نزول عیسٰی علیہ السلام اور دجال کا قتل

دجال کی انہی شعبدہ بازیوں کے دوران عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

وہ (دجال )اسی عالم میں ہو گا جب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو معبوث فرمادے گا۔ وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب ہلدی رنگ کے دو کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں گے۔اور سر اٹھائیں گے تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کی پہچان کرنے کے لیے ان کا حلیہ بیان کیا

سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ, رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ, كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ (ابو داؤد، كِتَابُ الْمَلَاحِمِ بَابُ خُرُوجِ الدَّجَّالِ4324)

اور وہ اترنے والے ہیں ‘جب تم انہیں دیکھو گے تو پہچان جاؤ گے کہ درمیانی قامت والے ہیں اور رنگ ان کا سرخ و سفید ہو گا ‘ ہلکے زرد رنگ کے لباس میں ہوں گے ‘ ایسے محسوس ہو گا جیسے ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو ‘ حالانکہ نمی ( پانی ) لگا نہیں ہو گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عیسیٰ علیہ السلام کو میرا سلام کہنا

مسند احمد میں آپ کا یہ فرمان ہے :

إِنِّي لَأَرْجُو إِنْ طَالَتْ بِي حَيَاةٌ أَنْ أُدْرِكَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي مَوْتٌ فَمَنْ أَدْرَكَهُ فَلْيُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ (مسند أحمد |مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ7971)

میں امید کرتا ہوں کہ اگر میری زندگی لمبی ہوئی تو میں عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کروں گا اور اگر اس سے پہلے مجھے موت آگئی تو میری طرف سے (عیسیٰ علیہ السلام) کو سلام کہنا

عیسی علیہ السلام جب اتریں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی ہوگی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ إِذْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّهُمْ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي فَتْحِ قُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَخُرُوجِ الدَّجَّالِ وَنُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ7278)

اس دوران میں جب وہ جنگ کے لیے تیاری کررہے ہوں گے۔صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی اس وقت حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور ان کی رہنمائی کریں گے

یہ فجر کی نماز ہوگی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَإِمَامُهُمْ رَجُلٌ صَالِحٌ فَبَيْنَمَا إِمَامُهُمْ قَدْ تَقَدَّمَ يُصَلِّي بِهِمْ الصُّبْحَ إِذْ نَزَلَ عَلَيْهِمْ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ الصُّبْحَ

(ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4077)

ان کاامام ایک نیک آدمی ہوگا۔ ان کاامام انھیں صبح کی نماز پڑھانے کے لئےآگے بڑھے گا کہ اچانک اسی صبح حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام (زمین پر)اتر آئیں گے ۔

عیسی علیہ السلام مینار کے اوپر سے ہی لوگوں کو دجال کے خلاف جہاد کے لیے نکلنے کی آواز لگائیں گے

ثُمَّ يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فَيُنَادِي مِنْ السَّحَرِ فَيَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَى الْكَذَّابِ الْخَبِيثِ فَيَقُولُونَ هَذَا رَجُلٌ جِنِّيٌّ فَيَنْطَلِقُونَ فَإِذَا هُمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتُقَامُ الصَّلاةُ فَيُقَالُ لَهُ تَقَدَّمْ يَا رُوحَ اللَّهِ فَيَقُولُ لِيَتَقَدَّمْ إِمَامُكُمْ فَلْيُصَلِّ بِكُمْ (14426 مسند احمد عن جابر رضی اللہ عنہ)

عیسی علیہ السلام پہلی نماز میں امام بننے کی بجائے مقتدی بننا پسند کریں گے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ؟» (مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ بَابُ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ392)

’’اس وقت تم کیسے (عمدہ حال میں ) ہو گےجب مریم کےبیٹے (عیسیٰ علیہ السلام ) تم میں اتریں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہو گا؟‘‘ (اترنے کےبعد پہلی نماز مقتدی کی حیثیت سے پڑھ کر امت محمدیہ میں شامل ہو جائیں گے ۔)

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

’’ پھر عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام اتریں گے تو اس طائفہ (گروہ) کا امیر کہے گا:

تَعَالَ صَلِّ لَنَا

آئیں ہمیں نماز پڑھائیں

اس پر عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے :

لَا، إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ

نہیں ، اللہ کی طرف سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو ۔ ‘‘

سنن ابن ماجہ میں ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَرَجَعَ ذَلِكَ الْإِمَامُ يَنْكُصُ يَمْشِي الْقَهْقَرَى لِيَتَقَدَّمَ عِيسَى يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَيَضَعُ عِيسَى يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ ثُمَّ يَقُولُ لَهُ تَقَدَّمْ فَصَلِّ فَإِنَّهَا لَكَ أُقِيمَتْ فَيُصَلِّي بِهِمْ إِمَامُهُمْ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ4077)

ان کاامام الٹے پاؤں پیچھے ہٹے گاتاکہ عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کو نماز پڑھائیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کے کندھوں کے درمیان (کمر پر)ہاتھ رکھ کر اسے فرمائیں گے :آپ ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھائیں کیونکہ اقامت آپ کے لئے کہی گئی ہے،چنانچہ ان کاامام انھیں نماز پڑھائے گا ۔

نماز سے فارغ ہو کر عیسیٰ علیہ السلام اپنے لشکر سمیت دجال کے خلاف جہاد کے لیے نکل پڑیں گے اور اس لشکر کی فضیلت

رسول اللہﷺ کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَام (نسائی ،كِتَابُ الْجِهَادِ غَزْوَةُ الْهِنْدِ3177)

’’میری امت میں سے دوجماعتوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے آزاد فرمایا ہے: ایک وہ جماعت جو ہندوستان پر حملہ کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ (مل کردجال کے مقابلے میں صف آرا) ہوگی۔‘‘

اس لشکر میں بنو تمیم کی خصوصی شرکت

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں ۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔

01.

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا

«هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي، عَلَى الدَّجَّالِ»

یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔

02.

( ایک مرتبہ ) بنوتمیم کے یہاں سے زکوٰۃ ( وصول ہوکر آئی ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا»

یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔

03.

بنوتمیم کی ایک عورت قید ہوکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا

«أَعْتِقِيهَا فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ» (بخاری ،كِتَابُ العِتْقِ بَابُ مَنْ مَلَكَ مِنَ العَرَبِ رَقِيقًا، فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ2543)

کہ اسے آزاد کردے کہ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔

دجال کے خلاف وہی جماعت اور لوگ لڑیں گے جو دجال سے پہلے بھی حق کے لیے جہاد کرنے والے ہوں گے

سیدنا عمران بن حصین ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ، ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ ، حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ (سنن أبي داود | كِتَابُ الْجِهَادِ | بَابٌ : فِي دَوَامِ الْجِهَادِ2484)

” میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق کے لیے قتال کرتا رہے گا اور وہ اپنے مقابل آنے والوں پر غالب رہیں گے حتیٰ کہ ان کا آخری گروہ مسیح دجال سے لڑائی کرے گا ۔ “

عیسی علیہ السلام کے سانس میں عجیب قسم کی خوشبو ہو گی جو کافر بھی اسے سونگے گا وہ مرجائے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

کسی کافر کے لیے جو آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔اس کی سانس (کی خوشبو)وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔

عیسی علیہ السلام اور ان کا لشکر جب دجال کے لشکر کا پیچھا کررہے ہوں گے تو یہود کو نہ کوئی پتھر اور نہ ہی کوئی درخت پناہ دے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

حَتَّى إِنَّ الشَّجَرَةَ وَالْحَجَرَ يُنَادِي يَا رُوحَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ فَلا يَتْرُكُ مِمَّنْ كَانَ يَتْبَعُهُ أَحَدًا إِلا قَتَلَهُ ” (مسند احمد حديث رقم 14426)

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلُهُمْ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوْ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ (مسلم ،كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ، فَيَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مَكَانَ الْمَيِّتِ مِنَ الْبَلَاءِ7339)

"قیامت قائم نہیں ہوگی،یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں کے خلاف جنگ لڑیں گے اور مسلمان ان کو قتل کریں گے حتیٰ کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے پیچھے کا اور پتھر یا درخت کہے گا:اے مسلمان!اے اللہ کے بندے!میرے پیچھے یہ ایک یہودی ہےآگے بڑھ،اس کوقتل کردے،سوائے غرقد کے درخت کے(وہ نہیں کہے گا) کیونکہ وہ یہود کا درخت ہے۔”

عیسی علیہ السلام دجال کو تلاش کرکے قتل کریں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

آپ علیہ السلام اسے ڈھونڈیں گے تو اسے لُد (Lyudia)کےدروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔

دجال، عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر نمک کے پانی میں پگھلنے کی طرح پگھل جائے گا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللَّهِ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي فَتْحِ قُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَخُرُوجِ الدَّجَّالِ وَنُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ7278)

پھر جب اللہ کا دشمن (دجال)ان کو دیکھے گاتو اس طرح پگھلےگا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے اگر وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) اسے چھوڑ بھی دیں تو وہ پگھل کر ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے ان (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) کے ہاتھ سے قتل کرائے گااور لوگوں کو ان کے ہتھیارپر اس کا خون دکھائےگا۔

آپ چالیس سال رہیں گے اور آپ کے زمانہ میں ہر طرف اسلام غالب ہوگا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

‏‏‏‏‏‏فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ . (سنن ابی داؤد 4324)

تو وہ لوگوں سے اسلام کے لیے جہاد کریں گے، صلیب توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے اور جزیہ معاف کر دیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں سوائے اسلام کے سارے مذاہب کو ختم کر دے گا، وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے، پھر اس کے بعد دنیا میں چالیس سال تک زندہ رہیں گے، پھر ان کی وفات ہو گی تو مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے ۔

اس حدیث کی شرح میں ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں

یہ حدیث دلیل ہے کہ جہاں آدمی کی حکومت ہو اسے پورا اختیار ہو تو اسے خنزیر کو قتل کرنا چاہیے اور اس کا قلع قمع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے

عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں لوگوں کے لیے دو ہی راستے ہوں گے یا مسلمان ہو جائیں یا قتل کے لیے تیار ہو جائیں چنانچہ اس وقت سب لوگ مسلمان ہو جائیں گے، جزیہ ختم ہو جائے گا، صلیب توڑ دی جائے گی اور وہ بے دریغ خنزیر کو قتل کریں گے

(فتح السلام جلد 3 از استاذ گرامی)

خنزير کو قتل کرنے میں کیا حکمت ہے

مقام غور ہے کہ حرام جانور تو اور بھی بہت سے ہیں گدھا، کتا، بلے وغیرہ وغیرہ

لیکن

عیسی علیہ السلام، خنزیر کو ہی کیوں قتل کریں گے

دراصل بات یہ ہے کہ خنزیر عیسائی اور یہودی تہذیب کا ایک نشان بن چکا ہے اور عیسی علیہ السلام کا خنزير کو قتل کرنا عیسائی تہذیب کے قتل کے مترادف ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کا عیسائیوں سے عقائد کے ساتھ ساتھ تہذیبی تصادم بھی ہے

ہر یہودی اور عیسائی بھی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے گا

وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (النساء : 159)

اور اہل کتاب میں کوئی نہیں مگر اس کی موت سے پہلے اس پر ضرور ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔

اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں درست ہیں، پہلا تو یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا ہر شخص اپنے مرنے سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان کے زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لے آئے گا، مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب موت سامنے آ جاتی ہے، جیسا کہ فرعون مرتے وقت ایمان لے آیا تھا، مگر اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب عادل حاکم کی صورت میں اتریں گے اور دجال اور دوسرے تمام کفار سے جہاد کریں گے، تو ان کی موت سے پہلے پہلے تمام دنیا میں اسلام غالب ہو جائے گا۔ یہود و نصاریٰ یا تو مقابلے میں قتل ہو جائیں گے، یا اسلام لے آئیں گے۔ عیسیٰ علیہ السلام صلیب توڑ دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، چنانچہ جب عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوں گے تو ان کی وفات سے پہلے ہر موجود یہودی اور نصرانی ان کی نبوت اور ان کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے اور دوبارہ اترنے پر ایمان لا چکا ہو گا۔

(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

قتل دجال کے بعد والے سات سال

لوگوں کے درمیان حسد، کینہ، بغض ختم ہو جائے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ثُمَّ يَمْكُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ

بَابٌ فِي خُرُوجِ الدَّجَّالِ وَمُكْثِهِ فِي الْأَرْضِ، وَنُزُولِ عِيسَى وَقَتْلِهِ إِيَّاهُ، وَذَهَابِ أَهْلِ الْخَيْرِ وَالْإِيمَانِ، وَبَقَاءِ شِرَارِ النَّاسِ وَعِبَادَتِهِمُ الْأَوْثَانَ، وَالنَّفْخِ فِي الصُّورِ، وَبَعْثِ مَنْ فِي الْقُبُورِ7381)

پھر لوگ سات سال تک اس حالت میں رہیں گے۔کہ کوئی سے دو آدمیوں کے درمیان دشمنی تک نہ ہوگی

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا، وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ،» (مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ بَابُ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ391)

جوان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان سے محنت و مشقت نہیں لی جائے گی (دوسرے وسائل میسر آنے کی وجہ سے ان کی محنت کی ضرورت نہ ہو گی) لوگوں کے دلوں سے عداوت ، باہمی بغض و حسد ختم ہو جائے گا۔‘‘

اس دوران مال کی فراوانی بہت زیادہ ہو جائے گی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَ يَفِيْضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ] [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسی ابن مریم علیہما السلام : ۳۴۴۸ ]

"اور مال عام ہو جائے گا، حتیٰ کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا*

شام کی طرف سے آنے والی ٹھنڈی ہوا سب ایمان والوں کی روح قبض کر لے گی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّأْمِ فَلَا يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ دَخَلَ فِي كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْهُ عَلَيْهِ حَتَّى تَقْبِضَهُ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي خُرُوجِ الدَّجَّالِ وَمُكْثِهِ فِي الْأَرْضِ، وَنُزُولِ عِيسَى وَقَتْلِهِ إِيَّاهُ، وَذَهَابِ أَهْلِ الْخَيْرِ وَالْإِيمَانِ، وَبَقَاءِ شِرَارِ النَّاسِ وَعِبَادَتِهِمُ الْأَوْثَانَ، وَالنَّفْخِ فِي الصُّورِ، وَبَعْثِ مَنْ فِي الْقُبُورِ7381)

پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہواچلائے گاتو روئے زمین پر ایک بھی ایسا آدمی نہیں رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھلائی یا ایمان ہو گا۔مگر وہ ہوا اس کی روح قبض کرے گی یہاں تک کہااگر تم میں سے کوئی شخص پہاڑ کے جگرمیں گھس جائے گا تو وہاں بھی وہ (ہوا)داخل ہو جا ئے گی۔یہاں تک کہ اس کی روح قبض کرلے گی۔

دجال سے بچنے کے طریقے

01.اگر میرے ہوتے ہوئے دجال آگیا تو تمہاری طرف سے میں اس کے خلاف لڑوں گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے)دلائل دینے والا میں ہوں گااور اگر وہ نکلا اور میں موجودنہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والاخود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان )ہوگا

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7373)

02. دجال کو دیکھ کر پہاڑوں پر چڑھ جائیں

ام شریک نے خبر دی کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے :

لَيَفِرَّنَّ النَّاسُ مِنْ الدَّجَّالِ فِي الْجِبَالِ (مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي بَقِيَّةٍ مِنْ أَحَادِيثِ الدَّجَّالِ7393)

"لوگ دجال سے فرار ہوکر پہاڑوں میں جائیں گے۔”

03. دجال سے دور رہیں

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ فَلْيَنْأَ – يبتعد – مِنْهُ ، فَإِنَّ الرَّجُلَ يَأْتِيهِ يَتَّبِعُهُ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ بِمَا يُبْعَثُ بِهِ مِنْ الشُّبُهَاتِ ” روى الإمام أحمد ( 19118 ) وأبو داود (3762 ) والحاكم ( 4/531 )

تم میں سے جو کوئی بھی دجال کے متعلق سنے تو وہ اس سے دور رہے کیونکہ اگر کوئی آدمی اس کے پیچھے جائے گا تو (غالب امکان ہے کہ) اس کی پیروی کرلے گا حالانکہ وہ سمجھ رہا ہوگا کہ میں دجال کے شبہات کو اچھی طرح جانتا ہوں

04. دجال سے بچنے کے لیے سورہ کہف کی پہلی دس آیات حفظ کریں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُوْرَةِ الْكَهْفِ، عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ] [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل سورۃ الکہف و آیۃ الکرسی : ۸۰۹ ]

’’جو شخص سورۂ کہف کی شروع کی دس آیات حفظ کرلے وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔‘‘

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ ” (مسلم حديث رقم 5228)

تم میں سے جو کوئی دجال سے ملے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے

اور سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ فَإِنَّهَا جِوَارُكُمْ مِنْ فِتْنَتِهِ (كِتَابُ الْمَلَاحِمِ بَابُ خُرُوجِ الدَّجَّالِ4321)

تم میں سے جو کوئی دجال سے ملے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے کیونکہ یہ آیات تمہارے لیے اس کے فتنے سے امان ہوں گی

05. نماز میں دجال سے بچنے کی دعا کریں

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا

يَسْتَعِيذُ فِي صَلَاتِهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ (بخاری ،كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ7129)

آپ اپنی نماز میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے :

[ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ ] [ بخاري، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر : ۱۳۷۷ ]

’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے۔‘‘