نفلی عبادات

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللهَ شَاكِرٌعَلِيْمٌ﴾ [البقرة: 158]
دین اسلام میں جو عبادات نافذ کی گئی ہیں وہ بنیادی طور پر دو قسم منقسم ہوتی ہیں:
1۔ فرضی عبادات
2۔ نفلی عبادات
آج ہمارے معاشرے میں نفلی عبادات کے متعلق تین قسم کی غلطیاں پائی جاتی میں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو نفلی عبادات کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ انہیں جب بھی کوئی عمل صالح بتلایا جائے وہ فورًا پوچھتے ہیں کہ یہ عمل فرض ہے یا نفل جب انہیں بتلایا جاتا ہے کہ یہ عمل نقلی ہے تو وہ فورًا جواب دیتے ہیں۔ پھر خیر ہے یعنی ان کے نزدیک نفلی عبادت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔
اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں: جو اپنی طرف سے نفلی عبادات گھڑ رہے ہیں انہوں نے مختلف مہینوں دنوں اور راتوں کی نفلی نماز میں اور نفلی عبادتیں گھڑ رکھی ہیں کہیں شب معراج کے نفل، کہیں شب براءت کے نفل، کہیں قضاء عمری اور کہیں عاشوراء سے نفل۔
اور تیسرے وہ لوگ ہیں: جو فرائض و واجبات کے تارک ہیں لیکن بعض نقلی عبادتوں کے وہ دلدادہ ہیں۔
یاد رکھیے یہ تینوں طریقے غلط ہیں۔
جو نفلی عبادتیں اور نفلی نمازمیں قرآن وسنت میں بیان کی گئی ہیں انہیں معمولی سمجھ کر نظر انداز کرنا بھی درست نہیں اور اپنی طرف سے مختلف مہینوں دنوں اور راتوں کی نفلی نماز میں گھڑنا اور دین میں اضافہ کرنا بھی درست نہیں اور فرائض و واجبات ترک کر کے چند نفلی عبادتوں کو اپنا لینا بھی درست نہیں۔
کیونکہ فرائض و واجبات کی پابندی کے بغیر نفلی عبادات کی کوئی حیثیت نہیں۔
اس لیے درست طریقہ زندگی یہ ہے کہ فرائض و واجبات کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کا بھی معمول بنایا جائے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اور رسول اکرم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں انہیں لوگوں کی تعریف کی ہے جو فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کی بھی پابندی کرتے ہیں۔
کیونکہ دین اسلام میں نفلی عبادارت کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے، آج کے خطبہ میں چندنفلی نمازوں کی فضیبت واہمیت آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں:
1۔ سنن رواتب:
فرض نمازوں کے آگے پیچھے کی ادا کی جانے والی رکعتوں کو سنن رواتب کہتے ہیں، ان کی فضلت کتب حدیث میں بہت زیادہ مذکور ہے:
( عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ)[1]
’’ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’ جوشخص رات اوردن میں بارہ رکعت سنّت پڑھے گا ،اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دورکعتیں اس کے بعد، دومغرب کے بعد، دوعشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے‘‘[جامع الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فیمن صلی فی یوم (415) و ابوداؤد (1250) وابن ماجہ(1141) شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے۔]
1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ﷺ نے فرمایا:
(رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِّنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا) [صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب ركعتي سنة الفجر والحث عليها (725) والترمذى (414) والبيهقي (470/2)]
’’صبح کی دو رکعت (سنتیں) دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بہتر ہیں۔‘‘
2۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے:
(مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَ أَرْبَعِ بَعْدَهَا، حَرَّمَهُ اللهُ عَلَى النَّارِ) [(سنن آبی داؤد، كتاب الصلاة باب الأربع قبل الظهر و بعدها (1269) والترمذی (428) و ابن ماجه (1160) شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے منع کیا ہے۔]
’’جس شخص نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتوں پر محافظت کی اللہ اس کو دوزخ پر حرام فرمائے گا۔‘‘
3۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَ صَلَّى قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا) [سنن أبي داود، كتاب الصلاة، باب الصلاة قبل العصر (1271) والترمذي (430)، صحيح عند الألباني]
’’اس شخص پر اللہ رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعت (سنتیں ادا کیں۔)‘‘
غور کیجئے! یہ سنن رواتب نفلی عبادات ہیں لیکن کسی قدر اجر و ثواب بتلایا گیا ہے جو لوگ ان سنن و نوافل کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں وہ سوچیں کہ وہ کس قدر اجر و ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ صلاة الضحى: سورج طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد جو نماز پڑھی جاتی ہے اسے صلاة الضحی کہتے ہیں۔ یہ بھی نفلی عبادت ہے لیکن اس کی فضیلت سنیے:
1۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(يُصْبِحُ عَلٰى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ. وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ. وَنَهَىٌ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِئُ مِنْ ذٰلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى) [صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين و قصرها، باب استحباب صلاة الضحى (720) و ابوداؤد (1286) و احمد (167/5)]
’’تم میں سے ہر شخص کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے۔ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے۔ الحمد للہ کہنا صدقہ ہے۔ لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب کو چاشت کی دو رکعت نماز کفایت کرتی ہے۔‘‘
اور اگر یہ نماز قدرے تاخیر سے پڑھی جائے تو مزید فضیلت ہے۔
2۔ زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو چاشت کی نماز ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا یہ لوگ جانتے ہیں کہ اس کے علاوہ وقت میں یہ نماز افضل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ حِيْنَ تَرْمُضُ الْفِصَالُ) [صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الأوابين (747) و ابن خزیمه (1227)]
’’اوابین نماز اس وقت ہے جب اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔‘‘
3۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ چاشت کی نماز آٹھ رکعت ادا کرتی تھیں اور
کہا کرتی تھیں:
(لَوْ نُشِرَ لِي أَبْوَايَ مَا تَرَكْتُهَا)
’’کہ اگر میرے والدین زندہ کر دیئے جائیں تو بھی میں ان رکعتوں کو نہیں چھوڑوں گی‘‘[مؤطا امام مالك، كتاب قصر الصلاة في السفر، باب صلاة الضحى (361)]
صلاة الليل: رات کی نماز جسے قیام اللیل اور تہجد بھی کہا جاتا ہے یہ وہ نماز ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اکثر مقامات پر جہاں اپنے نیک اور صالح بندوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے وہاں اس خصلت کا تذکرہ ضرور کیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ نفلی نماز اللہ تعالی کو بہت محبوب اور مقبول ہے۔ اور اس نماز کی پابندی کرنے والے لوگ بھی اللہ کے ہاں انتہائی مقرب اور پیارے ہیں۔ آئیے ذرا قرآن کریم میں اس نماز کا تذکرہ مختلف انداز میں ملاحظہ فرمائیں:
1۔ ﴿لَیْسُوْا سَوَآءً ؕ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآىِٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَ هُمْ یَسْجُدُوْنَ۝۱۱۳ ﴾ (آل عمران: 113)
’’سارے اہل کتاب ایک جیسے نہیں (بلکہ) اہل کتاب میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہے (جو ایمان لے آئی ہے) اور رات کی گھڑیوں میں قیام کرتے ہوئے اللہ کی آیتیں پڑھتی ہے اور بارگا والہی میں سجدے کرتی ہے۔‘‘
﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۝۶۳
وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا﴾ [الفرقان:63،63]
’’اور رحمن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی اور نرمی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ مباحثہ کرتے ہیں تو وہ سلام کہہ کر (کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں) اور وہ رات کو اللہ کی بارگاہ میں قیام کرتے اور سجدے کرتے ہیں یعنی تہجد ادا کرتے ہیں۔‘‘
3۔ ﴿تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ؗ وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ۝۱۶﴾ [السجدة: (16]
’’ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘
4۔ ﴿اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ۝۱۷﴾ [آل عمران: 17]
’’جو صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرمانبرداری کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے ہیں۔‘‘
5۔ ﴿كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا يَهْجَعُونَ﴾ (الذاريات: 17)
’’وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔‘‘
6۔ ﴿اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآىِٕمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾ [الزمر: 9]
’’کیا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں لمبا قیا یوں میں لمبا قیام اور رکوع و سجود کرتا ہے اور آخرت (کے عذاب سے) ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے (یہ اس شخص کی طرح ہے جو آخرت سے بے خبر ہو کر غفلت کی نیند سویا ہوا ہے؟) کہہ دو: بھلا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟ (قطعا نہیں) لیکن صرف عقل والے ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔‘‘
اور یہ وہ نماز ہے جس کی فضیلت امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہﷺ نے اپنے ارشادات گرامی میں بڑے زبردست انداز میں بیان فرمائی۔ کہیں دعا دیتے ہوئے فرمایا:
(رَحِمَ اللّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّٰى، وَأَيْقَظَ إِمْرَأَتُهُ فَصَلَّتْ فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ رَحِمَ اللهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَیْقَظَتْ زَوْجَهَا فَصَلَّٰى، فَإِنْ أَبٰى نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ) [سنن النسائي، كتاب قيام الليل، باب الترغيب في قيام الليل (1619) و ابوداود (1371)]
’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نوافل ادا کرتا ہے اور اچھی بیوی کو بیدار کرتا ہے وہ بھی نفل ادا کرتی ہے اگر وہ انکار کرتی ہے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے۔ اللہ اس عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھتی ہے نماز پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بیدار کرتی ہے وہ تہجد ادا کرتا ہے اگر انکار کرتا ہے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔‘‘
کہیں درجہ فضیلت بتلاتے ہوئے فرمایا:
(عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ وَإِنَّ قِيَامَ اللَّيْلِ قُرْبَةٌ إِلَى اللَّهِ وَمَنْهَاةٌ عَنْ الْإِثْمِ وَتَكْفِيرٌ لِلسَّيِّئَاتِ وَمَطْرَدَةٌ لِلدَّاءِ وَمُذْهَاةٌ عَنِ الْإِثْمِ) [جامع الترمذي، كتاب الدعوات، باب في دعاء النبي مورية (3549) والترغيب والترهيب (98) والبيهقي (1502/2 و ابن خزیمه (1135)شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ہے]
’’رات کو قیام کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کی عادت ہے اور یہ تمہارے رب کے قرب برائیوں کے خاتمے اور گناہوں سے دور رہنے کا سبب بھی ہے۔‘‘
کہیں اس سے محروم رہنے والوں پر مرتب ہونے والے شیطانی اثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص جب نیند کرتا ہے تو شیطان اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں دیتا ہے۔ ہر گرہ پر ہاتھ مارتا ہے اور کہتا ہے تیری رات طویل ہے تو سویا رہ۔ اگر وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے جب وضو کرتا ہے تو (دوسری) گرہ کھل جاتی ہے اور جب نماز ادا کرنے کھڑا ہوتا ہے تو تیسری گرہ کھل جاتی ہے۔‘‘
(فَأَصْبَحَ نَشِيْطًا طَيِّبَ النَّفْسِ، وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِيْثَ النَّفْسِ، كَسْلَانَ) [صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابليس و جنوده (3298) (3175)]
’’جب صبح کرتا ہے تو وہ چاک و چوبند زندہ دل ہوتا ہے وگرنہ وہ صبح کرتا ہے تو وہ مردہ دل ہوتا ہے۔‘‘
نبی ﷺ کے ہاں ایک شخص کا تذکرہ ہوا اس کے بارے میں آپ کو بتایا گیا کہ
وہ صبح ہونے تک سویا رہتا ہے نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي اُذُنِهِ أَوْ قَالَ فِي اُذُنَيْهِ ) [صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس و جنوده (3270) (1144)]
’’یہ ایسا شخص ہے جس کے کان میں شیطان نے پیشاب کر دیا۔ یا فرمایا: اس کے دونوں کانوں میں (شیطان نے پیشاب کر دیا ہے)۔‘‘
غور کیجئے! نماز نفلی ہے لیکن اجر و ثواب اور مرتبہ و مقام کتنا زیادہ ہے۔
یہی وجہ ہے صحابہ و تابعین محمد ثین و فقہاء اور بڑے بڑے ائمہ دین ہر دور میں اس کے پابند رہے ہیں۔ ایک واقعہ: احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص مہمان ٹھہرا۔ آپ نے اس کے لیے پانی رکھا صبح نماز فجر کے لیے جگانے آئے تو دیکھا کہ اس نے پانی استعمال نہیں کیا اسے مخاطب کر کے کہا آپ نے پانی استعمال نہیں کیا۔ وہ نادم ہو گیا اور خاموش ہو گیا تو آپ نے کہا: سبحان اللہ سبحان اللہ میرے علم میں کوئی ایسا محدث نہیں جو رات کو قیام نہ کرتا ہو۔[الأدب السرعية لابن المفلح]
اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام محمدثین رات کو قیام کیا کرتے تھے یعنی پابندی سے نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پہلا تہائی حصہ خود قیام کرتے۔ دوسرا تہائی حصہ دوسرا شخص قیام کرتا ہے تیرا تہائی حصہ تیسرا شخص قیام کرتا۔ اس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر ساری رات قرآن کی آواز گونجتی۔[صحيح البخاري، كتاب الأطعمة، باب رقم (5441)]
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
آج بہت سارے لوگ ایک مغالطے کی وجہ سے تھا۔ آپ سے محروم رہتے ہیں وہ مغالطہ یہ ہے کہ لوگ مجھتے ہیں نماز تہجد کے لیے سو کر اٹھنا ضروری ہے۔
یاد رکھیے: نماز عشاء کے بعد سے لے کر نماز فجر سے پہلے پہلے جب چاہو نماز تہجد پڑھ لو۔ چاہو تو عشاء پڑھ کر گھر جاؤ اور سونے سے پہلے پہلے تہجد پڑھ لو۔ ہاں رات کے پچھلے پہر یہ نماز ادا کرنا زیادہ افضل اور بہتر ہے۔ یوں رات کے کسی بھی حصہ میں ادا کرنا درست ہے۔ اور اس کی کم از کم سات اور زیادہ سے زیادہ 13 رکعات رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں۔
مدینہ منورہ کا مبارک ماحول:
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: میں اپنے قبیلے کے اشعری قراء کرام کے گھروں کو صرف اس بناء پر پہنچانتا ہوں کہ رات ان کے گھروں سے نماز تجھد میں قرآن کی تلاوت کرنے کی آواز آتی ہے۔[صحيح البخاري، كتاب المغازی، باب غزوة خيبر، حديث (4232)]
خود رسول اللہﷺ کئی دفعہ رات کے وقت اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی تلاوت سننے کے لیے مدینہ منورہ کی گلیوں میں نکل جایا کرتے تھے۔ گھر گھر سے قرآن کی آواز سنائی دیتی تھی۔[یہ بات گذشتہ حدیث سے ماخوذ ہے اور اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن ابی داود كتاب الصلاة باب في رفع الصوت بالقراءة في صلاة الليل، رقم (1339) میں ہے۔]
لمحہ فکریہ:
آج ہمارے گھروں سے دن رات حتی کہ سحری کے مبارک وقت میں بھی گانے بجانے اور فلم ڈرامے کی آواز آتی ہے۔
نفلی عبادت کی انتہائی جامع فضیلت، سنن ابی داؤد میں حدیث ہے جب قیامت کے دن فرائض کا حساب ہو گا اگر کسی شخص کے فرائض میں کمی ہوگی اللہ فرشتوں کو حکم دیں گے۔ میرے بندے کے نامہ اعمال کو دیکھو۔ کیا اس میں نفلی نمازیں ہیں۔ اگر ہوں گی تو نفلوں کے ذریعے فرضوں کی کمی پوری کر دی جائے گی۔[سنن النسائي، الصلاة، باب المحاسبة على الصلاة (468) و صحیح نسائی (453)]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔