عزیز واقارب کے حقوق
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ۳۶﴾ (نساء: 36)
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا کسی کو شریک نہ کرو، اور ماں باپ سے نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے دائیں ہاتھ ہیں یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ اور ماں باپ کے حقوق کے بعد درجہ بدرجہ قرابت داروں کا بھی حق ہے جس کی ادائیگی نہایت ضروری ہے قرابت والوں کے حق ادا کرنے کو صلہ رحمی بھی کہتے ہیں یعنی تعلقات کی وجہ سے آپس میں ملا جلا رہنا چاہیے، یہ میل جول انسانی برداری اور باہمی تعلقات و محبت اور امداد و تعاون کی اصلی گرہ، یہ اشتراک کہیں ہم عمری کہیں ہم مذہبی، کہیں ہمسائیگی کہیں ہم مذاتی، کہیں ہم پیشگی کہیں ہم وطنی، اور کہیں ہم قومی کی مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتا ہے۔
اس اشتراک کے عقد محبت کو استوار اور مضبوط رکھنے کے لئے جانبین پر حقوق کی نگہداشت اور فرائض محبت کی ادائیگی واجب ہے لیکن ان تمام اشتراکوں سے بڑھ کر وہ اشتراک ہے جس کا سبب رحم مادر ہے۔ یہ ہم رحمی خالق فطرت کی باندھی ہوئی گرہ ہے وہ متفرق انسانی ہستیوں کو خاص اپنے دست قدرت سے باندھ کر اس طرح ایک کر دیتاہے کہ اس کا حق توڑنا انسان کی قوت سے باہر ہے، اس کے حقوق کی نگہداشت بھی انسانوں کو سب سے زیادہ ضروری ہے، اس فطری گرہ کے توڑنے والوں کو فاسق اور گمراہ قرار
دیا گیا ہے۔
حقوق العباد میں حقوق قرابت کی اہمیت بہت زیادہ ہے قرآن مجید میں کم از کم بارہ آیتوں میں اس کی صریح تاکید ہے اور اس کو انسانوں کا احسان نہیں بلکہ اس کا فرض اور حق بتایا ہے اسی آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
﴿فَاٰتِ ذَالْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ﴾ (الروم: 38)
’’یعنی قرابت داروں کے حق دو اور مسکین و مسافروں کے حق کو بھی ادا کرو۔‘‘
اور سورہ روم میں بھی اس کا ذکر فرمایا۔
﴿فَاٰتِ ذَالْقُرْبَى حَقَّةَ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ذَالِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَمَا اٰتَيْتُمْ مِّنْ رَبَّا لِيَرُبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِنْدَ اللهِ وَمَا اٰتَيْتُم مِّنْ زَكٰوة تُرِيدُونَ وَجَهَ اللهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾ (الروم: 38، 39)
’’قرابت دار کو، مسکین کو، مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دو، یہ ان کے لئے بہتر ہے جو خدا کی رضا چاہتے ہوں، ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں، تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ اور جو کچھ صدقہ و زکوۃ تم خدا کی رضا مندی کی طلب کے لئے دو تو ایسے ہی لوگ ہیں اپنا دو چند کرنے والے۔‘‘
یعنی تم اپنے قرابت داروں، مسکین اور مسافر کے حق کو دے دیا کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے، دنیا و آخرت میں اس کا اچھا بدلہ پاؤ گے اور جو لوگ دنیا ہی میں زیادہ سے زیادہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے کسی کو سود پر دے دیا اور اس میں زیادہ پیسہ حاصل کیا یہ تو صرف حرام ہی ہے، اور اگر کسی کو اس نیت سے دیا کہ ہمارے دیئے ہوئے سے زیادہ دے، کسی کو اس نیت سے دیتا ہے کہ ہم کو اس سے زیادہ قیمتی ہدیہ بھیجے تو جائز تو ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں تو اب نہیں پائے گا چونکہ اس میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود نہیں ہے اور جو اللہ کی رضا مندی کے لئے دیتا ہے اس کو دنیا و آخرت میں دو گنا ثواب ملے گا۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی نے قرابت داروں کے حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ سورہ بقرہ میں اسی کا حکم دیا ہے، اور یہ فرمایا ہے کہ نیکی صرف نماز روزے میں منحصر نہیں بلکہ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کو کما حقہ ادا کرنے کا نام ہے۔ فرمایا:
﴿ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّكٰوةَ ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۱۷۷﴾ (البقرة: (177)
’’ساری بھلائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ در حقیقت بھلا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر، ایمان رکھنے والا ہے اور جو اس کی محبت میں مال خرچ کرے، قرابت داروں پر، یتیموں پر مسکینوں، مسافروں اور دوسرے سوال کرنے والوں کو دے غلاموں کو آزاد کرے، نماز میں پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تو پوار کرے، تنگ دستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی بچے لوگ ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔‘‘
ان آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں، تمام فرشتوں اور تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے، اور قرابت داروں کے حق کو بھی ادا کرنا فرض ہے، قرابت داروں کا مطلب ہر شخص سمجھتا ہے، جو نسبی رشتہ کے ساتھ منسلک ہو خواہ قریب کا ہو یا بعید کا۔ بعض لوگوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے یہ دریافت کیا تھا کہ ہم کیا خرچ کریں اور کس کو دیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یہ فرمایا:
﴿یَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۲۱۵﴾ (البقرة: 215)
’’تجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں تو کہہ دو کہ جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کے لئے ہے اور رشتہ داروں، یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالی کو اس کا علم ہے۔‘‘
اس آیت میں بھی قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم روز ازل ہی میں دیا جا چکا تھا جس کا ظہور دنیا میں اپنے اپنے وقت میں ہو رہا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ ۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ۸۳﴾ (البقره: 83)
’’اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ پکا وعدہ لے لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی طرح نرمی سے بات کرنا اور نماز پڑھتے رہنا اور زکوۃ دیتے رہنا پھر تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا باقی سب پھر گئے اور تم لوگ ہو ہی کچھ بے پرواہ کہ نصیحت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔‘‘
اور فرمایا: ﴿وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ﴾(الانفال: (41)
’’اور مسلمانو! جان رکھو کہ جو چیز تم لڑائی میں غنیمت حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ، خدا کا اور رسول کا اور رسول کے قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔‘‘
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْ ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ۷﴾ (الحشر: 7)
’’جو مال اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو ان بستیوں کے لوگوں سے بغیر جنگ کے مفت میں دلوا دے تو وہ اللہ کا حق ہے اور رسول کا اور رسول کے قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور ( بے تو شہ) مسافروں کا یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ جو لوگ تم میں سے مالدار ہیں یہ مال ان ہی میں چلتا پھرتا نہ ر ہے اور مسلمانو! جو چیز تم کو پیغمبر خدا دیدیں وہ لے لیا کرو اور جس چیز کے لینے سے تم کو منع کردیں اس سے دست کش رہو اور خدا کے غضب سے ڈرتے رہو، کیونکہ خدا کی مار بڑی سخت ہے۔‘‘
سور نحل میں اہل قرابت کی امداد کو عدل و احسان کے بعد تیسرا حکم بتایا:
﴿اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی﴾ (النحل: 90)
’’بے شک اللہ تعالیٰ انصاف اور حسن سلوک اور قرابت دار کو دینے کا حکم کرتا ہے۔‘‘
اور ایک مسلمان کی دولت کے بہترین مستحق اس کے والدین کے بعد اس کے اقربا ہی کو فرمایا:
﴿وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ﴾(نور: 22)
’’جو لوگ تم میں زیادہ کشائش والے ہیں وہ قرابت داروں اور محتاجوں کو نہ دینے کی قسم نہ کھائیں خد ا کی خالص عبادت اور توحید اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے بعد تیسری چیز اہل قرابت کے ساتھ نیکی کرنا ہے۔‘‘
قرابت کو اسلام میں بہت اہمیت ہے کہ رسول اللهﷺ اپنی ان تمام محنتوں زحمتوں، تکلیفوں اور مصیبتوں کا، جو تبلیغ اور دعوت حق میں آپ صلی للہ صلى الله عليه وسلم کو پیش آئیں اور آپ ﷺ نے اس احسان و کرم کا، جو اصلاح و ہدایت کے ذریعہ ہم پر فرمایا۔ بدل، معاوضہ اور مزدوری امت سے یہ طلب فرماتے ہیں کہ میرے رشتہ داروں اور قرابت داروں کا حق ادا کرو اور ان سے لطف و محبت کے ساتھ پیش آؤ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی﴾ (الشوری: 23)
’’اے ہمارے نبی! آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس تبلیغ پر بجز اس کے کوئی مزدوری نہیں مانگتا کہ ناطہ رشتہ میں محبت اور پیار کرو۔‘‘
ان آیتوں میں حق قرابت کو بیان کیا گیا ہے، یہ قرابت کبھی بسبب رشتہ، کبھی یہ سبب نکاح، اور کبھی بسبب موالات کے ثابت ہوتی ہے، ماں، باپ، بہن بھائی، بیٹا بیٹی وغیرہ تو رشتہ دار ہیں جن کو ذوی الفروض کہا جاتا ہے، اور عصبات بھی رشتہ دارہی ہیں خواہ قریب کے ہوں یا بعید کے ہوں اور ذوی الارحام بھی رشتہ دار ہیں اور ہر رشتہ دار اپنے رشتہ دار کو جانتا ہے، لیکن شریعت نے اس کی زیادہ اہمیت بتائی ہے، زندگی میں تو حق ادا کرنا ہی ہے لیکن مرنے کے بعد حق میراث ادا کرنا بھی فرض ہے اللہ تعالٰی نے ہر حق والے کے حق کو بیان کر دیا ہے اور مقرر بھی فرما دیا ہے۔
چنانچہ اس نے فرمایا:
﴿لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۷﴾ (النساء: 7 – 8)
﴿یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا۱۱ وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ؕ وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ؕ وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰی بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ۙ غَیْرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌؕ۱۲﴾ (النساء: 11-12)
’’ماں باپ اور رشتہ داروں کے میں تھوڑا ہو یا زیادہ مردوں کا حصہ ہے اور اسی طرح ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکہ میں، عورتوں کا بھی حصہ ہے اور یہ حصہ ہماا ٹھرایا ہوا ہے اور جب تقسیم ترکہ کے وقت دور کے رشتہ دار اور یتیم و مساکین وجود ہوں تو اس میں سے ان کو بھی کچھ دے دیا کرو اور ان کی خواہش کے مطابق دے نہ بن پڑے تو ان کو نرمی سے سمجھاؤ‘‘
’’مسلمانو! تمہاری اولاد کے حصوں کے بارے میں اللہ تعاں تم سے کہہ دیتا ہے کہ لڑکے کو دوڑ کیوں کے برابر حصے دیا کرو، پھر اگر لڑکیاں دو یا دو سے زیادہ ہوں۔ تو ترکہ میں ان کا حصہ دو تہائی، اور اگر اکیلی ہے تو اس کو آدھا۔ اور میت کے ماں باپ یعنی دونوں سے میں ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا اس صورت میں کہ میت کی اولاد ہو اور اگر اس کی اولاد نہ اور اس کے وارث صرف ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کا حصہ ایک تہائی ہے، باقی سب باپ کا ہے، پھر اگر ماں باپ کے علاوہ میت کے ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے مگر یہ حصے میت کی وصیت کی تعمیل اور ادائے قرض کے بعد دئیے جائیں، تم اپنے باپ دادوں یعنی اصول و فروع یعنی بیٹوں پوتوں کو نہیں جان سکتے کہ نفع رسانی کے اعتبار سے ان میں کونسا تم سے زیادہ قریب ہے پس اپنی رائے کو دخل نہ دو اور یوں سمجھو حصے کا کہ قرارداد اللہ کا ٹھہریا ہوا ہے بلاشبہ اللہ سب کو جانتا ہے اور سب مصلحتوں سے واقف ہے اور جو ترکہ تمہاری بیویاں چھوڑ کر مریں اگر ان کی اولاد نہیں ہے تو ان کے ترکہ میں آدھا تمہارا ہے اور اگر اولاد ہے تو ان کیے تے کہ ہمیں تمہارا چوتھائی ہے۔ مگر ان کی وصیت کی تعمیل اور ادائے قرض کے بعد اگرتم تر کہ چھوڑ کر مرو، اور تمہاری کوئی اولاد نہ ہو تو بیویوں کا حصہ چوتھائی ہے اور اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکہ میں سے بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے، اور یہ حصہ بھی تمہاری وصیت کی تعمیل اور ادائے قرض کے بعد دیا جائے، اگر کسی مرد یا عورت کی میراث ہو اور اس کا باپ بیٹا یعنی اصل و فرع نہ ہو اور دوسرے باپ سے اس کے بھائی بہن ہوں تو ان میں سے ہر ایک کا حصہ چھٹا ہوگا، اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں برابر کے سب شریک ہوں گے یہ حصے بھی میت کی وصیت کی تعمیل اور ادائے قرض کے بعد دیئے جائیں، بشرطیکہ میت نے کسی کو نقصان نہ پہنچانا چاہا ہو یہ فرمان الہی ہے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور لوگوں کی نافرمانیوں کو برداشت کرتا ہے۔‘‘
﴿وَ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ؕ وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا۠۳۳﴾ (النساء: 33)
’’اور ترکہ ماں باپ اور رشتہ دار و چھوڑ کر مریں تو ہم نے ہر ایک مرنے والے کی میراث کے حقدار ٹھہرا دیئے ہیں۔ اور جن لوگوں کے ساتھ تمہارا عہد و پیمان ہے تو بطور خود کچھ حصہ ان کو بھی دے دو ہر چیز اللہ کے پیش نظر ہے۔‘‘
﴿یَسْتَفْتُوْنَكَ ؕ قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِی الْكَلٰلَةِ ؕ اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَ هُوَ یَرِثُهَاۤ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهَا وَلَدٌ ؕ فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ ؕ وَ اِنْ كَانُوْۤا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ؕ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠۱۷۶﴾ (نساء: 176)
’’اے پیغمبر! لوگ تم سے کلالہ کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ اللہ کلالہ کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور نہ باپ دادا اسی کو کلالہ کہتے ہیں اور اس کے صرف بہن ہو تو بہن کو اسکے ترکے کا آدھا، اور بہن مرجائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو اس کے سارے مال کا وارث یہ بھائی ہوگا پھر اگر بہنیں دو ہوں یا زیادہ تو ان کو اس سے ترکے میں دو تہائی، اگر بھائی بہن ملے جلے کچھ مرد اور عورت تو دو عورتوں کے حصہ کے بقدر ایک مرد کا حصہ تم لوگوں کے بھٹکنے کے خیال سے اپنے حکم کو تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠۷۵﴾ (الانفال:75)
’’اور رشتہ دار اللہ کے حکم کے مطابق ( غیر آدمیوں کی بہ نسبت ) ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں۔ بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے، از ان جملہ میراث کی مصلحتوں سے بھی۔‘‘
ان آیتوں میں ماں باپ بیٹا، بینی بھائی بہن و دیگر ذوی الفروض اور ذوی الارحام کا بیان آیا ہے یہ ذوی الارحام بھی قرابت والے ہیں۔ لیکن ان کا حق ذوی الفروض اور عصبہ وغیرہ کے بعد ہے اور یہ ذوی الارحام کی توریث عصبات کی طرح ہے، اس میں اقرب فالا قرب کا اعتبار ہے اور قرب بھی تو درجہ کے اعتبار سے ہوتا ہے اور بھی قرابت کی وجہت ہیں جس طرح تعصیب میں بیٹا باپ پر مقدم ہے، اسی طرح ذوی الارحام میں میت کا جزو اس کی اصل پر مقدمہ ہوگا۔ اور ذوی الارحام میں سے جو قریب تر ہو وہ بعید تر کا حاجب ہو جاتا ہے یعنی بعید کو وارث نہیں ہونے دیتا جیسا کہ عصبات میں اقرب ابعد کا حاجب ہو جانا ہے۔ اسی طرح نزدیک رشتہ والا دور کے رشتہ دار کا وارث نہیں ہونے دیتا، بہر حال ذوی الفروض ہوں عصبہ ہوں یا ذوی الارحام ہوں۔ بقدر حقوق سب کے حقوق کو ادا کرنا ضروری ہے اگر نہ قرابت داری کے حق کو ادا کیا نہ ورثہ و ترکہ میں سے ان کا حق دیا، تو آخرت میں ضروری ادا کرنا پڑے گا اسی لئے رسول اللہﷺ نے فرمایا: (لَتُوؤَدُّنَّ الْحَقُوق إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيمَةِ حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ القرناء)[1]
’’قیامت کے دن حقداروں کے حقوق ضرور ادا کئے جائیں گے۔ یہاں تک بے سینگ دار بکری کا سینگ دار بکری سے قصاص لیا جائے گا۔“
اور اگر حقوق کے تقسیم کے وقت غیر حقدار رشتہ دار موجود ہے، تو سب کی مرضی سے انہیں بھی کچھ دو، یا نرم بات کہ کر سمجھا دو جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۸ وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ ۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا۹﴾ (نساء: 8-9)
’’اور جب تقسیم (ترکہ) کے وقت دور کے رشتہ دار اور یتیم بچے اور مساکین آموجود ہوں تو ان میں سے ان کو بھی کچھ دے دیا کرو اور ان کی خواہش کے مطابق دیتے نہ بن پڑے تو ان کو نرمی سے سمجھا دو اور وارثان حقدار کو ڈرنا چاہیے کہ اگر خود اپنے مرے پیچھے اولا د ضعیف چھوڑ جاتے تو ان کے حال پر ان کو کیا کچھ ترس نہ آتا تو چاہیے کہ غربا کے ساتھ سختی کرنے میں اللہ سے ڈریں اور ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب البر والصلة، باب تحريم الظلم ( 6580)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سے سیدھی بات کریں۔‘‘
دنیا میں جو لوگ دوسروں کی حق تلفی کریں گے اور کسی حیلہ بہانہ سے دوسروں کی چیزوں کو اپنا لیں گے تو قیامت کے روز وہی چیز لے کے حاضر ہوں گے جس کا اس سے پورا پورا بدلہ ملے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ ؕ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰی كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۱۶۱﴾ (ال عمران: 161)
’’جو شخص خیانت کرے گا وہ خیانت کردہ چیز قیامت کے دن لے کر آئے گا پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور ذرہ برابر حق تلفی نہ کی جائے گی۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز وعظ کیلئے کھڑے ہوئے تو اس وعظ میں خیانت و چوری کا خصوصیت سے ذکر فرمایا اور اس کا گناہ اور اس کی مذمت بیان فرمائی، چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’میں تم کو قیامت کے دن اس حال میں ہرگز نہ پاؤں کہ تم میں سے کوئی اپنی گردن پر اونٹ لا دے ہوئے آ رہا ہو، اور وہ بلبلاتا ہو، یعنی غنیمت وغیرہ میں سے اونٹ کی خیانت کی ہوگی اور چرا لیا ہو گا۔ تو اس اونٹ کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے میرے سامنے۔ سفارش کے لئے آئے گا تو کہے گا یا رسول اللہ ﷺ میری امداد فرمائیے تو اس وقت میں اس کو صاف جواب دیدوں گا کہ میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں اور نہ تیری امداد کر سکتا ہوں دنیا میں میں نے یہ بات پہنچا دی تھی کہ جو چوری کرے گا وہ اسی چیز کو لے کر خدا کے سامنے حاضر ہوگا۔ میں اس کی حمایت نہ کروں گا۔
اور ہرگز نہ پاؤں میں تم میں سے کسی کو کہ وہ قیامت کے دن کوئی شخص اپنی گردن پر گھوڑا لئے ہوئے آرہا ہو۔ اور گھوڑا ہنہنا کر آواز کرتا ہو کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ چوری کا گھوڑا ہے وہ میرے پاس آکر کہے گا یا رسول اللہ کی تعلیم میری امداد کیجئے تو میں اس سے کہوں گا: میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں دنیا میں تم کو حکم پہنچا چکا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا:
میں تم کو ہرگز نہ پاؤں کہ قیامت کے دن اپنی گردن پر بکری لادے ہوئے آ رہا ہو۔ اس بکری کی آواز ہوگی وہ میرے پاس آئے گا اور کہے گا یا رسول اللہﷺ میری امداد فرمائیں۔ میں کہوں گا کہ میں تیری کچھ امداد نہیں کر سکتا۔ میں یہ حکم تجھ کو بھی پہنچا چکا ہوں۔۔ پھر فرمایا: میں ہر گز تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن کسی انسان غلام وغیرہ کو لا دے ہوئے ہو۔ وہ چیختا ہوا ہوگا، میرے پاس آکر کہے گا یا رسول اللہ ﷺ میری امداد کیجئے میں کہوں گا، میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں یہ حکم دنیا میں تجھے پہونچا چکا تھا، پھر ارشاد فرمایا:
’’میں تم کو اس حالت میں قیامت کے دن ہرگز نہ پاؤں کہ کوئی شخص اپنی گردن میں کپڑا لادے ہوئے آئے۔ یعنی دنیا میں اس نے غنیمت کے مال سے وہ کپڑے کی خیانت کر لی تھی یا کسی کا کپڑا اچھالیا تھا یا بغیر حق کے غیروں کے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ کپڑے ملتے اور حرکت کرتے ہوں گے وہ کہے گا۔ یا رسول اللہ میری امداد کیجیئے، میں کہوں گا کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا ہوں، میں یہ حکم دنیا ہی میں پہنچا چکا تھا۔ [1]
میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اپنی گردن پر بے زبان چیزیں مثلا سونا، چاندی وغیرہ لا دے ہوئے آئے گا،وہ کہے گا یا رسول اللہﷺ میری امداد کیجئے تو میں کہوں گا کہ میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا، دنیا میں یہ حکم پہونچا چکا تھا۔ اور اگر اس نے کسی کی حق تلفی میں مکان باز مین و بالی ہے تو قیامت کے روز وہی چیز اٹھائے میدان محشر میں آئے گا، اور اس سلسلے کی یہ چند حدیثیں سن لیجئے اور رشتہ داروں کی حق تلفی سے توبہ کیجئے:
(مَنْ أَخَذَ شِبْراً مِّنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقَهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ مِنْ سَبْعِ أَرْضِينَ[2]
’’جس نے کسی کی ایک بالشت زمین وہالی ہے تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق گلے کا ہار ڈالے ہوئے اٹھے گا۔‘‘
(مَنْ أَخَذَ مِنَ الْأَرْضِ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ خُسِفَ بِهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ إِلَى سَبْعِ أَرْضِينَ)[3]
’’ کسی نے کسی کی کچھ زمین ناحق دبائی ہے، تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔‘‘
(مَنْ أَخَدٌ أَرْضًا بِغَيْرِ حَقِّهِ كُلَّفَ أَنْ یُّحْمَلَ تُرَابُهَا إِلَى الْحَشْرِ)[4]
’’جس نے ظلماً کسی کی زمین چھین لی تو اسے اس بات کی تکلیف دی جائے گی، کہ اس کی مٹی کھود کر میدان حشر میں لادے۔“
﴿أيُّمَا رَجُلٍ ظَلَمَ شِبْرًا مِّنَ الْأَرْضِ كَلَّفَهُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ أَنْ يَحْفَرَهُ حَتَّى يَبْلُغَ اٰخِرَ سَبْعِ اَرْضَيْنَ ثُمَّ يُطَوَّقُهُ إلى يَوْمَ الْقِيامَةِ حَتَّى يَقْضٰى بَيْنَ النَّاس)[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الجهاد والسير باب الغلول (3073)
[2] بخاري« كتاب بدء الخلق، باب ماجاء فى سبع ارضين (3198)
[3] بخاري: کتاب بدء الخلق باب ماجاء في سبع ارضين (3196)
[4] مسند احمد: 173،172/4. [5] مسند احمد: 4 / 173.۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جس نے ظلمًا کسی کی زمین چھین لی ہے اگرچہ ایک بالشت ہی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اس بات کی تکلیف دے گا کہ ساتوں زمینوں تک کھودے پھر ان کا ہار بنا کر قیامت کے دن اٹھائے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔“
ان حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ جو شخص کسی وارث کی زمین یا مکان کو دبا لے اور اس کے حق کو نہ دے تو قیامت کے دن وہی زمین و مکان لے کر خدا کے سامنے حاضر ہو گا، جب حق والوں کا حق دیا جائے تو صلہ رحمی بھی ہو جائے گی اور اگر نہیں دیا گیا تو رشتے قرابت داری نوٹ جائے گی اور قرابت داری کے رشتہ کو توڑنا سخت جرم ہے،
رسول اللہ کی تعلیم نے فرمایا:
(الرَّحِمُ شَجْنَةٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَقَالَ اللهُ مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ)[1]
’’رحم و شکم مادری لفظ رحمن سے مشتق ہے اس لئے محبت والے خدا نے رحم کو مخاطب کر کے فرمایا جو تجھ کو ملائے گا اس کو میں ملاؤں گا اور جو تجھ کو کاٹے گا میں اس کو کاٹوں گا۔‘‘
اس مفہوم کو آپ ﷺ نے یوں بھی ادا فرمایا:
(الرَّحِمُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَقُولُ مَنْ وَصَلَنِى وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللهُ)[2]
’’رحم انسانی نے عرش کو پکڑ کر کہا کہ جو مجھ سے ملائے اس کو خدا ملائے اور جو مجھے کاٹے اس کو خدا کائے۔“
ایک اور حدیث میں ہے:
(خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ فَلَمَّا فَرغَ قَامَتِ الرَّحْمُ فَأَخَذَتْ بَحَقْوَى الرَّحْمَنِ فَقَالَ مَهْ۔ قَالَتْ هَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنَ الْقَطِيعَةِ قَالَ اَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ قَالَتْ بَلَى يَا رَبِّ قَالَ فَذَاكَ)[3]
’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کر لیا تو رحم انسانی نے رحمت والے خدا کی کمر کو پکڑ لیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کیا ہے اس نے کہا کہ یہی جگہ قطع رحمی سے تیری پناہ لینے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تو اس بات سے خوش نہیں ہے کہ جو تجھ کو ملائے اس کو میں اپنے سے ملاؤں اور جو تجھے کاٹے اس کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب، باب من وصل وصله الله (5988)
[2] مسلم كتاب البر والصلة باب صفة الرحم و تحریم قطيعتها (6519)
[3] بخاري: كتاب الادب، باب من وصل وصله الله (5987)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنے سے کاٹوں، اس نے کہا مجھے یہ منظور ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اب ایسا ہی ہوگا۔‘‘
رحم اور رحمان کا اشتراک لفظی و اشتراک معنوی رحمت و مودت پر دلالت کرتا ہے، اس لئے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِيْ تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ﴾ (نساء: 1)
’’اور جس خدا کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اس کا اور رشتہ کا خیال رکھو‘‘
اس رشتہ کا توڑنے والا اور قرابت کے حق کو ادا نہ کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ فَاطِعُ رَحِم)[1]
’’رشتہ کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘
اور رشتہ کا جوڑنے والا اور قرابت کی خدمت کرنے والا جنت میں داخل ہوگا۔ چنانچہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: (تعبدُ اللهَ وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلوةَ وَتُؤْتِي الزَّكوةَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ)[2]
’’اللہ کی عبادت کیا کروں کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ بناؤ اور نماز اچھی طرح ادا کر نے رہو اور زکوۃ دیتے رہو اور قرابت داروں کا حق ادا کرتے رہو، اور صلہ رحمی کرتے رہو۔“
جو قرابت داروں کا حق ادا کرتا ہے اور ان کی خدمت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو کشادہ روزی دیتا ہے اس کی عمر بڑھاتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت اور اسکی عمر میں برکت ہو اس کو چاہیے یہ وہ صلہ رحمی کرے۔[3]
کیونکہ ان اعمال کا اثر اللہ تعالیٰ نے یہ دکھایا ہے کہ اس سے مال و دولت میں فراخی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے اس لئے صلہ رحمی کی دوہی صورتیں ہیں۔
ایک یہ کہ ضرورت مند رشتہ داروں کی مالی امداد کی جائے دوسرے یہ کہ خدا کی دی ہوئی عمر کا کچھ حصہ ان کی خدمت میں صرف کیا جائے پہلے کا نتیجہ خدا کی طرف سے مالی وسعت اور کشادگی اور دوسرے کا نتیجہ عمر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب، باب اثم القاطع ( 5984) [2] بخاري: کتاب الادب، باب فضل صلة الرحم (5983) [3] بخاري: کتاب الادب، باب من بسط له فى الرزق لصلة الرحم (5986)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برکت اور زیادتی کی صورت میں ملتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحْمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ مَثْرَاةٌ فِى الْمَالِ مَنْسَاةٌ فِي الَّاثَرِ)[1]
’’صلہ رحمی سے قرابت والوں میں محبت، مال میں کثرت اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔“
اس صلہ رحمی سے سارے خاندان والے راضی ہوں گے اور اس کے حق میں دعائیں کریں گے جس سے اس کے مال و دولت و عمر میں برکت و کثرت ہوگی اور اگر کوئی عزیز رشتہ دار اپنے حق کو نہیں ادا کرتا ہے تو اس کے دوسرے رشتہ دار کو یہ مناسب نہیں ہے کہ یہ بھی اپنے حق کو نہ ادا کرے۔ بلکہ در اصل صلہ رحمی اس کا نام ہے جو قرابت کے حق کو ادا نہ کرے لیکن اس کے باوجود اس کے حق کو ادا کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(ليسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِي وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحْمُهُ وَصَلَهَا)
’’جو بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے وہ در اصل صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے بلکہ ٹوٹے ہوئے رشتہ کو جوڑنے والا دراصل صلہ رحمی کرنے والا ہے۔“
خوش خلقی اور مکارم اخلاق یہی ہے کہ قطع تعلق کرنے والوں سے جوڑا جائے اور ملنے والوں سے درگزر کیا جائے۔
پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَاٰتِ ذَالْقُرْبٰى حَقَّهُ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيلِ﴾
’’(یعنی قرابت داروں کے حق کو ادا کرو اور مسکین و مسافروں کے حق بھی ادا کرو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اپنے خویش واقارب کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور ان کے ساتھ مسکینوں اور غریبوں اور مسافروں کے ساتھ بھی یہی حکم ہے کیونکہ مسکین تو مسکین ہی ہیں لیکن مسافر کو گھر کا مالدار ہو لیکن سفر میں بعض دفعہ دوسرے کی امداد کا مستحق ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین پہنچنے کے بعد اپنی ضرورت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی۔
﴿رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ﴾ (القصص: 24)
’’اے خدا! اس وقت جو کچھ مجھے عطا فرمائے میں اس کا ضرورت مند ہوں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب البر والصلة باب ماجاء في تعليم النسب (1979)
[2] بخاري« کتاب الادب، باب ليس الواصل بالمكافى (5991)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے سلسلہ میں زکوۃ میں سے اعانت کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۶۰﴾ (توبه: 60)
’’صدقہ ( زکوة) فقیروں، مسکینوں کیلئے ہے اور عاملین یعنی تحصیلداروں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو اسلام کی طرف مائل ہوں۔ اور گردن یعنی غلام و قیدی آزاد کرانے میں اور قرض داروں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں کے لئے ہے، اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘
یعنی مسافر آدمی حالت سفر میں اگر ضرورت مند ہو جائے تو اسے بھی زکوۃ دینا اور لینا جائز ہے اگر چہ وہ اپنے گھر کا مالدار ہو اس آیت کریمہ میں مسافروں اور مسکینوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کا بیان ہے۔
﴿وَاٰتِ ذَالْقُرْبٰى حَقَّهُ وَالْمَسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيلِ﴾
’’یعنی قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو‘‘
یہ فرمان الہی ہے جو ہر مسلمان کے لئے ہے۔