فضائل و مسائل حج .[1]

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ۔ وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۝(سوره آل عمران: (97)
اللہ تعالی فرماتا ہے ’’اللہ تعالی نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہیں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو خدا (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے۔‘‘
حج کے معنی قصد اور زیارت کے ہیں اسلامی محاورہ میں اللہ تعالی کی مخصوص عبادت اور اس کے گھر کی مخصوص طریقے سے زیارت کرنے کو حج کہتے ہیں اسلام کے پانچ رکنوں میں سے حج بھی ایک رکن ہے جو ہر مستطیع پر فرض ہے رسول اللہ ‎ﷺ نے فرمایا
(أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرِضَ عَلَيْكُمُ الْحَجُّ فَحُجُّوا)[2]
’’یقینًا اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم حج کرو۔‘‘
اور فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔
(1) اللہ تعالی کے ایک ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے اور اس کے بندہ ہونے کی شہادت دینا۔
(2) نماز پڑھنا۔ (3) بیت اللہ کا حج کرنا۔ (4) رمضان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خطبہ راقم الحروف نے حج کو جاتے ہوئے جہاز میں اور مکہ مکرمہ میں اور واپسی کے وقت دیا تھا جو ماہنامہ ’’الاسلام‘‘ مجریہ مارچ 1910ء میں شائع ہو چکا ہے یادگار کے طور پر یہاں درج کر دیا ہے عبد السلام بستوی عفا اللہ عن القوی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے روزے رکھنا (5) زکوۃ دینا۔ [1]
اس کی فرضیت کے ساتھ ساتھ اس کی بڑی فضیلت بھی ہے کہ اس کے کرنے سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اس کے بعد جنت بھی ملتی ہے خدا بھی خوش ہو جاتا ہے اور اپنی ذمہ داری بھی ادا ہو جاتی ہے خدا کے گھر کی زیارت نصیب ہوتی ہے مختلف جگہ کے مسلمانوں سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے آخرت بھی سامنے آ جاتی ہے خلاصہ یہ کہ دین و دنیا دونوں کے فائدے حاصل ہو جاتے ہیں رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا۔
(أيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ قَالَ إِيْمَانُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ قِیلَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قِیْلَ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ حَجَّ مَبْرُور)[2]
کون سا عمل سب عملوں سے افضل ہے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پھر عرض کیا گیا۔ اس کے بعد کون سا ہے آپﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر عرض کیا گیا: اس کے بعد کون سا عمل ہے؟ فرمایا: حج مقبول ہے۔
اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُتُ وَلَمْ يَفْسُقُ رَجَعَ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ امهُ)[3]
’’جس نے اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور جماع اور عدول حکمی اور نافرمانی خدا کی نہیں کی وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے جس طرح اس کی ماں نے اس کو پیدا کیا تھا۔‘‘
یعنی گناہوں سے وہ اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو آج ہی معصوم جنا ہے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں جیسا کہ دوسری حدیث میں فرمایا:
(إِنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ)[4]
’’حج ان تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے جو پہلے سے سرزد ہو گئے تھے‘‘
(الْحَجُّ جَهَادٌ لِكُلِّ ضَعِيفَ)[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: 6/1 کتاب الایمان باب دعاؤ كم ايمانكم رقم الحديث: 8
[2] صحیح بخاري: 6/1 کتاب الإيمان باب من قال ان الإيمان هو العمل رقم الحديث: 26
[3] صحیح بخاري: 206/1 كتاب الحج باب فضل الحج المبرور رقم الحديث: 1521۔
[4] صحيح مسلم: 76/1 كتاب الإيمان كون الإسلام یهدم ما قبله و كذا الهجرة و الحج رقم الحديث:321
[5] مسند احمد: 294؍6۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہر کمزور کا جہاد حج ہے یعنی حج کرنے سے جہاد کا ثواب ملتا ہے۔‘‘
(جِهَادُ الكَبِيرِ وَالضَّعِيفِ وَالْمَرْأَةِ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةُ) [1]
’’بوڑھے کمزور اور عورت کا جہاد حج اور عمرہ کرنا ہے۔‘‘
(الْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاء إِلَّا الْجَنَّةُ)[2]
’’حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’حج و عمرہ دونوں کو ملاؤ کیونکہ یہ دونوں محتائی اور گناہوں کو ایسا دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے چاندی اور سونے کی میل کو دور کر دیتی ہے اور مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔‘‘[3]
حج میں جتنا بھی روپیہ پیسہ خرچ ہوتا ہے وہ باعث خیر و برکت اور سعادت دارین کا ذریعہ ہے۔
(النَّفَقَةُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الدِّرْهَم بِسَبْعِ مِائَةٍ)[4]
’’حج میں خرچ کرنا ایسا ہے جیسا جہاد میں خرچ کرنا۔ جہاد میں ایک درہم خرچ کرنے کا ثواب سات سو درہم خرچ کرنے کے برابر ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپﷺ نے فرمایا تھا:
(إِنَّ لَكِ مِنَ الْأَجْرِ عَلَى قَدْرِ نَصِيبِكِ وَنَفْقَتِكِ)[5]
’’جتنی تم کو تکلیف ہو گی اور جتنا تم خرچ کرو گی اتناہی ثواب تم کو ملے گا۔‘‘
اللہ تعالی نے آپ کو دعوت دی اور اس کی دعوت کو آپ نے قبول فرمایا اور مہمانی کے لئے اور حج کے لئے تشریف لے جا رہے ہیں یہ بڑی فضیلت کی بات ہے کہ اللہ تعالی آپ کا مہمان نواز ہے اور آپ اس کے مہمان ہیں اس کی تائید بزار اور ترغیب کی حدیث سے ہوتی ہے۔ [6]
رسول اللہﷺرنے فرمایا کہ حج اور عمرہ کرنے والے دونوں اللہ کے مہمان ہیں خدا نے ان کو بلایا۔
………………………………………………………….
[1] نسائي: كتاب مناسك الحج باب فضل الحج رقم الحديث: 2627۔
[2] صحیح بخاري۔ 238/1 کتاب العمرة باب وجوب العمرة و فضلها رقم الحديث: 1773۔
[3] جامع ترمذي: 2/ 78 کتاب الحج باب ماجاء في ثواب الحج و العمرة رقم الحديث:810۔ [4] مسند احمد: 355/5۔
[5] مستدرك: 471/1۔
[6] مسند بزار بحوالہ مجمع الزوائد: 214/3-
……………………………………………….
اور وہ آئے اور جو کچھ انہوں نے مانگا خدا نے ان کو دیا اللہ آپ کو بھی بخشے اور اگر اپنے خویش واقارب کی مغفرت کے لئے سفارش اور دعا کریں گے تو خدا انہیں بھی بخش دے گا۔
آپ اس مقدس سفر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شرافت سے پیش آیا کیجئے اور ہر ممکن طریقے سے ان کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتے رہنے اور خدمت کرتے رہنے ان کو تکلیف پہنچانا اور ان سے لڑائی جھگڑا کرنا انسانیت کے خلاف ایک جرم عظیم ہے خصوصیت سے اس مبارک سفر میں اللہ تعالی نے جھگڑا کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔ ﴿الْحَجُّ اشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ، فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ) (البقرة: 197)
’’حج کے چند گنتی کے مہینے معلوم ہیں جو ان مہینوں میں حج کا احرام باندھے وہ اپنی بیوی سے ہم بستر نہ ہو اور فحش و بکواس نہ سکے اور لڑائی جھگڑا نہ کرے۔‘‘
آپ اس وقت دنیاوی کاروبار سے بالکل فارغ ہیں اس لئے ہر ممکن طریقے سے ہر وقت ذکر الہی میں گزار ہے اس سے بہتر وقت آپ کو نہیں ملے گا فضول باتوں میں وقت ضائع نہ کیجئے اور نہ کسی کی غیبت اور چغلی کیجئے اور نہ غیر محرم عورت کی طرف بری نظر سے دیکھئے۔
احرام باندھنے کا طریقہ
احرام باندھنے کا طریقہ یہ ہے۔
(1) اول حجامت بنوا لو۔ (2) زیر ناف کے بال صاف کر ڈالو۔
(3) اس کے بعد غسل کرو، رسول اللہﷺ نے احرام باندھنے سے پہلے غسل فرمایا تھا۔[2]
اور آپ نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہ ان کو احرام کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا تھا۔
(4) اور وضو کر لو اس کے بعد سلے ہوئے کپڑے اتار دو اور ایک کپڑا تہبند کے طور پر باندھ لو اور ایک چادر اوڑھ لو۔ احرام کے یہی دو کپڑے ہیں اس کے بعد خوشبو لگا لو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
(كُنْتُ اُطَيِّبُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلم لاِحرَامِهِ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ وَلِحِلِّهِ قَبْلَ أن يَّطُوْفَ بِالْبَيْتِ)[3]
…………………………………………………..
[1] جامع ترمذي:85/2، كتاب الحج باب ما جاء في الاغتسال عند الإحرام رقم الحديث: 830
[2] مسلم: 385/1 كتاب الحج باب صحة الحرام النفساء استحباب… رقم الحديث: 2908۔
[3] صحیح بخاري: 208/1 کتاب الحج باب الطلب عند الإحرام وما يلبس اذا ارادان يحرم و یترجل و یدھن، رقم الحدیث: 1539۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہﷺ کو میں احرام کے وقت خوشبو لگاتی تھی احرام باندھنے سے پہلے اور طواف سے پہلے حلال ہونے کے وقت خوشبو لگاتی تھی۔‘‘
اس کے بعد اگر فرض نماز کا وقت ہے تو فرض نماز کے پڑھنے کے بعد تلبیہ پڑھ لو اور اگر فرض نماز کا وقت نہیں ہے تو احرام کی نیت سے دو نفل پڑھو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول الله ﷺ حج کرنے کیلئے نکلے مسجد ذوالحلیفہ میں ظہر کی نماز دو رکعت ادا کرنے کے بعد حج کا احرام باندھا۔ بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد ﴿ قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ۝﴾ کا اور دوسری میں سورۃ فاتحہ کے بعد ﴿قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ﴾ پڑھو سلام پھیرنے کے بعد سر ننگا کر لو اور اپنے دل میں حج یا عمرہ یا قران یا تمتع کی نیت کرو یعنی اگر عمرہ کرتا ہے تو عمرہ کی نیت کر لو اور یوں کہو (لَبَّيْكَ بِعمْرةٍ)[1] اور اگر صرف حج کرنے کا ارادہ ہے تو حج کا ارادہ کرو یعنی یوں کہو (لبيك اللهمَّ لَبَّيْكَ بِالْحَجِّ)[2] اور اگر قران یعنی حج و عمرہ دونوں ساتھ ساتھ ادا کرنا مقصود ہے تو دونوں کا ارادہ کرو اور یوں کہو (لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا)[3] حج فرض ادا کرنا ہے تو فرض حج کی نیت کرو نفل ادا کرنا ہے تو نقل کی نیت کرو نیت کرنا فرض ہے بغیر نیت کے کسی عمل کا اعتبار نہیں ہے اگر مرد ہے تو احرام کے وقت سے قربانی تک سر کھولے رکھے۔ اس کے بعد زور زور سے تلبیہ پڑھو رسول ﷺ اس تلبیہ کو پڑھا کرتے تھے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں: (لبیكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ)[4]
الہی میں تیری خدمت اور عبادت کے لئے حاضر ہوا ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہے میں تیری خدمت کے لئے حاضر ہوا ہوں یقینًا تعریف اور نعمت صرف تیرے لئے ہے اور بادشاہت صرف تیرے لئے خاص ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔
(لَبَّيْكَ إِلَهَ الْحَقِّ لَبَّيْكَ)[5]
’’اے میرے معبود ! میں تیری خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔‘‘
لبیک کی بڑی فضیلت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ مسلمان حاجی کی لبیک کی آواز سن کر اس کے
………………………………
[1] صحيح مسلم: كتاب الحج باب اشعار البدن و تقليده عند الإحرام رقم الحديث: 3016.
[2] صحيح بخاري: كتاب الحج باب من تلبي بالحج وسماه.
[3] صحيح مسلم كتاب الحج۔
[4]صحیح بخاري: 210 کتاب الحج باب التلبية رقم الحديث: 1549۔ نسائی: 14/2 کتاب مناسك الحج باب اذا اهل بالعمرة هل يجعل معها حجا رقم: 2753۔
……………………………..
دائیں بائیں کے درخت پتھر وغیرہ تمام چیزیں لبیک پکارتی ہیں۔[1]
اور لبیک کو نمازوں کے بعد اور رات دن اوپر نیچے چڑھتے اترتے اور قافلہ کے چلتے چلتے بار بار زور سے پڑھو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے مجھ سے فرمایا، کہ میں اپنے اصحاب کو حکم دوں کہ وہ ((لَا اِلٰهَ الا الله اور لبيك )) کو زور سے پڑھیں۔[2]
اور فرمایا: سب سے افضل وہ حج ہے جس میں زور زور سے لبیک کہا جائے اور کثرت سے قربانی کی جائے۔
احرام کی قسمیں احترام کی چار قسمیں ہیں:
(1) افراد یعنی صرف حج کا احرام باندھنا اور صرف حج کا احرام باندھنے والے کو مفرد کہتے ہیں۔[4]
(2) تمتع یعنی پہلے حج کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھ کر طواف کی ادا کرنے کے بعد حلال ہو جائے پھر حج کا احرام باندھ کر حج کے افعال کو ادا کیا جائے ایسا کرنے والے کو متمتع کہتے ہیں۔[5]
(3) قران یعنی حج و عمرہ دونوں کا ساتھ ساتھ احرام باندھنا ایسا کرنے والے کو ’’قارن‘‘ کہتے ہیں۔[6]
(4) حج کے مہینے کے علاوہ دوسرے مہینوں میں عمرہ کا احرام باندھنا ایسا کرنے والے کو معتمر کہتے ہیں۔[7]
یہ سب جائز ہیں یعنی نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو ادا کیا جیسا کہ کتب ستہ میں ہے۔
احرام کے کپڑے
مرد کے احرام کے کپڑے ایسے ہونے چاہیں:۔ نیا یا دھلا ہوا تہہ بند چادر اور جوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
…………………………
[1] ترمذي: 84/2 كتاب الحج باب ما جاء في فضل التلبية رقم الحديث: 828۔
[2] مؤطا امام مالك كتاب الحج باب رفع الصوت بالإهلال ص:342۔
[3] ترمذي:84/2 كتاب الحج باب ما جاء في فضل التلبية والنحر رقم الحديث: 827.
[4] بخاري: 212/1 کتاب الحج باب التمتع والاقران والافراد بالحج رقم الحديث: 1561.
[5] بخاري 229/1 كتاب الحج باب من ساق البدن معه رقم 1691.
[6] بخاري: 1/ 232 کتاب الحج باب نحر البدن قائمة رقم: 1741.
[7] بخاري 239/1 كتاب العمرة باب كم اعتمر النبيﷺ رقم الحدیث: 1778.
……………………………………..
فرمایا : ایک لنگی اور چادر اور جوتی میں احرام باندھو۔[1]
اگر تہ بند نہ ہو تو پائجامہ میں بھی احرام بندھ سکتا ہے۔[2]
مردوں کو احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے زعفران اور ورس کی رنگی ہوئی چادر منع ہے اور مرد احرام کی حالت میں اپنے سر کو کھلا رکھے اور عورتیں عام لباس میں احرام باندھیں لیکن لباس با پردہ ہونا چاہیے۔ اور احرام کی حالت میں عورتیں اپنے چہرے کو کھلا رکھیں۔ چھپائیں نہیں البتہ اگر اجنبی مردوں کا سامنا ہو تو گھونگھٹ نکال سکتی ہیں احرام میں ناخن تراشتا، جنگلی جانوروں کا شکار کرنا، نکاح کرنا اور کرانا، بیوی سے جماع کرنا اور لڑائی جھگڑا کرنا اور خوشبو لگانا ناجائز ہے۔[3]
حرم شریف میں داخل ہونے کے آداب
حرم سے وہ مخصوص مقدس علاقہ مراد ہے جو مکہ شریف کے چاروں طرف واقع ہے یہ حدیں مکہ مکرمہ کی چاروں طرف کئی کئی میل تک ہیں جدہ کے راستے سے آتے ہوئے یہ حد مکہ مکرمہ سے دس میل اور جدہ کے راستے پر آتی ہے حرم میں جنگ و جدال و شکار کرنا اور وہاں کے درختوں کا کاٹنا حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔
(إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَامٌ لَا يُعْضَدُ شَوْكَهُ وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهُ وَلَا يُنفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا تُلْتَقَطُ لقَطُهُ إِلَّا لِمُعَرِّفٍ).[4]
’’یہ شہر مکہ حرم ہے یہاں کا کا شانہ کا نا جائے اور نہ یہاں کی گھاس ہوائے اڈخر کے کاـی جائے اور نہ شکار بھگا یا جائے اور نہ گری پڑی چیز اٹھائی جائے البتہ اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے۔‘‘
حجتہ الوداع کے خطبہ میں آپ نے فرمایا تھا کہ زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت سے یہ شہر مکہ حرم ہے اس کو اللہ تعالی نے حرام بنایا ہے یہاں قتل و قتال اور جنگل جدال حلال نہیں ہے نہ یہاں شکار کرنا جائز ہے نہ کانا کا ننا جائز ہے۔[5]
اس حرم میں داخلہ کے وقت رسول اللہﷺ سے کوئی خاص دعا صحیح حدیث سے ثابت نہیں البتہ عبد اللہ
……………………………………………..
[1]مسند احمد: 43/2۔
[2] بخاري: 249/1 كتاب جزاء الصيد باب لبس الخفين للمحرم اذا لم يجد النعلين رقم: 1841۔
[3]بخاري: 1/ 248 کتاب جزاء الصيد باب ما ينهى من الطيب للمحرم و المحرمة رقم: 1838۔
[4] بخاري: 216 كتاب الحج باب فضل المحرم رقم الحديث: 1587۔
[5] بخاري: 247/1 كتاب جزاء الصيد باب لا ينفر صيد المحرم رقم الحديث: 1833۔
…………………………
بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ حرم میں داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔
(لا إله إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)
’’ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے دوا کیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اس کا ملک ہے اس کے لئے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“
اس حرم محترم کا بڑا احترام کرنا چاہئے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے طوفان کے زمانے میں حرم محترم کے اندر بڑی مچھلی نے چھوٹی مچھلی کو نہیں کھایا تھا۔ لہٰذا انسان بھی کسی انسان یا چھوٹوں پر ظلم کر کے نہ کھائے ہر لمحہ ادب و احترام کو سامنے رکھے کہ کوئی لفظ خلاف ادب منہ سے نہ نکالے نہ کوئی ایسا کام کرے۔ شہر مکہ مکرمہ کو دیکھ کر وہی دعا پڑھو جو عام شہروں کو دیکھ کر پڑھتے ہو جب مکہ مکرمہ پہنچو تو غسل کر لو کیونکہ رسول اللہﷺ نے دخول مکہ مکرمہ کے لئے ذی طوی مقام پر غسل فرمایا تھا۔[1]
مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے اللہ کے گھر کی زیارت کرنے کی کوشش کرو۔
مسجد حرام میں داخل ہونے کی دعا
مسجد حرام میں مقام ابراہیم کی طرف آو۔ مقام ابراہیم کے پاس باب بنی شیبہ ہے اس دروازے سے داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھو:
(أعُوذُ بِاللهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ)[2]
’’میں شیطان مردود کی برائیوں سے اللہ عظیم اور اس کے چہرہ کریم اور سلطنت قدیم کے طفیل سے پناہ پکڑتا ہوں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت جو اس دعا کو پڑھے گا وہ سارا دن شیطان کے ہر شرے محفوظ رہے گا۔ (ابوداؤد)
اور یہ دعا پڑھنا بھی مسنون ہے۔
(بسم الله وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ)[3]
میں اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں اور اس کے رسولﷺ پر درود و سلام بھیجتا ہوں، اے اللہ! تو میرے گناہوں کو معاف کردے اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
…………………………………….
[1] بخاري: 214/1 كتاب الحج باب الاغتسال عند دخول مكة رقم الحديث: 1573۔
[2] سنن ابی داود: 175؍1 کتاب الصلاة باب ما يقول الرجل عند دخول المسجد رقم: 466۔
[3] ابن ماجه، كتاب المساجد باب الدعاء عند دخول المسجد رقم الحديث: 771۔
…………………………………
طواف: طواف کے معنی گھومنے اور چکر لگانے کے ہیں خانہ کعبہ کے ارد گرد گھومنے اور چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں۔
فضائل طواف: طواف کی فضیلت حدیثوں میں بہت آئی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا
(مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَ كَعِتقٍ رَقَبَةٍ).[1]
’’جو بیت اللہ کا طواف کرے اور دو رکعت نماز پڑھے تو اس کو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ أَسْبُوعًا لَّا يَضَعُ قَدَمًا وَلَا يَرْفَعُ أُخْرَى إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَنْهَا بِهَا خَطِيئَةً وَ كَتَبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةً وَرَفَعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةً)[2]
’’جس نے بیت اللہ شریف کا سات پھیر اطواف کیا تو اللہ تعالیٰ ہر ہر قدم پر اس کے گناہ کو معاف فرماتا ہے اور ہر قدم پر نیکی لکھتا ہے اور ہر قدم پر درجہ بلند فرماتا ہے۔‘‘
طواف کی قسمیں: طواف کی چھ قسمیں ہیں
(1) طواف قدوم جو آنے کے وقت سب سے پہلے کیا جاتا ہے اس کو طواف الورود اور طواف اللقاء اور طواف التحیہ بھی کہتے ہیں یہ آفاقی یعنی مکہ سے باہر والوں کے لئے ہیں۔
(2) طوف الزیارت جو دسویں تاریخ کو کیا جاتا ہے یہ حج کا رکن ہے اس کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں۔
(3) طواف صدر جو بیت اللہ سے واپسی کے وقت کیا جاتا ہے اس کو طواف الوداع بھی کہتے ہیں۔
(4) طواف العمرہ جو عمرہ کی ادائیگی کے وقت کیا جاتا ہے یہ عمرہ کا رکن ہے
(5) طواف نذر جو نذر ماننے والے پر ضروری ہے
(6) طواف النفل جو نفلی طور پر ہر وقت کیا جاتا ہے۔
…………………………..
[1] ابن ماجه کتاب المناسك باب فضل الطواف رقم الحديث: 2956
[2] مسند احمد: 11،3/2 ترمذي: 122/2 كتاب الحج باب في نسخة ما جاء في استلام الركنين رقم الحديث:959۔
………………………….
طواف قدوم کی ترکیب
(1) وضو کر کے مرد اپنے احرام کی چادر دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں شانہ پر ڈال دے (دایاں شانہ کھلا رکھے) حجر اسود کے پاس آکر اس کا بوسہ لے یا استلام کرنے اسلام کے وقت بسم الله والله اكبر (مسند احمد) کہے یعنی اللہ کے نام سے طواف کرتا ہوں اللہ بہت بڑا ہے۔ طواف کے دوران ذکر واذکار اور دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے دعاؤں میں مشغول رہیں۔
رکن یمانی کی دعا
اس کونے کو صرف چھونا چاہیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے اس کونے پر ستر ہزار فرشتے مقرر ہیں جب ذیل کی دعا پڑھی جاتی ہے تو اس پر وہ آمین کہتے ہیں رکن یمانی پر استلام کے بعد اس دعا کو دونوں رکنوں کے در میان پڑھو، نبی ﷺ اس کو اس جگہ پڑھتے تھے۔
(رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)[1]
’’اے میرے رب ! تو مجھے دنیا میں نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی فرما اور دوزخ کے عذاب سے مجھے بچائیو۔‘‘
اس دعا کو پڑھتے ہوئے حجر اسود پر آؤ اب یہ ایک پھیرا ہوا اگر حجر اسود کو بوسہ لینے کا موقع ملے تو بوسہ لو، ورنہ ہاتھ سے اشارہ کر کے ذکر واذکار کرتے ہوئے دوسرا پھیرا شروع کر دو اس میں بھی آہستہ دوڑ کر چال چلو اور مذکورہ دعائیں پڑھو تیسرا پھیرا بھی اسی طرح کرو۔ رمل و اضطباع نہ کرو جب سات پھیرے پورے ہو جائیں تو ایک طواف پورا ہو گیا حجر اسود سے طواف شروع کیا تھا اور حجر اسود پر ہی ختم کرو۔ اگر حجر اسود پر بوسہ لینا ممکن ہو تو بوسہ لو ورنہ استلام کر کے مقام ابراہیم کی طرف آؤ۔ حدیث شریف میں ہر چکر اور پھیرے کی الگ الگ دعائیں نہیں ہیں جو طواف میں پڑھنا ثابت ہے وہٰ میں نے عرض کر دیا ہے اور اس کے علاوہ بھی قرآن وحدیث کے مناسب دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں آج کل کے معلمین نے طواف کے ہر پھیرے کے لئے الگ الگ دعائیں ترتیب دے رکھی ہیں اور حاجیوں کو وہی پڑھاتے ہیں ہر کام میں سنت کی پیروی مسنون ہے قرآن وحدیث کی دعاؤں میں جو تاثیر ہے وہ مصنوعی دعاؤں میں نہیں ہے۔ طواف کے ساتویں پھیرے کو ختم کر کے آیت ﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ﴾ پڑھتے ہوئے مقام
…………………….
[1] كتاب الام: 172/2 مسند احمد: 411/3۔
…………………..
ابراہیم پر آجاؤ۔ مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کر کے طواف کی دو رکعت نماز پڑھو پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد ﴿قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾ اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ﴿قُلْ هُوَ الله احد﴾ پڑ ھوں سلام پھیرنے کے بعد نہایت عاجزی اور خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے اور اپنے لواحقین کے لئے نیک دعائیں کرو۔ کیونکہ یہ قبولیت کی جگہ ہے اس کے متعلق خاص طور پر کوئی صحیح دعا حدیث مرفوع سے ثابت نہیں ہے قرآن وحدیث کی جو مناسب دعا میں سمجھ کر پڑھ سکتے ہو۔
دعاؤں سے فارغ ہونے کے بعد پھر حجر اسود کے پاس آؤ اس کو بوسہ دے کر یا استلام کر کے باب بنی شیبہ سے نکل کر چاہ زمزم اور اس کی سبیل کے پاس آکر زمزم پی لو آب زمزم پی کر باب الصفا سے نکل کر سعی کے لئے باہر آؤ۔
یہ طواف قدوم کا بیان تھا اس میں رمل اور اضطباع ہے اس کے سوا کسی میں رمل اور اضطباع نہیں کرنا چاہیئے اور عورتیں طواف قدوم میں بھی رمل اور اضطباع نہ کریں باقی طواف ویسا ہی کریں جیسا مرد کرتے ہیں حتی الامکان مردوں سے الگ ہو کر طواف کریں مرد بھی ان کو ماں بیٹی بہن سمجھیں نگاہ بد نہ ڈالیں یہ خدا کا دربار ہے نظر بازی کا مقام نہیں ہے نظر بازی سے نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔
سعی کی ترکیب
طواف قدوم سے فارغ ہو کر پھر حجر اسود کا استلام کرو اور صفا پہاڑی کی طرف چلو پھر پہاڑی کے قریب پہنچو تو آیت کریم ﴿إِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ الله﴾ پڑھو۔ یعنی صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں اس کے بعد (اَبْدأُ بِمَا بَدَا الله بہ) پڑھو یعنی میں اس چیز کے ساتھ شروع کرتا ہوں جس سے اللہ تعالی نے شروع کیا ہے یہ کہہ کر سیڑھیوں سے صفا پہاڑی کے اوپر اتنا چڑھاؤ کہ بیت اللہ دکھائی دینے لگے رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا (ابو دائو و مسلم) پھر قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر پہلے تین بار اللہ اکبر کہو پھر یہ دعاپڑھو۔ نبیﷺ نے اس کو یہاں پڑھا تھا۔ (لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَرَ وَعْدَةَ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ)[2]
…………………………..
[1] صحیح مسلم: 395/1 كتاب الحج باب حجة النبي رقم الحديث: 2950۔
[2] صحیح مسلم : 395؍1 كتاب الحج باب حجة النبيﷺ رقم الحديث: 2950۔
…………………………
’’اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ ایک اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے وہ ملک کا مالک ہے اس کے لئے تعریف ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ کی امداد کی اس اکیلے نے کافروں کی تمام فوج کو بھگا دیا۔ اس دعا کو پڑھ کر ورود شریف پڑھو اور اپنے خویش و اقارب اور ملنے والوں کے لئے دین و دنیا کی دعائمیں ما نگو یہ قبولیت کی جگہ ہے۔ پھر واپسی پر پہلے ہاتھ اٹھا کے اسی صفا پر دعائیں مانگو۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ دعا ما نگتے تھے۔
(اللَّهُمَّ إِنَّكَ قُلْتَ ادْعُونِي استجِب لَكُمْ وَإِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ إِنِّي أَسْأَلُكَ كَمَا هَدَيْتَنِي لِلْإِسْلَامِ أَن لَّا تَنزِعَهُ مِنِّي حَتَّى تَوَفَّانِي وَأَنَا مُسْلِمٌ).[1]
’’خدایا تو نے دعا قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے اور تو وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے، جس طرح تو نے اسلام کی توفیق مرحمت فرمائی ہے اسی طرح موت بھی مجھ کو اسلام کی حالت میں نصیب فرما۔‘‘
(رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزعَمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنتَ الْآخَرُ الْأَكْرَمُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)[2]
’’اے میرے پروردگارا تو میری خطاؤں کو معاف فرما اور میرے حال پر رحم فرما۔ اور جو گناہ تو جانتا ہے اس کو تجاوز فرما دے تو عزت والا بزرگ ہے اے میرے رب تو دنیا میں نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی اور عذاب دوزخ سے ہم کو بچا۔‘‘
یہ دعا اس قسم کی قرآن وحدیث کی دیگر دعائیں پڑھتے ہوئے مروہ کی طرف آہستہ آہستہ چلو صفا اور مروہ کے درمیان مروہ کو جاتے ہوئے بائیں جانب دو سبز نشان ہیں جن کو میلین اخضرین کہتے ہیں جب ان میں سے پہلے کے قریب پہنچ تو دوڑنا شروع کر دو جب دوسرے نشان پر پہنچو تو دوڑنا ترک کر دو پھر آہستہ آہستہ چلو یہاں تک کہ جب مروہ پر پہنچ جاؤ اور مروہ پر اتنا چڑھ جاؤ کہ اگر سامنے دیوار نہ ہو تو بیت اللہ شریف نظر آنے لگے اب بیت اللہ نظر نہیں آتا اور داہنی جانب مائل ہو کر خوب بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ اور مروہ کی دعائیں اور یہاں بھی اسی طرح پڑھو جس طرح صفا میں پڑھی تھیں اور دیر تک ذکر و دعا میں مشغول رہو کیونکہ یہاں پر دعا مقبول ہوتی ہے یہ صفا سے مروہ تک ایک پھیرا ہوا پھر مروہ سے اتر کر (رب اغفر وارحم الخ) پوری دعا پڑھتے ہوئے معمولی چال سے سبز میل تک چلو پھر اس سبز نشان سے دوسرے سبز نشان
………………………………..
[1] مؤطا امام مالك ص:391 كتاب الحج باب البدء بالصفا في السعي
[2]المغنى من حمل الاسفار:1285؍1 (324/1) في النسخة الأخرى.
…………………………………..‎‎
تک دوڑنا شروع کردو۔ اس سبز نشان پر پہنچ کر آہستہ آہستہ روزمرہ کی چال چلتے ہوئے اور دعائیں پڑتے ہوئے صفا پر پہنچ جاؤ صفا پر پہنچ کر اسی ترکیب کے ساتھ ان ہی دعاؤں کو پڑھو جو پہلے پڑھ چکے ہو۔ اب دو پھیرے ہوئے صفا سے مردہ تک تین اور مرود سے صفا تک چار پھیرے ہوئے پھر صفا سے مردہ تک پانچ اور مردہ سے صفا تک چھ اور صفا مروہ تک سات پھیرے مذکورہ بالا طریقے سے کرو۔ دوڑنے کی جگہ دوڑ کر اور آہستہ چلنے کی جگہ آہستہ چل کر اور دعا کی جگہ دعا پڑھ کر سعی کے ساتوں پھیرے پورے کرو۔
صفا اور مروہ کی سعی کے بعد
سعی ختم کرنے کے بعد اگر عمرہ کا احرام تھا تو حلق یا قصر کر کے احرام کھول ڈالو اور اگر قارن اور مفرد ہو تو حلق و قصر مت کرو بلکہ اپنے احرام میں باقی رہو دسویں تاریخ کو حلق، ذبح، رمی وغیرہ کر کے حلال ہو جاؤ۔
آبِ زمزم
سعی و حجامت سے فارغ ہونے کے بعد چاہ زمزم پر آ کر زمزم کا پانی پیو اور خوب شکم سیر ہو کہ پسلیاں تن جائیں۔
زمزم کے سلسلہ میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔
(مَاءُ زَمْزَمَ مُبَارَكَةً إِنَّهَا طَعَامُ طَعْمٍ وَشِفَاءُ سَقْمٍ)[1]
’’آب زمزم برکت والا ہے، بھوکوں کے لئے کھانا ہے اور بیماروں کے لئے شفا ہے۔‘‘
جب تک مکہ میں رہو مسافر ہونے کی حیثیت سے نماز قصر کرو لیکن مقیم امام کے پیچھے چار رکعت پڑھو اور ممکن طریقہ سے بیت اللہ شریف میں نماز پڑھنے کی کوشش کرو ایک رکعت کا ثواب ایک لاکھ رکعت کے برابر حاصل کرو۔
آٹھویں تاریخ کو منی جاؤ
اگر آپ نے حج تمتع کا احرام باندھا تھا اور عمرہ کر کے حلال ہوئے تھے تو آٹھویں ذی الحجہ کو جہاں کہیں بھی ہو صبح سویر سے غسل اور وضو کر کے حج کا احرام باندھ کر دو رکعت نماز پڑھو اور اگر قران و افراد کا احرام باندھا ہے تو پہلے کا احرام باقی ہے دوبارہ احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے اب آپ اپنے معلم کے ساتھ ضروری سامان لے کر لبیک پکارتے ہوئے منی کی طرف چلو، منی میں آ کر جہاں آپ کے معلم نے ٹھہرنے کا
……………………
[1] مسند طيالسي: ص:61، رقم الحديث: 457۔ و بیهقی 147/5۔
…………………….
انتظام کیا ہے وہاں ٹھہرو، جگہ حاصل کرنے کے لئے جھگڑا مت کرو، جہاں جو ٹھہر گیا وہ اس جگہ کا مستحق ہو گیا۔
منی میں
تین کام ہیں (1) ظہر، عصر، مغرب، عشاء، فجر کی نماز منی میں ادا کرنی۔
(4) ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو سورج لکھنے کے بعد منی سے عرفات کی طرف چلنا۔
(3) منی میں ظہر و عصر اور عشا، قصر کرو اور مغرب وفجر کو پوری پڑھو۔ ان پانچوں نمازوں کو مسجد خیف میں پڑھو۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سوار ہو کر منی تشریف لائے اور ظہر و عصر و مغرب و عشاء اور فجر کی نماز میں منی میں پڑھیں۔[1]
نویں کو عرفات جاؤ
نویں تاریخ کو جب آفتاب اچھی طرح نکل آئے اور پہاڑوں پر اس کی دھوپ چڑھ جائے تو منی سے عرفات کی حاضری کے لئے میدان عرفات کی طرف چلو۔
تہلیل و تسبیح و تکبیر اور تلبیہ کہتے ہوئے چلو۔ منی سے آگے چل کر مزدلفہ کا میدان آئے گا وہاں پہنچ کر سیدھے عرفات کو چلے چلو یہاں ٹھہرو نہیں۔
نمره
عرفات سے پہلے ایک میدان کا نام نمرہ ہے۔ یہاں پر ایک مسجد بنی ہوئی ہے جس کو مسجد آدم یا مسجد ابراہیم اور مسجد نمرہ بھی کہتے ہیں آپ طریق ضب سے آ کر اسی جگہ اترو خیمہ یا کوئی اور سایہ بنا کر اس کے نیچے تھوڑی دیر آرام کر لو۔ 7سل و وضو کر لو اور کچھ کھا پی لو اور سورج ڈھلتے ہی ظہر و عصر کی نماز ملا کر جماعت سے مسجد نمرہ میں ادا کرو پہلے یہاں خطبہ ہوگا اسے سنو! پھر نماز باجماعت ملا کر قصر پڑھو جیسا کہ آگے بیان آ رہا ہے پھر عرفات کو چلو زوال سے پہلے میدان عرفات میں جانا درست نہیں ہے بلکہ زوال تک نمرہ میں رہنا ضروری ہے اس زمانہ میں ناواقف لوگوں نے اس سنت کو چھوڑ دیا ہے اور زوال سے پہلے عرفات میں چلے جاتے ہیں۔
عرفات
یہ ایک کشادہ میدان ہے جس میں لاکھوں آدمی آسانی سے جمع ہو جاتے ہیں، مکہ مکرمہ سے تقریبًا پندرہ میل کے فاصلہ پر ہے اس جگہ پر حاجیوں کا آنا اور ٹھہرنا فرض ہے اور عرفہ میں وقوف کرنا یعنی ٹھہرنا حج کے
…………………………..
[1] صحیح مسلم: 1/ 395 كتاب الحج باب حجة النبي رقم الحديث: 2950۔
……………………………
رکنوں میں سے ایک رکن اعظم ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’حج عرفہ میں ٹھہرنا ہے۔ .‘‘[1]
جو عرفہ میں نہیں ٹھہرتا اس کا حج نہیں ہو گا آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو کیونکہ تم سب اپنے باپ حضرت ابراہیم کی مورثہ زمین پر ہو۔[2]
اس مبارک میدان میں تم اپنے گناہوں کا اقرار کرو اور اپنے نفس کو میدان حشر سے آشنا کراؤ اس لئے اس کا نام عرفات پڑا ہے کہ دنیا کے سب حاجی اس میدان میں جمع ہو کر ایک دوسرے کی جان پہچان حاصل کرتے ہیں اور اس حالت کو حشر کا نمونہ سمجھ کر اس موقف اکبر میں کھڑے ہونے کی استعداد پیدا کرتے ہیں۔
یوم عرفہ اور میدان عرفہ کی فضیلت
عرفہ یعنی ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی بڑی فضیلت ہے۔
یہاں پر آپ خدا کے مہمان ہوں گئے اور خدا میزبان ہوگا یہاں کی حاضری سے اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے آپ کی تعریف فرماتا ہے آپ کے قصوروں کو معاف فرماتا ہے آپ پر رحمت خداوندی کی بارش ہوتی ہے خدا کی رحمت آپ کو گھیر لیتی ہے اور شیطان کو بڑا صدمہ ہوتا ہے۔
یہاں کی گھڑیوں کو ضائع نہ کیجئے یہاں پر نہایت خشوع و خضوع، تضرع و عاجزی فروتنی و انکساری اور خاکساری سے دعائیں کیجئے دین و دنیا کی بھلائیاں طلب کیجئے خوب رورو کر اپنے گناہوں کی معافی چاہئے خوب توبہ و استغفار کیجئے۔ باوضو قبلہ رو کھڑے ہو کر دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ وزاری کیجئے میدان حشر کی تکالیف، قبر کی پریشانیوں، دوزخ کے عذاب اور پل صراط وغیرہ کو یاد کر کے خوب روئیے ان ہولناک جگہوں سے نجات پانے کی دعا میں مانگئے، تسبیح و تہلیل، تکبیر اور درود و دعا اور ذکر واذکار سے غفلت نہ کیجئے، چند منٹوں کی تکلیف برداشت کرنے سے ہمیشہ کی تکلیفوں سے نجات پاؤ گے، اپنے لئے، اپنے ماں باپ، دوست و احباب، استاد پیر و مرشد اور دیگر مسلمانوں کے لئے خوب دعا میں کیجئے زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک دعاؤں کا وقت ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی اپنے مطلب کے موافق دعائیں مانگیں تب بھی جائز ہے۔ اپنی مادری زبان میں سیدھے سادے لفظوں میں چپکے چپکے مانگو۔ ریاو نمود سے بچو جو مانگو اخلاص اور حضوری قلب سے مانگو، برابر
……………………
[1]طبراني الأوسط: 163/7 رقم الحديث: 6298۔
[2] سنن ابی داود: 134/2 کتاب المناسك باب موضع الوقوف بعرفة رقم الحديث: 1911۔
……………………..
توبہ و استغفار کرو حمد وثناء سے شروع کرو درود و سلام پر ختم کرو۔ دعا کیلئے اس دن سے بہتر اور کوئی دن نہیں ہے جتنی بڑی چھوٹی دعائیں ہیں سب مانگ لو یا تو سب ہی قبول ہوں گی یا بعض آخرت کیلئے ذخیرہ ہوں گی۔ جتنا رویا جائے رؤو اگر رویا نہ جائے تو رونے کی شکل بنا لو، جتنے ہی آنسو بہاؤ گے اتنا ہی دوزخ کی آگ سرد ہو گی۔ اپنے آنسوؤں سے دوزخ کی آگ بجھاؤ۔ یہ بہت بڑا اجتماع ہے دنیا کے اطراف سے خدا کے نیک بندے یہاں جمع ہیں کوئی ان میں ولی ہو گا کوئی مستجاب الدعوات ہوگا کوئی خدا کا محبوب ہوگا ان نیک بندوں کی وجہ سے ہم گنہ گاروں کی دعائیں قبول ہوں گی۔ حدیث میں ارشاد ہے: (هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ).[1]
’’ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے ہیں، یہ محروم اور بد قسمت نہیں ہوں گے۔‘‘
اگر بخشے ز ہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔
بہر حال اس میدان میں خوب مانگ لو، دین و دنیا کی بھلائی سب ہی کچھ طلب کر لو اس سے بہتر کون سا وقت آئے گا یہاں نصیب والے آتے ہیں اور نصیب والے مانگتے ہیں اس وقت کے نکل جانے کے بعد کف افسوس ملنا پڑے گا۔
جب تک عرفات میں رہو، ذکر الٰہی میں مصروف رہو ادھر ادھر سیر و تفریح اور تماشا اور مجمع واز دحام کا منظر دیکھتے دیکھتے وقت ضائع مت کرو عرفات میں جہاں کہیں جگہ مل جائے وہیں ٹھہر جاؤ لیکن کالے کالے پتھروں کے پاس وقوف کرنا سنت ہے رسول اللہﷺنے اس جگہ وقوف فرمایا تھا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی قصواء، اونٹنی کو صخرات کے پاس ٹھہرایا تھا۔ اور قبلہ کی طرف منہ کیا تھا۔[2]
بطن عرنہ میں وقوف نہ کرو کیونکہ وادی عرنہ عرفات سے خارج ہے اور حدود حرم اور عرفات کے درمیان واقع ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ وَ ارْفَعُوا عَنْ بَطْنٍ عُرْنَةً)[3]
’’تمام عرفات کا حصہ موقف ہے لیکن وادی عرفہ سے الگ رہو۔‘‘
بہر کیف اس میدان میں وضو کر کے تسبیح و تہلیل، تکبیر و تحمید اور تمجید، تلبیہ درود و سلام، قراءت قرآن مجید
…………………………..
[1] صحیح بخاري: 948/2 کتاب الدعوات باب فضل ذكر الله عز و جل رقم الحديث: 6408
[2] صحیح مسلم: 395؍1 كتاب الحج باب حجة النبيﷺ رقم الحديث: 2950۔
[3] ابن ماجه كتاب الحج باب الموقف بعرفات رقم الحديث: 3012۔
………………………………
توبہ و استغفار اور ذکر میں مصروف رہو دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرو حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول ﷺ کے ساتھ عرفات میں تھا۔
(فَرَفَعَ يَدَيْهِ يَدْعُو)[1]
’’آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔‘‘
حیض و نفاس والی عورتیں بھی وضو کر کے دعا استغفار اور ذکر میں مشغول رہیں۔ حتی الامکان عرفات میں کھڑے کھڑے دعائیں کرو، یا اگر کوئی معقول عذر ہو تو بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یا اونٹ وغیرہ کی سواری پر بیٹھ کر بھی ذکر کرنا جائز ہے بلکہ یہ افضل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ پر سوار ہو کر وقوف فرمایا: عرفات میں پڑھنے کی بہت سی دعائیں ہیں جو اسلامی وظائف میں لکھی ہوئی ہیں۔ اسے دیکھ کر پڑھو۔
عرفات سے واپسی
ظہر کے بعد سے غروب آفتاب تک میدان عرفات میں وقوف اور ذکر و دعا وغیرہ سے فارغ ہو کر سورج چھپ جانے کے بعد مزدلفہ کی طرف چلو غروب سے پہلے مت چلو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ عرفات کے میدان سے آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے چل پڑتے تھے۔ جب سورج لوگوں کے سامنے چمکتا رہتا چل پڑتے تھے ہم میدان عرفات سے غروب آفتاب کے بعد چلیں گئے اور مزدلفہ سے طلوع آفتاب سے پہلے واپس ہوں گے ہم مشرکین اور بت پرستوں کے غلط راستے کے خلاف صحیح راستہ کی طرف راہنمائی کئے گئے ہیں۔[2]
عرفات سے مزدالفہ کو لبیک اور ذکر الہی کرتے ہوئے نہایت سکون اور وقار اور اطمینان کے ساتھ درمیانی رفتار سے چلو، کسی کو دھکا دو نہ گراؤ اور نہ سواریوں کو مارو پیٹو۔ رسول اللہﷺ جب عرفات سے مزدلفہ جانے لگے تو راستہ میں اپنے پیچھے لوگوں سے سنا کہ لوگ اونٹوں کو مار پیٹ کر تیز چلاتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا لوگو! اطمینان سے چلو اونٹوں کے دوڑانے میں کوئی بھلائی نہیں۔[3]
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب عرفات سے چلتے اور کشاد و میدان میں آتے تو سواری تیز کر دیتے۔ چلتے چلتے اگر راستے میں پیشاب پاخانہ کی ضرورت پیش آجائے تو اتر کر ضرورتوں کو پورا کر لو راست۔ میں
……………………..
[1] سنن نسائی: 39/2 كتاب مناسك الحج باب رفع اليدين في الدعا رقم الحديث: 3014۔
[2] امام شافعی نے اس کو مسند (ترتیب (1/ 355 رقم الحدیث: 917،916، میں ابن ابی شیبہ ہم سے روایت کیا ہے۔
[3]صحیح بخاري: 227/1 کتاب الحج باب امر النبيﷺ بالسكينة عند الإفاضة….. رقم الحديث
1671.
[4] بخاري: 226/1 کتاب الحج باب السير اذا دفع من عرفة رقم الحديث: 1266۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز میں مت پڑھو بلکہ مزدلفہ پہنچ کر نماز ادا کرو۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عرفات سے تشریف لے جا رہے تھے راستہ میں اتر کر پیشاب کر کے وضو کیا میں نے عرض کیا نماز پڑھئے گا۔ آپﷺ نے فرمایا نماز آگے پڑھیں گے ۔ مزدلفہ میں آکر آپﷺ نے مغرب و عشاء کی نماز ادا فرمائی۔[1]
راستہ میں ذکر الہی کرتے ہوئے آؤ۔
مزدلفہ
منی و عرفات کے درمیان تقریبًا آدھے راستہ پر مزدلفہ واقع ہے جو حد حرم میں داخل ہے یہاں زمانہ جاہلیت کے لوگ اپنے باپ دادوں کے کارنامے بیان کرتے تھے اس کو مشعر الحرام بھی کہا جاتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿فَإِذَا أَفَضْهُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ﴾ (البقرة: 198)
’’جب تم عرفات سے واپس ہو تو اللہ تعالی کو مشعر الحرام کے پاس یاد کرو اور جس طرح اس نے تمہیں بتایا ہے اسی طرح یاد کر واور اس سے پہلے تم ناواقف تھے۔‘‘
اللہ کی یاد د سے دونوں جہاں کی بھلایاں ملتی ہیں حج کے زمانہ میں یہاں بازار لگ جاتا ہے کھانے پینے اور ضرورت کی سب چیزیں مل جاتی ہیں مزدلفہ کو جمع اور مشعر الحرام بھی کہتے ہیں، مشعر الحرام کے پہاڑ کو جبل قزح کہتے ہیں۔
مزدلفہ میں نماز
مزدلفہ میں پہنچ کر جہاں جگہ مل جائے وہیں ٹھہر جاؤ سب سے پہلے اذان و تکبیر کہلوا کر پہلے مغرب کی نماز باجماعت ادا کرو پھر دوسری اقامت کے بعد عشاء کی نماز قصر کر کے جماعت سے پڑھو یہاں ان دونوں نمازوں کو جمع کر کے پڑھو:
[أَتَى مُزْدَلِفَةً وَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَّاحِدٍ وَاقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُسَبِّحُ بَيْنَهُمَا شَيْئًا الخ)[2]
رسول الله ﷺ مزدلفہ میں تشریف لائے اور ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ مغرب و عشاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: 226/1 كتاب الحج باب النزول بين عرفه و جمع رقم الحديث: 1667۔
[2] صحیح مسلم: 1/ 398 کتاب الحج باب حجة النبي ﷺ رقم الحديث: 2950۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی نماز ادا فرمائی اور ان کے درمیان کچھ نہیں پڑھا۔
لہذا آگے پیچھے سنتیں مت پڑھو وتر چاہے اس وقت پڑھو یا تہجد کے وقت پڑھو مزدلفہ میں رات گزارنی ضروری ہے جہاں جگہ پاؤ وہیں ٹھہر جاؤ البتہ عام راستوں اور وادی محسر میں مت ٹھہر ورات کو جہاں تک ہو سکے خوب دعائیں اور ذکر الہی کرو اس جگہ دعا قبول ہوتی ہے۔
مزدلفہ کی شب باشی
مزدلفہ میں رات گزارنی ضروری ہے البتہ عورتوں، کمزوروں اور بچوں کے لئے رخصت ہے کہ وہ آخر شب کو کچھ دیر تک مشعر الحرام کے پاس ذکر الہی اور دعا کر کے منی کو چلے جائیں، منی پہنچ کر آفتاب نکلنے کے بعد رمی کر کے احرام کھول دیں غذر کے سبب عورتیں طلوع آفتاب سے قبل صبح کے وقت رمی کر سکتیں ہیں۔[1]
رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہ اور دیگر بچوں کو رات ہی میں آنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ شب باشی کے بعد مزدلفہ میں فجر کی نماز اول وقت اذان واقامت کے ساتھ باجماعت ادا کرو اور مشعر الحرام کے پاس ذکر الہی میں مشغول ہو جاؤ۔ [3].
مشعر الحرام کے پاس سواری پر یا بغیر سواری کے قبلہ رخ کھڑے ہو کر ذکر الہی کرو خدا کی وحدانیت بیان کرو اور خوب اجالا ہونے تک تکبیریں اور تسبیحیں پڑھتے رہو (لا إله إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير ) پڑھتے رہو مزدلفہ سے سورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے بیک پکارتے ہوئے نہایت سکون و اطمینان سے چلو سورج نکلنے کے بعد چلنا خلاف سنت ہے مشرکین سورج نکلننے کے بعد چلتے تھے رسول اللهﷺ نے ان کے خلاف کیا۔[4]
وادی محسر
مزدلفہ اور منی کے درمیانی راستے میں ایک محسر نامی میدان آتا ہے۔ اس جگہ سے بہت جلدی چلے جاؤ ابرہہ ظالم بادشاہ کو جو بیت اللہ شریف کو گرانے کے ارادے سے آ رہا تھا خدا کے حکم سے چڑیوں نے چونچ میں کنکریاں لے کر اس پر اس کے لشکر پر پھینک پھینک کر اسی جگہ ہلاک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[] بخاري: 227؍1 کتاب الحج باب من قدم ضعفة الهمله بليل فيقفون …. رقم 1679۔
[2] بخاري: 228/1 کتاب الحج باب من قدم ضعفة اهله بليل فيقعون ….. رقم 1980۔
[3] مسلم: 398؍1 كتاب الحج باب حجة النبىﷺ رقم الحديث: 2950۔
[4] مسند شافعی: 355/1 رقم الحديث: 916۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کر دیا تھا جیسا کہ پورا واقعہ قرآن میں سورۂ فیل میں ہے۔ وادی محسر سے تھوڑا سا آگے ایک کشادہ میدان ہے۔ یہاں سے متفرق راستے نکلتے ہیں تم بیچ کے راستے میں لبیک پکارتے اور اللہ اکبر کہتے ہوئے سیدھے جمرہ عقبہ پر آؤ سب سے آخر میں بیت اللہ کی طرف ایک منارہ ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ یہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
(أَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَشَرٍ وَأَمَرَ هُمْ أَنْ يَرْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ).[1]
’’ وادی محسر میں سواری کو تیز کر دیا تھا اور سب کو ٹھیکری کے برابر کنکری پھینکنے کا حکم دیا تھا۔‘‘
ذی الحجہ کی دسویں تاریخ
ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو مزدلفہ سے منی میں پہنچ کر رمی، ذبح اور حلق کر کے مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ کرو۔
رمی جمار
رمی کے معنی کنکری پھینکنے کے ہیں جمار اور جمرات جمرہ کی جمع ہے جمرہ کنکری کو کہتے ہیں کیونکہ جمرہ عقبی وسطی اولی پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اس لئے مجازاً ان کو جمعرات یا جمار کہتے ہیں، منی کے بیچ کے راستے میں یہ تین جگہیں ہیں، پتھروں کے یہ تین ستون بقدر قد آدم اونچے بنے ہوئے ہیں ان تینوں کو جمرات یا جمار کہتے ہیں الگ الگ ہر ایک کو جمرہ بولتے ہیں ان میں سے جو مکہ مکرمہ کی طرف ہے اس کو جمرۃ العقبہ اور جمرة الکبری اور جمرۃ الاخری اور بیچ والے کو جمرة الوسطی کہتے ہیں اور تیسرے کو جو مسجد خیف کے قریب ہے جمرة الاولی کہتے ہیں۔
دسویں تاریخ کو صرف جمرہ اخری کی رمی ہوتی ہے اور جمرہ عقبی اور جمرہ اولی کی نہیں ہوتی۔ منی میں بقر عید کی نماز نہیں پڑھی جاتی جمرہ عقبی کی رمی کرنا عید کی دو رکعت نماز کے قائم مقام سمجھو کنکری مارنے کا وقت دس ذو الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک ہے۔ مجبواً زوال کے بعد بھی جائز ہے رسول اللہ ﷺ نے دسویں تاریخ کو جمرہ عقبی پر چاشت کے وقت کنکریاں ماری تھیں۔ بعد کی تاریخوں میں زوال آفتاب کے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]مسند احمد: 67،232/3 و ترمذي: 101/2 کتاب الحج باب ما جاء ان الجمار التي يرمى بها مثل حصى الخذف رقم الحديث: 897۔
[2]بخاري: 235/1 كتاب الحج رمى الجمار (التعليقا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی کنکری پر لبیک موقوف کر دو ہر کنکری مارتے ہوئے اللہ اکبر کہو۔ (بخاري شریف)
جمرہ عقبی پر کنکری مارنے کے بعد منی کے میدان میں امام الحج خطبہ دے گا توحید و سنت یوم اخر کے فضائل اور قربانی کے مسائل و فضائل کو اور حج کے دیگر احکامات کو بیان کرے گا تم اس خطبے کو سننے کے لئے ضرور جاؤ اور نہایت خاموشی سے خطبہ سننا خواہ تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمی جمار کے بعد ایک بلیغ اور موثر خطبہ دیا تھا۔ رمی جمار اور خطبہ سننے کے بعد قربانی کی جگہ قربانی کرو اگر آپ قارن و متمتع ہیں تو قربانی ضروری ہے۔ قربانی سے فارغ ہونے کے بعد حجامت کر لو۔ سر کے منڈانے کو حلق اور کترانے کو قصر کہتے ہیں دونوں جائز ہیں، لیکن منڈانا افضل ہے رسول اللہﷺ نے اس موقع پر سر منڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ دعائے رحمت فرمائی ہے اور کترانے والوں کے حق میں صرف ایک دفعہ دعا کیا۔[1]
رمی قربانی اور حجامت وغیرہ سے فارغ ہو کر طواف افاضہ کے لئے مکہ مکرمہ جاؤ اور باب بنی شیبہ سے داخل ہو کر سیدھے حجر اسود پر آؤ حجر اسود کی دعا پڑھ کر اس کا استلام کر لو یعنی بوسہ لوا گر آسانی سے ممکن نہ ہو تو ہاتھ لگاؤ اور ہاتھ کو بوسہ دو ورنہ اشارہ کرو اور آگے چل دو۔ پھر طواف کی دعائیں پڑھتے ہوئے بدستور سابق طواف کرو سات پھیرے پورے کر کے دو رکعت نماز طواف کی مقام ابراہیم پر پڑ ھو۔ اگر تم متمتع ہو تو نماز کے بعد صفا و مروہ کی سعی کے لئے بطریق مذکور سعی کراؤ کیونکہ متمتع پر طواف افاضہ کے بعد سعی لازم ہے اور اگر تم قارن یا مفرد ہو، اور شروع میں طواف قدوم کے بعد صفا و مروہ کی سعی کر چکے ہو تو اب بالاتفاق ائمہ صفا و مروہ کی سعی ضروری نہیں ہے اور طواف افاضہ میں رمل اور اضطباع بھی نہ کرو اس لئے کہ حلق اور ذبح کے بعد احرام کھول چکے ہو یہ طواف افاضہ جس کو طواف زیارت بھی کہتے ہیں فرض ہے اور حج کا ایک رکن ہے بغیر اس کے حج پورا نہیں ہوتا۔ طواف زیارت کے بعد مکہ مکرمہ سے منیٰ واپس چلے جاؤ اور تین روز تک یعنی گیارہ بارہ، تیرہ کی تاریخ تک منی میں رہو، وہاں قربانی کرو اور جمرات کو کنکریاں مارو گیارہ سے تیرہ تاریخ تک ایام تشریق کہلاتے ہیں ان کی بڑی فضیلت آئی ہے ان دنوں میں روزانہ منی میں زوال کے بعد ظہر کی نماز سے پہلے کنکریاں ماری جاتی ہیں اس لئے تیرہ تاریخ تک منی میں قیام کرو اور ہر دن کنکری مارو اور اگر کوئی مجبوری پیش آجائے تو دو روز کی کنکریاں ایک ہی روز میں مار کر آ سکتے ہو یعنی گیارہ بارہ کی اکٹھی چودہ چودہ کنکریاں مار کر جا سکتے ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]بخاري: 233/1 کتاب الحج باب الحلق والتقصير عند الاحلال رقم الحديث: 1728۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر تیرھویں تاریخ کو مکہ میں واپس آ جاؤ، اب آپ کے حج کے افعال پورے ہو گئے جب تک مکہ مکرمہ میں رہنا ہو نفلی طواف وغیرہ کثرت سے کرتے رہو اور ادھر ادھر بے کار تفریح مت کرو اور نہ کسی کی غیبت چغلی کرو اللہ تعالی آپ کے حج کو قبول فرما کر نجات کا ذریعہ بنائے (آمین)
حج کے بعد
اب حج کے پہلے کے ایمان سے زیادہ ایمانی شوق و جذبہ رکھو اور حج کی نیکیوں کو بچاؤ تقوی و پرہیز گاری میں زیادہ سے زیادہ حصہ لو حج کے فائدے سے خوب واقف ہو گئے ہو ان فائدوں کو حاصل کرو ﴿ليَشْهَدُوا منافع لهم﴾ جس طرح آپ حج میں احکام شرعیہ پر پورے کار بندر ہے حج کے بعد بھی اس سے زیادہ کار بندر جو حج مبرور اور مقبول کی علامت یہی ہے کہ حج کے بعد اخلاقی اور ایمانی اور دینی کاموں کا بہت زیادہ شوق ہو نیکیوں سے رغبت ہو برائیوں سے نفرت ہوا اعمال صالحہ کا زیادہ اہتمام رکھو ہر کام سنت کے مطابق کر و شرک و بدعت سے بچتے رہو گناہ کرنا تو بہت دشوار جانو بلکہ گناہ کا ارادہ بھی نہ کرو۔ اللہ تعالی ہم کو آپ کو اور سب مسلمانوں کو دین کی بھلائی آخرت کی کامیابی اور دنیا کی خوشحالی عطا فرمائے۔ آمین
(بَارَكَ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَنَفَعْنَا وَإِیَّا كُمْ بِالْآيَاتِ وَالذِّكْرِالحكيم) (امین)