کرامت اولیاء
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿اَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ٭ الَّذِينَ آمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (سورۃ یونس آیت 62 تا 64)
ترجمہ: یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وه لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں۔ ان کے لئے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوش خبری ہے اللہ تعالیٰ کی باتوں میں کچھ فرق ہوا نہیں کرتا، یہ بڑی کامیابی ہے۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إلى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ (سوره بقره آیت:257)
ترجمہ: ایمان لانے والوں کا کار ساز اللہ تعالی خود ہے وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اس میں پڑے رہیں گے۔
نیز اللہ نے فرمایا: ﴿ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنّٰى لَكِ هٰذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (سوره آل عمران: آیت37)
ترجمہ: جب کبھی زکریا (علیہ السلام) ان کے حجرے میں جاتے تو ان کے پاس روزی رکھی ہوئی پاتے، وہ پوچھتے: اے مریم! يہ روزی تمہارے پاس کہاں سے آئی؟ وہ جواب دیتیں کہ یہ اللہ تعالی کے پاس سے ہے، بے شک اللہ تعالیٰ جسے چاہے بے شمار روزی دے۔
ارشاد ربانی ہے: ﴿ قُلْنَا يَا نَارُ كُوْنِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيْمَ ٭ وَأَرَادُوْا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِيْنَ﴾ (سورة الانبیاء: آیت 69۔70)
ترجمہ: ہم نے فرما دیا اے آگ تو ٹھنڈی پڑ جا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا۔ گو انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کا برا چاہا لیکن ہم نے انہیں ناکام بنا دیا۔
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِنَّ اللَّهَ تعَالَى قَالَ: مَنْ عَادَ لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَى عَبْدِي بشيء أحَبُّ إِلَى مِمَّا افْتَرَضْتُهُ عَلَيْهِ، وَمَا زَالَ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَى بِالنَّوَافِلِ حَتّٰى أَحَبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي بِهِ يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُبِهِ، وَيَدَهُ الَّتِيْ يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلْنِي لَأَعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَني لَأُعِيْذَنَّهُ. (اخرجه البخاري)
(صحیح بخاری: كتاب الرقال، باب التواضع.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو میرے ولی کے ساتھ عداوت رکھتا ہے میں اسے اعلان جنگ کی اطلاع دیتا ہوں اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی عبادت مجھے اس (عبادت) سے زیادہ عزیز نہیں، جو میں نے اس پر فرض کی ہے اور میرا بندہ نفلی عبادت کر کے مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اسے محبوب انا لیتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کی ٹانگ بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور وہ مجھے سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے پناه دے دیتا ہوں۔
تشریح:
اولیاء ولی کی جمع ہے جس کے لغوی معنی قریب کے ہیں اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے معنی ہوں گے وہ سچے اور مخلص مسلمان جنہوں نے اللہ تعالی کی اطاعت اور معاصی سے اجتناب کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیا۔ اولیاء اللہ تعالی کے دوست ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لئے چنا ہے ان سے وہ اپنی اطاعت کے کام لیتا، ان سے محبت کرتا اور انہیں اپنے قریب کرتا ہے۔ جب وہ اللہ تعالی سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو اللہ تعالی اسے پوری کرتا ہے۔ اولیاء کا مقام اللہ تعالی کے نزدیک بہت اونچا ہے اور سب سے بڑے اولیاء انبیاء کرام اور رسل ہیں ان کے بعد صحابہ کرام اور ان کے بعد اہل ایمان اور نیک و صالح بندے۔ اولیاء اللہ کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں بھلائی ہی بھلائی ہے، اولیاء کرام سے کرامات کا صدور ثابت ہیں جیسے فرشتوں کا سلام کرنا، بغیر بھیگے ہوئے سمندر پار کرنا، شیر خوار بچے کا بولنا، کھانے کا زیادہ ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالی اولیاء کرام سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ اولیاء کرام کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں خوشخبری ہے۔
٭ اولیاء کرام سے اللہ تعالی خوش ہوتا ہے۔
٭ اولیاء اللہ کے دوست ہیں۔
٭ اولیاء سے کرامات کا ظاہر ہونا۔
٭٭٭٭