی بیان کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے ؟
فرشتے کہتے ہیں : نہیں ، انھوں نے تجھے نہیں دیکھا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر انھوں نے مجھے دیکھا ہوتا تو پھر ان کی کیا حالت ہوتی ؟
فرشتے کہتے ہیں : اگر انھوں نے تجھے دیکھا ہوتا تو وہ یقینا تیری عبادت اور زیادہ کرتے ۔اور تیری بزرگی ، تیری تعریف اور تیری تسبیح اور زیادہ بیان کرتے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ مجھ سے کس چیز کا سوال کرتے ہیں ؟
فرشتے کہتے ہیں : وہ تجھ سے تیری جنت کا سوال کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انھوں نے میری جنت کو دیکھا ہے ؟
وہ کہتے ہیں : نہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ جنت کو دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیا کیفیت ہوتی ؟
فرشتے کہتے ہیں : اگر انھوں نے اسے دیکھا ہوتا تو وہ اور زیادہ اس کیلئے شوقین ہوتے اور مزید اس کی طلب اور رغبت رکھتے ۔
اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ؟
فرشتے جواب دیتے ہیں : جہنم کی آگ سے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انھوں نے اسے دیکھا ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں : نہیں دیکھا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیا حالت ہوتی ؟
فرشتے جواب دیتے ہیں:اگر وہ اسے دیکھ چکے ہوتے تو اس سے اور زیادہ دور بھاگتے اور اس سے مزید ڈرتے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (( فَأُشْہِدُکُمْ أَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَہُمْ ))
’’میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے انھیں معاف کردیا ہے ۔ ‘‘
فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے : اس مجلس میں فلاں بندہ بھی تھا جو ان میں سے نہیں ، بلکہ وہ کسی کام کیلئے آیا تھا ، پھر ان کے ساتھ بیٹھ گیا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (( وَلَہٗ غَفَرْتُ ، ہُمُ الْقَومُ لَا یَشْقٰی بِہِمْ جَلِیْسُہُمْ ))
’’میں نے اسے بھی معاف کردیا ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا شخص بھی محروم نہیں ہوتا ۔‘‘ صحیح البخاری :6408 ، صحیح مسلم :2689
جبکہ ایک اور روایت میں ارشاد نبوی کے یہ الفاظ ہیں :
((لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا حَفَّتْہُمُ الْمَلاَئِکَۃُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ وَنَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَۃُ وَذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہُ)) صحیح مسلم :2700
’’ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کیلئے بیٹھتے ہیں ، انھیں فرشتے گھیر لیتے ہیں ، رحمت ِ باری تعالیٰ انھیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ، ان پر سکونِ قلب نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ان کا تذکرہ کرتا ہے ۔ ‘‘
04. فرشتے نماز جمعہ کیلئے آنے والوں کے نام لکھتے ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا کَا نَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ کَانَ عَلٰی کُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ الْمَلَائِکَۃُ یَکْتُبُوْنَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ ، فَإِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ طَوَوُا الْصُّحُفَ، وَجَاؤُوْا یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ ۔۔۔۔)) صحیح البخاری :929، صحیح مسلم : 850
’’ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے پہنچ جاتے ہیں جو آنے والوں کے نام باری باری لکھتے ہیں ( یعنی جو پہلے آتا ہے اس کا نام پہلے اور جو اس کے بعد آتا ہے اس کانام بعد میں لکھتے ہیں ) پھر جب امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنے صحیفوں کو لپیٹ کر خطبہ سننے مسجد میں آجاتے ہیں ۔ ‘‘
05. فرشتے نماز میں مومنوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں
حضرت رفاعۃ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھایا تو آپ نے فرمایا : (( سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ )) ایک آدمی نے آپ کے پیچھے کہا : (( رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ، حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہ)) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کون کلام کر رہا تھا ؟ تو اُس آدمی نے کہا : میں تھا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَقَدْ رَأَیْتُ بِضْعَۃً وَّثَلَاثِیْنَ مَلَکًا یَبْتَدِرُوْنَہَا أَیُّہُمْ یَکْتُبُہَا الْأوَّل)) صحیح البخاری :799
’’ میں نے دیکھا کہ تیس سے زیادہ فرشتے ان کلمات کو سب سے پہلے لکھنے کیلئے ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا ، فَإِنَّہٗ مَن وَّافَقَ تَأْمِیْنُہٗ تَأْمِیْنَ الْمَلَائِکَۃِ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ))
’’ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہا کرو۔ کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافقت کر جائے تواس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں ۔ ‘‘ صحیح البخاری :780، صحیح مسلم : 410
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( إِذَا قَالَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ فَقُولُوا : اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ، فَإِنَّہٗ مَن وَّافَقَ قَولُہٗ قَولَ الْمَلَائِکَۃِ ، غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ )) صحیح مسلم : 409
’’ جب امام کہے : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ تو تم کہو : اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ، کیونکہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے سے موافقت کر جاتا ہے تو اس کے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے ۔ ‘‘
06. فرشتے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے شخص کے قریب آجاتے ہیں
حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رات کو ( نماز میں )سورۃ البقرۃ پڑھ رہا تھا اور میرا گھوڑا قریب ہی بندھا ہوا تھا ، اچانک گھوڑا بدکاتو میں خاموش ہو گیا ۔ جب میں خاموش ہوا تو وہ بھی پر سکون ہو گیا ۔ میں نے پھر قراء ت شروع کی تو وہ پھر بدکنے لگا ۔ میں خاموش ہوا تو وہ بھی ٹھہر گیا۔میں نے پھر قراء ت شروع کی تو وہ ایک بار پھر بدکا ۔ اُدھر میرا بیٹا ’یحییٰ ‘ بھی تھا ،مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ اسے کچل نہ دے ۔ چنانچہ میں سلام پھیر کر اس کے پاس آیا اور اسے اس سے دور کردیا ۔ پھر میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھتری سی ہے اور اس میں چراغ سے چمک رہے ہیں۔ پھر یہ چھتری نما چیز آسمان کی طرف چلی گئی حتی کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔
صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا پورا واقعہ سنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اِقْرَأْ یَا ابْنَ حُضَیْر ، اِقْرَأْ یَا ابْنَ حُضَیْر ))
’’ اے ابن حضیر ! تمھیں اپنی قراء ت جاری رکھنی چاہئے تھی ! ‘‘
میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے اپنے بیٹے پر ترس آ رہا تھا اس لئے میں نے سلام پھیر دیا ، اس کے بعد میں نے ایک چھتری نما چیز دیکھی جس میں چراغ چمک رہے تھے ، وہ اوپر کو چلی گئی اور میری نظروں سے غائب ہو گئی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تِلْکَ الْمَلَائِکَۃُ دَنَتْ لِصَوْتِکَ ، وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ یَنْظُرُ النَّاسُ إِلَیْہَا
لَاتَتَوَارٰی مِنْہُمْ ))
’’ یہ فرشتے تھے جو تمھاری آواز کے قریب آ گئے تھے اور اگر تم قراء ت جاری رکھتے تو صبح کے وقت لوگ بھی اسے دیکھ لیتے اور وہ ان سے نہ چھپ سکتے ۔ ‘‘
مسلم کی روایت میں ہے : (( تِلْکَ الْمَلَائِکَۃُ کَانَتْ تَسْتَمِعُ لَکَ ، وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ یَرَاہَا النَّاسُ ، مَا تَسْتَتِرُ مِنْہُمْ ))
’’ یہ فرشتے تھے جو تمھاری تلاوت انتہائی توجہ سے سن رہے تھے ۔ اور اگر تم پڑھتے رہتے تو صبح کے وقت لوگ بھی انھیں دیکھ لیتے اور وہ ان سے چھپ نہ پاتے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :5018، صحیح مسلم : 796
07. قرآن مجید کو پڑھنے ، پڑھانے والے لوگوں پر فرشتوں کا نزول
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( وَمَا اجْتَمَعَ قَومٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ ، یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُونَہٗ بَیْنَہُمْ ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَۃُ ، وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ ، وَحَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ ، وَذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ ))
’’ اور جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو اس کے معانی ومطالب کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں تو ان پر راحت ِ قلب نازل ہوتی ہے ، انھیں باری تعالی کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے ، انھیں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالی ان کا ذکر ان ( فرشتوں ) میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں ۔ ‘‘ صحیح مسلم : 2699
08. مومنوں کے سلام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( إِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً سَیَّاحِیْنَ فِی الْأَرْضِ یُبَلِّغُوْنِیْ عَنْ أُمَّتِی السَّلَامَ ))
’’ بے شک اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو زمین میں سیاحت کرتے رہتے ہیں اور وہ مجھ تک میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں ۔ ‘‘ سنن النسائی :1282۔ صحیح ابن حبان :914 ۔ وصححہ الألبانی
09. طالب علموں کیلئے اپنے پر بچھاتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ فِیْہِ عِلْمًا سَلَکَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہٖ طَرِیْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ ، وَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَہَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ)) سنن أبی داؤد :3641۔ وصححہ الألبانی
’’ جو شخص طلب ِ علم کیلئے ایک راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلا دیتا ہے ۔ اور فرشتے طالب علم سے اظہار رضا مندی کرتے ہوئے اپنے پر بچھاتے ہیں ۔‘‘
10. فرشتے مومنوں کو بشارت دیتے ہیں
اللہ تعالی حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے :
﴿ فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی﴾ آل عمران3 :39
’’ چنانچہ جب وہ محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو فرشتوں نے انھیں پکار کر کہا کہ اللہ تعالی آپ کو یحیٰی علیہ السلام کی خوشخبری دیتا ہے ۔۔۔۔‘‘
اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کیلئے اس کی بستی کی طرف روانہ ہوا تو اللہ تعالی نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ مقرر کردیا ۔ چنانچہ وہ جب وہاں سے گذرا تو فرشتے نے کہا : تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا : اِس بستی میں میرا ایک بھائی ہے جس سے ملنے جا رہا ہوں ۔ فرشتے نے کہا :
(( ہَلْ لَّکَ عَلَیْہِ مِنْ نِّعْمَۃٍ تَرُبُّہَا ؟))
یعنی کیا وہ تمہارا احسانمند ہے جس کی بناء پر تم اس سے ملنے جا رہے ہو ؟
اس نے کہا : نہیں ، میں تو صرف اس لئے جا رہا ہوں کہ مجھے اس سے اللہ کی رضا کیلئے محبت ہے ۔
فرشتے نے کہا :((فَإِنِّیْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْکَ بِأَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَہُ فِیْہِ ))
یعنی مجھے اللہ تعالی نے تمہاری طرف یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ جس طرح تو نے اس سے محض اللہ کی رضا کیلئے محبت کی ہے اسی طرح اللہ تعالی نے بھی تجھ سے محبت کر لی ہے ۔ ‘‘ صحیح مسلم : 2567
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تو انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آرہی ہیں ، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانے یا پینے کی کوئی چیز ہے ، لہٰذا جب وہ آپ کے پاس آئیں تو
آپ انھیں ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہیں اور انھیں جنت میں ایک گھر کی بشارت دیں جو انتہائی قیمتی موتیوں سے بنا ہوگا اور اس میں شور شرابہ ہوگا نہ تھکاوٹ ہوگی ۔‘‘ صحیح البخاری:3820،صحیح مسلم :2432
ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے مومنوں کو مختلف قسم کی بشارتیں دیتے ہیں ۔
محترم حضرات ! آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی فرشتوں کی دعائیں اور ان کی بشارتیں نصیب فرمائے ۔ آمین
دوسرا خطبہ
سامعین کرام ! آج کے موضوع کو مکمل کرتے ہوئے ہم مزید کچھ لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جن پرفرشتے نازل ہوتے اور ان کے بعض اعمال ِ خیر میں شریک ہوتے ہیں۔
11. جنگ میں مومنوں کو ثابت قدم رکھتے اور ان کی مدد کرتے ہیں
اللہ تعالی جنگ بدر میں شریک صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق فرماتا ہے :
﴿ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ ﴾ الأنفال8 :9
’’ جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمھیں جواب دیا کہ میں ایک ہزار فرشتے تمھاری مدد کو بھیج رہا ہوں ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن٭ اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ٭ بَلٰٓی اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ یَاْتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ﴾ آل عمران3 :123۔ 124
’’ اور اللہ تعالی نے بدر کے مقام پر تمھاری مدد کی جبکہ تم کمزور تھے ، لہٰذا تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ شکر گزار بن جاؤ ۔ جب آپ مومنوں سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمھیں یہ کافی نہیں کہ تمھارا رب تین ہزار فرشتے اتار کر تمھاری مدد کرے ؟ کیوں نہیں ! اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور دشمن تم پر فورا چڑھ آئے تو تمھارا رب خاص نشان رکھنے والے پانچ ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا ۔ ‘‘
ان آیات سے ثابت ہوا کہ کفار کے خلاف جنگ میں فرشتے اللہ تعالی کے حکم سے نازل ہوتے ہیں اور ان مومنوں کی مدد کرتے ہیں جو اس میں شریک ہوتے ہیں ۔
اسی طرح ارشاد فرمایا : ﴿ اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَان ﴾ الأنفال8 :12
’’ اس وقت کو یاد کرو جب آپ کے رب نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ، لہذا تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ ، میں عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا ، سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور کو مارو ۔ ‘‘یعنی ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کے کنارے کاٹ دو ۔تاکہ یہ نہ تلوار چلانے کے قابل رہیں اور نہ ہی بھاگنے کے قابل رہیں ۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے جنگ میں مومنوں کو ثابت قدم رکھنے اور ان کی مدد کیلئے اللہ تعالی کے حکم سے نازل ہوتے ہیں ۔
12. مصیبت میں پھنسے ہوئے مومنوں کی مدد کیلئے فرشتوں کا نزول
جی ہاں ، فرشتے مصیبت میں پھنسے ہوئے مومنوں کی مدد کیلئے بھی نازل ہوتے ہیں ۔ اور اس کیلئے ہم یہاں دو دلیلیں ذکر کرتے ہیں :
01. ام اسماعیل حضرت ہاجرہ کی مدد کیلئے حضرت جبریل علیہ السلام کا نزول
حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش کیلئے صفا اور مروہ کے درمیان بار بار چکر لگا رہی تھیں تو جب وہ ساتویں چکر میں مروہ پر چڑھیں تو ایک آواز سنی ۔ انھوں نے اپنے آپ سے کہا: خاموش رہو (بات سنو ۔) پھر کان لگایا تو وہی آواز سنی ۔ کہنے لگیں : میں نے تیری آواز سنی ، کیا توکچھ ہماری مدد کر سکتا ہے ؟ آپ نے اسی وقت زمزم کے مقام پر ایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنی ایڑی یا اپنا پر زمین پر مارکر اسے کھود ڈالا تو پانی نکل آیا ۔ حضرت ہاجرہ اسے حوض کی طرح بنانے لگیں اور اپنے ہاتھ سے منڈیر باندھنے لگیں اور چلؤوں سے پانی اپنے مشکیزہ میں بھرنے لگیں ۔ جب وہ چلو سے پانی لیتیں تو اس کے بعد جوش سے پانی نکل آتا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( یَرْحَمُ اللّٰہُ أُمَّ إِسْمَاعِیْلَ لَوْ تَرَکَتْ زَمْزَمَ ۔ أَوْ قَالَ : لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنَ الْمَائِ لَکَانَتْ زَمْزَمُ عَیْنًا مَعِیْنًا ))
’’اللہ ام اسماعیل پر رحم فرمائے ! اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں ( یا فرمایا ) اس سے چلو چلو پانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا ہوا چشمہ بن جاتا ۔‘‘
چنانچہ حضرت ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بچے کو دودھ پلایا۔ فرشتے نے ان سے کہا : تم جان کی فکر نہ کرو ، یہاں اللہ کا گھر ہے، یہ بچہ اور اس کا باپ اسے تعمیر کریں گے ۔ اُس وقت کعبہ گر کر زمین سے اونچا ٹیلہ بن چکا تھا اور برسات کا پانی اس کے دائیں بائیں سے گزر جاتا تھا ۔ صحیح البخاری :3364
مسند احمد میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ جو فرشتہ حضرت ہاجرہ کی مدد کیلئے نازل ہوا وہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے ۔
02. حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالی کے فرمان ﴿ أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ ﴾ کی تفسیر میں ایک واقعہ لکھا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مصیبت میں پھنسے ہوئے مومن اگر اللہ تعالی سے فریاد کریں تو اللہ تعالی فرشتوں کے ذریعے ان کی فریاد رسی کرتا ہے ۔
وہ قصہ یہ ہے کہ ایک فقیر آدمی اپنے خچر پر لوگوں کو سوار کرکے دمشق سے زیدانی پہنچاتا اور اس پر کرایہ وصول کرتا تھا ۔ اس نے اپنا ایک قصہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک شخص سوار ہوا اور وہ راستے میں مجھ سے کہنے لگا : یہ راستہ چھوڑ دو اور اُس راستے سے چلو کیونکہ اس سے ہم اپنی منزل مقصود تک جلدی پہنچ جائیں گے ۔ میں نے کہا : نہیں میں وہ راستہ نہیں جانتا اور یہی راستہ زیادہ قریب ہے۔ اس نے کہا : وہ زیادہ قریب ہے اور تمھیں اسی سے جانا ہو گا ۔ چنانچہ ہم اسی راستے پر چل پڑے ۔ آگے جاکر ایک دشوار گذار راستہ آگیا جو ایک گہری وادی میں تھا اور وہاں بہت ساری لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔ اس نے کہا : یہاں رک جاؤ ۔ میں رک گیا ۔ وہ نیچے اترا اور اترتے ہی چھری سے مجھ پر حملہ آور ہوا ۔ میں بھاگ کھڑا ہوا ۔ میں آگے آگے اور وہ میرے پیچھے پیچھے ۔ آخر کار میں نے اسے اللہ کی قسم دے کر کہا : خچر اور اس پر لدا ہوا میرا سامان تم لے لو اور میری جان بخش دو ۔ اس نے کہا : وہ تو میرا ہے ہی ، میں تمھیں قتل کرکے ہی دم لوں گا ۔ میں نے اسے اللہ تعالی سے ڈرایا اور قتل کی سزا یاد دلائی لیکن اس نے میری ایک بھی نہ سنی ۔ چنانچہ میں نے اس کے سامنے رک کر کہا : مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو ۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے جلدی پڑھ لو ۔ میں نے قبلہ رخ ہو کر نماز شروع کردی لیکن میں اس قدر خوفزدہ تھا کہ میری زبان پر قرآن مجید کا ایک حرف بھی نہیں آرہا تھا اور اُدھر وہ بار بار کہہ رہا تھا : اپنی نمازجلدی ختم کرو ۔ میں انتہائی حیران وپریشان تھا ۔ آخر کار اللہ تعالی نے میری زبان پر قرآن مجید کی یہ آیت
جاری کردی : ﴿ أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ ﴾ ’’ بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے ؟‘‘
پھر میں نے اچانک دیکھا کہ ایک گھوڑ سوارہاتھ میں نیزہ لئے وادی کے منہ سے نمودار ہو رہا ہے ۔ اس نے آتے ہی وہ نیزہ اس شخص کو مارا جو مجھے قتل کرنے کے درپے تھا ۔ نیزہ اس کے دل میں پیوست ہو گیا اور وہ مر گیا۔ میں نے گھوڑ سوار کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے کہا :
’’ مجھے اس نے بھیجا ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے ۔ ‘‘
پھر میں نے اپنا خچر پکڑا اور اپنا ساز وسامان اٹھا کر سلامتی سے واپس لوٹ آیا ۔
13. مومن کی موت کے بعد اسے غسل دینے میں فرشتوں کی شرکت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور حنظلہ بن راہب رضی اللہ عنہ جنابت کی حالت میں شہید ہوگئے ، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( رَأَیْتُ الْمَلَائِکَۃَ تَغْسِلُہُمَا )) ’’ میں نے فرشتوں کو دیکھا ہے کہ وہ ان دونوں کو غسل دے رہے تھے ۔ ‘‘ حسنہ الألبانی فی الجنائز
14.مومنوں کی نماز جنازہ میں شرکت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا :
(( ہٰذَا الَّذِیْ َتحَرَّکَ لَہُ الْعَرْشُ وَفُتِحَتْ لَہٗ أَبْوَابُ السَّمَائِ ، وَشَہِدَہٗ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَۃِ لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً ثُمَّ فُرِّجَ عَنْہُ )) سنن النسائی :2055 ۔ وصححہ الألبانی
’’ یہ جس کیلئے عرش حرکت میں آگیا اور آسمان کے دروازے اس کیلئے کھول دئیے گئے اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازے میں شریک ہوئے ، اس کو بھی قبر میں دبوچا گیا ، پھر اسے چھوڑ دیا گیا ۔ ‘‘
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے اور ہمیں فرشتوں کی دعاؤں اور ان کی بشارتوں کا مستحق بنائے ۔ آمین