امن وامان کی اہمیت اور اس کے اسباب
اہم عناصرِ خطبہ :
01. معاشرہ میں امن وامان کی اہمیت
02. مومن کا قتل بہت بڑا گناہ ہے
03. فساد بپا کرنے والے شخص کی سزا
04. امن وامان کیسے قائم ہو گا؟
پہلا خطبہ
برادران اسلام ! امن وامان بہت بڑی نعمت ہے ۔ اگر معاشرہ پر امن ہو تو
٭ اس میں بسنے والے لوگ اطمینان بخش زندگی بسر کرتے ہیں ۔
٭چھوٹے بڑے ، مرد وعورتیں ، مالدار اور فقراء سب خوشحال رہتے ہیں ۔
٭ کسی کو کوئی خوف وہراس نہیں ہوتا اور معاشرے کا ہر فرد اپنی جان ، اپنے مال اور اپنے اہل وعیال کے بارے میں بے فکر ہو جاتا ہے اورہر شخص اپنے فرائض بخیر وخوبی سر انجام دیتا ہے ۔
٭ اِس کے بر عکس اگر معاشرے میں امن وامان نہ ہو ،
٭ نہ جانیں محفوظ ہوں اور نہ مال ودولت کو تحفظ حاصل ہو،
٭ جہاں عزتوں کو پامال کیا جاتا ہو اور جہاں دن دہاڑے یا رات کے اندھیرے میں اسلحہ کی نوک پر گھروں ، گذر گاہوں اور بازاروں میں ڈاکہ زنی کے واقعات عام ہوں ،
٭ جہاں ہر شخص اپنے اور اپنے اہل وعیال کی سلامتی کے بارے میں فکر مند رہتاہو تو وہاں جینا حرام ہو جاتا ہے۔ ڈر اور خوف کی وجہ سے رات کا سکون برباد ہو جاتا ہے ۔
’ بد امنی ‘ اس قدر خوفناک چیز ہے کہ اس کے نتیجے میں کچھ بھی محفوظ نہیں رہتا ۔ نہ جان محفوظ اور نہ مال ودولت محفوظ اور نہ عزت وناموس محفوظ ۔ جب سالہا سال کی محنت رائیگاں چلی جائے ، جب خون پسینے کی کمائی چندمنٹوں میں لٹ جائے ، جب عزت ‘جس کے تحفظ کیلئے انسان اپنی جان تک کو قربان کر نے پر تیار ہو جاتا ہے وہ ( نعوذ باللہ ) تار تار
ہو جائے تو اِس لوٹ مار کا نشانہ بننے والے افراد یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش زمین کا سینہ پھٹ جائے اور وہ اس میں زندہ دفن ہو جائیں ۔
جو معاشرہ بد امنی کا شکار ہوتا ہے اور اس میں انتشار ، فساد اور لا قانونیت عام ہوتی ہے اس میں لوگ اپنے فرائض سے عہدہ برآ نہیں ہو پاتے بلکہ حقوق وفرائض کی ادائیگی میں واضح طور پر خلل نظر آتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اہل وعیال کو بے آب وگیاہ وادی (مکہ مکرمہ )میں چھوڑ کر جانے لگے تو انھوں نے اس جگہ کے باسیوں کیلئے سب سے پہلے امن وامان کی دعا کی ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَّارْزُقْ أَہْلَہُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْہُم بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ﴾ [ البقرۃ : ۱۲۶ ]
’’ اور جب ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ ’’ اے میرے رب ! اس جگہ کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے رہنے والوں میں سے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائیں انھیں پھل عطا فرما ۔ ‘‘
چونکہ ’ غذا ئی اشیاء کی فراوانی‘ اور ’ امن وامان ‘ یہ دونوں کسی بھی معاشرہ کی کامیابی کیلئے ضروری عناصرہیں اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے یہ دونوں چیزیں طلب کیں ۔ اورسب سے پہلے انھوں نے اللہ تعالی سے مکہ مکرمہ کو پر امن شہر بنانے کی دعا کی، اس کے بعد اہلِ مکہ کیلئے پھلوں کی دعا کی ۔اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کی فلاح وبہبود کیلئے جہاں اشیائے خورد ونوش کی فراوانی کی اہمیت ہے وہاں امن وامان کی اہمیت بھی اس سے کم نہیں ہے ، بلکہ اس کی اہمیت زیادہ ہے تبھی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے اُس کی دعا کی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کو پر امن مقام بنا دیا ۔ اور امن بھی اِس قدر زیادہ کہ اس میں شکار تک کو حرام کردیا گیا ، بلکہ شکار کو بھگانے سے بھی منع کردیا گیا ۔ درختوں کو کاٹنے اور گری ہوئی چیز کو اٹھانے سے بھی روک دیا گیا ! اور اللہ تعالی نے اس کے امن کو برقرار رکھنے کیلئے اس میں ظلم وزیادتی کا ارادہ کرنے پر بھی دردناک عذاب کی وعید سنائی ۔
ارشاد باری ہے : ﴿ وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ الحج : 25 ]
’’ اور جو کوئی از راہِ ظلم مسجد حرام میں کجروی اختیار کرنے کا ارادہ کرے گا اسے ہم دردناک عذاب چکھائیں گے۔ ‘‘
یہ تھی مکہ مکرمہ میں امن وامان کی حالت ، جبکہ مکہ کے ارد گرد رہنے والے لوگ بد امنی کا شکار تھے ، ان میں قتل و
غارت کا بازار گرم تھا ، لوگوں کے مال لوٹ لئے جاتے تھے اور ان کی عزتوں کو پامال کیا جاتا تھا ۔
اللہ تعالی نے کفارِ مکہ کو اپنا یہ احسان یاد دلاتے اور دعوتِ فکر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
﴿اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِھِمْ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَکْفُرُوْنَ ﴾ [العنکبوت: 67 ]
’’ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو پر امن بنایا جبکہ ان کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں ! کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ؟ ‘‘
یعنی جب اللہ تعالی نے انھیں نعمت ِ امن سے نوازا ہے تو انھیں چاہئے تو یہ تھا کہ وہ محض اللہ تعالی کی عبادت کرتے ، اسی کے سامنے عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے اور اس کے سوا کسی کی پوجا نہ کرتے ۔ لیکن انھوں نے ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی عبادت میں غیروں کو شریک ٹھہرایا اور باطل پر ایمان لائے ! اور ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا عالم یہ تھا کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دین اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی تو انھوں نے جواب دیا : ﴿وَ قَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا ﴾ [القصص: 57 ]
’’ اورانھوں نے کہا : اگر ہم تمھارے ساتھ ہدایت کی تابعداری کریں تو ہم تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے ۔‘‘
یعنی اگر انھوں نے اسلام قبول کرلیا تو وہ تو بد امنی کا شکار ہو جائیں گے !
ان کی اِس حجت کے جواب میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
﴿ اَوَ لَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْئٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ [القصص: 57 ]
’’ کیا ہم نے پر امن حرم کو ان کیلئے جائے قیام نہیں بنایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے ہر طرح کے پھل کھچے چلے آتے ہیں ؟ لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالی نے انھیں اپنا بہت بڑا احسان یاد دلایا کہ دیکھو اللہ تعالی ہی ہے جس نے تمھیں پر امن حرم اور مقدس مقام پر بسنے کی توفیق دی اور ہر قسم کے پھل بھی عطا کئے ، تو کیا تم پھر بھی اسلام قبول نہیں کرتے اور اس کی طرف سے مبعوث کئے گئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے ؟
اِس سے یہ ثابت ہوا کہ ’امن وامان ‘ اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا اس نے ہر قسم کے پھلوں کے ساتھ خاص طور پر تذکرہ فرمایا اور انہی دو نعمتوں کے ساتھ کفار کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالی یہی دو نعمتیں ایک اور انداز میں ذکر فرماتا ہے اور کفارِ قریش کو خانہ کعبہ کے رب کی
عبادت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : ﴿فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ ہَذَا الْبَیْْتِ ٭ الَّذِیْ أَطْعَمَہُم مِّن جُوعٍ وَّآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ﴾ [ قریش : ۳۔ ۴]
’’ پس وہ اِس گھر ( خانہ کعبہ ) کے رب کی ہی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک میں کھلایا اور خوف سے امن دیا ۔ ‘‘
جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہی دو نعمتوں کے ساتھ ایک تیسری نعمت ’صحت وتندرستی ‘کا ذکر فرما کر یہ ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس یہ تینوں نعمتیں موجود ہوں تووہ دنیا کا سب سے کامیاب انسان ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ مُعَافیٰ فِیْ جَسَدِہٖ ، آمِنًا فِیْ سِرْبِہٖ ، عِنْدَہُ قُوْتُ یَوْمِہٖ ، فَکَأَنَّمَا حِیْزَتْ لَہُ الدُّنْیَا ) [ الترمذی : ۲۳۴۶ ، ابن ماجہ : ۴۱۴۱ ، وحسنہ الألبانی]
’’ جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ وہ تندرست ہو ، اپنے آپ میں پر امن ہو اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک موجود ہو تو گویا اس کیلئے پوری دنیا کو جمع کردیا گیا ۔ ‘‘
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں امن وامان نصیب فرمائے اور ہمیں اور ہمارے اہل وعیال اور تمام مسلمانوں کو ہر شر سے محفوظ رکھے ۔
برادران اسلام ! اس وقت عالم اسلام کے متعدد ممالک میں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ۔ آئے دن بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے افسوسناک واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں ۔ جائیدادیں تباہ وبرباد ہو جاتی ہیں ۔ سرکاری وغیر سرکاری مملوکہ اشیاء کو شدید نقصان پہنچتا ہے ۔ حتی کہ اب تو اللہ تعالی کے گھر ( مساجد ) بھی محفوظ نہیں رہے ، ان میں بھی دھماکے کئے جاتے ہیں اور ان لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو اللہ تعالی کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں ۔ تو کیا بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے ؟ ہرگز نہیں ، ایک مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنابہت بڑا گناہ ہے چہ جائیکہ متعدد مسلمانوں کو ایک ہی وقت میں قتل کردیا جائے !
مسلمان کا خون مکہ مکرمہ کی طرح حرمت والا ہے !
جی ہاں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خونِ مسلم کو بھی بالکل اسی طرح حرمت والا قرار دیا جیسا کہ مکہ مکرمہ حرمت والا شہر ، ذو الحجہ حرمت والا مہینہ اور یومِ عرفہ حرمت والا دن ہے ۔ یعنی اسے ناحق طور پر بہانا حرام فرمادیا ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں پہنچے اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ( إِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا ۔۔۔۔) [ مسلم : ۱۲۱۸]
’’ بے شک تمھارے خون اور تمھارے مال حرمت والے ہیں ، جس طرح تمھارا یہ دن تمھارے اس مہینے میں اور تمھارے اس شہر میں حرمت والا ہے ۔۔۔‘‘
اس عظیم الشان خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خونِ مسلم کی طرح مالِ مسلم کو بھی حرمت والا قرار دیا ۔ لہذا کسی مسلمان کے مال یا اس کی جائیداد کو بم دھماکوں کے ذریعے تباہ کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جیسا کہ اسے قتل کرنا حرام ہے ۔
اسی طرح حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( قربانی کے روز منٰی میں )ارشاد فرمایا :
(۔۔۔۔۔ ثُمَّ قَالَ : أَیُّ شَہْرٍ ہٰذَا؟ قُلْنَا : اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ ، فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیْہِ بِغَیْرِ اسْمِہٖ ، قَالَ : أَلَیْسَ ذَا الْحَجَّۃِ ؟ قُلْنَا : بَلٰی، قَالَ : فَأَیُّ بَلَدٍ ہٰذَا ؟ قُلْنَا : اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیْہِ بِغَیْرِ اسْمِہٖ ، قَالَ : أَلَیْسَ الْبَلْدَۃُ؟ قُلْنَا : بَلٰی، قَالَ :فَأَیُّ یَوْمٍ ہٰذَا؟ قُلْنَا : اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ ، فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُسَمِّیْہِ بِغَیْرِ اسْمِہٖ ، قَالَ : أَلَیْسَ یَوْمُ النَّحْرِ ؟ قُلْنَا : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ : فَإِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ہٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ہٰذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ فَیَسْأَلُکُمْ عَنْ أَعْمَالِکُمْ ، فَلاَ تَرْجِعُنَّ بَعْدِیْ کُفَّارًا ( أَوْ ضُلَّالًا ) یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ) [بخاری : ۴۴۰۶ ، مسلم : ۱۶۷۹ ]
’’ ۔۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یہ کونسا مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) زیادہ جانتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کا کوئی اور نام ذکر فرمائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ ذو الحجہ نہیں ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں! پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یہ کونسا شہر ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) زیادہ جانتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر کا کوئی اور نام ذکر فرمائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ البلدۃ( مشہور شہر مکہ ) نہیں ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں ! پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یہ کونسادن ہے ؟ہم نے کہا : اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) زیادہ جانتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا کوئی اور نام ذکر فرمائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ یوم النحر( قربانی کا دن) نہیں ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بے شک تمھارے خون ، تمھارے مال
اور تمھاری عزتیں حرمت والی ہیں ، جس طرح تمھارا یہ دن تمھارے اس مہینے میں اور تمھارے اس شہر میں حرمت والا ہے ۔اور تم عنقریب اپنے رب سے ملنے والے ہو ، پھر وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا ۔ خبر دار ! تم میرے بعد کافر ( یا گمراہ ) نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ ۔ ‘‘
یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جم غفیر میں ایک مسلمان کے خون ، مال اور اس کی عزت کی حرمت کو بیان فرمایا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار کیا کہ اگر تم ایک دوسرے کی گردنیں اڑاؤ گے تو تم کفر تک پہنچ جاؤ گے یا راہِ راست سے بھٹک جاؤ گے ۔ لہذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی جانوں ، عزتوں اور ان کے مالوں کو اپنی طرف سے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانے سے پرہیز کرے اور ان کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے انھیں تحفظ فراہم کرے ۔
قتلِ ناحق پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے
اللہ تعالی نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ﴾ [ المائدۃ : ۳۲]
’’ جس شخص نے کسی دوسرے کو جان کے بدلہ کے علاوہ یا زمین میں فساد بپا کرنے کی غرض سے قتل کیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو مار ڈالا ۔ اور جس نے کسی کو ( قتل ِ ناحق سے ) بچا لیا تو وہ گویا سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوا ۔‘‘
ایک مومن کے قتل پر پانچ وعیدیں
جو شخص کسی مسلمان کو قتل کرتا ہے اس کو پانچ سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیْمًا﴾ [ النساء : ۹۳]
’’ اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا قتل کر ڈالے اس کی سزا جہنم ہے ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پراللہ تعالی کا غضب ہے ، اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے اور اس نے اس کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالی نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے شخص کو پانچ وعیدیں سنائی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کی سزا جہنم ہے ۔ دوسری یہ کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا ۔ تیسری یہ کہ اس پر اللہ تعالی کا غضب ہوتا ہے ۔ چوتھی یہ
کہ وہ اللہ تعالی کی لعنت (پھٹکار ) کا مستحق ہے ۔ اور پانچویں یہ کہ اس کیلئے اللہ تعالی نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اُس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے ایک مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا ، پھر اس نے توبہ کر لی ، ایمان لے آیا اور عمل صالح کرکے ہدایت کے راستے پر گامزن ہو گیا ۔ تو انہوں نے کہا: وہ ہلاک ہو جائے ! اس کیلئے ہدایت کیسے ممکن ہے جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا 🙁 یَجِیْئُ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُتَعَلِّقٌ بِرَأْسِ صَاحِبِہٖ ، یَقُوْلُ : رَبِّ ! سَلْ ہٰذَا لِمَ قَتَلَنِیْ ) ’’ قیامت کے روز قاتل ومقتول دونوں آئیں گے ، مقتول اپنے قاتل کے سر کے ساتھ چمٹا ہوگا اور کہے گا : اے میرے رب ! اس سے پوچھئے کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا ؟ ‘‘
پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ! اللہ تعالی نے اپنے نبی پر وہ آیت ( وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ ۔۔۔) نازل فرمائی اور اسے منسوخ نہیں کیا ۔ [ ابن ماجہ : ۲۶۲۱۔ وصححہ الألبانی]
کلمہ گو مسلمان کو قتل کرنا حلال نہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( لاَ یَحِلُّ دَمُ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ یَشْہَدُ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إلِاَّ بِإِحْدَی ثَلاَثٍ: اَلثَّیِّبُ الزَّانِیْ ، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ ، وَالتَّارِکُ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَۃِ ) [ متفق علیہ ]
’’ کسی مسلمان کا ‘ جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ ( برحق ) نہیں اور میں اللہ تعالی کا رسول ہوں ‘ خون حلال نہیں ۔ ہاں تین میں سے ایک شخص کو قتل کیا جا سکتا ہے اور وہ ہیں : شادی شدہ زانی ، قاتل اور دین کو چھوڑنے اور جماعت سے الگ ہونے والا ۔‘‘
پوری دنیا کا خاتمہ کرنا اتنا بڑا جرم نہیں جتنا ایک مومن کا خون بہانا بڑا جرم ہے
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( لَزَوَالُ الدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ قَتْلِ مُؤْمِنٍ بِغَیْرِ حَقٍّ ) [ ابن ماجہ : ۲۶۱۹ ، والترمذی عن عبد اللہ بن عمرو : ۱۳۹۵۔وصححہ الألبانی]
’’ دنیا کا خاتمہ کسی مومن کے ناجائز قتل سے اللہ تعالی پر زیادہ ہلکا ہے ۔‘‘
ایک مومن کے قتل میں اگر ساری دنیا کے لوگ شریک ہوں تو اللہ تعالی سب کو جہنم رسید کردے
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( لَوْ أَنَّ أَہْلَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِیْ دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَکَبَّہُمُ اللّٰہُ فِیْ النَّارِ ) [ الترمذی : ۱۳۹۸ ۔وصححہ الألبانی]
’’ اگر آسمان اور زمین والے ( تمام کے تمام ) ایک مومن کے خون میں شریک ہوں تو اللہ تعالی ان سب کو جہنم میں ڈال دے ۔‘‘
روزِ قیامت سب سے پہلے خون کا حساب لیا جائے گا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ الدِّمَائِ ) [ متفق علیہ ]
’’ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا ۔‘‘
اس لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنا دامن مسلمان کے خون سے محفوظ رکھے اور کسی کو ناجائز قتل نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( مَنْ لَقِیَ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا ، لَمْ یَتَنَدَّ بِدَمٍ حَرَامٍ ، دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) [ ابن ماجہ : ۲۶۱۸ ۔وصححہ الألبانی]
’’ جو شخص اللہ تعالی سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا تھا اور اس نے حرمت والا خون نہیں بہایا تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘
برادران اسلام !
جب مومن کا خون اس قدر حرمت والا ہے کہ اس کی حرمت شہرِ مکہ کی حرمت کی طرح ہے،جب ایک مومن کو نا حق قتل کرنا دین ِ اسلام میں جائز نہیں بلکہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اِس پر ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کی وعید سنائی گئی ہے تو پھر یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ بم دھماکوں کے ذریعے یا گھات لگا کر اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو قتل کردیا جائے ! معصوم جانوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا جائے ! قتل وغارت گری کے واقعات کے ذریعے مسلمانوں میں خوف وہراس پھیلایا جائے، یا مسلم معاشرے میں ظلم وزیادتی کا بازار گرم کرکے اس میں بد امنی پھیلائی جائے !
فساد بپا کرنے والے کی سزا
حضرات محترم ! جو شخص بھی معاشرے کے امن وامان کو خراب کرنے پر تلا ہوا ہو ، ڈاکہ زنی اور قتل وغارت گری کے ذریعے بد امنی پھیلا رہا ہوشریعت میں اس کی سزا قتل ہے کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں کے خون کا پیاسا ہو ، لوٹ مار کرتا ہو ، اس سے نہ لوگوں کی جانیں محفوظ ہوں اور نہ ان کے مال محفوظ ہوں تو ایسے شخص کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ حاکمِ وقت یا اس کے نائب پر فرض ہے کہ وہ امن وامان کے قیام اور رعایا کی جانوں، عزتوں اور ان کے مالوں کے تحفظ کیلئے اس کی گردن اڑا دے ۔ یہی سزا ہے زمین میں فساد بپا کرنے والے کی ۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :﴿إِنَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الْاَرْضِ فَسَادًا أَن یُقَتَّلُوْا أَوْ یُصَلَّبُوْا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذَلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِیْ الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۳۳]
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے اور زمین میں فساد بپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہو سکتی ہے کہ انھیں اذیت دے کر قتل کیا جائے ، یا سولی پر لٹکایا جائے ، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دئیے جائیں ، یا انھیں جلا وطن کردیا جائے ۔ان کیلئے یہ ذلت دنیا میں ہے اور آخرت میں انھیں بہت بڑا عذاب ہو گا ۔ ‘‘
برادران اسلام ! بعض لوگ جو بم دھماکے اور خود کش حملے کرتے ہیں وہ ان کاروائیوں کے جواز کیلئے ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ دیکھیں حکومت بھی تو دہشت گردی کو ختم کر نے کے نام پربے گناہ لوگوں کوما ررہی ہے تو ہم اس کے جواب میں کیوں خاموش رہیں اور ہم ایسی کاروائیاں کیوں نہ کریں ؟ ہم ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ حکومت یا فوج کی اس طرح کی کاروائیوں کے جواب میں خود کش حملوں یا بم دھماکوں کے ذریعے عام لوگوں کو نشانہ بنانا کونسی عقلمندی ہے ؟ اور بے گناہ لوگوں کو جان سے مار دینا کونسا انصاف ہے ؟ اُن بیچاروں کو کس جرم کی پاداش میں مارا جاتا ہے جن کا حکومت یا فوج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ؟ أفلا تعقلون ؟
پھر آپ ذرا غور کریں کہ یہ لوگ جو اس طرح کی کاروائیاں کرکے بد امنی پھیلاتے اور فساد بپا کرتے ہیں کیاان کی انہی کاروائیوں کی وجہ سے آج دشمنان اسلام امت مسلمہ کو ’’ دہشت گرد ‘‘ نہیں قرار دے رہے اورکیا وہ انہی کی وجہ سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ نہیں کر رہے ؟ تو اسلام اور امت مسلمہ کی بد نامی کا سبب کون بن رہا ہے ؟ اور وہ لوگ جو اپنی نسبت دین کی طرف کرتے ہیں اور جن کا تعلق منبر ومحراب سے ہوتا ہے جب وہ ان کاروائیوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا ان کی وجہ سے منبرو محراب کی بد نامی نہیں ہورہی ؟ کیا وہ اپنے ان اعمال کے ذریعے اعدائے اسلام اور ان کے پروردہ حکمرانوں کو مساجد ، مدارس اور اسلامی مراکز کے خلاف زبان درازی کرنے اور ان کے خلاف
کاروائی کرنے کا موقعہ نہیں مہیا کر رہے ؟
ہم اِن لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ بخدا ذرا سوچیں اور تمھاری وجہ سے امت مسلمہ جو نقصان اٹھا رہی ہے اس کا صحیح اندازہ کرکے اپنی ان کاروائیوں سے باز آ جائیں ۔ اور اسلامی معاشرہ کو بد امنی ، دہشت گردی اور قتل وغارت گری کی بجائے امن وسلامتی کا گہوارہ بنائیں اور مسلمانانِ عالم کو خوف وہراس کی بجائے اطمینان سے زندگی بسر کرنے کا موقعہ دیں ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہم سب کو نئے نئے فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین
دوسرا خطبہ
برادران اسلام ! آج امت مسلمہ مضطرب ہے اور حالات بے قابو ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ تو وہ کون سے اسباب ہیں کہ جنھیں اختیار کیا جائے تو اِس امت میں امن وامان قائم ہو سکتا ہے ؟ آئیے قرآن وحدیث سے ان اسباب کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
امن وامان کیسے قائم ہو گا؟
پہلا سبب : ’امن ‘ایمان کے بغیر ممکن نہیں
جی ہاں ، ایمان سب سے بڑا سبب ہے امن وامان کے حصول کیلئے ، بلکہ ایمان کے بغیر حقیقی امن وسکون حاصل ہی نہیں ہو سکتا ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾ [الأنعام: 48]
’’ پھر جو شخص ایمان لے آیا اور اصلاح کر لی تو ایسے لوگوں پر نہ خوف ہو گا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے ۔ ‘‘
اگر تمام مسلمان سچے مومن بن جائیں ، ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں اور مومنوں کی حقیقی صفات جو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان کی ہیں یا جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں بیان فرمایا ہے ‘ کو اختیار کرلیں تو یقینا انھیں امن وامان نصیب ہو سکتا ہے اور ان کے معاشرے میں بدامنی ، انتشار اور لاقانونیت کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔ مومنوں کی صفات میں سے پانچ صفات ایسی ہیں کہ جس مومن میں وہ پانچوں موجود ہوں تو وہ سچا مومن ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ٭ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ٭ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ ﴾ [الأنفال:۲۔ ۴ ]
’’ سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ اور جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ۔ اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ۔ (اور) وہ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو مال ودولت انھیں دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مومن ہیں جن کیلئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ، بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے ۔ ‘‘
لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان پانچوں صفات کو اختیار کرے تاکہ وہ سچے مومنوں کی صف میں شامل ہو سکے ۔ اور جب مسلمان سچے مومنوں کی صفات اختیار کریں گے تو ان کا معاشرہ یقین طور پرامن وامان کا گہوارہ بن جائے گا کیونکہ اللہ تعالی کا ان سے وعدہ ہے کہ
﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ طُوْبیٰ لَہُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ﴾ [ الرعد : ۲۹]
’’ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے ، ان کیلئے خوشحالی بھی ہے اور عمدہ ٹھکانا بھی۔ ‘‘
’خوشحالی ‘ بغیر امن وامان کے نہیں ہو سکتی ۔ اور یہ مسلمانوں کو تبھی نصیب ہو سکتی ہے جب ان میں سچا ایمان ہو گا اور وہ عمل صالح کریں گے ۔
ایمان اور امن لازم وملزوم ہیں ۔ سچا ایمان ہو گا تو امن بھی ہو گا ، اگر ایمان میں کوئی خلل ہو گا تو امن بھی نہیں ہو گا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی اسلامی مہینے کا چاند نظر آتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے :
( اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، اَللّٰہُمَّ أَہِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْإِسْلَامِ رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ۱۸۱۶ ]
’’ اللہ سب سے بڑا ہے ۔ اے اللہ ! تو ہمیں یہ چاند امن وایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ دکھا ۔ ہمارا اور ( اے چاند ! ) تیرا رب اللہ ہی ہے ۔ ‘‘
اور حقیقی مومن توہوتا ہی وہ ہے جس سے لوگوں کے خون اور ان کے مال محفوظ ہوں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِہِ وَیَدِہِ ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ ) [ ترمذی : ۲۶۲۷ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دیگر مسلمان سلامت رہیں ۔ اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے خون اور ان کے مال محفوظ ہوں ۔ ‘‘
لہذا اگر کسی مسلمان کی زبان اور اس کے ہاتھ سے اس کے مسلمان بھائی سلامت نہ ہوں ، وہ اپنی زبان سے انھیں نشانہ بناتا ہو اور اپنے ہاتھوں سے انھیں تکلیف پہنچاتا ہو تو وہ سچا مسلمان نہیں ۔ اسی طرح اگر کسی مومن سے لوگوں کے
خون اور ان کے مال محفوظ نہ ہوں تو وہ یقینا سچا مومن نہیں ۔ اسے اپنے ایمان کا جائزہ لینا ہو گا ۔
دوسرا سبب : اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کرنا اور شرک سے مکمل طور پر بچنا
ایمان اورعمل صالح کی بنیاد اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ہے ۔ چنانچہ جب تمام مسلمان بحیثیت مجموعی اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ، ان میں سچا ایمان ہو گا اور وہ نیک عمل کرنے والے ہونگے تو اللہ تعالی کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ انھیں ضرور بالضرور امن وامان نصیب فرمائے گا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِی لاَ یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ﴾ [النور: 55 ]
’’اور تم میں سے جو مومن ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور بالضرور خلافت دے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی تھی۔ اور ان کے دین کو ضرورمضبوط کرے گا جسے اس نے ان کیلئے پسند کیا ۔ اور ان کے خوف کو یقینا امن میں تبدیل کردے گا ۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔ اور جو شخص اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں ۔ ‘‘
یہ آیت کریمہ ان حالات میں نازل ہوئی کہ جب معاشی تنگ دستی تھی ، مدینہ منورہ سے باہر خوف وہراس کی کیفیت طاری تھی اور کوئی تجارتی قافلہ ڈاکوؤں سے محفوظ نہ تھا ۔ پھر جب اللہ تعالی نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے مسلمانوں کو خلافت دی تو دین راسخ ہو گیا اور خوف وہراس امن میں تبدیل ہو گیا ۔ امن وامان کا عالم یہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو کی تھی کہ ( فَإِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ لَتَرَیَنَّ الظَّعِیْنَۃَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِیْرَۃِ حَتّٰی تَطُوْفَ بِالْکَعْبَۃِ ، لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللّٰہَ ) [ البخاری : ۳۵۹۵ ]
’’ اگر تمھاری زندگی لمبی ہوئی تو تم ضرور بالضرور دیکھو گے کہ ایک عورت اکیلی (الحیرۃ) سے سفر کر کے آئے گی یہاں تک کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے سوائے اللہ تعالی کے کسی کا خوف نہیں ہو گا ۔‘‘ (یعنی راستے پر امن ہو جائیں گے ۔) اس کے عین مطابق عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک عورت (الحیرۃ ) سے اکیلی سفر
کرکے آئی یہاں تک کہ اس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اسے سوائے اللہ تعالی کے کسی کا ڈر اورخوف نہ تھا ۔
اس آیت کریمہ کے الفاظ ﴿یَعْبُدُوْنَنِی لاَ یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا﴾ نہایت قابل غور ہیں ۔ اور ان کا مطلب یہ ہے کہ امن وامان کا قیام تب تک ممکن نہیں جب تک مسلمان اکیلئے اللہ تعالی کی عبادت نہ کریں اور جب تک شرک سے پرہیز نہ کریں ۔ اور اگر وہ شرک کا ارتکاب کریں گے تو ان سے امن وامان کی نعمت کو یقینی طور پرچھین لیا جائے گا ۔ اور آج امت مسلمہ کا جو حال ہے وہ اسی چیز کا ثبوت پیش کرر ہا ہے ۔
بلکہ اللہ تعالی نے ایک اور آیت میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ جو مومن اپنے ایمان کے ساتھ شرک کی ملاوٹ نہیں کریں گے انہی مومنوں کو امن نصیب ہو گا۔
ارشاد باری ہے : ﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ﴾ [الأنعام:82]
’’ جو لوگ ایمان لائے ، پھر اپنے ایمان کو ظلم ( شرک ) سے آلودہ نہیں کیا انہی کیلئے امن وسلامتی ہے اور یہی لوگ راہِ راست پر ہیں۔ ‘‘
تیسرا سبب : دعا کرنا
دعا ہر خیر کی چابی ہے ۔ لہذا مسلمانوں کو دیگر ضروریات کی طرح امن وامان کے حصول کیلئے بھی اللہ تعالی سے بار بار دعا کرنی چاہئے ۔ہر مسلمان کو اپنی سلامتی ، اپنے اہل وعیال کی سلامتی اور عام مسلمانوں کی سلامتی کیلئے نہایت اخلاص کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں دستِ دعا پھیلانا چاہئے ۔ کیونکہ وہی سلامتی دینے والا ہے ، اس کے سوا کوئی نہیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا فرمایا کرتے تھے :
( اَللّٰہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ ) [مسلم ]
’’ ’’ اے اللہ ! تو سلامتی والا ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے۔ تو بابرکت ہے اے بزرگی اور عزت والے۔‘‘
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی صبح وشام کیا کرتے تھے :
( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَدُنْیَایَ وَأَہْلِیْ وَمَالِیْ،اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِیْ وَآمِنْ رَوْعَاتِیْ،اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ،وَمِنْ فَوْقِیْ ، وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ ) [ ابو داؤد ، ابن ماجہ ]
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا وآخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین ، اپنی دنیا ، اپنے اہل وعیال اور مال ودولت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ ! میرے عیبوں پر پردہ ڈال دے اور مجھے ڈر اور خوف میں امن عطا کر۔ اے اللہ ! تو میری حفاظت فرما میرے سامنے سے ، میرے پیچھے سے ، میری دائیں طرف سے ، میری بائیں طرف سے اور میرے اوپر سے۔اور میں تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اچانک اپنے نیچے سے ہلاک کیا جاؤں ۔‘‘
چوتھا سبب : اخوت وبھائی چارے کو فروغ دینا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے ۔ لہذااسے اپنے بھائی کا ہمدرد اور خیرخواہ ہونا چاہئے ۔ اسے چاہئے کہ وہ اس کے خون کا محافظ ہو ،اس کے مال اوراس کی عزت کا محافظ ہو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ،لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یَخْذُلُہُ وَلَا یَحْقِرُہُ، اَلتَّقْوٰی ہٰہُنَا ، وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہٖ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، بِحَسْبِ امْرِیئٍ مِنَ الشَرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ : دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرْضُہُ ) [ مسلم : ۲۵۶۴ ]
’’ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے ، نہ اسے رسوا کرتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرکے فرمایا کہ تقوی یہاں ہے ۔ پھر فرمایا : آدمی کی برائی کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ۔ اور ہر مسلمان کا خون ، مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ ‘‘
مسلمان اپنے بھائی کیلئے ہر وہ چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ہر اس چیز کو اس کیلئے نا پسند کرے جسے اپنے لئے نا پسند کرتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ) [ البخاری : ۱۳، مسلم : ۴۵]
’’ تم میں سے کوئی شخص (کامل ) ایمان والا نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔‘‘
پانچواں سبب : نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا
امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ) دین اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ
ہے ۔ اگر اسلامی معاشرے میں اس فریضہ کو کما حقہ ادا کیا جائے ، مختلف وسائل وذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اچھے کاموں کی ترغیب دی جائے اور برے کاموں سے روکا جائے ، اللہ کے حکم کے مطابق مسلمانوں میں سے ایک جماعت ( اتھارٹی ) یہ فریضہ سر انجام دے ، اس کے علاوہ ہر شخص اپنے اپنے دائرۂ کار میں اس ذمہ داری کو نبھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے میں برداشت ، تحمل اورامن وسلامتی کو فروغ نہ ملے ۔
یہ فریضہ اگر ہمہ جہت ادا کیا جائے ، مثلا گھر میں والدین ، مساجدومدارس میں خطباء وواعظین ، سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ٹیچرز حضرات ، مختلف محکموں میں افسران اعلی اور ذمہ داران وغیرہ جب بیک وقت اِس ذمہ داری کا احساس کریں ، اچھے کاموں کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اچھے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کریں اور برے کاموں سے روکنے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ لوگوں کی حوصلہ شکنی بھی کریں تو یقینی طور پر معاشرے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور امن وامان کے فروغ میں اچھی خاصی مدد مل سکتی ہے ۔
چھٹا سبب : ایذاء پہنچانے سے بچنا
کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے کسی بھائی یا بہن کو ہلکی سی اذیت پہنچائے چہ جائیکہ وہ اسے قتل کرے یا اس پر ظلم وزیادتی کرے ۔اگر معاشرے کا ہر فرد یہ فیصلہ کرلے کہ اس نے ایذاء رسانی سے بچنا ہے اور کسی شخص کو کوئی تکلیف نہیں پہنچانی تو اِس سے معاشرہ یقینا امن کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( خَیْرُکُمْ مَّن یُّرْجٰی خَیْرُہُ وَیُؤْمَنُ شَرُّہُ ، وَشَرُّکُمْ مَّن لَّا یُرْجٰی خَیْرُہُ وَلَا یُؤْمَنُ شَرُّہُ ) [ ترمذی : ۲۲۶۳۔وصححہ الألبانی ]
’’ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی امید رکھی جائے اور اس کے شر سے لوگوں کو امن ہو ۔ اور تم میں سے بد ترین شخص وہ ہے جس سے نہ تو خیر کی امید رکھی جائے اور نہ ہی اس کے شر سے لوگ محفوظ ہوں ۔ ‘‘
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( اِضْمَنُوْا لِیْ سِتًّا مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَضْمَنُ لَکُمُ الْجَنَّۃَ : اُصْدُقُوْا إِذَا حَدَّثْتُمْ ، وَأَوْفُوْا إِذَا وَعَدْتُّمْ ، وَأَدُّوْا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ ، وَاحْفَظُوْا فُرُوْجَکُمْ ، وَغُضُّوْا أَبْصَارَکُمْ ، وَکُفُّوْا أَیْدِیَکُمْ ) [ احمد وابن حبان وحسنہ الأرناؤط]
’’ تم مجھے اپنی طرف سے چھ باتوں کی ضمانت دے دو میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ جب بات کرو تو سچ بولو ، وعدہ کرو تو اسے پورا کرو ، تمھیں امانت سونپی جائے تو اسے ادا کرو ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ، نظریں جھکائے رکھو اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ۔‘‘
ساتواں سبب : حدود اللہ کو نافذ کرنا
امن وامان کے قیام کیلئے پہلے چھ اسباب کا تعلق ہر مسلمان سے ہے جبکہ ساتواں سبب حکمرانوں کے ساتھ خاص ہے اور وہ ہے مجرموں پر اللہ تعالی کی حدود ( سزاؤں ) کو نافذ کرنا ۔ حدود اللہ کے نفاذ سے جہاں مجرم کو اس کے ظلم کی سزا ملتی ہے اور آئندہ کیلئے اسے اس جرم سے بازرکھنا مقصود ہوتا ہے وہاں اس سے ان لوگوں کو سخت تنبیہ ہو جاتی ہے جو ان جیسے جرائم کا ارادہ کر چکے ہوتے ہیں یا منصوبہ بندی کررہے ہوتے ہیں ۔ اور اِس طرح لوگوں کو امن نصیب ہوتا ہے ۔ ان کی جانوں ، ان کے مالوں اور ان کی عزتوں کو تحفظ ملتا ہے ۔
٭ اگر قاتل کو قصاصاً قتل کردیا جائے تو یقینا لوگ قتل کرنے کا ارادہ ترک کردیں گے اور بے گناہ لوگوں کے خون ناجائز طور پر بہنے سے بچ جائیں گے ۔
٭ اگر چور اور ڈاکوکے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں تو یقینا لوگوں کے مال محفوظ ہو جائیں گے ۔
٭ اگر زانی مرد اور زانیہ عورت کو لوگوں کے سامنے کوڑے مارے جائیں اور شادی شدہ زانی یا زانیہ کو رجم کیا جائے تو اس سے لوگوں کی عزتوں کو یقینا تحفظ ملے گا ۔
٭ اگرشراب نوشی یا کسی بھی نشہ آور چیز کے استعمال پر شرعی سزا نافذ کی جائے تو معاشرہ بہت سارے جرائم سے بچ سکتا ہے ۔
اسی طرح باقی اسلامی سزائیں ہیں جو مجرموں کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں اور دوسرے لوگوں کیلئے باعث عبرت بنتی ہیں اور معاشرے میں امن وسلامتی کی ضمانت دیتی ہیں ۔ لہذا حکمرانوں کو اپنی اِس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا چاہئے اور انھیں اپنی رعایا کے امن وامان کو یقینی بنانا چاہئے ۔
آج کا خطبہ ہم اس دعا کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو امن وامان نصیب کرے اور ہر ایک کی حفاظت فرمائے ۔آمین