محمدﷺ بحیثیت فاتح
رسول اکرمﷺ نے اپنے حسن خطاب سے کانوں کو، فیضانِ رحمت سے دلوں کو اور نور حق سے نگاہوں کو فتح کیا۔ نبوت کی روشنی سے گھروں کو، عدل و سلامتی سے دنیا کو اور اللہ کے کلام سے مردہ دلوں، سوئی ہوئی روحوں اور جامد عقلوں کو فتح کیا۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
﴿ وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰی﴾
’’ اگر بلا شبہ کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس کے ذریعے سے پہاڑ چلائے جاتے یا اس سے زمین قطع کی جاتی یا اس کے ذریعے سے مردے بلوائے جاتے (تو وہ بھی قرآن ہوتا )۔ (الرعد 31:13)
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بلاشبہ نبی ﷺ کا نسلوں کو چلانا پہاڑوں کو چلانے سے بڑا کام ہے۔ آپ کا جاہلیت کے مشرکانہ عقائد کو ختم کرنا زمین کھودنے سے زیادہ مشکل ہے۔ اور یقیناً آپ ﷺکا نفوس و ارواح سے ہم کلام ہونا اور انھیں مخاطب کرنا مردوں سے کلام کرنے سے بھی عظیم کام ہے۔
آپ ﷺ توحید کے ساتھ فاتح بن کر آئے تو شرک و بت پرستی کا قلع قمع کیا، بتوں کو توڑا اور جاہلیت و صنم پرستی کے آثار ختم کیے۔
آپﷺ علم کے ساتھ فاتح بن کر آئے تو دلوں سے جہالت کے میل کچیل، پسماندگی کی دھول تو ہم پرستی کے اثرات اور غیر اللہ کی عبادت اور دوسروں پر انحصار کے تمام شرکیہ عقائد کو ختم کر ڈالا۔
آپ ﷺ عدل کے ساتھ فاتح بن کر آئے اور لوگوں کو ایک دوسرے کی بندگی، طاغوت کی غلامی اور ظلم و استبداد کی محکومی سے نکال کر اللہ کے حکم، اسلام کے عدل اور میزان حق کے تابع کر دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۹۰﴾
’’بے شک اللہ عدل و احسان کا اور قرابت داروں کو (امداد ) دینے کا حکم دیتا ہے اور وہ بے حیائی، برے کام اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت پکڑو۔‘‘ (النحل90:16)
نبی ﷺ آزادی کے ساتھ فاتح بن کر آئے، اس کا اعلان کیا اور انسانوں کے درمیان اسے نافذ کیا تو گردنوں کو آزاد کرایا۔ لوگوں کو نجات دلائی۔ کمزوروں، مسکینوں اور مظلوموں کی مدد کی۔ یتیموں اور بے سہارا لوگوں کو پناہ دی۔ بھوکوں کو کھانا کھلایا۔ قیدیوں کو آزاد کیا اور پوری دنیا میں رحمت کا بول بالا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلعَلَمِينَ﴾
’’اور (اے نبی !) ہم نے آپ کو تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لیے ہی بھیجا ہے۔‘‘ (الانبیاء 107:21)
آپ ﷺمساوات کے ساتھ فاتح بن کر آئے تو قریشی، حبشی، رومی، بر بری، ترکی، کُردی سب لوگ آپ کے سامنے کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر تھے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہ تھی۔
برتری کی ایک ہی صورت کو باقی رکھا اور وہ ہے تقوی و پرہیز گاری۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَإِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰكُمْ﴾
’’بلا شبہ اللہ کے ہاں تم میں سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو ) تم میں سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (الحجرات 13:49)
آپﷺ طہارت کے ساتھ فاتح بن کر آئے، چنانچہ آپ کا پورا دین طہارت پر مبنی ہے۔ ضمیر کی طہارت، اعضاء کی طہارت، ظاہر و باطن کی طہارت اور گھر، راستے اور زمان و مکان کی طہارت کو ضروری قرار دیا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ﴾
’’بے شک اللہ بہت تو بہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور خوب پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (البقرة:222:2)
اور آپﷺ نے فرمایا: ((اَلطّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ))
’’طہارت ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حديث: 223)
د را رسول اکرمﷺ اور آپ کے پیروکاروں کی فتوحات کا دنیا کے دیگر نامور فاتحین کی فتوحات سے موازنہ کریں، جیسے چنگیز خان، ہلاکو تنبع، نپولین، نازی ، ہٹلر، بخت نصر اور حمورابی وغیرہ۔ یہ سب مختلف شہروں میں داخل ہوئے اور قتل و غارت اور نسل کشی کے مرتکب ہوئے۔ ان کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ آپﷺ کی فتوحات اللہ کی وحدانیت، عدل و انصاف، خوبصورت کردار، عمدہ اخلاق، لوگوں کے ساتھ رحمت و شفقت، نظریات کی خوبصورتی اور تمام لوگوں کے درمیان مساوات کا عملی نمونہ ہیں! استعماری قوتوں نے جن علاقوں پر قبضے کیے اور پھر وہاں سے نکل آئے مگر وہ ان معاشروں کو اپنے رنگ میں رنگنے یا وہاں اپنے دینی اور اخلاقی اثرات چھوڑنے میں ناکام رہے۔
انگریز، فرانسیسی، ہسپانوی اور ڈچ افریقہ اور ایشائی ممالک پر بڑے بڑے لشکر جرار لے کر حملہ آور ہوئے، مگر جب وہاں سے نکلے تو ان کے اخلاقی اثرات بھی جلد ختم ہو گئے ان کی تہذیب و تمدن سے وہاں کے باشندوں کو عام طور پر متاثر نہ ہوئے۔
اس کے برعکس مسلمان بہت سے علاقوں جیسے انڈونیشیا اور ملائیشیا وغیرہ میں بطور تاجر داخل ہوئے، ان کے ساتھ فوج تھی نہ جہاز اور ٹینک تھے مگر وہاں کے باشندوں نے ان تاجروں کے عدل و انصاف اور حسن معاملات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
مسلمان جب بھی کسی شہر میں داخل ہوئے، نبی اکرم ﷺکی دعوت کی برکت سے انھوں نے وہاں اپنی تہذیب کے نشانات، اپنے پیغام کے انوار اور اپنے اعلیٰ اخلاق کے اثرات ضرور چھوڑے۔
مسلمانوں نے آج تک جتنی فتوحات کیں یا قیامت تک کریں گے، خواہ وہ نظریاتی فتح ہو یا شہروں کی فتح، وہ سب فاتح اول محمد رسول اللہ ﷺ کی فتوحات و برکات کی مرہون منت ہیں۔ آپ ﷺنے اس مبارک سفر کا آغاز کیا، قافلے کی قیادت کی اور ایک بڑی پیش رفت کا اعلان کیا اور آپ کی بعثت کے روز ہی سے ہم بڑی فتح کی خوشی میں رہ رہے ہیں۔
میں نے ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا۔ وہاں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مسلمانوں کو دیکھا جنھوں نے تسبیح، حمید، تکبیر، لا الہ الا اللہ اور تلاوت قرآن سے دنیا کو معمور کر رکھا ہے، تو میں نے اپنے دل میں کہا: اے اللہ! ان لاکھوں لوگوں کو اس عظیم دین کا تابع کس نے بنایا ؟! پھر میں نے خود ہی جواب دیا کہ باری تعالی نے سچ فرمایا: ﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا﴾ ’’(اے نبی!) بلاشبہ ہم نے آپ کو فتح دی، کھلی فتح۔‘‘ (الفتح (1:48)
آپ ایشیا اور افریقہ کی اسلامی ریاستیں دیکھیں۔ وہاں کے باشندوں نے بغیر کسی دباؤ کے ہزار سال سے اسلام قبول کر رکھا ہے اور انھیں کسی نے مجبور نہیں کیا۔ نہ اسلحے کے زور پر انھیں اسلام لانے پر مجبور کیا گیا اور نہ قتل و جلا وطنی کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہ اس عظیم فتح کا نتیجہ ہے کہ بچے، بوڑھے اور بزرگ خواتین اس نرمی اور محبت و شفقت سے محمد اللہﷺ نام لیتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں۔ جاپان کے مسلمان بچوں، نائجیریا کے بوڑھوں، پاکستان کے بزرگوں اور ایتھوپیا کے نوجوانوں کو کس نے سکھایا کہ جب رسول ﷺکا نام آئے تو ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو جائیں ؟ یہ کیسی محبت، کیسی چاہت، کیسی شفقت، کیسا اثر، کیسا ربانی تعلق اور الہی قرب ہے؟! اس سے عظیم فتح کیا ہوسکتی ہے کہ آپ ﷺقلوب و اذہان میں اتر جائیں۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی آپﷺ کے اثرات نسل در نسل منتقل ہوتے جائیں اور آپ کے اخلاق دیکھنے والوں کے لیے ہمیشہ زندہ جاوید ر ہیں ؟!
مشرق و مغرب کو فتح کرنے والے اس دنیا سے گئے تو ان کی زرہ تیس ٹوپے جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ ﷺاور آپ کے پیرو کاروں نے محض قبضہ کرنے یا کسی دنیاوی طمع کے لیے شہر فتح نہیں کیے۔ ان فتوحات کا مقصد فائدہ مند علم، عمل صالح، اخلاق حسنہ، اچھے رویے اور مبنی بر عدل حکومت قائم کرنا تھا۔
اس فتح کا مختصر تعارف سیدنا ربعی بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے قادسیہ کے معرکے سے پہلے اس وقت کرایا جب سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے انھیں رستم کے دربار میں بھیجا۔ رستم نے ان سے پوچھا: تمھیں کیا چیز یہاں لائی ہے؟ انھوں نے فرمایا:
’’اللہ تعالی نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف دنیا کی تنگیوں سے نکال کر اس کی وسعتوں کی طرف اور دنیا کے مختلف مذاہب کے ظلم و جور سے اسلام کے عدل و انصاف کی طرف لائیں۔ اللہ نے ہمیں اپنا دین دے کر مخلوق کی طرف بھیجا ہے کہ ہم انھیں اس کی دعوت دیں، پھر جس نے اسے قبول کیا، ہم اس سے قبول کریں گے اور اس سے واپس چلے جائیں گے۔‘‘ (البداية والنهاية 39/7)
آپ ﷺکی فتوحات میں رحمت و نری لازمی طور پر پیش نظر تھی۔ آپﷺ نے فرمایا:
((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ))
’’اے لوگو! میں بھیجی ہوئی خاص رحمت ہوں۔ ‘‘‘ (المستدرك للحاكم، حديث (100)
اور اللہ تعالی نے آپﷺ کی رسالت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلعَلَمِينَ﴾ ’’اور (اے نبی !) ہم نے آپ کو تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لیے ہی بھیجا ہے۔‘‘ (الأنبياء 107:21)
اور آپ ﷺاپنے لشکر کے قائدین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے:
((أُغْزُوا وَلَا تَغْلُوْا، وَلَا تَغْدِرُوْا، وَلَا تَمْثُلُوْا، وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِيدًا))
جہاد کرو، خیانت نہ کرو، نہ بد عہدی کرو، نہ مثلہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 1731) آپ ﷺکی جنگیں اور فتوحات لوگوں کا مال برباد کرنے، زمین میں فساد برپا کرنے، لوگوں کی جانیں لینے اور خون بہانے کے لیے نہیں ہوتی تھیں۔ آپ کی جنگوں کا مقصد تعمیر و ترقی نسلِ انسانی کی بقاء علم کا خاتمہ، عدل انصاف کا قیام، زیادتی کے بجائے رحمت اور جنگ کی جگہ سلامتی کو عام کرتا تھا۔ چونکہ آپ زندگی کی اصلاح و بہتری، زمین کی آباد کاری، لوگوں کی دل جوئی، باہمی اتحاد و اتفاق اور بھائی چارے پر مبنی عمدہ معاشرہ قائم کرنے کے لیے تشریف لائے تھے، اس لیے آپ اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق عمل کرتے تھے:
﴿ وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۱۹۰﴾
’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو (جہاد کرو) جو تم سے لڑتے ہیں اور تم زیادتی نہ کرو، ہے ملک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘ (البقر190:2)
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو جنگوں میں ظالمانہ طریقہ کار اپنانے سے خبردار کیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْهَا وَ یُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ۲۰۵﴾
’’اور جب وہ (منافق) پالتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے، کھیتوں اور نسل کو تباہ کرے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (البقرة 2: 205)
جب رسول اکرم ﷺنے سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خیبر کی فتح کے لیے بھیجا تو حکم دیا:
((أُدْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَوَاللهِ! لَأَنْ يَّهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَّاحِدًا، خَيْرٌ لَّكَ مِنْ أَنْ يَّكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ))
’’انھیں اسلام کی دعوت دو، اللہ کی قسم! اگر تمھارے ذریعے سے اللہ ایک آدمی کو ہدایت نصیب کر دے تو یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 3009)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺ کو بتایا گیا کہ یہ سیدنا حمزہ ﷺ کا قاتل وحشی ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو، کسی ایک آدمی کا مسلمان ہونا مجھے ہزار کا فرقتل کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ (فتح الباری: 370/7)
لوگوں کو راہ ہدایت پر لانا، انھیں اللہ کے عذاب سے بچانا اور تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانا آپﷺ کی رسالت کے عظیم مقاصد میں سے ہے۔ اس کی بہترین دلیل فتح مکہ ہے بلکہ یہ قیامت تک تمام فتوحات اسلامیہ کے لیے سب سے زیادہ خوبصورت اور عحمدہ مثال ہے۔ فتح مکہ میں آپ ﷺنے کسی پر کوئی زیادتی کی نہ جنگ بھڑ کانے کی کوشش کی بلکہ سب لوگوں کے لیے سلامتی اور امان کے دروازے کھول دیے۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَى السِّلاحَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ اٰمِن))
’’جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا، اسے امان ہے۔ جس نے ہتھیار ڈال دیے، اسے امان ہے۔ اور جس نے اپنا دروازہ بند کر لیا، اسے بھی امان ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد والسير، حديث (1780)
اور جب رسول پاک ﷺمکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور حرم نظر آیا تو آپ ﷺنے اپنا سر جھکا لیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ یہ لمحہ کتنا عظیم اور شان و شوکت والا تھا۔ فتح وغلبہ کا لمحہ جس کے لیے زمین ترستی تھی۔ آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔ تاریخ اسے رقم کرنے کے لیے رک گئی۔ زمانے نے اس پر گواہی دی۔ فرشتے آپ کے ہمراہی تھے اور مومنوں نے آپ کو گھیر رکھا تھا۔ اس سب کے باوجود آپ کی یہ خون ریز، قتل و غارت کرنے والے اور سفاک و منتقم بن کر مکہ میں داخل نہیں ہوئے بلکہ حلیم و کریم اور پیکر عجز و انکسار بن کر فاتحانہ داخل ہوئے۔ جب آپ ﷺنے کعبہ کو دیکھا تو اللہ کے سامنے تواضع و انکسار سے اپنا سر مبارک اتنا جھکا لیا کہ داڑھی مبارک اونٹنی کے کجاوے کے اگلے حصے کے ساتھ مس کر رہی تھی۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آپ اس مکہ کو دیکھ رہے تھے جہاں سے آپ کو دس سال پہلے بے سرو سامان نکالا گیا تو آپ نے حمراء الاسد کے پاس کھڑے ہو کر آنسو بہاتے ہوئے اسے الوداع کہا تھا۔
آپ دس سال تک کعبہ کا طواف کرنے اور اس میں نماز ادا کرنے کے لیے ترستے رہے، پھر اللہ تعالی نے آپ کی مدد کی۔ بت آپ کے سامنے زمین بوس ہوئے اور آپ اللہ کی کبریائی اور حمد بیان کرتے ہوئے بیت اللہ میں داخل ہوئے یوں اللہ کا وعدہ پورا ہوا۔ سید نا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے دن رسول اکرم ﷺکو دیکھا۔ آپ ﷺاونٹنی پر سوار تھے اور خوش الحانی سے سورۃ الفتح کی تلاوت کر رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ میرے ارد گرد جمع ہو جائیں گے تو میں اسی طرح خوش الحانی سے تلاوت کرتا جس طرح آپﷺ کر رہے تھے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حديث: 4281)
قریش مسجد الحرام میں اس کثرت سے جمع تھے کہ مسجد بھری ہوئی تھی۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ نبی ﷺکیا کرتے ہیں۔ آپ ان کے پاس کھڑے ہو گئے اور جو باتیں آپﷺ نے کیں، ان میں یہ بھی تھا:
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ بیچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے جتھوں کو شکست دی۔ سنو! بیت اللہ کی کلید برداری اور حاجیوں کو پانی پلانے کے سوا سارے فخر، مال یا خون میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے۔
اے قریش کے لوگو! اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کر دیا۔ سارے لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے ہیں۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۱۳﴾
’’اے لوگو! بلا شبہ ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ اور ہم نے تمھارے خاندان اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بلا شبہ اللہ کے ہاں تم میں سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو ) تم میں سے زیادہ متقی ہے۔ بلا شبہ اللہ سب کچھ جانے والا، پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ (الحجرات 13:49)
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ’’قریش کے لوگو! تمھارا کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ انھوں نے کہا: اچھا ہی۔ آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ إِذْهَبُوْا فَأَنْتُمُ الطَّلَقَاء)) ’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘ آپ ﷺنے زمانہ جاہلیت کے سارے خون اور بدلے ختم کر دیے اور ماضی کے دشمنوں سے کوئی انتظام نہ لیا بلکہ عام معافی اور درگزر کا اعلان فرمایا تو دل آپ ﷺکے گرویدہ ہوگئے۔ وہ ایسا خوانگوار دن تھا جسے تاریخ کبھی نہیں بھولے گی۔ آپ ﷺ نے دلوں کو موہ لینے والا ایسا خوبصورت کلمہ ارشاد فرمایا جس کے نقوش رہتی دنیا تک باقی رہیں گے۔ آپﷺ نے لڑنے والے، برا بھلا کہنے والے اور اذیتیں دینے والے اپنے مخالفین پر قابو پا کر فرمایا: ’’جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘
کیا تاریخ میں ایسا فاتح گزرا ہے جو طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں دینے والے، جلا وطن کرنے اور جنگ کرنے والے دشمنوں پر اس شان و شوکت سے غالب آئے، پھر انہیں معاف کر دے، درگزر کرے، انھیں عزت دے اور ان کے ماضی کے سارے کرتوت عفو و درگزر کے ایک کلمے سے مٹادے؟! یقیناً محمد رسول اللہ ﷺ کے سوا ایسا کوئی نہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے چند ایسے امور سرانجام دیے جو نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک کام سیاہ فام سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم ہے۔ یہ ایک کام ہی انسانی بھائی چارے، عزت نفس اور کمزوروں اور مایوس و محروم لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی بہت بڑی دلیل اور ارشاد باری تعالى: ﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ﴾ ’’بلاشبہ اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو ) تم میں سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (الحجرات 13:49) کا عملی نمونہ تھا۔
چنانچہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ پر چڑھے اور اذان کی صدا بلند کی تاکہ زمانہ خاموشی سے سنے اور تاریخ اس عظیم فتح عدل و انصاف اور بے پناہ رحمت کی گواہی دے۔ مکہ کے اطراف و اکناف میں کلمہ حق و توحید لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ گونجتا رہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔
حق غالب آیا اور باطل پاش پاش ہو گیا۔ اہل مکہ نے رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کا اعلان کیا اور بیعت کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔ رسول اکرم ﷺصفا پہاڑی پر تشریف فرما ہوئے۔ مرد و خواتین نہایت محبت و سلامتی اور خوش دلی سے اس بات پر آپ کی بیعت کر رہے تھے کہ وہ آپﷺ کی ہر بات سنیں گے اور مانیں گے۔
آپﷺ نے فتوحات میں جس رحمت و عدل کا مظاہرہ کیا، اس کی گواہی مشرق و مغرب کے نامور لوگوں نے دی ہے حتی کہ غیر مسلموں نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ بہت بڑا فرانسیسی مستشرق گستاف لی بون اپنی کتاب
’’La Civilsation des Arabes‘‘ ’’ حضارة العرب‘‘ میں لکھتا ہے:
محمد (ﷺ) طرح طرح کی ایذا رسانیوں اور مصائب کا سامنا صبر و تحمل اور کھلے دل سے کرتے تھے۔ محمد (ﷺ) نے قریش کے ساتھ بھی، جو میں سال تک آپ کے دشمن رہے، لطف و کرم والا معاملہ فرمایا اور بڑی مشکل سے انھیں اپنے صحابہ کے انتقام سے بچایا۔ آپ نے صرف اسی پر اکتفا کیا کہ کعبہ میں رکھی ہوئی تصویر میں مٹا دیں۔ اس میں موجود 360 بتوں کو چہروں اور پیٹھوں کے بل گرانے کا حکم دے کر کعبہ کو پاک صاف کر دیا اور اسے اسلامی عبادت گاہ بنادیا اور یہ معبد آج تک بیت الاسلام ہے۔‘‘
نیز وہ کہتا ہے:
’’اگر لوگوں کو ان کے عظیم کارناموں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو تاریخ جتنے لوگوں سے واقف ہے، ان میں محمد ﷺسب سے عظیم ہیں۔‘‘
بلاشبہ تاریخ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ عربوں سے زیادہ رحم دل فاتحین دنیا نے کبھی نہیں دیکھے، یعنی محمدﷺ کے مسلمان پیروکاروں سے زیادہ رحم دل فاتحین کہیں دیکھنے میں نہیں آئے۔
اور ان سب گواہیوں سے بڑی گواہی اللہ تعالی کی ہے، فرمایا: ﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِیْنًا﴾ ’’(اے نبی! بلاشبہ ہم نے آپ کو فتح دی ،کھلی فتح۔‘‘ ( الفتح1:48)
یعنی اے محمد! ہم نے آپ کو واضح، پاکیزہ اور مبارک فتح عطا کی ہے۔ آپ کے لیے لوگوں کے دل کھول دیے تو آپ نے ان میں ایمان کا بیج بویا۔ ہم نے ان کے ضمیر آپ کے لیے کھولے تو آپ نے ان میں نیکی و فضیلت کی عمارت کھڑی کر دی۔ ہم نے ان کے سینے آپ کے لیے کھولے تو آپ نے ان میں حق داخل کر دیا۔ ہم نے شہروں کو آپ کے لیے فتح کیا تو آپ نے ان میں ہدایت پھیلا دی اور ہم نے آپ کے لیے لیے معرفت کے خزانے، علم کے دروازے اور توفیق کی راہیں کھول دیں۔ آپ کی دعوت سے ہم نے بند دل، اندھی آنکھیں اور بہرے کان کھول دیے اور آپ کا پیغام جنوں اور انسانوں کو سنا دیا۔ ہم نے آپ کو فتح عطا کی تو آپ کی زبان اطہر سے نفع بخش علم پھیلا اور آپ کے دل سے ہدایت مبارکہ کا فیضان عام ہوا اور آپ کے دائیں ہاتھ سے سخاوت کا دریا بہا۔ ہم نے آپ کو فتح عطا کی تو آپ کو مال غنیمت ملا اور آپ نے اسے تقسیم کیا۔ آپ کو دولت دی گئی تو آپ نے اسے لوگوں میں بانٹا اور آپ کو مال ملا تو آپ نے خرچ کیا۔
ہم نے آپ کے لیے علم کا دروازہ کھول دیا، حالانکہ آپ اُمی تھے، پڑھ لکھ نہ سکتے تھے مگر علماء مسلسل آپ کے علم کے سمندر سے فیض پا رہے ہیں۔
ہم نے آپ کے لیے خیر کے دروازے کھولے تو آپ نے قریبی عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کی، دور والوں کو بھی نوازا، بھوکوں کو پیٹ بھر کر کھلایا، بے لباسوں کو لباس پہنایا، مسکینوں کے ساتھ ہمدردی کی اور ہمارے فضل و کرم اور رزق سے فقیروں کو غنی کر دیا۔
ہم نے آپ کے لیے قلعے، شہر اور دیہات فتح کیے تو آپ کے دین کا بول بالا ہوا، آپ کا جھنڈا بلند ہوا اور آپ کی ریاست مضبوط ہوئی، چنانچہ آپ پر ہر بھلائی، نیکی، احسان، مدد اور توفیق کے دروازے کھول دیے گئے۔