*مکہ مکرمہ اور کعبۃ اللہ کے فضائل*
*مکہ مکرمہ، اللہ اور اس کے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب شہر ہے*
*اس شہرکو آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ سیدہ ہاجرہؑ اور اپنے شیر خوار بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو یہاں ٹھہرا کر آباد کیا تھا*
*اسی شہر میں نبی آخر الزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی*۔
 *اسی مقدس شہر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر تاج نبوت رکھا گیا*
*اور اسی مبارک شہر میں ہمارے پیارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی الٰہی کا نزول ہوتا تھا اور آسمان سے رشد و ہدایت کے فرمان آتے تھے*۔
 *اسی مقدس شہر میں نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی شمع جلائی، ظلم و شر، شرک و بت پرستی کی تاریکیوں میں ڈوبی دنیا کو توحید و سنت کے نور سے روشن کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کا جھنڈہ بلند کرتے ہوئے یہاں سے اسلام کی عالم گیر تحریک شروع کی جس نے ساری دنیا کو اسلام سے آشنا کیا*
*اسی شہر میں کعبۃ اللہ موجود ہے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کی نماز کا محور و مرکز ہے*
*مکہ مکرمہ اسلام کی حقانیت کی بڑی نشانی ہے*
مکہ اسلام کی جڑ ہے، یہ اسلام کا پہلا شہر ہے، یہاں سے اسلام کا آغاز ہوا ہے
اور لطف کی بات ہے کہ اسلام آج تک اپنی جڑ سے اکھاڑا نہ جا سکا، اسلام پہلے دن سے آج تک اس شہر میں  قائم اور آباد ہے
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے کہ جس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ اسے اکھاڑا نہیں جا سکتا اور وہ ہر موسم میں پھل دیتا ہے
فرمایا :
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (إبراهيم : 24)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے۔
تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (إبراهيم : 25)
وہ اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے ہر وقت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
*سب درخت اپنی جڑوں سے اکھاڑ دیے گئے مگر اسلام، اپنی جڑ پر پوری آب و تاب سے کھڑا ہے*
اسلام کے مقابلے میں دنیا کے سبھی ادیان اپنی جڑوں سے اکھاڑ دیے گئے ہیں
یہودیت کا آغاز مصر سے ہوا تھا مگر صدیوں سے یہود کو مصر سے نکال دیا گیا
عیسائیت کا آغاز فلسطین سے ہوا مگر صدیاں بیت گئیں اور عیسائیت اپنی جڑ سے اکھاڑ دی گئی ہے
ہندودھرم کا جائے پیدائش بھارت ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ اس علاقے پہ صدیوں تک غیر ھندو مذاہب حکمران بنے رہے
سکھ ازم کا آغاز ننکانہ سے ہوا مگر یہ شہر کئی سالوں سے سکھوں کی بجائے کسی اور مذہب کی تحویل میں ہے
مگر
اسلام ہے کہ پہلے دن سے لے کر آج تک اپنی جڑ یعنی مکہ سے نکالا نہیں گیا
*اللہ تعالیٰ اس شہر کی قسم اٹھاتے ہیں*
فرمایا
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ (البلد : 1)
نہیں، میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں!
وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ (البلد : 2)
اور تو اس شہر میں رہنے والا ہے۔
مکہ شہر کی قسم اٹھانے کے بعد (وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ) کہنے میں ایک لطیف اشارہ موجود ہے وہ یہ کہ گویا اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے اظہارِ محبت کررہے ہیں کہ مجھے اس شہر سے اس لیے محبت ہے کہ آپ اس میں رہتے ہیں
انسانوں میں بھی یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بندے کا محبوب جس علاقے میں رہتا ہو بندے کو وہ علاقہ بہت اچھا لگتا ہے
جیسا کہ امروالقیس اپنے دوست کے گھر کے پاس سے گزرا تو کہنے لگا :
قِفَا نَبْكِ مِنْ ذِكْرَى حَبِيبٍ ومَنْزِلِ
بِسِقْطِ اللِّوَى بَيْنَ الدَّخُولِ فَحَوْمَلِ
اے دونوں دوستو)، ذرا ٹھہرو تاکہ ہم اپنے دوست اور اس کے گھر کی یاد تازہ کر کے رو لیں جو ریت کے ٹیلے کے آخر پر مقامات دخول اور حومل کے درمیان واقع ہے
پھر کہتا ہے :
تَرَى بَعَرَ الأرْآمِ فِي عَرَصَاتِهَـا
وَقِيعانِهَا كَأنَّهُ حَبُّ فُلْفُــلِ
سفید ہرنوں کی مینگنیاں اس مکان کے میدانوں اور ہموار زمینوں میں تُو ایسی پڑی دیکھے گا جیسے سیاہ مرچ کے دانے
دوسرے مقام پر فرمایا
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (التين : 1)
قسم ہے انجیر کی! اور زیتون کی!
وَطُورِ سِينِينَ (التين : 2)
اور طور سینین کی!
وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (التين : 3)
اور اس امن والے شہر کی!
*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے محبت*
*اے مکہ! تجھے چھوڑنے کو دل نہیں کر رہا*
ہجرت کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (الحَزْوَرَۃ ) مقام پر کھڑے ہوکر (مکہ مکرمہ کو مخاطب کرکے ) یہ فرمایا :
(( وَاللّٰہِ إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰہِ،وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰہِ إِلَی اللّٰہِ،وَلَوْ لَا أَنِّیْ أُخْرِجْتُ مِنْکِ مَا خَرَجْتُ ))
 ’’ اللہ کی قسم ! تم اللہ کی بہترین اوراس کو سب سے محبوب زمین ہواور اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا ۔ ‘‘
 عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب ہو کر یوں فرمایا:
(( مَا أَطْیَبَکِ مِنْ بَلَدٍ،وَأَحَبَّکِ إِلَیَّ،وَلَوْ لَا أَنَّ قَوْمِیْ أَخْرَجُوْنِیْ مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَیْرَکِ ))  (سنن الترمذی:3925 وصححہ الألبانی)
’’ تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے ! اور اگر میری قوم مجھے تجھ کو چھوڑنے پر مجبور نہ کرتی تو میں تیرے علاوہ کسی اور زمین پر سکونت اختیار نہ کرتا ۔‘‘
*یہ امن والا شہر ہے*
فرمایا :
وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (التين : 3)
اور اس امن والے شہر کی(قسم!)
ابراہیم علیہ السلام نے اس کے امن کے لیے دعا کی تھی :
 « رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا  وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ» ( البقرة : 126)
 ’’اے میرے رب! اس (جگہ) کو ایک امن والا شہر بنا دے۔ اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے رزق دے‘‘
 اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قبول فرمائی اور مکہ معظمہ کو امن والا شہر بنا دیا۔ اب حرم کی حدود میں کسی کا خون بہانا، اس کے درختوں کو کاٹنا، شکار کو بھگانا وغیرہ جائز نہیں اور رزق کی وہ فراوانی فرمائی کہ مکہ میں کھیتی باڑی نہ ہونے کے باوجود وہاں سارا سال دنیا بھر کے تازہ پھل اور ہر قسم کا غلہ اتنی فراوانی سے ملتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت آنکھوں سے نظر آتی ہے۔
*مکہ میں داخل ہونے والا ہر شخص امن میں ہے*
فرمایا
وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (آل عمران : 97)
 اور جو کوئی اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا ۔
حتی کہ جاہلیت میں بھی آدمی اپنے دشمن کو دیکھتا مگر اسے کچھ نہ کہتا۔ اسلام نے اس احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس میں تاکید اور اضافہ کیا۔
صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کی لمبی حدیث میں زمزم کے نمودار ہونے کے بعد فرشتے کے ام اسماعیل علیھما السلام کو تسلی دینے کا ذکر ہے :
[ فَقَالَ لَهَا الْمَلَكُ لاَ تَخَافُوا الضَّيْعَةَ فَإِنَّ هٰهُنَا بَيْتَ اللّٰهِ، يَبْنِيْ هٰذَا الْغُلَامُ وَ أَبُوْهُ وَ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ أَهْلَهُ  ]  [ بخاري :۳۳۶۴ ]
 ’’ تو فرشتے نے اس سے کہا :
 تم ضائع ہونے سے مت ڈرو، کیونکہ یہاں اللہ کا گھر ہے، یہ لڑکا اور اس کا باپ اسے بنائے گا اور اللہ اس کے رہنے والوں کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘
 *مکہ مکرمہ، حرمت والا شہر ہے*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا (بخاري 67)
 یقینا تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ ہٰذَا الْبَلَدَ حَرَّمَہُ اللّٰہُ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأرْضَ،فَہُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَۃِ اللّٰہِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (صحیح البخاری:1834،صحیح مسلم:1353)
’بے شک اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اس دن سے حرمت والا قرار دیا جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیااور وہ قیامت تک اللہ کی حرمت کے ساتھ حرمت والا ہی رہے گا۔
*مکہ مکرمہ میں قتال حرام ہے*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَإِنَّہُ لَمْ یَحِلَّ الْقِتَالُ فِیْہِ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ،وَلَمْ یَحِلَّ لِیْ إِلَّا سَاعَۃً مِنْ نَّہَارٍ،فَہُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَۃِ اللّٰہِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (صحیح البخاری:1834،صحیح مسلم:1353)
’ مجھ سے پہلے کسی شخص کیلئے اس میں جنگ کرنا حلال نہیں تھا اور مجھے بھی محض دن کی ایک گھڑی اس میں جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ۔ اس کے بعد وہ قیامت تک اللہ کی حرمت کے ساتھ حرمت والا ہی رہے گا۔
*مکہ کے درخت، گھاس، شکار حتی کہ کانٹے تک نہ کاٹے جائیں*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا یُعْضَدُ شَوْکُہُ،وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُہُ،وَلَا یُلْتَقَطُ لُقْطَتُہُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَہَا،وَلَا یُخْتَلٰی خَلاَہَا))
اس کا کانٹا(تک) نہ کاٹا جائے، اس کا شکار نہ بھگایا جائے، اس میں گری ہوئی چیز کو صرف وہ شخص اٹھائے جو اس کا لوگوں میں اعلان کرے اور اس کا گھاس بھی نہ کاٹا جائے ۔ ‘‘
"چنانچہ حضرت العباس  رضی اللہ عنہ نے کہا :
 یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ،إِلَّا الْإِذْخِرْ فَإِنَّہُ لِقَیْنِہِمْ وَلِبُیُوْتِہِمْ
 اے اللہ کے رسول! صرف اذخر گھاس کی اجازت دے دیجئے کیونکہ اس سے سنار اور لوہار فائدہ اٹھاتے ہیں اور مکہ والے اسے اپنے گھروں کی چھتوں میں استعمال کرتے ہیں ۔
 تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إلَّا الْإِذْخِر (صحیح البخاری:1834،صحیح مسلم:1353)
 ’’ٹھیک ہے ، اذخر کو کاٹنے کی اجازت ہے۔ ‘‘
*حرم مکی میں خرابی کرنا تو درکنار دل میں اس کی خرابی کا خیال لانا بھی منع ہے*
فرمایا
وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الحج : 25)
 اور جو بھی اس میں کسی قسم کے ظلم کے ساتھ کسی کج روی کا ارادہ کرے گا ہم اسے درد ناک عذاب سے مزہ چکھائیں گے۔
 یعنی حرم کے جانوروں کو ذبح کرنا، اس کے درختوں کو کاٹنا، کسی کی گم شدہ چیز ہڑپ کرنے کی نیت سے اٹھانا، اس میں ذخیرہ اندوزی کرکے زائرین کو تنگ کرنا وغیرہ وغیرہ، حرم مکہ میں ایسی چیزوں کا ارادہ بھی عذابِ الیم کا باعث ہے۔
*کعبۃ اللہ کی فضیلت*
*دنیا میں تعمیر ہونے والی سب سے پہلی مسجد*
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (آل عمران : 96)
بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، یقینا وہی ہے جو بکہ میں ہے، بہت با برکت اور جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔
 ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :
 ’’اے اللہ کے رسول ! روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟‘‘
 آپ نے فرمایا :
’’مسجد حرام۔‘‘
پوچھا :
 ’’پھر کون سی ؟‘‘
آپ نے فرمایا :
 ’’مسجد اقصیٰ۔‘‘
پوچھا :
 ’’ان دونوں کے درمیان کتنی مدت ہے؟‘‘
 آپ نے فرمایا :
’’چالیس سال۔‘‘
 [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، بابٌ : ۳۳۶۶ ]
بقول شاعر
دنیا کے بت کدے میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسبان ہیں اس کے وہ پاسبان ہمارا
*قرآن مجید میں اسے (عتیق) قدیم گھر قرار دیا گیا ہے*
فرمایا
 وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ((الحج. آیت 29))
 اور اس قدیم گھر کا خوب طواف کریں۔
عتیق کے دو معانی ہیں :
 ایک معنی قدیم ہے۔ زمین پر اللہ کا پہلا تعمیر کیا جانے والا گھر ہونے کی وجہ سے اس کا نام ’’اَلْبَيْتُ الْعَتِيْقُ‘‘ ہے۔
*(البیت العتیق) کا دوسرا مطلب ہے ایسا آزاد کہ جس کا کوئی مالک نہیں*
 عتیق کا ایک معنی” آزاد "ہے
 یعنی اللہ کے سوا اس کا مالک کوئی نہیں جو اس میں آنے سے کسی کو روک سکے۔ یہ ہر آقا کے تسلط سے آزاد ہے۔
*اللہ تعالیٰ نے اپنے اس گھر کو عتیق یعنی مشرکین کی نجاست سے آزاد کیا*
یہ مشرکین مکہ کا ظلم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے آنے والے مسلمانوں کو اس گھر سے روکتے ہیں۔ اور یہ اس گھر کی آزادی پر حملہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة : 28)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ مشرک لوگ ناپاک ہیں، پس وہ اپنے اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں اور اگر تم کسی قسم کے فقر سے ڈرتے ہو تو اللہ جلد ہی تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا، اگر اس نے چاہا۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
*ایسا عتیق کہ کسی کو حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو کعبۃ اللہ میں داخلہ سے روکے*
ارشاد باری تعالیٰ ہے
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الحج : 25)
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کے راستے سے اور اس حرمت والی مسجد سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے اس طرح بنایا ہے کہ اس میں رہنے والے اور باہر سے آنے والے برابر ہیں اور جو بھی اس میں کسی قسم کے ظلم کے ساتھ کسی کج روی کا ارادہ کرے گا ہم اسے درد ناک عذاب سے مزہ چکھائیں گے۔
اس آیت مبارکہ میں (لِلنَّاسِ) کا مطلب ہے کہ اس گھر یعنی بیت اللہ میں داخل ہونا سب لوگوں کے لیے برابر حق ہے
 ’’ الْعَاكِفُ ‘‘ کا لفظی معنی ’’اپنے آپ کو روک کر رکھنے والا‘‘ ہے اور مراد مکہ کا باشندہ ہے، کیونکہ اس کے مقابلے میں ’’الْبَادِ ‘‘ آ رہا ہے اور ’’الْبَادِ ‘‘ سے مراد ’’بادیہ‘‘ (باہر) سے آنے والا۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ
*کوئی کسی کو کعبہ میں طواف اور نماز سے نہیں روک سکتا*
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 [ يَا بَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ ! لَا تَمْنَعُوْا أَحَدًا طَافَ بِهٰذَا الْبَيْتِ وَصَلَّی أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ ]  [ ترمذي : ۸۶۸ ]
’’اے بنی عبد مناف! کسی شخص کو مت روکو جو رات یا دن کی کسی گھڑی میں اس گھر کا طواف کرنا چاہے یا (اس میں) نماز پڑھنا چاہے۔‘‘
*اس سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام میں نماز کے ممنوعہ اوقات میں بھی نماز اور طواف جائز ہے۔*
*عتیق یعنی ایسا آزاد کہ کوئی اس پر زبردستی مسلط نہیں ہوسکتا*
 آزاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس پر کبھی کوئی جابر مسلط نہیں ہو سکا جیسا کہ
*اس کے دشمن کافر ابرہہ کو اللہ تعالیٰ نے پکڑا*
یہ ابرہہ، یمن کا ایک نصرانی حاکم تھا ۔ ابرہہ نے ایک بڑا گرجا بنا کر یہ چاہا کہ لوگ کعبہ کی طرح اس کی زیارت کے لیے آیا کریں۔ جب وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو سکا تو وہ ایک بہت بڑا لشکر جس کے ساتھ ہاتھی بھی تھے، اپنے ہمراہ لے کر بیت اللہ کو ڈھانے کی نیت سے مکہ پہنچا۔ جب مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان اس وادی میں پہنچا جس کا نام بعد میں وادی محسر پڑا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے گروہ در گروہ پرندے نمودار ہوئے، جن کے پنجوں اور چونچوں میں کنکر تھے، انھوں نے اس لشکر پر وہ کنکریاں پھینکیں جن سے ابرہہ اور اس کا لشکر ہلاک ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ (الفيل : 1)
کیا تونے نہیں دیکھا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کس طرح کیا۔
أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ (الفيل : 2)
کیا اس نے ان کی تدبیر کو بے کار نہیں کر دیا؟
وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ (الفيل : 3)
اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیے۔
تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ (الفيل : 4)
جو ان پر کھنگر (پکی ہوئی مٹی) کی پتھریاں پھینکتے تھے۔
فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ (الفيل : 5)
تو اس نے انھیں کھائے ہوئے بھس کی طرح کر دیا۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 [ إِنَّ اللّٰهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيْلَ ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُوْلَهُ وَالْمُؤْمِنِيْنَ ]  [ بخاري : ۲۴۳۴ ]
’’اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک دیا اور اس پر اپنے رسول اور ایمان والوں کو غلبہ عطا فرما دیا۔‘‘
دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے، جب اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے مکہ میں اترا جاتا تھا تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی، لوگوں نے ( اسے اٹھانے کے لیے) کہا :
 [ حَلْ حَلْ ] یعنی چل چل
 لیکن وہ بیٹھی رہی۔
 لوگوں نے کہا : ’’قصواء اَڑ گئی، قصواء اَڑ گئی۔‘‘
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 [ مَا خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ، وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ ، وَلٰكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيْلِ ]  [بخاري : ۲۷۳۱، ۲۷۳۲]
 ’’قصواء اَڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے، اسے تو ہاتھیوں کو روکنے والے نے روک دیا ہے۔‘‘
*ابرہہ کی کیا اوقات بڑے بڑے ظالم حتی کہ دجال بھی یہاں داخل نہیں ہو سکے گا*
انس بن مالک  رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَیْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَیَطَؤُہُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃَ،لَیْسَ لَہُ مِنْ نِقَابِہَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُ صَافِّیْنَ یَحْرُسُوْنَہَا،ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِیْنَۃُ بِأَہْلِہَا ثَلاَثَ رَجْفَاتٍ فَیُخْرِجُ اللّٰہُ کُلَّ کَافِرٍ وَمُنَافِقٍ)) (صحیح البخاری:1881)
’’ دجال ہر شہر میں جائے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے ، ان دونوں شہروں کے ہر دروازے پر فرشتے صفیں بنائے ہوئے ان کی نگرانی کر رہے ہونگے ، پھر مدینہ اپنے رہنے والوں کے ساتھ تین مرتبہ کانپے گا جس سے اللہ تعالیٰ ہر کافرومنافق کو اس سے نکال دے گا ۔ ‘‘
*جو ظالم بھی اس کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کرے گا اس کا یہی حال ہو گا۔*
 عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ يَغْزُوْ جَيْشٌ الْكَعْبَةَ فَإِذَا كَانُوْا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ ]  [ بخاري : ۲۱۱۸ ]
’’ایک لشکر کعبہ سے جنگ کے لیے آئے گا، جب وہ بیداء (مکہ کے باہر کھلے میدان) میں پہنچیں گے تو سب کے سب اول سے آخر تک زمین میں دھنسا دیے جائیں گے۔‘‘
 اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 [ لَيُحَجَّنَّ الْبَيْتُ وَلَيُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوْجِ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ ]  [ بخاري : ۱۵۹۳ ]
 ’’یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد بھی بیت اللہ کا حج اور عمرہ جاری رہے گا۔‘‘
*جب تک کعبہ قائم ہے تب تک لوگ قائم ہیں*
 اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی ایسی شاندار حفاظت کی ہے کہ کوئی جابر و ظالم اسے گرا نہیں سکتا
اور اس کا وجود لوگوں کے زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہے
اس کی دلیل یہ ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ (المائدہ آیت 97)
اللہ نے کعبہ کو، جو حرمت والا گھر ہے، لوگوں کے قیام کا باعث بنایا ہے
*مفسر قرآن عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں*
اس آیت میں الناس سے مراد اس دور کے اور اس سے پہلے اور پچھلے قیامت تک کے سب لوگ مراد ہیں کہ کعبہ کا وجود کل عالم کے قیام اور بقا کا باعث ہے اور دنیا کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک خانہ کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔
*کعبہ کے خاتمے سے لوگوں کا خاتمہ ہو جائے گا*
جب اللہ کو یہ منظور ہوگا کہ یہ کارخانہ عالم ختم کردیا جائے تو اس وقت بیت اللہ کو اٹھا لیا جائے گا
جیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے کہ قیامت کے قریب (اللہ کی ڈھیل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ) جب ایک حبشی کعبۃ اللہ کو گرا دے گا تو اس کے بعد بہت جلد قیامت آ جائے گی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علاماتِ قیامت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
[ يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ ]  [ بخاري : ۱۵۹۱ ]
’’(قیامت کے قریب) ایک پتلی پنڈلیوں والا حبشی بیت اللہ کو گرا دے گا۔‘‘
مزید فرمایا :
[كَأَنِّيْ بِهِ أَسْوَدَ أَفْحَجَ يَقْلُعُهَا حَجَرًا حَجَرًا ]  [ بخاري : ۱۵۹۵ ]
 ’’گویا میں وہ دیکھ رہا ہوں، کالا ٹیڑھے پاؤں والا ہے، اسے ایک ایک پتھر کر کے اکھیڑ رہا ہے۔‘‘
*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کعبہ کو قبلہ بنانے کی خواہش*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے،  اور آپ کو پسند یہ تھا کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بیت اللہ کا قبلہ ہونا اس قدر پسند تھا کہ قبلہ بدلنے کی امید میں بار بار آسمان کی طرف دیکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا (البقرۃ :144)
یقینا ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں، تو یقینا ہم تجھے اس قبلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے تو پسند کرتا ہے
پھر آپ کو بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا۔
[ بخاری: ۴۴۸۶ ]
*مسجد حرام (بیت اللہ) میں نماز ادا کرنے کی فضیلت*
 مسجد حرام میں نماز دوسری جگہوں پر نماز پڑھنے کی بہ نسبت لاکھ درجہ بہتر ہے
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((صَلاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ))  (بخاری)
’’میری اس مسجد (مسجد نبوی) میں نماز ادا کرنا مسجد حرام کے سوا باقی تمام جگہوں کی بہ نسبت ہزار درجہ بہتر ہے۔‘‘
مسجد حرام میں نماز پڑھنے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((وَصَلاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ صَلاةٍ فِي هَذَا)) (مسند احمد )
’’مسجد حرام میں ادا کی جانے والی نماز،میری اس مسجد (مسجد نبوی) کی بہ نسبت سو درجہ بہتر ہے۔‘‘
 چنانچہ 100 کو 1000 سے ضرب دیں تو یہ ایک لاکھ بنتا ہے اس حساب سے بیت اللہ میں پڑھی ہوئی ایک نماز ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔
*کعبہ میں مقام ابراہیم بھی ہے*
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ  (آل عمران : 97)
اس میں واضح نشانیاں ہیں، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ۔
 *مقام ابراہیم علیہ السلام کی تفسیر میں دو قول ہیں*
 *ایک*  وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ تعمیرکیا۔
 صحیح مسلم میں حجۃ الوداع کے واقعہ میں جابر رضی اللہ عنہ سے مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کی طرف آئے اور یہ آیت پڑھی :
« وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى »  [ البقرۃ : ۱۲۵ ]
پھر مقام (ابراہیم) کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کرکے دو رکعتیں پڑھیں۔
[ مسلم : ۱۲۱۸ ]
جیسا کہ حاجی لوگ پڑھتے ہیں۔
 *دوسرا قول*
 تفسیر عبد الرزاق میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد مقام حج ہے یعنی حرم اور عرفات جہاں ابراہیم علیہ السلام نے حج میں قیام کیا۔ چنانچہ اہل علم فرماتے ہیں کہ طواف کی دو رکعتیں حرم میں جہاں بھی پڑھ لے درست ہے۔
تفس القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ
*کعبہ میں جنت کا پتھر ہے جسے حجر اسود کہا جاتا ہے*
کعبہ میں ایک پتھر ہے جو جنت سے نازل ہوا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنْ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ(ترمذی877)۔
 ’’حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔‘‘
*مسجد حرام کی زیارت کے لیے سفر کرنا*
 اللہ کے رسول ﷺ نے اس مسجد کی زیارت کا حکم فرمایاہے :
لا تُشَدُّ الرحالُ إلا إلى ثلاثةِ مساجدَ : مسجدِ الحرامِ، ومسجدِ الأقصَى، ومسجدي هذا (صحيح البخاري:1995)
 مسجد حرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ( حصول ثواب کی نیت سے) کسی دوسری جگہ کا سفر مت کرو
*کعبہ کی کشش ہے کہ لوگ اس کی طرف بار بار لوٹتے ہیں*
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا (البقرة : 125)
اور جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لیے لوٹ کر آنے کی جگہ اور سراسر امن بنایا
مَثَابَةً: کا معنی ’’لوٹ کر آنے کی جگہ‘‘
 لوگ بار بار اللہ کے گھر کی طرف لوٹ کر آتے ہیں، کبھی ان کا دل نہیں بھرتا۔
قرآن میں ہی دوسرے مقام پر مکہ مکرمہ کو (معاد) کہا گیا ہے
جس کا معنی ہے عظیم الشان لوٹنے کی جگہ ۔
فرمایا
إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (القصص : 85)
بے شک جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیا ہے وہ ضرور تجھے ایک عظیم الشان لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لانے والا ہے۔
صحیح بخاری (۴۷۷۳) میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ اس ’’ مَعَادٍ ‘‘ سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔
*کعبہ کی کشش مقناطیس سے زیادہ ہے*
حافظ ابن القیم رحمه الله لکھتے ہیں :
 فجذبه للقلوب أعظم من جذب المغناطيس للحديد  [ زاد المعاد – ١ / ٢٩ ]
” بیت الله کی طرف دِلوں کا کھچاؤ مقناطیس کا لوہے کی طرف کھچاؤ سے کہیں زیادہ ہے-"
 *ایسا مقناطیس کہ وادی غیر ذی زرع ہونے کے باوجود اس قدر مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ دنیا بھر کے پھل، انسان اور اموال تجارت اس کی طرف کھچے چلے آرہے ہیں۔*
جیسا کہ فرمایا :
« اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْبٰۤى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا »  [ القصص : ۵۷ ]
’’اور کیا ہم نے انھیں ایسے امن والے حرم میں جگہ نہیں دی جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں، یہ ہماری طرف سے رزق ہے۔‘‘
*مکہ کے پہاڑ بنجر کیوں ہیں*
کبھی سوچا کہ مکہ کے پہاڑ بنجر اور بے آب وگیاہ کیوں ہیں۔۔؟
اسکے پیچھے اللہ کی منشا کیا ہے۔۔؟
وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک چاہتے تھے کہ آنے والے حاجیوں کی توجہ صرف میرے گھر پر رہے. اس شہر کو پکنک پوائنٹ نہ بنایا جائے۔
*کعبہ کی کشش دعاءِ ابراہیم کی وجہ سے*
ابراهيم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی
 فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (إبراهيم : 37)
(اے ہمارے رب!) کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں اور انھیں پھلوں سے رزق عطا کر، تاکہ وہ شکر کریں۔
اس دعا کی قبولیت کا نظارہ ہر مسلمان اپنے دل میں اس گھر کے شوق سے اور وہاں حج وغیرہ کے لیے بار بار جانے والوں کی کثرت سے کر سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو ایک دفعہ مکہ مکرمہ سے واپس لوٹ آتا ہے وہ دوبارہ جانے کی خواہش ضرور کرتا ہے
*ندائے خلیل کی برکت*
 تمام لوگ اس گھر کی طر ف کھچے چلے آ تے ہیں اور اس میں جمع ہوتے ہیں۔
یہ ان کا حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی ندا پر لبیک کہنا ہے، جو انھوں نے ﷲ کے حکم سے لگائی تھی جیسا کہ ﷲ تعالی کا ارشاد ہے:
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ( [الحج: ۲۸])
اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے، وہ تیرے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے، جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی۔
*حج کا اعلان دنیا کے کونے کونے میں گونج اٹھا*
اللہ تعالیٰ کے لیے ابراہیم علیہ السلام کی آواز ساری دنیا اور تمام ارواح تک پہنچانا کچھ مشکل نہیں
 ابن عاشور رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام ’’رَحَّالَةٌ‘‘ تھے، یعنی بہت سفر کیا کرتے تھے، چنانچہ انھوں نے حسب استطاعت اس حکم پر عمل کیا اور ہر اس مقام پر حج کا اعلان کیا جہاں وہ اپنے سفروں کے دوران گزرے یا پہنچے۔ پھر ان کے بعد ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا، اب دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں جہاں یہ اعلان نہ پہنچا ہو اور جہاں سے لوگ سفر کرکے حج کے لیے نہ پہنچتے ہوں۔ سعودی حکومت کا اندازہ ہے کہ دس پندرہ سال تک حاجیوں کی تعداد سالانہ ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ سارا سال عمرہ کے لیے آنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
بحوالہ تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ