ربانی سے قربانیوں تک

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأنعام : 162)

کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قربانی اور اس کے ساتھ تین مزید باتوں کا حکم دیا ہے

نماز

قربانی

ساری زندگی

اور موت

سب کے سب اللہ رب العزت کے لیے

مگر

عوام الناس کی اکثریت کا یہ عالم ہے کہ قربانی والا فریضہ تو یاد ہے مگر آگے پیچھے والے تینوں احکام بھول چکے ہیں

قربانی تو کرتے ہیں مگر نماز کم ہی پڑھتے ہیں

قربانی تو کرتے ہیں مگر اپنی زندگی اللہ کے لیے نہیں گزارتے

قربانی تو کرتے ہیں مگر اپنی موت کو اللہ کے لیے بنانے کا نہیں سوچتے

قربانی سے قربانیوں تک

ہر سال قربانی کے موقع پر مسلم معاشروں میں ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے

دیکھئے انہوں نے کیا کیا قربانیاں دی ہیں

کسی لکھنے والے نے لکھا ہے کہ دنبہ تو فدیہ میں ملا تھا اصل بیٹے کی قربانی تھی

سبحان اللہ امتحان و آزمائش کی بھی انتہا تھی کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو حکم ملا کہ اپنے ہاتھ سے اپنے خوبصورت بیٹے کو ذبح کر دو مگر وہ بھی اللہ کا بندہ صبر و ثبات کا پہاڑ تھا کہ ذرہ برابر بھی نہ ڈگمگایا آسمان کی نیلی چھت اور زمین کی پشت عجیب منظر دیکھ رہی تھی باپ نے بیٹے کو زمین پر لٹا دیا تیز چھری گلے پر رکھ دی

اس سے بڑھ کر کوئی قربانی نہیں ہوسکتی

پھر گھر چھوڑا، وطن کو الوداع کہا لوگوں نے آگ میں پھینکنے کا پروگرام بنایا تو اس آزمائش کا سامنا بھی کیا حد ہو گئی جب دشمن کی صف اول میں سگے باپ کو کھڑے دیکھا ایک طرف بھڑکتی آگ تھی دوسری طرف دشمن کھڑے تھے اپنی طرفداری میں ایک بھی ذی روح انسان نظر نہیں آ رہا تھا مگر حیرت ہے کہ زبان پر حسبنا اللہ ونعم الوكيل

کا کلمہ جاری تھا

قربانی اسے کہتے ہیں

بیٹے اور بیوی کی قربانی

اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا کہ اپنے بیٹے اور بیوی کو بے آب و گیاہ زمین میں چھوڑ آؤ

سبحان اللہ

اب اپنی کل متاع کو حکم الہی کی بنا پر چھوڑنے جا رہے ہیں

ایک ایسی جگہ کہ جہاں انسان ہیں نہ خوراک ہے، پانی ہے نہ زندگی کا کوئی سامان ہے بس اللہ کا حکم اور اللہ پر توکل

مزے کی بات دیکھیے کہ انہیں وہاں چھوڑنے کے بعد تھوڑا سا واپس پلٹ کر دعا کی تو بیوی بچے کے لیے پانی مانگا نہ روٹی خوراک کا مطالبہ کیا نہ کوئی اور سوال

بس ایک ہی دعا کی

(رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ)

جو قربانیاں ابراهيم علیہ السلام سے طلب کی گئیں ہم سے بھی انہی کا مطالبہ ہے

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ (الممتحنة :4)

یقینا تمھارے لیے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اس کے ساتھ تھے ایک اچھا نمونہ تھا

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبة : 24)

کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

[ بخاری، الإیمان، باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الإیمان : ۱۵، عن أنس رضی اللہ عنہ]

ابراهيم علیہ السلام کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی اولاد کو حکم الٰہی سے مقدم نہیں رکھتے تھے

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں

أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقَالُوا وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا (بخاري 3475)

مخزومیہ خاتون (فاطمہ بن اسود) جس نے (غزوہ فتح کےموقع پر)چوری کرلی تھی، اس کےمعاملہ نے قریش کوفکر میں ڈال دیا۔انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پرآنحضرت ﷺسے گفتگو کون کرے ! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید ؓ آپ کوبہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کرسکتا ۔چنانچہ اسامہ نےآنحضرت ﷺ سےاس بارےمیں کچھ کہا توآپ نےفرمایا ۔اسامہ ! کیا تواللہ کی حدود میں سے ایک حد کےبارے میں سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ کھڑے ہوئےاورخطبہ دیا( جس میں) آپ نے فرمایا ۔پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اوراگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پرحد قائم کرتےاور اللہ کی قسم !اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

بیٹی کی محبت شرعی احکام میں رکاوٹ نہ بن سکی

ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺷﺮﺣﺒﻴﻞ ﺑﻦ ﺣﺴﻨﺔ فرماتے ہیں :

ﺭﺃﻳﺖ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻳﺄﻣﺮ ﺑﺘﺴﻮﻳﺔ اﻟﻘﺒﻮﺭ، ﻓﻤﺮ ﺑﻘﺒﺮ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻫﺬا ﻗﺒﺮ ﺃﻡ ﻋﻤﺮﻭ بنت ﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻓﺄﻣﺮ ﺑﻪ ﻓﺴﻮﻱ

(تاريخ المدينة لابن شبة:٣/ ١٠١٨

،تاريخ أبي زرعة الدمشقى: ص:٤٣١ ،و٦٢٩ ،مصنف ابن أبي شيبة:(١١٧٩٥)صحيح)

میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ حکم دے رہے تھے کہ تمام اونچی قبریں برابر کردی جائیں برابری کے عمل کے دوران ایک قبر آئی جس کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ یہ آپ کی بیٹی ام عمرو کی قبر ہے تو آپ نے اسے بھی باقی قبروں کی طرح برابر کرنے کا حکم دیا

طائف کی وادی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر مارنے والوں پر رحم کیا

عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے ؟

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

طائف کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا

ایسا مہربان نبی کہ طائف میں دس دن رہ کر مار کھا کر زخمی اور بے ہوش ہو کر نکلا اور ہوش آنے پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا

اس نے عرض کیا

يَا مُحَمَّدُ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ؟

کہ اگر کہو تو میں (دو پہاڑوں) اخشبین میں ان کفار کو پیس دوں؟

تو فرمایا:

بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا

[ بخاری، بدء الخلق، باب إذا قال إحدکم آمین… : ۳۲۳۱، عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ]

’’مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔‘‘

شعب ابی طالب میں معاشی بائیکاٹ کرنے والوں پر جب قحط سالی کا کوڑا برسا تو رحم دل نبی نے اپنی انا کی قربانی دیتے ہوئے ان کے لیے دعا کی

قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت سرکشی کی تو انھیں قحط اور بھوک نے آ لیا

حَتّٰی أَكَلُوا الْعِظَامَ

حتیٰ کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے ۔

وفی روایۃ

حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ

ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے

آدمی آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا

تو ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کہا :

’’یا رسول اللہ! مضر (قبیلے) کے لیے بارش کی دعا کریں، کیونکہ وہ تو ہلاک ہو گئے۔‘‘

وفی روایۃ

فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ

ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے

فَاسْتَسْقٰی فَسُقُوْا [ بخاري، التفسیر، سورۃ الدخان : ۴۸۲۱ ]

خیر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا کر دی اور ان پر بارش ہو گئی

اتنی بڑی قربانی کہ اللہ کا حکم مان کر، اپنی بیٹی پر تہمت لگانے والے کا وظیفہ جاری رکھا

حضرت عائشہ (رض) پر جب منافقین نے تہمت لگائی تو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ ان سادہ لوح مسلمانوں میں سے تھے جو اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے۔ یہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے قریبی رشتہ دار تھے اور محتاج تھے۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ زاد بہن کے بیٹے تھے (بعض نے انھیں خالہ زاد بھی کہا ہے)

حضرت ابو بکر صدیق (رض) انھیں گزر اوقات کے لئے کچھ ماہوار وظیفہ بھی دیا کرتے تھے۔ جب یہ بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگئے تو حضرت ابو بکر صدیق (رض) کو ان سے رنج پہنچ جانا ایک فطری امر تھا۔ جس نے بھلائی کا بدلہ برائی سے دیا تھا۔ چنانچہ آپ نے قسم کھالی کہ آئندہ ایسے احسان فراموش کی کبھی مدد نہ کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (النور : 22)

اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

اس آیت میں ایسے لوگوں سے بھی عفو و درگزر کی تلقین کی گئی۔ چنانچہ آپ نے فوراً اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور فرمایا :

پروردگار! ”ہم ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کر دے” چنانچہ آپ نے دوبارہ مدد کا سلسلہ جاری رکھنے کا عہد کیا بلکہ پہلے سے زیادہ مدد کرنے لگے

صحیح بخاری، حدیث (4750)

کوڑے مارنے والے کو معاف کردیا

حضرت ابو علی الخرقى بیان کرتے ہیں :

میں نے امام احمد بن حنبل رحمه الله کے ساتھ ایک رات گزاری۔ میں نے دیکھا کہ وہ رات بھر روتے رہے۔ صبح میں نے عرض کی :

”ابو عبداللہ! آپ رات بہت روئے، خیریت تھی؟

فرمایا :مجھے معتصم باللہ کے مارے گئے کوڑے یاد آ گئے،

اور درس میں گزری یہ آیت بھی یاد آگئئ کہ جو درگزر کر دے اس کا اجر اللہ پر ہے۔

“فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ “

پس میں نے سجدے میں سر رکھا

اور اللہ کے رُوبرو معتصم کے تمام مظالم کو معاف کر دیا۔“

(مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي:(468))

امام ابن تیمیہؒ کا عفو و درگزر

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے جب اپنا رسالہ الاستغاثہ تصنیف کیا تو ان کے مخالف صوفی البکری کو بڑا طیش آیا اور اس نے امام پہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ موقعے کے انتظار میں تھا کہ ایک دن امام صاحب راستے میں اکیلے جاتے ہوئے مل گئے۔ اس کے ساتھ اس کے مریدوں اور اوباشوں کا ایک گروہ بھی تھا۔ انھوں نے مل کر ابن تیمیہ پہ ہلہ بول دیا اور انھیں خوب زد و کوب کیا۔ پھر انھیں زمین پہ پھینک کر فرار ہو گئے۔

لوگوں کو پتا چلا تو وہ امام کے پاس جمع ہو گئے جن میں سرکاری فوج کے لوگ بھی تھے۔ وہ سب امام سے اجازت مانگنے لگے کہ البکری سے انتقام لیا جا سکے مگر امام نے انکار کر دیا اور فرمایا:

دیکھو! اس باب میں یا تو مجھے حق حاصل ہے؛ یا تمھیں؛ یا پھر خدا کو؛ اگر یہ میرا حق ہے تو میری طرف سے وہ آزاد ہے؛ اگر تمھارا حق ہے اور تمھیں میری بات سننی ہی نہیں تو مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر یہ خدا کا حق ہے تو وہ جب چاہے اور جیسے چاہے اپنا حق لے سکتا ہے، تمھیں دخل اندازی کی ضرورت نہیں۔

تاہم امام صاحب کی ان باتوں کی کوئی پروا کیے بغیر لوگوں نے البکری کو ڈھونڈنا شروع کر دیا؛ مگر حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ وہ انھیں کہیں نہیں ملا کیوں کہ البکری کو چھپنے کی کوئی جگہ نہ ملی سواے امام ابن تیمیہ کے گھر کے؛ جب وہ امام سے پناہ کا طالب ہوا تو آپ نے اسے اپنے گھر میں پناہ دی؛ یہی نہیں بل کہ سلطان کے ہاں اس کی سفارش کر کے اس کی جاں بخشی کرائی!!

(البدایۃ و النھایۃ، 14: 76)

مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اپنے(متوقع) قاتل کے بیوی بچوں کے لیے راشن بھیجتے رہے

مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ سے زیادہ با اخلاق کون ہوا ہوگا ماضی قریب میں…. مگر ایک بدعتی اور بدعقیدہ شخص نے مسلکی مخالفت کی وجہ سے سر میں کلہاڑا مار دیا اور حملہ آور جیل میں اور مولانا ہسپتال پہنچ گئے.

مولانا نے اپنی جیب سے اس حملہ آور کے گھر کے حالات معلوم کروائے اور راشن بھجوانا شروع کر دیا.

ملزم جیل باہر آیا تو گھر آتے ہی اسے پتہ چلا کہ راشن کہاں سے آتا رہا تو سیدھا مولانا رحمہ اللہ کے پاس جاکر انکے قدموں میں ڈھیر ہوگیا.

تھے تو وہ آباء تمہارے اور تم کیا ہو

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (البقرة : 207)

اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ ان بندوں پر بے حد نرمی کرنے والا ہے۔

معاف کرو اور معاف کیے جاؤ

‏ذكر الذهبي رحمه الله في ترجمة مسعود الهمذاني

أنه كان من خيار الناس، وكان كثيرا ما يصفح عن الناس بقوله: "الماضي لا يُذكر”

قيل إنّه رؤي في المنام بعد موته فقيل له: ما فعل الله بك؟

قال: أوقفني بين يديه، وقال لي: يامسعود الماضي لايُذْكَر، انطلقوا به إلى الجنة”.

تاريخ الإسلام (٤٢/٣٢٧)

شاعر کہتا ہے :

کرو مہربانی تم اہلِ زمین پر

خدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر

جذبہ ایمان کا عجیب منظر جب بیٹے نے باپ کی قربانی ٹھان لی

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں :

’’ایک بار ہم ایک لشکر میں تھے تو ایک مہاجر آدمی نے ایک انصاری کو اس کے پیچھے کی جانب لات مار دی۔‘‘ تو انصاری نے کہا : ’’او انصاریو!‘‘ اور مہاجر نے کہا : ’’او مہاجرو!‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا : ’’جاہلیت کی اس پکار کا کیا معاملہ ہے؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کے پیچھے کی جانب لات مار دی ہے، تو آپ نے فرمایا : ’’اس (جاہلیت کی پکار) کو چھوڑ دو، کیونکہ یہ بہت بدبو دار ہے۔‘‘ یہ بات عبداللہ بن اُبی نے سنی تو کہنے لگا : ’’انھوں نے ایسا کیا ہے؟ یاد رکھو! اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ ذلیل تر کو اس سے ضرور نکال باہر کرے گا۔‘‘ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا : ’’یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے رہنے دو، لوگ یہ بات نہ کریں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔‘‘ اور انصار مہاجرین سے زیادہ تھے جب وہ مدینہ میں آئے، پھر بعد میں مہاجرین زیادہ ہوگئے۔‘‘

[بخاري، التفسیر، باب قولہ : «سواء علیھم أستغفرت لھم » : ۴۹۰۵ ]

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی یہی حدیث ترمذی میں ہے وہاں اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں :

[ فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ : وَاللّٰهِ ! لاَ تَنْقَلِبُ حَتّٰی تُقِرَّ أَنَّكَ الذَّلِيْلُ وَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ الْعَزِيْزُ فَفَعَلَ ] [ترمذي، تفسیر القرآن، سورۃ المنافقون : ۳۳۱۵، وقال الألباني صحیح ]

’’تو اس (عبداللہ بن اُبی) کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : ’’اللہ کی قسم! تم واپس نہیں جاؤ گے حتیٰ کہ اقرار کرو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی عزیز ہیں۔‘‘ چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (النساء : 135)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جائو، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو، اگر کوئی غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔ پس اس میں خواہش کی پیروی نہ کرو کہ عدل کرو اور اگر تم زبان کو پیچ دو، یا پہلو بچائو تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پوری طرح با خبر ہے۔

امت کے وسیع تر مفاد کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم بیٹے کی عظیم قربانی

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے کون واقف نہیں ہے سبحان اللہ بہت بڑی سلطنت کے خلیفہ تھے بڑی فوج رکھتے تھے خود بھی جوان تھے جسم میں گرم خون گردش کرتا تھا دولت بھی بے شمار تھی سلطنت، طاقت، صلاحیت، ذہانت الغرض بہت کچھ تھا لڑنا چاہتے تو لڑ سکتے تھے مدمقابل کو دبا سکتے تھے کوئی خوف اور ڈر نہ تھا

مگر

جب دیکھا کہ سامنے بھی اپنے ہی بھائی ہیں مسلمانوں کی ہی جماعت ہے سوچا اگر جنگ چھڑتی ہے پھر کوئی ادھر سے قتل ہو یا اُدھر سے قتل ہو بہرحال وہ امت کا ہی ایک فرد ہوگا دونوں صورتوں میں نقصان اپنا ہی ہے لھذا کسی طرح یہ جنگ رکنی چاہیے

قربان جائیں اس شہزادے صحابی پر نانا کی امت کو بڑی خون ریزی سے بچانے کے لیے اپنی سلطنت،قوت، طاقت، حکومت، فوج، اسلحہ الغرض سب کچھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جھولی میں رکھ کر خود خلافت سے دستبردار ہوگئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی قربانی دی اور وہ بھی بغیر کسی شرط کے

”اختلاف اخوت کو ختم نہیں کرتا“

خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص رضي الله عنهما میں کسی مسئلے کی وجہ سے اَن بَن تھی۔ ایک شخص نے سعد رضي الله عنه کے سامنے خالد رضي الله عنه کی غیبت کرنی چاہی تو آپ نے فرمایا :

”باز رہو! ہمارا باہمی معاملہ ہماری دینی اخوت پر حاوی نہیں ہو سکتا۔“

المصنف لابن أبي شيبة|٢٦٠٤٨

ایک حدیث کے لیے مہینہ بھر سفرکیا

جابر رضی اللہ عنہ نے مہینہ بھر ایک حدیث کے لیے سفر کیا

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ : بَلَغَنِي حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَرَيْتُ بَعِيرًا، ثُمَّ شَدَدْتُ عَلَيْهِ رَحْلِي، فَسِرْتُ إِلَيْهِ شَهْرًا، حَتَّى قَدِمْتُ عَلَيْهِ الشَّامَ، فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ ، فَقَالَ لِلْبَوَّابِ : قُلْ لَهُ : جَابِرٌ عَلَى الْبَابِ، فَقَالَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ : قُلْتُ : نَعَمْ، فَخَرَجَ يَطَأُ ثَوْبَهُ، فَاعْتَنَقَنِي، وَاعْتَنَقْتُهُ، فَقُلْتُ : حَدِيثًا بَلَغَنِي عَنْكَ، أَنَّكَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقِصَاصِ، فَخَشِيتُ أَنْ تَمُوتَ، أَوْ أَمُوتَ قَبْلَ أَنْ أَسْمَعَهُ (بخاری فی الأدب المفرد وأحمد فی مسندہ 16042 إسناده حسن والحديث صحیح)

صرف تشہد سیکھنے کے لیے شام سے مدینہ کا سفر

ایک شخص شام سے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا؛ آپ نے پوچھا:

تمھیں کون چیز یہاں لائی؟

کہنے لگا:

میں تشہد سیکھنے کے لیے آیا ہوں.

یہ سن کر سیدنا عمر رونے لگے، یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی؛

پھر فرمایا:

والله إنِّي لأرجو من الله أن لا يعذِّبك أبدا. [بدائع الصَّنائع،2:1]

بخدا! مجھے خدا سے امید ہے کہ وہ تمھیں کبھی عذاب سے دوچار نہیں کرے گا!

مکان بیچ کر کتاب خرید لی

چھٹی صدی کے ایک حنبلی عالم ” امام ابن الخشاب رحمہ اللہ ( متوفی 567 ھ) جنہیں کتابوں سے حد درجہ عقیدت اور انہیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ ان کے بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ موصوف نے ایک دن ایک کتاب 500 درہم میں خریدی۔ قیمت ادا کرنے کےلئے کوئی چیز نہ تھی۔ تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مکان بیچنے کا اعلان کیا۔ اس طرح سے اپنے شوق کی تکمیل کی۔

( ذیل طبقات الحنابلہ 251/2 )

خودداری کا عظیم واقعہ

استاذِ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں

بندہ(عبد السلام) عرض کرتا ہے کہ میرے والد حافظ محمد ابوالقاسم رحمہ اللہ نے مجھے اپنے طالب علمی کے زمانے کا واقعہ سنایا کہ وہ ان دنوں فیروز پور کے ایک گاؤں ’’لکھوکی ‘‘ میں پڑھتے تھے، والد فوت ہو چکے تھے، گھر میں غربت تھی اور سردی کے موسم میں قمیص بھی نہیں تھی۔ فرماتے تھے کہ میں نے وہ چھ ماہ قمیص کے بغیر دوہر (دوہرا کھیس) لپیٹ کر گزار دیے، کسی کو پتا تک نہیں چلنے دیا کہ میرے پاس قمیص نہیں، پھر والدہ نے روئی وغیرہ کی چنائی سے حاصل ہونے والی کچھ رقم بھیجی تو انھوں نے قمیص بنائی۔

[اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہُ وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمَھْدِیِّیْنَ]