لعنت پر تنبیہ

عَن ثَابِتِ بْنِ ضَحَاکِ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لَعَنَ الْمُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ. (متفق عليه).

(صحيح بخاري كتاب الأدب، باب من كفر أخاه بغير تأويل فهو كما قال، صحيح مسلم كتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وأن من قتل نفسه بشيء….)

ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کے اوپر لعنت کرنا اس کا قتل کرتا ہے۔

وَعَن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: لَا يَنبَغِى لِصَدِيق أَنْ يَكُونَ لَعَانًا. (أخرجه مسلم).

(صحيح مسلم: كتاب البر والصلة و الآداب، باب النهي عن لعن الدواب وغيرها.)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی صدیق کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کثرت سے لعنت کرے۔

وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لَا يَكُونُ اللَّعَانُونَ شُفَعَاءَ وَلَا شُهَدَاء يَومَ القِيَامَةِ. (أخرجه مسلم)

(صحیح مسلم: كتابه البر والصلة و الآداب، باب النهي عن لعن الدواب وغيرها.)

ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کثرت سے لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ تو کسی کی شفاعت نہ کر سکیں گے نہ گواہ بن سکیں گے۔

وَعَن أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهِ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : إِنَّ العَبد إِذَا لَعَنَ شَيْئًا صَعِدَتِ اللَّعْنَةُ إِلَى السَّمَاءِ فَتُعْلَقُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ دُونَهَا ثُمَّ تَهْبِطُ إِلَى الأَرْضِ فَتُغْلَقُ أَبوَابُها دُونَهَا ثُمَّ تَأْخُذُ يَمِينًا وَشِمَالاً فَإِذَا لَم تَجِدْ مَسَاعًا رَجَعَتْ إِلَى الَّذِي لُعِنَ فَإِنْ كَانَ لِذَلِكَ أَهْلاً وَإِلَّا رَجَعَتْ إِلَى قَائِلِها، (أخرجه أبو داود).

(سنن ابوداود: كتاب الأدب، باب في اللعن، وحسنه الألباني في الصحيحة (1269)

ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی جانب چڑھتی ہے تو اس پر آسمان کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ پھر وہ زمین کی طرف اترتی ہے تو اس پر زمین کے بھی دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ پھر وہ دائیں اور بائیں جاتی ہے۔ پھر اگر کوئی جگہ نہیں پاتی ہے تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس پر جا کر واقع ہو جاتی ہے۔ بشرطیکہ وہ چیز اس کی حقدار ہو ورنہ اس کے کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔

تشریح:

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار کا نام لعنت ہے، کسی شخص کا کسی کے او پر لعنت بھیجنا ایک خطر ناک معاملہ ہے کیونکہ جس پر لعنت بھیجی گئی اگر وہ اس کا مستحق نہیں ہے تو وہ لعنت واپس بھیجنے والے پڑ جاتی ہے لیکن اکثر و بیشتر افراد لعنت کے بارے میں تساہل سے کام لیتے ہیں اور اسے بہت ہی حقیر سمجھتے ہیں جب کہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس سے روکا جانا چاہئے اور اس پر تنبیہ کرنا چاہئے۔

فوائد:

٭ مسلمانوں کو لعن و طعن سے ڈرانا ضروری ہے۔

٭ ناحق لعن طعن لعنت کرنے والے پر واپس آتا ہے۔