شوقِ عبادت
اہم عناصر:
❄نبی مکرم کا شوقِﷺ عبادت ❄ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا شوقِ عبادت
❄سلف صالحین کا شوقِ عبادت
نحمده ونصلي على رسوله الكريم اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله اما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ [آل عمران: 133]
ذی وقار سامعین!
دنیا کا عام سا أصول ہے کہ اس دنیا میں جو بھی چیز بنائی جاتی ہے ، اس کے بنانے کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے ،ایک انسان بھی بلاوجہ اور بےکار کوئی چیز نہیں بناتاتو سوچئے کہ جس خالق اور مالک نے کائنات کا اتنا وسیع نظام بنایا ہے، اتنی بڑی مخلوق انسان کو پیدا فرمایا ہے وہ اسے بے کار اور بلا مقصد کیسے بنا سکتا ہے؟ انسان کی پیدائش کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ [الذاریات: 56]
” ہم نے جنّوں اور انسانوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.”
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کے کئی مقامات پر عبادت کی ترغیب دلائی ہے۔
❄وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ [آل عمران: 133]
"اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چواڑائی آسمانوں اور زمین(کے برابر) ہے ، ڈرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔”
❄فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
"پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔” [المائدہ: 48]
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم یہ بات سمجھیں گے کہ نبی مکرمﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کا عبادت کا شوق کتنا تھا؟ تا کہ ہمارا بھی عبادت کا شوق بڑھے۔
نبی مکرم ﷺ کا شوقِ عبادت
❄عَنِ الْمُغِيرَةِ يَقُولُ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ فَقِيلَ لَهُ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا [بخاری: 4836]
سیدنا مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں رات بھرکھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے ۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں۔ آپﷺنے فرمایا ، کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟
❄عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ فَقُلْتُ يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ ثُمَّ مَضَى فَقُلْتُ يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ فَمَضَى فَقُلْتُ يَرْكَعُ بِهَا ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ ثُمَّ رَكَعَ فَجَعَلَ يَقُولُ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ قَامَ طَوِيلًا قَرِيبًا مِمَّا رَكَعَ ثُمَّ سَجَدَ فَقَالَ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ قِيَامِهِ [مسلم: 1814]
ترجمہ: حضرت حذیفہ نے بیان کیا کہ ایک رات میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی،آپ نے سورہ بقرہ کا آغاز فرمایا،میں نے(دل میں ) کہا:آپ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے مگر آپ آگے بڑھ گئے میں نے کہا:آپ اسے(پوری) رکعت میں پڑھیں گے،آپ آگے پڑھتے گئے،میں نے سوچا،اسے پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپ نے سورہ نساءشروع کردی،آپ نے وہ پوری پڑھی،پھر آپ نے آل عمران شروع کردی،اس کو پورا پڑھا،آپ ٹھہر ٹھہر کر قرأت فرماتے رہے جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہے تو سبحان الله کہتے اور جب سوال (کرنے والی آیت ) سے گزرتے(پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو۔( اللہ سے) پناہ مانگتے،پھر آپ نے ر کوع فرمایا اور سبحان ربی العظیم کہنے لگے،آپ کا رکوع(تقریباً) آپ کے قیام جتنا تھا۔پھر آپ نے "سمع الله لمن حمدہ”کہا:پھر آپ لمبی دیر کھڑے رہے،تقریباً اتنی دیر جتنی دیر رکوع کیا تھا ،پھر سجدہ کیا اور "سبحان ربی الاعلی” کہنے لگے اور آپ کا سجدہ (بھی) آپ کے قیام کے قریب تھا۔ ❄عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ قُلْنَا وَمَا هَمَمْتَ قَالَ هَمَمْتُ أَنْ أَقْعُدَ وَأَذَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک مرتبہ رات میں نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہوگیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم ﷺ کا ساتھ چھوڑدوں۔ [بخاری: 1135]
❄سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ، قَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ». قَالَتْ: فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ» قَالَتْ: فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ»، فَقَعَدَ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» فَقُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي المَسْجِدِ، يَنْتَظِرُونَ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ لِصَلاَةِ العِشَاءِ الآخِرَةِ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ بِأَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ
ترجمہ: آپ کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظام کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ ﷺ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی نہیں حضور! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے ( پھر ) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ نے غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ( دوبارہ ) پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ [بخاری: 687]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا شوقِ عبادت
عبّاد بن بشر :
سیدنا جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں نکلے یعنی غزوہ ذات الرقاع میں تو کسی مسلمان نے مشرکین میں سے کسی کی بیوی کو قتل کر دیا ، تو اس مشرک نے قسم کھائی کہ میں اصحاب محمد میں خون بہا کر رہوں گا ۔ چنانچہ وہ نبی کریم ﷺ کے قدموں کے نشانات کی پیروی کرنے لگا ۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور فرمایا ” کون ہمارا پہرہ دے گا ؟ “ تو اس کام کے لیے ایک مہاجر (عمار بن یاسر )اور ایک انصاری(عبّاد بن بشر ) اٹھے ۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ” تم دونوں اس گھاٹی کے دہانے پر کھڑے رہو ۔ “ جب وہ دونوں اس کے دہانے کی طرف نکلے ( تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیں گے ) چنانچہ مہاجر لیٹ گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا ( اور پہرہ بھی دیتا رہا ۔ ) ادھر سے وہ مشرک بھی آ گیا ۔ جب اس نے ان کا سراپا دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ اس قوم کا پہریدار ہے چنانچہ اس نے ایک تیر مارا اور اس کے اندر تول دیا ۔ اس ( انصاری ) نے وہ تیر ( اپنے جسم سے ) نکال دیا ( اور نماز میں مشغول رہا ) حتیٰ کہ اس نے تین تیر مارے ۔ پھر اس نے رکوع اور سجدہ کیا ۔ ادھر اس کا ( مہاجر ) ساتھی بھی جاگ گیا ۔ اس ( مشرک ) کو جب محسوس ہوا کہ ان لوگوں نے اس کو جان لیا ہے ، تو بھاگ نکلا ۔ مہاجر نے جب انصاری کو دیکھا کہ وہ لہولہان ہو رہا ہے تو اس نے کہا ؛
سُبْحَانَ اللَّهِ! أَلَا أَنْبَهْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَى؟! قَالَ: كُنْتَ فِي سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا، فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا. [ابوداؤد: 198 حسنہ الالبانی]
«سبحان الله» ! تم نے مجھے پہلے تیر ہی پر کیوں نہ جگا دیا ؟ اس نے جواب دیا ” میں ایک سورت پڑھ رہا تھا ، میرا دل نہ چاہا کہ اسے ادھوری چھوڑوں ۔ “
میرا ثواب لکھا جائے:
حضرت ابی بن کعب نے کہا: ایک آدمی تھا،میرے علم میں کوئی اور آدمی اس کی نسبت مسجد سے زیادہ فاصلے پر نہیں رہتا تھا اور اس کی کوئی نماز نہیں چوکتی تھی، اس سے کہا گیا یا میں نے (اس سے )کہا:اگر آپ گدھا خرید لیں کہ(رات کی) تاریکی اور (دوپہر کی) گرمی میں آپ اس پر سوار ہو جایا کریں۔ اس نے جواب دیا: مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر مسجد کے پڑوس میں ہو، میں چاہتا ہوں میرا مسجد تک چل کر جانا اور جب میں گھر والوں کی طرف لوٹوں تو میرا لوٹنا میرے لئے لکھا جائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَدْ جَمَعَ اللهُ لَكَ ذَلِكَ كُلَّهُ [مسلم: 1514]
"اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ تمھارے لئے اکٹھا کر دیا ہے۔”
غریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم:
سیدناابو ہریرہ نے فرمایا کہ نادار لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ امیرورئیس لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت حاصل کر چکے حالانکہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں لیکن مال ودولت کی وجہ سے انہیں ہم پر فوقیت حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے وہ حج کر تے ہیں۔ عمرہ کرتے ہیں۔ جہاد کرتے ہیں اور صدقے دیتے ہیں ( اور ہم محتاجی کی وجہ سے ان کاموں کو نہیں کر پاتے ) اس پر آپ نے فرمایا کہ لو میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں کہ اگر تم اس کی پابندی کروگے تو جو لوگ تم سے آگے بڑھ چکے ہیں انہیں تم پالوگے اور تمہارے مرتبہ تک پھر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور تم سب سے اچھے ہو جاؤگے سوائے ان کے جو یہی عمل شروع کر دیں ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح ( سبحان الله) تحمید ( الحمدلله) تکبیر ( الله اكبر) کہا کرو۔
[بخاری: 843]
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا :
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا؛
مَنْ صَلَّى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ بُنِيَ لَهُ بِهِنَّ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ عَنْبَسَةُ فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ أُمِّ حَبِيبَةَ وَقَالَ عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ عَنْبَسَةَ وَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ سَالِمٍ مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ
"جس نے ایک دن اور ایک رات میں بارہ رکعات ادا کیں اس کے لئے ان کے بدلے جنت میں ایک گھر بنا دیاجاتا ہے۔”ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: جب سے میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سنا،میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔
عنبسہ نے کہا:جب سے میں نے ان کے بارے میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا،میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔
عمرو بن اوس نے کہا:جب سے میں نے ان کے بارے میں عنبسہ سے سنا،میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔
نعمان بن سالم نے کہا:جب سے میں نے عمرو بن اوس سے ان کے بارے میں سنا،میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔ [مسلم: 1694]
سیدنا عمر بن خطاب :
سیدنا مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ وہ صبح کی نماز کے بعد سیدنا عمر بن خطاب کے پاس گئے اور اسی رات انہیں زخمی کیا گیا تھا چنانچہ سیدنا عمر کو بیدار کر کے صبح کی نماز کے لیے کہا گیا تو آپ نے فرمایا؛
نعم ولا حظ في الاسلام لمن ترك الصلاة
"جی ہاں اور دین اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں جو نماز ترک کر دے۔”
پھر سیدنا عمر نے اٹھ کر نماز ادا کی اور آپ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔
[السنن الکبریٰ للبیہقی: 357/1 ، سندہ صحیح]
یاد رہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا زخم اتنا شدید تھا کہ پیٹ اور اس کی رگیں کٹ چکی تھی نبیذ اور دودھ پلایا گیا تو وہ بھی پیٹ سے باہر اگیا۔ [بخاری: 3700]
سیدنا حذیفہ :
مصنف ابن ابی شيبہ میں ہے کہ :
كان حذيفة إذا فاتته الصلاة في مسجد قومه يعلق نعليه ويتبع المساجد حتى يصليها في جماعة .
جب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی اپنی قوم کی مسجد میں باجماعت نماز چھوٹ جاتي تو آپ اپنے جوتے لٹکاتے اور دیگر مساجد میں باجماعت نماز کی تلاش میں نکل پڑتے یہاں تک کہ باجماعت نماز ادا کر لیتے ۔ [ مصنف ابن ابی شیبة : 5990 ]
سلف صالحین کا شوقِ عبادت
امام ذہبی رحمہ اللہ:
تاج الدین بن علی السبکی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمہ اللہ کے قربِ وفات کا واقعہ لکھا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کے والد نے انہیں مغرب سے پہلے دیکھا تو وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے ، انہوں نے پوچھا کیسا محسوس کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا اخری سانسیں لے رہا ہوں۔ پھر انہوں نے اپنے والد سے پوچھا کیا نماز مغرب کا وقت داخل ہو چکا ہے؟ تو والد نے ان سے کہا کہ آپ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں پڑھ چکا ہوں لیکن میں نے اب تک مغرب کی نماز نہیں پڑھی ، پھر آپ نے اپنے والد سے مغرب اور عشاء کو تقدیماً جمع کرنے کا سوال کیا تو انہوں نے اس کے جواز کا فتوی دیا ، آپ رحمہ اللہ نے ایسے ہی کیا اور عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد پھر آدھی رات سے پہلے وفات پا گئے اور انہیں باب صغیر کے پاس دفن کیا گیا تھا۔
[طبقات الشافعیۃ الکبریٰ للسبکی: 105٫106/9 سندہ صحیح]
عدی بن حاتم رحمہ اللہ:
عدي بن حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؛
ما جاء وقت الصلاة إلا وأنا إليها بالأشواق، وما دخل وقت صلاة قط إلا وأنا لها مستعد .
"جب بھی نماز کا وقت ہوا میں اس کی ادائگی کے لیے مشتاق تھا اور جب بھی نماز کا وقت ہوتا ہے میں اس کے لیے تیار ہوتا ہوں ۔” [الزهد1/165]
ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں ؛
ما أقيمت الصلاة منذ أسلمت إلا وأنا على وضوء .
"میں نے جب سے اسلام لایا نماز کھڑی ہونے کی وقت با وضو ہوتا ہوں ۔” [السير : 3/164]
سعید بن مسیب رحمہ اللہ :
سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؛
ما اذن مؤذن منذ ثلاثين سنة الا وانا فى المسجد
"تیس سال کے عرصے سے مؤذن كے اذان دیتے وقت میں مسجد میں ہوتا ہوں ۔”
[مصنف ابن ابی شیبة : 3522]
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں ؛
ما فاتتني التكبيرة الأولى منذ خمسين سنة وما نظرت في قفا رجل في الصلاة منذ خمسين سنة .
"پچاس سال سے میری تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی اور نہ ہی اتنے عرصے میں کسی جماعتی کی گدی کو دیکھا ہے یعنی میں ہمیشہ پہلی صف میں کھڑا ہوتا تھا ۔” [وفيات الأعيان : 2/375]
ربیعہ بن یزید رحمہ اللہ:
ربیعہ بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں ؛
ما أذن المؤذن لصلاة الظهر منذ أربعين سنة إلا وأنا في المسجد إلا أن أكون مريضًا أو مسافرًا
"چالیس سال سے مؤذن کے ظہر کی آذان کے وقت میں مسجد میں ہوتا ہوں سوائے اس صورت کے کہ میں کہیں سفر پر ہوں یا مریض ہوں ۔” [السير : 5/240]
امام اعمش رحمہ اللہ :
امام وكیع اعمش رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں ؛
اﺧﺘﻠﻔﺖ ﺇليه ﻗﺮيبا ﻣﻦ سنتين ﻣﺎ ﺭأيته يقضي ﺭﻛﻌﺔ ﻭﻛﺎﻥ ﻗﺮيبا ﻣﻦ سبعين ﺳﻨﺔ ﻟﻢ ﺗﻔﺘﻪ التكبيرة اﻷﻭﻟﻰ .
"میرا ان کے ہاں دو سال تک آنا جانا رہا ، میں نے انہیں کبھی (امام کے سلام پھیرنے کے بعد ) کوئی رکعت ادا کرتے نہیں دیکھا ۔ وہ تقریبا ستر برس کے تھے ، لیکن تکبیر تحریمہ ان سے نہ چھوٹتی تھی ۔” [تھذیب التھذیب : 4/224 ]
ابن سماعہ رحمہ اللہ :
ابن سماعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؛
مكثت أربعين سنة لم تفتني التكبيرة الأولى إلا يوم ماتت أمي فصليت خمسا و عشرين صلاة اريد التضعيف [السير : 49/8 ]
"چالیس سال سے میری تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی سوائے اس دن کے جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا ۔ پھر میں نے پچیس نمازیں اس نیت سے پڑھیں کہ میرے اجر میں اضافہ ہو ۔”
سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ:
محمد بن المبارک صوري رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ؛
رأيت سعيد بن عبد العزيز إذا فاتته صلاة الجماعة بكى .
میں نے سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو دیکھا جب اس سے با جماعت نمازچھوٹ جاتی تو وہ رو پڑتے ۔ [ تذكرة الحفاظ : 1/161 ]
میمون بن مہران رحمہ اللہ:
میمون بن مہران رحمہ اللہ نماز کے لیے آئے تو انہیں کہا گیا : لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا :
إنا لله وإنا إليه راجعون، لفضل هذه الصلاة أحب إلي من ولاية العراق
إنا لله وإنا إليه راجعون ! یہ نماز مجھے عراق کی گورنری سے زیادہ محبوب ہے ۔
[ احياء العلوم : 193/1 ]
حاتم الأصم رحمہ اللہ:
حاتم الأصم بیان کرتے ہیں ؛
فاتتني الصلاة في الجماعة فعزاني أبو إسحاق البخاري وحده، ولو مات لي ولد لعزاني أكثر من عشرة آلاف، لأن مصيبة الدين أهون عند الناس من مصيبة الدنيا . "میری باجماعت نماز ضائع ہوگئی تو مجھ سے صرف ابو اسحاق بخاری نے تعزیت کی ۔ اگر میرا کوئی بیٹا فوت ہو جاتا تو دس ہزار لوگ مجھ سے تعزیت کرتے کیونکہ دنیا کا نقصان لوگوں کے ہاں دین کے نقصان سے بڑھ کر ہے ۔ [ مكاشفة القلوب : 364 ]
ابراہیم بن میمون رحمہ اللہ:
ابن معین ، ابراہیم بن میمون مروزی رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں :
كان إذا رفع المطرقة فسمع النداء لم يردّها.
وہ اپنا کام کرتے ہوئے جب اپنا ہتھوڑا سونے یا چاندی پر مارنے کے بلند کرتے اور اوپر سے اذان کی آواز سنتے تو اسے ادھر ہی روک لیتے وہ ایک ضرب بھی نہیں لگاتے ۔
[ تهذيب التهذيب : 173/1 ]