جھوٹی گواہی دینا
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾ (سورہ حج آیت:30)
ترجمہ: اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔
نیز فرمایا: ﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُوْلًا﴾ (سوره اسراء آیت:36)
ترجمہ: جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ کچھ کی جانے والی ہے۔
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : أَلا أُنَبِّئُكُمْ بأكبَرِ الكَبَائِرِ ثَلاثاً، قُلْنَا: بَلَى يَارَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْإِشْرَاكَ بِاللَّهِ وَعُقُوْقُ الْوُالِدَيْنِ، وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ: اَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّوْرِ أَلَا قَوْلُ الزُّوْرِ، وَشَهَادَةُ الزُّوْرِ، فَمَا زَالَ يَقُوْلُهَا حَتَّى قُلْتُ لَا يَسْكُت. (متفق عليه).
(صحیح بخاري: كتاب الأدب، باب عقوق الوالدين من الكبائر، صحيح مسلم: كتاب الإيمان، باب بيان الكبائر وأكبرها)
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ تین بار کہا، ہم نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ۔ آپ سے اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: آگاہ ہو جاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی (سب سے بڑے گناہ ہیں) آگاہ ہو جاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی ۔ آپ کا اسے مسلسل دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش! آپ خاموش ہو جاتے۔
تشریح:
جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو اس سے خبردار کیا ہے کیونکہ اس میں انسان جھوٹ بول کر مسلمانوں کے حقوق کو ضائع کرتا ہے۔ آج یہ چیز ہمارے معاشرے میں بالکل عام ہوگئی ہے لوگ ایک ایک کپ چائے پر بک جاتے ہیں اور دوسروں کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اس طرح سے لوگوں کے حقوق نا جائز طریقے دوسروں کو دلا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹی گواہی دینے سے محفوظ رکھے۔
فوائد:
٭ جھوٹی گواہی دینا سخت حرام ہے۔
٭ جھوٹی گواہی دینے سے مسلمانوں کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔
٭ جھوٹی گواہی دینا گناہ کبی