موسیٰ و خضر علیہما السلام کا واقعہ

ماخوذ از

تفسیر القرآن الکریم از حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

=========

اس قصہ کی ابتداء

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا : ’’لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’میں ہوں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ناراضگی کا اظہار فرمایا، کیونکہ انھوں نے یہ بات اللہ کے سپرد نہیں کی (کہ اللہ بہتر جانتا ہے)۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میرا ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ ہے، وہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : ’’اے میرے رب! پھر میری اس سے ملاقات کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘ فرمایا : ’’اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے کسی مکتل (کھجور کے نرم پتوں کی بنی ہوئی ٹوکری) میں رکھ لو، تو جہاں مچھلی کو گم پاؤ، وہ وہیں ہو گا۔‘‘ [بخاری]

موسی علیہ السلام رخت سفر باندھتے ہیں

 تو انھوں نے ایک مچھلی لی، اسے ایک ٹوکری میں رکھا اور چل پڑے اور اپنے ساتھ اپنے جوان یوشع بن نون کو بھی لے لیا۔

[ بخاری، التفسیر، باب قولہ : «و إذ قال موسٰی لفتاہ لا أبرح…» : ۴۷۲۵ ]

قرآن نے اسے یوں بیان کیا ہے

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا [الكهف : 60]

اور جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا میں نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کے مقام پر پہنچ جاؤں، یا مدتوں چلتا رہوں۔

یوشع بن نون

  (فتاہ) یہ نوجوان یوشع بن نون تھے جو موسیٰ علیہ السلام سے بہت محبت رکھتے تھے، ان کی خدمت کے لیے ان کے ساتھ رہتے تھے، موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے جانشین بنے اور انھی کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا۔

دو دریاؤں کے سنگھم سے مراد

 اللہ تعالیٰ نے وہ دو بحر ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ مراد قصہ گوئی نہیں، نصیحت ہے اور وہ ان دو دریاؤں کی تعیین کے بغیر بھی پوری ہے۔

اگر مصر کو مدنظر رکھیں تو سوڈان کی طرف سے مصر میں آنے والے دریائے نیل میں ملنے والے کئی دریاؤں کے نیل کے ساتھ ملنے کی کوئی جگہ مراد ہو سکتی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے وہاں گم ہونے کی علامت کے ساتھ متعین فرمایا۔

مچھلی دریا میں چھلانگ لگاتی ہے

یہاں تک کہ وہ ایک خاص قسم کی چٹان کے پاس پہنچے تو دونوں لیٹ گئے اور سو گئے۔ مچھلی تڑپی اور دریا میں جا گری اور اس نے دریا میں اپنا راستہ سرنگ کی صورت میں بنا لیا اور اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کا بہاؤ روک دیا تو وہ اس پر طاق کی طرح ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا [الكهف : 61]

تو جب وہ دونوں ان کے آپس میں ملنے کے مقام پر پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے، تو اس نے اپنا راستہ دریا میں سرنگ کی صورت بنالیا۔

دونوں مچھلی بھول گئے اور اس جگہ سے آگے نکل گئے

جب (موسیٰ علیہ السلام ) جاگے تو ان کا ساتھی انھیں مچھلی کے متعلق بتلانا بھول گیا، چنانچہ وہ دونوں دن کا باقی حصہ اور رات بھر چلتے رہے۔ اگلا دن ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے جوان سے کہا : ’’ہمارا دن کا کھانا لاؤ، ہمیں اپنے اس سفر میں بہت تھکاوٹ ہوئی ہے۔‘‘

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا [الكهف : 62]

پھر جب وہ آگے گزر گئے تو اس نے اپنے جوان سے کہا ہمارا دن کا کھانا لا، بے شک ہم نے اپنے اس سفر سے تو بڑی تھکاوٹ پائی ہے۔

 (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا : ’’موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی جب تک وہ اپنی اس جگہ سے آگے نہیں گزرے جس کا انھیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔‘‘

یوشع بن نون مچھلی کے متعلق بتاتے ہیں

 تو ان کے جوان نے ان سے کہا :

قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا [الكهف : 63]

اس نے کہا کیا تو نے دیکھا جب ہم اس چٹان کے پاس جاکر ٹھہرے تھے تو بے شک میں مچھلی بھول گیا اور مجھے وہ نہیں بھلائی مگر شیطان نے کہ میں اس کا ذکر کروں اور اس نے اپنا راستہ دریا میں عجیب طرح سے بنالیا۔

 سو مچھلی کے لیے سرنگ بنی اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے جوان کو تعجب ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا :

قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا [الكهف : 64]

اس نے کہا یہی ہے جو ہم تلاش کر رہے تھے، سو وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر پیچھا کرتے ہوئے واپس لوٹے۔

خضر علیہ السلام سے ملاقات

(جب واپس اسی جگہ پہنچے)

 تو اس وقت (وہاں) ایک آدمی کپڑا اوڑھ کر لیٹا ہوا تھا۔

[بخاری]

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا [الكهف : 65]

تو ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے ایک رحمت عطا کی اور اسے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا۔

عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ: اس سے مراد خضر علیہ السلام ہیں

اسے موسیٰ علیہ السلام نے سلام کہا

 تو خضر نے کہا : ’’اور تیری (اس) سرزمین میں سلام کیسا؟‘‘

کہا : ’’میں موسیٰ ہوں۔‘‘

اس نے کہا : ’’بنی اسرائیل والے موسیٰ؟‘‘

 کہا : ’’ہاں،

خضر کی وجہ تسمیہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرُ لِأَنَّهٗ جَلَسَ عَلٰی فَرْوَةٍ بَيْضَاءَ فَإِذَا هِيَ تَهْتَزُّ مِنْ خَلْفِهٖ خَضْرَاءَ]

 [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الخضر… : ۳۴۰۲ ]

’’ان کا نام خضر اس لیے پڑا کہ وہ سفید زمین کے ایک قطعے پر بیٹھے تو وہ ان کے پیچھے سرسبز ہو کر لہلہانے لگا۔‘‘

موسی علیہ السلام خضر علیہ السلام سے حصول علم کی درخواست کرتے ہیں

موسی علیہ السلام نے ان سے فرمایا "میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ کو جو کچھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دیں۔‘‘

قرآن میں ہے

قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا [الكهف : 66]

موسیٰ نے اس سے کہا کیا میں تیرے پیچھے چلوں؟ اس (شرط) پر کہ تجھے جو کچھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دے۔

  خضر علیہ السلام کا جواب

انہوں نے کہا :

’’تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکے گا، اے موسیٰ! میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہوں جسے تم نہیں جانتے اور تم اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہو جسے میں نہیں جانتا۔‘‘

قرآن میں ہے

قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا [الكهف : 67]

اس نے کہا بے شک تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔

وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا [الكهف : 68]

اور تو اس پر کیسے صبر کرے گا جسے تو نے پوری طرح علم میں نہیں لیا۔

موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے یقین دھانی

قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا [الكهف : 69]

اس نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو توُ مجھے ضرور صبر کرنے والا پائے گا اور میں تیرے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

خضر علیہ السلام ایک شرط لگاتے ہیں

قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا [الكهف : 70]

کہا پھر اگر تو میرے پیچھے چلا ہے تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں مت پوچھنا، یہاں تک کہ میں تیرے لیے اس کا کچھ ذکر شروع کروں۔

اس سے معلوم ہوا کہ مدرسہ وغیرہ میں داخلہ سے پہلے قوانین کی پاسداری کا عہد لیا جا سکتا ہے

خضر علیہ السلام کا کشتی میں سوراخ کرنا اور موسی علیہ السلام کا سوال کرنا

فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا [الكهف : 71]

سو دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے اسے پھاڑ دیا۔ کہا کیا تو نے اسے اس لیے پھاڑ دیا ہے کہ اس کے سواروں کو غرق کر دے، بلاشبہ یقینا تو ایک بہت بڑے کام کو آیا ہے۔

  دریا کے کنارے پر جا رہے تھے کہ ایک کشتی گزری، انھوں نے ان سے بات کی کہ وہ انھیں سوار کر لیں۔ ان لوگوں نے خضر کو پہچان لیا، اس لیے انھوں نے ان کو کسی اجرت کے بغیر سوار کر لیا۔ جب وہ دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو اچانک ہی خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ تیشے کے ساتھ اکھیڑ دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا : ’’ایسے لوگ جنھوں نے ہمیں اجرت کے بغیر سوار کر لیا، تم نے بڑھ کر ان کی کشتی کا تختہ اکھیڑ دیا، تاکہ اس میں سوار لوگوں کو غرق کر دو، بلاشبہ یقینا تو ایک بڑے کام کو آیا ہے۔‘‘ [بخاری]

خضر علیہ السلام موسی علیہ السلام کو عہد یاد دلاتے ہیں

قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا [الكهف : 72]

کہا کیا میں نے نہ کہا تھا کہ یقینا تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔

موسی علیہ السلام معذرت کرتے ہیں

قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا [الكهف : 73]

کہا مجھے اس پر نہ پکڑ جو میں بھول گیا اور مجھے میرے معاملے میں کسی مشکل میں نہ پھنسا۔

 (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 ’’یہ پہلی دفعہ موسیٰ علیہ السلام سے بھول ہوئی تھی۔‘‘ [بخاری]

ایک چڑیا کا واقعہ

فرمایا : ’’اور ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی، اس نے دریا میں ایک ٹھونکا مارا تو خضر نے اس سے کہا : ’’میرا علم اور تیرا علم اللہ کے علم میں سے اتنا ہی ہے جتنا اس چڑیا نے اس دریا سے کم کیا ہے۔‘‘ [بخاری]

خضر علیہ السلام نے ایک لڑکے کو قتل کر دیا اور موسی علیہ السلام نے دوبارہ سوال کیا

 پھر وہ دونوں کشتی سے نکلے، ابھی وہ کنارے پر چل ہی رہے تھے کہ خضر نے ایک لڑکا دیکھا جو لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، تو خضر نے اس کا سر پکڑا اور اسے اپنے ہاتھ سے اکھیڑ کر قتل کر دیا۔

 اب ظاہر ہے کہ ایک شریعت کا علمبردار اولوالعزم پیغمبر ایسی بات کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ ؟ پہلے بھی ایک کام سیدنا موسیٰ کی طبیعت کے خلاف ہوچکا تھا اور یہ کام پہلے کام سے بھی سخت تر تھا لہذا سیدنا موسیٰ رہ نہ سکے اور یہ اعتراض کر ہی دیا بلکہ ہلکی سی ملامت بھی کردی۔

موسیٰ نے اس سے کہا :

 ’’کیا تو نے ایک بے گناہ جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کر دیا، بلاشبہ یقینا تو ایک بہت برے کام کو آیا ہے۔‘‘

قرآن میں ہے

فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا [الكهف : 74]

پھر وہ دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ ایک لڑکے سے ملے تو اس نے اسے قتل کر دیا۔ کہا کیا تو نے ایک بے گناہ جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کردیا، بلاشبہ یقینا تو ایک بہت برے کام کو آیا ہے۔

کیا وہ لڑکا جوان تھا

وہ لڑکا جوان تھا،اس کے مندرجہ ذیل دلائل ہیں

01. ایک روایت میں ہے کہ وہ کافر تھا جب کہ اس کے والدین مومن تھے،

ابن عباس رضی اللہ عنہما پڑھا کرتے تھے :

{’’ وَ أَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ‘‘} [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : «و إذ قال موسٰی لفتاہ لا أبرح…» : ۴۷۲۵ ]

 یعنی وہ لڑکا کافر تھا اور اس کے ماں باپ مومن تھے۔

02. اگر وہ بچہ ہوتا تو اسے کافر نہ کہا جاتا، کیونکہ مومنوں کی اولاد کو بچپن میں کافر نہیں کہا جاتا۔

 03. موسیٰ علیہ السلام نے بھی اسے کسی کو قتل نہ کرنے کی وجہ سے بے گناہ کہا ہے، بچہ ہونے کی وجہ سے نہیں۔ اس لیے خضر علیہ السلام کا اللہ کے حکم سے ایک کافر کو قتل کرنا کوئی جائے اعتراض نہیں۔

04.’’غلام‘‘ کا لفظ بچے کے علاوہ جوان اور ادھیڑ عمر پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث معراج میں موسیٰ علیہ السلام نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو

{’’هٰذَا الْغُلَامُ‘‘} کہا ہے۔  [ بخاری : ۳۲۰۷ ]

خضر علیہ السلام کی برہمی

خضر علیہ السلام نے کہا :

قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا [الكهف : 75]

کہا کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور یہ پہلی سے سخت (تنبیہ) تھی۔‘‘

موسی علیہ السلام کی معذرت

قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا [الكهف : 76]

کہا اگر میں تجھ سے اس کے بعد کسی چیز کے متعلق پوچھوں تو مجھے ساتھ نہ رکھنا، یقینا تو میری طرف سے پورے عذر کو پہنچ چکا ہے۔

دونوں ایک بستی میں داخل ہوتے ہیں

فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا [الكهف : 77]

پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے انکار کر دیا کہ ان کی مہمان نوازی کریں، پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے تو اس نے اسے سیدھا کر دیا۔ کہا اگر تو چاہتا تو ضرور اس پر کچھ اجرت لے لیتا۔

 پھر وہ دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے انکار کر دیا کہ ان کی مہمان نوازی کریں، پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے۔ فرمایا، ایک طرف جھکی ہوئی تھی۔ تو خضر اٹھے اور اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ’’ایسے لوگ جن کے پاس ہم آئے تو نہ انھوں نے ہمیں کھانا کھلایا اور نہ ہماری مہمان نوازی کی، اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔‘‘

خضر، موسی سے جدائی اختیار کرلیتے ہیں

جب موسی علیہ السلام نے تیسری مرتبہ سوال کردیا تو خضر علیہ السلام نے کہا :

قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا [الكهف : 78]

کہا یہ میرے درمیان اور تیرے درمیان جدائی ہے، عنقریب میں تجھے اس کی اصل حقیقت بتائوں گا جس پر تو صبر نہیں کرسکا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خواہش

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا   [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : «و إذ قال موسٰی لفتاہ لا أبرح…» : ۴۷۲۵ ]

اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام پر رحم فرمائے ہم چاہتے ہیں کہ کاش وہ صبر کرتے حتی کہ ہم پر ان کے متعلق مزید معلومات پیش کی جاتیں

موسی علیہ السلام کے سوالات کے جوابات

کشتی میں سوراخ کیوں کیا

خضر علیہ السلام فرماتے ہیں

أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا [الكهف : 79]

رہی کشتی تو وہ چند مسکینوں کی تھی، جو دریا میں کام کرتے تھے، تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی چھین کر لے لیتا تھا۔

لڑکے کو کیوں قتل کیا

خضر علیہ السلام فرماتے ہیں

وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا [الكهف : 80]

اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے تو ہم ڈرے کہ وہ ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں پھنسا دے گا۔

فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا [الكهف : 81]

تو ہم نے چاہا کہ ان دونوں کو ان کا رب اس کے بدلے ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور شفقت میں زیادہ قریب ہو۔

دیوار کیوں سیدھی کی تھی

خضر علیہ السلام فرماتے ہیں

وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا [الكهف : 82]

اور رہ گئی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا تو تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، تیرے رب کی طرف سے رحمت کے لیے اور میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا۔

فوائد

 01.===  اللہ کی قدرت کے کرشمے

پانی کو موسیٰ علیہ السلام کے لیے پہاڑوں کی شکل دینا یا سرنگ کی، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اور معجزۂ ربانی۔ جس طرح پانی کے ایک قطرے (نطفہ) سے احسن تقویم میں انسان کی صورت گری اس خلاق علیم کی قدرت کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔

02.===  توکل

معلوم ہوا سفر کے لیے کھانا ساتھ لے جانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور توکل کے منافی نہیں

03.====  انبیاء عالم الغيب نہیں ہیں

یہ واقعہ انبیاء و اولیاء، خصوصاً موسیٰ، یوشع بن نون اور خضر علیہم السلام کے غیب نہ جاننے کی کئی طرح سے دلیل ہے :

 (1) موسیٰ علیہ السلام کا کہنا کہ مجھ سے زیادہ کوئی عالم نہیں، حالانکہ ان سے زیادہ علم والے موجود تھے۔

 (2) اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا۔

(3) موسیٰ علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے خضر کا پتا پوچھنا۔

 (4) مجمع البحرین اور مچھلی کی نشانی کی ضرورت عالم الغیب کو نہیں ہوتی۔

 (5) مچھلی کے نکل جانے کا علم نہ ہونا۔

 (6) اگلا سفر، تھکاوٹ کے احساس کی وجہ معلوم نہ ہونا۔

(7) قدموں کے نشانوں کو دیکھتے ہوئے واپسی کی اسے کیا ضرورت ہے جس کی نگاہ سے کچھ اوجھل نہ ہو۔

04.==== خضر، اللہ کے نبی تھے

 اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے آخر میں فرمایا

{وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِيْ :}

کہ میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ یہ سب اللہ کے حکم سے تھا جو وحی کی صورت میں انبیاء کو صادر ہوتا ہے۔

 یہ خضر علیہ السلام کے نبی ہونے کی واضح دلیل ہے، کیونکہ کسی ولی کو اللہ کی طرف سے الہام کی بنا پر کسی بد سے بد کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں، کیونکہ اس کے الہام میں شیطان دخیل ہو سکتا ہے۔

05.====  خضر فوت ہوچکے ہیں

محقق علماء جن میں امام بخاری، ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیھم جیسے عظیم ائمہ شامل ہیں، فرماتے ہیں کہ خضر علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں، کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو سورۂ آل عمران کی آیت (۸۱) کے مطابق ان پر لازم تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ پر ایمان لاتے اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے، جب کہ ان کے آنے کا کہیں ذکر نہیں، نہ کسی صحابی سے ان کے ملنے کا کوئی ذکر ہے۔ صحیح بخاری کی وہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هٰذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَی مِمَّنْ هُوَ عَلٰی ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ ] [ بخاری، العلم، باب السمر في العلم : ۱۱۶، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ]’’آج رات سے ایک سو سال پورے ہونے تک زمین کی پشت پر جو بھی ہے کوئی باقی نہیں رہے گا۔‘‘ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمین پر نہیں بلکہ دریاؤں اور سمندروں میں رہتے ہیں، ان کا رد جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتا ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل فرمایا : [ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوْسَةٍ الْيَوْمَ، تَأْتِيْ عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ، وَ هِيَ حَيَّةٌ يَوْمَئِذٍ ] [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب بیان معنی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : علی رأس مائۃ… : ۲۵۳۸ ] ’’کوئی بھی جان جو آج پیدا ہو چکی ہے اس پر سو سال نہیں آئیں گے کہ وہ اس وقت زندہ ہو۔‘‘ جو لوگ خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے کے قائل ہیں ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ وہ تمام روایات جن میں خضر علیہ السلام کے اب تک زندہ ہونے کا ذکر ہے سب جھوٹی ہیں۔ سب سے بڑی دلیل جو وہ حضرات بیان کرتے ہیں، یہ ہے کہ بہت سے صالحین سے ان کی ملاقات ہوئی ہے، حالانکہ اسے دلیل کہنا دلیل کی توہین ہے، کیونکہ جنھوں نے انھیں دیکھا ہے انھیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ خضر ہیں؟ کیا انھوں نے پہلے خضر علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ ملاقات پر وہ انھیں پہچان گئے؟ رہا کسی ملنے والے کے کہنے سے کہ ’’میں خضر ہوں‘‘ اسے خضر مان لینا سادہ لوحی کی انتہا ہے، جس سے فائدہ اٹھا کر شیطان نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کیا ہے، مگر وہ سب وہی ہیں جو صحابہ کے بعد آئے، کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنھم آسانی سے شیطان کے فریب میں آنے والے نہیں تھے۔

06.==== خضر علیہ السلام کے عالم الغیب نہ ہونے کی دلیل ان کا موسیٰ علیہ السلام سے یہ پوچھنا ہے کہ اس سرزمین میں سلام کیسا؟ پھر موسیٰ علیہ السلام کے اپنا نام بتانے پر ان کا یہ پوچھنا کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ پھر ان کا موسیٰ علیہ السلام سے صاف کہنا کہ آپ کے پاس جو علم ہے وہ میں نہیں جانتا…۔ پھر اپنے اور موسیٰ علیہ السلام کے علم کو اللہ کے علم سے چڑیا کی چونچ کے پانی کو دریا سے نسبت کی طرح قرار دینا ہے۔ کس قدر بدنصیب ہیں وہ لوگ جو خضر علیہ السلام کو نبی کے بجائے ولی قرار دیتے ہیں، پھر ان کے چند واقعات کو سامنے رکھ کر اولیاء کو علم لدنی کا ضمیمہ لگا کر عالم الغیب بنا دیتے ہیں

07.====   علم اور علماء کے متعلق

اپنے علم پر عجب سے پرہیز، طلب علم کے لیے سفر، آخری دم تک حصول علم کا عزم مصمم، استاذ کے سامنے طلب علم کے لیے درخواست کا طریقہ، استاد کا ادب، اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرنا، اپنے کسی بھی کام یا عہد میں اپنے آپ پر بھروسے کے بجائے ان شاء اللہ کہہ کر اسے اللہ کے سپرد کرنا سکھایا گیا ہے اور یہ کہ استاذ تعلیم کے لیے شاگرد پر بعض شرطیں عائد کر سکتا ہے۔

08.====  درگزر کی حد

یہ بھی معلوم ہوا کہ درگزر دو دفعہ ہوتی ہے، تیسری دفعہ کوئی معاف نہ کرے تو وہ حق بجانب اور معذور ہے اور یہ کہ استاذ اگر سمجھے کہ میں طالب علم کو نہیں پڑھا سکتا تو وہ عذر کر سکتا ہے

09.====  کیا گدائی خضر و موسی علیہ السلام کی سنت ہے

بعض صوفیوں نے اس آیت سے گدائی کے مستحب ہونے کا استدلال کیا ہے اور اسے باقاعدہ سالک کے آداب میں شمار کیا ہے، اس لیے عموماً صوفی لوگ روزی کمانے کے بجائے گدائی کو اور دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کو کمال ولایت و توکل سمجھتے ہیں اور اس کام میں مہارت رکھتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی جہالت ہے،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ مَا زَالَ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰی يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِيْ وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ ]

 [ بخاري، الزکوٰۃ، باب من سأل تکثرًا : ۱۴۷۴۔ مسلم : 1040/104 ]

’’آدمی لوگو ں سے مانگتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی بوٹی نہیں ہو گی۔‘‘

 ان دونوں انبیاء نے اپنے حق کا سوال کیا ہے جو بطور ضیافت بستی والوں پر فرض تھا۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:

 [ إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ لَا يَقْرُوْنَنَا، فَمَا تَرَی فِيْهِ؟ فَقَالَ لَنَا إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأُمِرَ لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِيْ لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوْا، فَإِنْ لَّمْ يَفْعَلُوْا فَخُذُوْا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ ]

[ بخاري، المظالم، باب قصاص المظلوم إذا وجد مال ظالمہ : ۲۴۶۱۔ مسلم : ۱۷۲۷]

 ’’آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور ہم کسی قوم کے پاس جاتے ہیں اور وہ ہماری ضیافت نہیں کرتے، تو آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا : ’’اگر تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور تمھارے لیے ان چیزوں کا حکم دیا جائے جو مہمان کے لیے چاہییں تو قبول کر لو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا حق لے لو۔‘‘

10.====   اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی عجیب طریقے سے مدد کرتے ہیں

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے مومن بندوں کی آنے والے فتنوں سے بھی حفاظت کرتا ہے،

 جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

 «{ اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا }» [ الحج : ۳۸ ]

 ’’بے شک اللہ ان لوگوں کی طرف سے دفاع کرتا ہے جو ایمان لائے۔‘‘

11.====.   اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندوں کی وفات کے بعد بھی ان کی مومن اولاد کی خاص نگہداشت فرماتا ہے اور قیامت کو بھی انھیں خاص رعایت دے گا۔

12.==== اللہ تعالیٰ کے ادب کا طریقہ

ان تینوں واقعات کی اصل حقیقت بیان کرتے ہوئے خضر علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ادب کو خاص طور پر ملحوظ رکھا ہے۔ کشتی کو عیب دار کرنے کی نسبت اپنی طرف کی ہے، لڑکے کے قتل کے ارادہ کی نسبت اپنی طرف اور اس کے صالح باپ کو بہتر اولاد عطا کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے اور یتیم لڑکوں کے بالغ ہو کر اپنا خزانہ سنبھالنے کے ارادہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے۔

13.====  دنیا کے حادثات کی ظاہری شکل اور ہے اور حقیقت اور ہے

عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔

سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے سیدنا خضر کی ہمراہی کے دوران جو واقعات پیش آئے۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کو اپنے کارخانہ مشیئت کا پردہ اٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ اس دنیا میں جو کچھ شب و روز ہو رہا ہے وہ کیسے اور کن مصلحتوں کے تحت ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کی ظاہری شکل و صورت اصل حقیقت سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ ایک عام انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ ظالموں اور نافرمانوں پر اللہ کے انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں پر سختیاں اور شدائد کا ہجوم ہے ظالم مسلسل ظلم کرتے جارہے ہیں اور ان کی سزا بےگناہوں کو ملتی ہے تو ایسے واقعات سے اکثر انسان یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے اگر اللہ موجود ہوتا اور وہ عادل و منصف ہے تو ایسے جگر خراش واقعات دنیا میں کیوں وقوع پذیر ہوتے ؟ ان واقعات میں ایسے ہی حالات سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ رہا اللہ کے عدل و انصاف کا معاملہ تو اگرچہ اس کا ظہور اس دنیا میں بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے تاہم عدل و انصاف کا صحیح اور مقررہ وقت روز آخرت ہے اور روز آخرت کا قیام اسی لیے ضروری ہے۔