وصیت اور اس کے احکام
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهُ ﷺ قَالَ: مَا حَقُّ امرِيءٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُرِيدُ أَنْ يُوصِيَ فِيهِ يَبِيتُ لَيَأْتِينِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ. (متفق عليه).
(صحیح بخاري: كتاب الوصايا، باب الوصاية، صحيح مسلم: كتاب الوصية باب وصية الرجل مكتوبة)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی ایسے مسلمان کے لئے درست نہیں ، کہ جس کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو، کہ اپنے پاس وصیت لکھے بغیر دو رات گزارے۔
وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَادَنِي رَسُولُ اللهِﷺ فِيْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجْعِ اشْفَيْتُ مِنهُ عَلَى المَوتِ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلَغَ بِيْ مَا تَرَى مِنَ الْوَجْعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةً . فاتَصَدَّقَ بِمُلْتَى مَالِي؟ قَالَ: لا، قُلْتُ: أَفَاتَصَدَّقَ بِشَطْرِهِ ؟ قَالَ: لَا قُلْتُ: افا تصدق بدلتهِ؟ قَالَ: الثلث، والثلث كثِيرٌ، إِنَّكَ إِنْ تَذَرُ وَرَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةَ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ. (متفق عليه)
(صحيح بخاري: كتاب الجنائز، باب رثاء النبيﷺ سعد بن خوله، صحیح مسلم: كتاب الوصية، باب الوصية بالثلث)
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر میری عیادت کی اور اس وقت میں ایسے درد میں مبتلا تھا کہ بالکل موت کے قریب ہو گیا تھا، میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! مجھے جیسی تکلیف ہے آپ جانتے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور میرے پاس صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کا دو ثلث وصیت کر دوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا پھر آدھے کی کردوں؟ آپ ﷺ نے اس پر بھی یہی فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا پھر تہائی کی کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تہائی کی کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے، اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ و تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔
وَعَن أَبِي أُمَامَةَ البَاهِلِي رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ اعْطَى كُلَّ ذِى حَقِّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثِ ، (أخرجه
أبو داود والترمذي).
(سنن أبو داود: كتاب الوصايا، باب ما جاء في الوصية للوارث، سنن ترمذى: أبواب الوصايا عن رسول اللهﷺ، باب ما جاء لا وصية الوارث وقال: هذا حديث حسن صحيح، وقال الألباني حسن صحيح في صحيح سنن ابی داود: (2870)
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا بلا شبہ اللہ تعالی نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے تو اب کسی وارث کے لئے وصیت نہیں۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنهَا أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللهِ ، إِنَّ أُمِّي أَقْتُلِيَتْ نَفْسُهَا وَلَمْ تُوصٍ، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتُ تصَدَقَتْ ، أَفَلَهَا أَجْرٌ إِن تَصَدَّقْتُ عَنهَا ؟ قَالَ : نعم . (متفق عليه).
(صحیح بخاری: کتاب الجنائز، باب موت الفجأة البغتة، صحيح مسلم كتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلى الميت.)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ: میری والدہ کی موت اچانک واقع ہوگئی اور کچھ وصیت نہیں کر سکیں ، میرا خیال ہے کہ اگر انہیں گفتگو کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتیں تو کیا میں ان کی طرف سے خیرات کر سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے خیرات کرو۔
تشریح:
شریعت اسلامیہ نے انسانوں کے لئے وصیت کے احکام کو بیان فرمایا ہے بنابریں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان احکامات کی معرفت حاصل کریں چونکہ انسانوں کے او پر دوسروں کے حقوق ہوتے ہیں اور انہیں موت کے بارے میں علم نہیں ہوتا کہ وہ کب اپنی آغوش میں لے لے اس لئے رسول اکرمﷺ نے وصیت لکھنے کا حکم دیا ہے اور اس کے لئے ضوابط متعین کیا ہے کہ انسان اپنے مال کا ایک تہائی حصہ وصیت کر سکتا ہے اس سے زیادہ کرنے سے منع فرمایا ہے نیز یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنے اہل وعیال کو مالدار بنا کر چھوڑنا فقیر بنانے سے افضل ہے۔ اللہ تعالی ہمیں ان احکامات کی جانکاری حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭وصیت نامہ کا تحریری شکل میں ہونا ضروری ہے۔
٭ انسان کو اپنے مال کا ایک تہائی حصہ مرنے سے قبل وصیت کرنے کی اجازت ہے۔
٭ میت کی جانب سے صدقہ کرنا جائز ہے اگر چہ میت نے وصیت نہ کی ہو۔
٭٭٭٭