سود
قرض کی رقم سے زیادہ لینے کو سود کہتے ہیں جیسے کسی کو سو روپے قرض میں دیئے اور کہا ایک سو پچیس روپیہ لوں گا اس کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں۔ یہ سود لینا دینا حرام ہے اس کی قرآن مجید میں بڑی برائی آئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰی فَلَهٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَی اللّٰهِ ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۲۷۵﴾ (البقرة: (275)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن کھڑے نہ ہوں گے مگر اس شخص کی طرح جس کو شیطان نے لپیٹ کر مخبوط الحواس کر دیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی سود کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے پس جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی ہے۔ اور وہ سود خواری سے باز رہا تو اس کا ہے جو کچھ لے چکا ہے اور اس کا معاملہ اللہ تعالی کے حوالے ہے۔ اور جن لوگوں نے پھر سو دلیا وہ دوزخی ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
نیز اللہ تعالی دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ۲۷۶ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۲۷۷ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۲۷۸ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ۲۷۹﴾ (البقرة: 276 تا 279)
’’اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالی کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا جو لوگ ایمان لے آئے اور اچھے کام کئے اور ٹھیک ٹھیک نماز پڑھی۔ اور زکوۃ ادا کی انھیں اس کا ثواب اللہ کے رب کے یہاں ہے اور نہ انہیں کچھ ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر اہل ایمان میں سے ہو تو جو سود رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اور اگر ایسا نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ اگر تم تو بہ کرلو تو اصل قیمتیں تمہاری ہیں ۔ یہ تم کسی کا نقصان کرو اور نہ کوئی تمہارا نقصان کرے۔‘‘
ان آیتوں کا مطلب بالکل صاف ہے کہ سود لینا اور کھانا حرام ہے۔ سود خور قیامت کے دن پاگلوں کی طرح گرتے پڑتے نظر آئیں گے دنیا میں ان کو ہر بادی اور آخرت میں جنم کی مار ہے۔
سورہ آل عمران میں فرمایا
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۱۳۰﴾ (سوره آل عمران: 130)
’’اے ایمان والو! سود مت کھاؤ۔ دونے پر دونا اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم اپنی مرضی کو پہنچ جاؤ۔‘‘
جاہلیت کے زمانے میں لوگ ایک مدت مقررہ کے اندر ادا کرنے کی شرط پر کچھ روپیہ سود پر قرض دیتے تھے اور ادا نہ ہونے کی صورت میں سود کو اصل رقم میں ملا کر سب پر سود قائم کر دیتے۔ اسی طرح سود در سود قائم کر کے تمام زمین و جائیداد پر قبضہ کر لیتے تھے۔ خصوصیت سے اسکی ممانعت میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ رسول ﷺ نے سود کی بڑی مذمت بیان فرمائی ہے۔ اور اس کو موبقات و مہلکات میں سے ٹھہرایا ہے۔ سود خور دنیا و آخرت میں برباد ہوگا ۔ پینے اور کھانے والے اور اس کا کاروبار کرنے والے ملعون ہیں۔
سود خور خون کی نہر میں سزا پائے گا۔ معراج والی حدیث میں آپﷺ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو خون کی نہر میں دیکھا اور ایک آدمی اس نہر کے کنارے پتھر لئے کھڑا ہے جب نہر والا شخص باہر لکھنا چاہتا ہے تو یہ پتھر اٹھا کر اس کے منہ پر مارتا ہے۔ وہ چیختا ہوا اپنی جگہ پر چلا جاتا ہے۔ دریافت کیا کہ یہ کون ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ سود خور ہے۔[2]
جو دنیا میں سودی کاروبار کر کے لوگو کا خون چوستا تھا آج وہ اسی خون کی نہر میں غوطہ زن ہے۔
عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(دِرْهُمْ رِبَا يَاكُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلَاثِينَ زِنْيَةٍ)[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب المساقاة باب لعن أكل الربا وموكله.
[2] بخاري: کتاب البیوع باب أكل الربا و شاهده و کاتبه 2085)
[3] طبرانی کبیر۔ مسند احمد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جان بوجھ کر ایک درہم سود کھا لینا چھتیس بار زنا کرنے سے بڑا گناہ ہے۔‘‘ بہر حال سود کے پیسے کی بڑی برائی ہے جو لوگ ڈاک خانہ اور بینک میں روپیہ جمع کرا کے اس کا سود لیتے ہیں انھیں اس کا خیال کرنا چاہیے اسی طرح جوا، سٹہ لاٹری، بیمہ، معمہ اور دلالی وغیرہ کے ذریعہ روپیہ لینا دینا حرام ہے۔ کیونکہ یہ سب اعمال شیطانی ہیں اور ان سب کی کمائی حرام کی کمائی ہے۔ اگر کوئی قرض دے یا کسی کی سفارش کر دے تو اس کے بدلہ میں ہدیہ تحفہ بھی قبول نہیں کرنا چاہئے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
تاریخ کبیر للبخاري میں ہے:
(إِذا أَقْرَضَ الرَّجُلَ فَلَا يَأْخُذُ هَدِيَّةً)[1]
’’جب کوئی آدمی کسی کو قرض دے تو اس کا ہدیہ نہ لے۔‘‘
کیونکہ سود ہو جانے کا احتمال ہے اور نہ سفارش کرنے کا تحفہ لینا چاہئے وہ بھی سود کے حکم میں ہے۔
رسول اللهﷺ نے فرمایا:
(مَنْ شَفَعَ شَفَاعَةٌ فَاهْدٰى هَدِيَّةٌ فَقَبِلَها فَقَدْ أَتَى بَابًا عَظِيمًا مِنْ أَبْوَابِ الرِّبٰو)[2]
’’جس نے سفارش کر دی اور اس نے ہدیہ دیا پھر اس نے قبول کر لیا تو وہ سود کے ایک بڑے دروازے پر پہنچ گیا۔‘‘
دھوکہ سے روزی حاصل کرنا
مکر و فریب اور جھوٹ سے اور اصلی چیز میں نقلی ملا کر فروخت کر کے روزی کمانا سخت گناہ ہے اور ایسا کرنے والا مسلمان نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا)[3]
’’جو ہم کو غریب دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
ایک واقعہ
ایک مرتبہ ایک بازار میں آپ تشریف لے گئے غلہ کی منڈی میں دیکھا کہ غلہ فروخت ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] تاريخ الكبير للبخاري، مشكوة (2832) باب الربا
[2] ابو داود، كتاب الاجارة باب في الهبة القضاء الحاجة: (316/3)
[3] مسلم کتاب الايمان باب قول النبيﷺ من غشنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا کہ اس غلے کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھئے آپ نے ہاتھ ڈال کر دیکھا تو نیچے کا غلہ گیلا تھا۔ اور اوپر کا سوکھا۔ آپﷺ نے فرمایا:
(مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ)[1]
’’غلے والے کیا معاملہ ہے۔؟‘‘ اس نے کہا، بارش سے یہ غلہ بھیگ گیا تھا اوپر سے یہ خشک ڈال دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: گیلا اوپر رکھ دیتا اور سوکھا نیچے رکھتا تاکہ سب لوگ دیکھ لیتے ایسا کرنا دھوکہ دینا ہے۔ اور جو دھوکہ دے گا وہ کامل مسلمان نہیں ہے۔ مسلمان دھوکہ نہیں دیتا ہے۔
ایک روایت میں آپﷺ نے فرمایا:
(مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا وَالْمَكْرُ وَالْخَدْعُ فِي النَّارِ)[2]
دھوکہ باز ہم لوگوں میں سے نہیں ہے۔ دھوکا غریب جہنم میں لے جاتا ہے۔‘‘
اور آپﷺ نے ایک صحابی کو نصیحت فرمائی تھی کہ جب سودا بیچو تو فَقُلْ لَّا خِلابَة[3] کہہ دیا کرو ’’کہ دھوکہ بازی نہیں ہے‘‘ اور نہ ہمیں کوئی فریب و نقصان دے اور نہ ہم کسی کو دھوکہ دیں جیسا کہ دوسری حدیث میں فرمایا:
(بَيْعُ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ)[4] ’’پیچنا مسلمان کا مسلمان سے ہے۔‘‘
یعنی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دھوکہ نہیں دیتا ہے۔
دین تو سراسر خیر خواہی کا نام ہے۔ اس معنی کی یہ حدیث رسول اللہﷺ نے بیان فرمائی ہے۔
(الدِّينُ النَّصِيحَة)[5] ’’مخلص ہونا ہی دین ہے‘‘
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک واقعہ فتح الباری میں لکھا ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم کتاب الايمان باب قول النبيﷺ من غشنا…….
[2] طبرانی کبیر 10/ 138 (10234)
[3] بخاري: کتاب البیوع باب ما يكره من الخداع في البيع
[4] بخاري (تعليقا) كتاب البيوع، باب اذا بين البيعان۔
[5] بخاري (تعلیقا) كتاب الإيمان باب قول النبيﷺ الدين النصيحة۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے نظام نے تین سوروپے میں ایک گھوڑا خریدا جب حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس گھوڑے کو دیکھا تو بائع سے کہا کہ تمہارا گھوڑا تین سو سے بہتر ہے قیمت میں اضافہ فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ آٹھ سو روپے عنایت فرمائے۔
یہ ہے سچی ہمدردی اور سچی تجارت میں برکت ہی برکت ہے اس کے فائدے بہت ہیں اس سلسلے کی چند باتیں بیان کی جاتی ہیں تاکہ ہر سود اگر اس پر غور کرے مگر فوائد و برکات بیان کرنے سے پہلے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تجارت کی اہمیت بھی بیان کر دوں۔
تجارت کی اہمیت
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جہاں دیگر اقتصادی اور معاشی چیزوں کو فراموش نہیں فرمایا۔ وہاں تجارت کے مسئلے کو بھی فروگزاشت نہیں کیا بلکہ نہایت اہتمام اور تاکید سے تجارت پر متعدد جگہ زور دیا ہے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿احَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰو) (سورة بقره: 275)
’’اللہ تعالی نے تجارت کو حلال کیا اور سودی کاروبار کو حرام کیا۔‘‘
نیز سورۂ نساء میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ﴾ (سوره نساء: 29)
’’اے ایمان والو! تم آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ آپس کی رضا مندی سے تجارت ہو۔‘‘
اور تجارت کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ بھی فرمایا:
﴿ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۱﴾ (جمعة (10)
’’نماز پڑھ کر زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل یعنی روزی تلاش کرو۔‘‘
اور یہ بھی فرمایا:
﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ﴾ (بقرة: 198)
’’تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اگر تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔‘‘
غرض قرآن مجید نے تجارت کو فضل اور بزرگی سے تعبیر کیا ہے۔ اس لئے تجارت کرنیوالے فاضل اور بزرگ ٹھہرے پہلے زمانے کے مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اور تجارت ہی کے ذریعے سے دنیا پر چھا گئے۔ اس زمانہ میں بھی تاجر ہی سب جگہ چھائے ہوئے نظر آتے ہیں چند تاجرین کرام کا بیان بطور نصیحت ذکر کیا جاتا ہے
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تجارت
اکثر صحابه کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا پیشہ تجارت تھا اور ان کو تجارت کے معاملہ میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بہت بڑے تاجر تھے۔ تجارتی کا روبار میں مشغول رہنے کی وجہ سے دربار رسالت میں زیادہ تر نشست و برخاست کا موقع نہیں پاتے تھے۔ اس لئے حدیثیں ان سے بہت کم مروی ہیں اس کا انہیں خود اعتراف ہے چنانچہ فرماتے ہیں: (أَخْفَى عَلَى هَذَا مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْهَانِي الصَّفَقُ بالاسواق)[1]
رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں مجھ سے اس وجہ سے مخفی رہ گئیں کہ میں تجارتی کاروبار میں زیادہ مشغول رہتا تھا۔‘‘
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا تجارتی کاروبار اس قدر پھیلا ہوا تھا کہ دوسرے ملکوں کے بازاروں میں اس کی نکاسی ہوتی تھی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کپڑوں کی تجارت کرتے تھے خود فرماتے ہیں:
(لقَدْ عَلِمَ قَوْمِي أَنَّ حِرْفَنِي لَمْ تَكُنْ تَعْجِرُ عَنْ مَؤْنَهُ أَهْلِي)[2]
’’میری قوم خوب جانتی ہے کہ میرا کاروبار میرے اہل وعیال کی کفالت سے عاجز نہیں ہے۔‘‘
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بہت بڑے سوداگر تھے۔ اسلام لانے سے پہلے مکہ میں تجارت کرتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی تجارتی کاروبار شروع کیا۔ اس سے ان کو بہت فائدہ ہوا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہﷺ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ اور سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ کو بھائی بھائی بنایا تو حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ مالدار تھے۔ انہوں نے عبد الرحمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا میں اپنے مال کا آدھا حصہ تم کو دیتا ہوں تمہیں ہر طرح کے تصرف کا حق ہے اس پر عبد الرحمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب البیوع باب خروج في التجارة (2062)
[2] بخاري: كتاب البيوع، باب ب الرجل و عماله بیده (2070)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بَارَكَ اللهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ)[1]
’’اللہ تعالی تمہارے مال واہل میں برکت دے تم مجھے بازار بتا دو۔‘‘
میں تجارت کر کے اپنے لئے روزی حاصل کرلوں گا۔ چنانچہ انہوں نے بازار میں سودا بیچنا شروع کیا جس سے ان کو تھوڑے ہی عرصہ میں اتنا فائدہ ہوا کہ وہ دوسروں سے بے نیاز ہو گئے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ تجارت کیا کرتے تھے آپ اپنے ایک تجارتی سفر میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر سنی آپ مشرف باسلام ہوئے اور مدینہ کو اپنا مسکن بنایا تو علادہ تجارت کے زراعت کا مشغلہ بھی جاری رکھا اس سے اس قدر ترقی ہوئی کہ ساڑھے تین ہزار روپے روزانہ آمدنی ہوتی تھی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء 2،3 صفحه 158)
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ذریعہ معاش تجارت ہی تھا اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے مال میں عجیب برکت عطا فرمائی کہ جب بھی آپ کسی کام میں ہاتھ ڈالتے تھے کامیابی ہی ہوتی تھی۔ (استیعاب جلد:1 صفحہ 2008)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اونٹوں کی تجارت کیا کرتے تھے اور انہیں فروخت کر کے روزی پیدا کرتے تھے۔
حضرت ارقم بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ بہت بڑے تاجر تھے۔
حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے اگرچہ خیبر میں جاگیر دی تھی لیکن ان کا اصلی ذریعہ معاش تجارت ہی تھا۔
غرض اکثر صحابه کرام تجارت کر کے اپنی روزی پیدا کرتے تھے کسی غیر کے احسان مند نہیں ہوتے تھے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المال سے مسلمانوں کا وظیفہ مقرر کرنا چاہا تو حضرت سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: (أَدِيْوَانٌ مِثْلُ دِيْوَانِ بَنِي الْأَصْفَرِ فَا كَلُوا عَلَى الدِّيوَانِ وَ تَرَكُوا التَّجَارَةَ )
’’کیا رومیوں کی طرح ہمارے نام بھی رجسٹروں میں درج ہوں گے اگر ان لوگوں کے وظیفے مقرر ہو گئے تو اس کے عادی ہو جائیں گے اور تجارت کو چھوڑ بیٹھیں گے۔‘‘
ائمہ عظام اور تجارت
علمائے امت اور بزرگان دین نے تجارت و زراعت اور صنعت و حرفت ہی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا تھا۔ کوئی لو ہار تھا کوئی بڑھتی تھا کوئی درزی تھا کوئی ہزار تھا کوئی موچی تھا کوئی جولاہا تھا اور کوئی کسان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب البيوع باب ماجاء في قول الله عز و جل فاذا قضيت… الخ (2049)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سراج الامة امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بھی تجارت کیا کرتے تھے۔ امام شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی تجارت دور دراز ملکوں تک پھیلی ہوئی تھی۔
مشہور محدث خالد الخذاء جوتے فروخت کرتے تھے امام قدوری برتنوں کی تجارت کرتے تھے امام ربیع اور علامہ کرخی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم بڑے بڑے تاجر تھے۔ اور بڑے بڑے بادشاہوں نے تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا تھا۔
ہندوستان کے مشہور بادشاہ سلطان ناصر الدین تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد قرآن مجید لکھتے تھے اور اس کے ذریعے گزر اوقات کرتے تھے۔
غرض اللہ کے نبیوں اور رسولوں نے تجارت کی۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین اور دیگر ائمہ دین نے تجارت ہی کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کی اشاعت کی۔
(وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَاسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلَكُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِينَ وَجَمِيعِ عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ )
………………………………………………..