محمدﷺ بحیثیت فصیح و بلیغ

آسمانی رسالت کی تشریح، سنت نبوی کی توضیح اور ملت مقدسہ کی تبلیغ بہت اہم ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے نہایت اعلیٰ فصاحت و بلاغت، پراثر بیان اور عمدہ طرز خطاب بہت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر مصطفی ﷺکو فصاحت و بلاغت کے ساتھ وعظ و گفتگو کرنے کا حکم دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا۝۶۳﴾

’’اور انھیں نصیحت کرتے رہیں اور ان سے دلوں پر اثر کرنے والی بات کہیں۔‘‘ (النساء 63:4)

تمام لوگوں تک پیغام رسالت پہنچانا  آپ ﷺ کی سب سے اہم ذمہ داری تھی، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِ ۙ﴾

’’اور ہم نے آپ پر کتاب صرف اس لیے نازل کی ہے تا کہ آپ ان پر وہ بات واضح کر دیں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔‘‘ (النحل 64:16)

فصاحت و بلاغت کی اہمیت اور زبان و بیان کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون  علیہ السلام کو اس لیے اُن کا ہمنوا بنایا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ فصیح اللسان اور قوت بیان رکھتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ کی دعا کا ذکر فرمایا:

﴿وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ ؗ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ۝۳۴﴾

’’اور میرا بھائی ہارون، وہ زبان کے لحاظ سے مجھ سے زیادہ فصیح ہے، لہٰذا تو اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ دہ میری تصدیق کرے، بلاشبہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا ئیں گے۔“ (القصص 34:28)

اور یہ فصاحت و بلاغت کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کی دلیل ہے۔ اہل عرب اس کے سرخیل تھے اور زیادہ تر امتیں اسی سے پروان چڑھی ہیں۔

ہمارے رسول ﷺکھلے معجزات اور قلعی دلائل لائے۔ آپﷺ عربی بولنے والوں میں سب سے زیادہ فصاحت والے اور بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچانے والوں میں سب سے زیادہ بلاغت رکھنے والے تھے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺکو عبارت کی خوبصورتی، کلمات کا سحر، جملوں کی دل نشینی، مخارج حروف کا حسن، لفظوں کا اعجاز اور تمثیل کی چمک عطا کی تھی۔ آپ ﷺ کی فصاحت و بلاغت نبوت کے جلیل القدر دلائل ، عظمت کے کھلے نشانات اور رسالت کے نمایاں مظاہر میں سے ہے۔ آپ ہی سب سے زیادہ فصیح اور واضح زبان والے ہیں، سب سے درست اور عمدہ زبان بولنے والے، سب سے سچے کلمات اور پر اثر عبارات والے ہیں۔

اللہ تعالی نے آپ کے کلام، گفتگو اور حدیث کا تزکیہ کیا اور فرمایا :

﴿وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕ۝۳

اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ۝۴﴾

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ وحی ہی تو ہے جو (اس کی طرف) بھیجی جاتی ہے۔‘‘ (النجم53: 3،4)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ۝۱۹۳

عَلٰی قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۝ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍؕ۝﴾

’’روح الامین (جبریل) اسے لے کر نازل ہوا، آپ کے دل پر ، تا کہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں، واضح عربی زبان میں۔‘‘ (الشعراء 193:26-195)

آپ ﷺکا کلام مسحور کن اور دلوں کو رونق و جمال سے بھرنے والا ہے۔ اس سے روح کو تسکین اور تروتازگی ملتی ہے۔ آپ کی بات سچی ، عبارات روشن اور الفاظ میں حسن و خوبصورتی ہے۔ بات لمبی کرتے تو نہایت اچھی اور متاثر کن ہوتی اور مختصر کرتے تو لاجواب کر دیتے۔

آپﷺ ضرورت کے وقت بات لمبی کرتے مگر اس میں ملال اور اکتاہٹ نہ ہوتی۔ مختصر کلام کرنے کا موقع ہوتا تو بھی جامع و مانع گفتگو کرتے۔ آپ نہایت حاضر جواب، قوی اور ٹھوس دلیل سے بات کرنے والے تھے۔

سننے والا آپ کے کلام میں شیرینی اور مٹھاس پاتا اور آپ کی گفتگو سے سکون اور خوشی محسوس کرتا۔

نبی ﷺ تمام خطیبوں پر غالب آگئے۔ آپ نے فصاحت و بلاغت کے اماموں کو لا جواب اور شعراء کو حیران کر دیا کیونکہ آپ کو نبوت کی راہنمائی اور رسالت کی تائید میسر تھی۔ ربانی عصمت و عنایت کا اعزاز حاصل تھا۔ آپ جو بات کہتے ، شریعت بن جاتی۔ جو لفظ زبان پر لاتے، وہ دین بن جاتا۔ آپ کی ہر حدیث واجب اطاعت ہے، جیسا کہ شاعر نے بلاغت نبوی کے حوالے سے کہا ہے:

فَمَا عَرَفَ الْبَلَاغَةَ ذُوْبَيَانٍ

إِذَا لَمْ يَّتَّخِذْكَ لَهُ كِتَابًا

’’جب تک کوئی بھی صاحب بیان آپ ﷺکو اپنا پیشوا نہ بنائے، اس وقت تک وہ بلاغت سے آشنا نہیں ہو سکتا۔‘‘

 یقینًا آپ ﷺ نے فصاحت کا ایک دیوان بنایا۔ بلاغت کا چمن آباد کیا۔ آپ فصاحت و بلاغت سے کلام کرنے والوں کے امام ہیں۔ آپ کے ارشادات یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں اور علماء کے حلقوں میں ان کی تعلیم و تدریس اور حفظ کا اہتمام ہوتا ہے۔ آپ کی گفتگو زبان اور آنکھ کے طعن، غیر مناسب اشاروں اور گھٹا انداز سے پاک تھی۔ آپ نہایت اعلیٰ ، شاندار، بے مثال اور مفید گفتگو فرماتے۔ جو شخص آپ ﷺکا کلام پڑھتا اور اس میں غور و فکر کرتا ہے، وہ اس نہایت منظم و مرتب ، عمدہ دنفیس اور قیمتی کلام کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔

لاکھوں سرداروں، قائدین، دانشوروں، تخلیق کاروں ، شعراء، ادباء اور عبقری شخصیات کے کلام میں آپ ﷺکا کلام باآسانی پہچانا جا سکتا ہے۔ آپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کی سادگی اور حسن خود بول کر بتاتا ہے کہ یہ محمد بن عبداللہ ﷺ کا فرمان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں آپ ﷺ ہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کی دل نشین اور شیریں گفتگو سے پاکیزہ ارواح و قلوب سیر نہیں ہوتے۔

بلا شبہ آپﷺ کے فصیح و بلیغ اور مفید کلام پر رسائل اور تحقیقات شائع ہوتی ہیں اور اس کے اعجاز اور اختصار و جامعیت پر کتابیں تالیف کی گئی ہیں۔ آپﷺ کا ہر کلمہ سچائی اور تاثیر میں ضرب المثل ہے۔ آپ کے کلام کی ایک ایک سطر منہج حیات اور دستور اخلاق کا درجہ رکھتی ہے۔ ہر لفظ کافی وشافی نصیحت اور پُر تاثیر نفع بخش علم ہے۔ عام طور پر فصاحت و بلاغت والے لوگ مبالغہ آرائی اور تکلفات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی گفتگو اپنے موضوع اور صداقت سے دور نکل جاتی ہے۔ عربوں کا مشہور مقولہ ہے : أَعْذَبُ الشِّعْرِ أَكْذَبُهُ. ’’جو شعر جتنا زیادہ جھوٹ پر مبنی ہو، اتنا ہی دلنشین ہوتا ہے۔ لیکن نبی مختار اور امام الابرار ﷺکی فصاحت و بلاغت، قول و فعل میں صداقت پر مبنی ہے۔ آپ ﷺ کی گفتگو میں کوئی لغزش یا غلطی ہے نہ آپ مزاح میں صداقت کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے ہیں۔ آپ ہمیشہ موضوع سے متعلق گفتگو فرماتے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((ثُمَّ لَا تَجِدُوْنِي بَخِيلًا وَلَا كَذُوْبًا وَلَا جَبَانًا))

’’پھر تم مجھے ذرہ بھر بخیل ، جھوٹا اور بزدل نہ پاؤ گے۔“ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2821)

آپ ﷺ نے گفتگو میں تکلف اور بد زبانی سے منع فرمایا، چنانچہ جھوٹی اور افتراء پر مبنی تُک بندی کرنے والے سے آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّمَا هٰذَا مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ)) “”یہ تو بس کاہنوں کا بھائی ہے۔ یہ بات آپ نے اس کے قافیہ دار کلام کی وجہ سے کہی جو اس نے جوڑا تھا۔ (صحیح مسلم، القسامة، حدیث (1681)

اسی طرح آپ کی گفتگو اور کلام میں تکلف تھا نہ آپ زبان پھیر پھیر کر بات کرتے تھے۔ آپ اپنی گفتگو میں مشکل اور غیر مانوس الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے جن کا سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہو اور ان کی وضاحت کے لیے انھیں ڈکشنریوں کا سہارا لینا پڑے۔ آپ کے کلمات نہایت آسان، سادہ اور عام فہم ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ۝﴾

’’(اے نبی!) کہہ دیجیے: میں تم سے اس (تبلیغ دین) پر کوئی اجر نہیں مانگتا، اور میں تکلف (بناوٹی کام) کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ (ص 86:30)

آپ ﷺ نے بے جالمبی گفتگو سے بھی منع فرمایا اور منہ ٹیڑھا کر کے تکبر سے گفتگو کرنے والوں کی مذمت کی۔ سیدنا جابر  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

’’تم میں سے مجھے سب سے زیادہ (دنیا میں ) محبوب اور قیامت کے دن میرے پاس بیٹھنے کے لحاظ سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جن کا اخلاق سب سے زیادہ اچھا ہے۔ اور تم میں سے مجھے (دنیا میں) سب سے زیادہ ناپسند اور قیامت کے دن نشست کے اعتبار سے مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو باتونی، بکواس اور باچھیں کھول کھول کر، منہ بھر کر تکبر سے گفتگو کرنے والے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب البر والصلة، حدیث: 2018)

قول، فعل اور احوال میں آسانی آپﷺ کا منبج، سہولت آپ کا طریقہ اور عظمت آپ کا دین ہے۔ آپ ﷺ امی ہونے کے باوجود جب گفتگو کرتے تو آپ کے منہ سے فصاحت و بلاغت، طہارت و عبارت اور طراوت و تازگی کے پھول جھڑتے۔ آپ نے قلم اٹھایا نہ کبھی ایک لفظ تحریر کیا لیکن بلاغت کے بڑے بڑے ماہرین کو ششدر کر دیا اور زبان و بیان کے بڑے بڑے اساتذہ لاجواب ہو گئے۔ فصاحت و بلاغت کے پہاڑ اور لغت کے امام دم بخود رہ گئے۔ آپ بڑے بڑے مجمعوں میں کھڑے ہوئے ، عرب کے بھرے بازاروں میں گئے اور بڑے بڑے عوامی مقامات کا رخ کیا اور وہاں خطاب کیا تو سامعین دم بخود رہ گئے۔ ہر کان آپ کی طرف متوجہ ہوا، ہر دل نے بات محفوظ کرنے کی کوشش کی اور نگاہیں اس عظیم امام اور نبی اکرم ﷺکو دیکھ کر جھک گئیں۔

میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان! بھلا آپ کے کلام سے کون سیر ہو سکتا ہے۔ آپ کو تو الفاظ و معانی کی تخلیق و جدت کا ملکہ عطا ہوا ہے اور آپ زبان و بیان کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ آپ ﷺ کے صحابہ آپ کے سامنے بیٹھنے میں ایسی روحانی خوشی محسوس کرتے جیسے جنت میں ہوں اور ربانی عنایات کے باغ میں بیٹھے ہوں۔ وہ کلمات نبویہ کی برکت پوری توجہ سے سماعت کرتے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے سابقہ علم کے بغیر آپ کو یہ علم سکھایا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ وَ لٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا ؕ وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍۙ۝﴾

’’آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنا دیا۔ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں، اس کے ذریعے سے ہدایت دیتے ہیں۔ اور بلاشبہ آپ سیدھے راستے ہی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ (الشوری 52:42)

رسول الله ﷺدوسروں کو قائل کرنے کے ماہر، روشن دلائل کے امام اور سحر انگیز خطاب میں اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ ﷺ کے اقوال و الفاظ کی فصاحت و بلاغت اور بیان کے واضح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ کے ارشادات بے مثال ہیں۔ آپ سے پہلے کسی نے وہ الفاظ نہیں کہے، جیسے آپ ﷺ کا فرمان ہے:

((لا يُلْدَعُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَّرَّتَيْنِ))

’’مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث: 6133)

اور آپ ﷺ کا فرمان ہے : ((هٰذَا حِيْنَ حَمِيَ الْوَطِيسُ)) ’’یہ جب گھمسان کا رن پڑا۔‘‘  جس طرح آپ ﷺ کی رسالت سے دل و دماغ کو روشنی ملی، اسی طرح آپ کی فصاحت و بلاغت سے زبان و بیان کی نئی راہیں کھلیں۔

آپ ﷺکی بلاغت کا کمال ہے کہ آپ نے اصلاح کے لیے اشارات استعمال کیے۔ کھلے الفاظ میں تنقید نہیں کی تاکہ نصیحت باعث رسوائی نہ ہو۔ آپ ﷺنہایت لطیف اور نرم الفاظ استعمال کرتے تھے۔ کسی کی غلطی کی اصلاح یا گناہ پر تنبیہ نہایت خوبصورت الفاظ سے کرتے۔ آپ کے ایک عامل نے اپنی ڈیوٹی کے دوران میں خلاف سنت تحفہ قبول کیا تو آپ ﷺکھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیا:

’’اما بعد! میں تم میں سے کسی کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالی نے میرے سپرد کیا ہے، پھر وہ شخص میرے پاس آ کر کہتا ہے: یہ تمھارا مال ہے اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا تا کہ وہیں اسے تحائف پہنچ جائیں ؟“ (صحيح البخاري، الحيل، حديث: 6879)

آپ ﷺنے اس غلطی کرنے والے کو براہ راست مخاطب نہیں کیا بلکہ عمومی انداز اختیار کیا۔ لوگوں کی غلطیوں کی اصلاح آپ ﷺ اسی طریقے اور بلاغت سے کرتے تھے۔

آپ ﷺکی فصاحت و بلاغت پر مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ علماء آپ کی عبارات کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے اور آپ کی احادیث و الفاظ سے علم و معرفت کے خزانے نکالے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو ایسا حسن بیان دیا کہ آپ نے جنوں اور انسانوں کو اپنا کلام سنایا تو انھوں نے پوری توجہ سے سنا۔

اب میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ عالم تصور میں میرے ساتھ آپ کی مبارک مجلس میں تشریف لائیں۔  آپ ﷺ کی عبارتوں کا جلال، اشاروں کا جمال اور کلمات کا کمال بغور نہیں تا کہ آپ کا سینہ کھلے، دل و دماغ کو سکون ملے، آپ کی روح عالم خلد کی سیر کرے اور تمام وسوسے، شکوک و شبہات اور پریشانیاں ختم ہو جائیں کیونکہ آپ روحانی طور پر معصوم نبیﷺ کے ساتھ ہیں۔

میں آپ ﷺکی فصاحت و بلاغت کے چند نمونے ان احادیث کی صورت میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو مساجد و مدارس اور جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں اور منبر ومحراب سے مجمعوں کو سنائی جاتی ہیں۔

آپ ﷺکے فرمودات ہیں:

’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ الْحَمْدُ لِله ترازو کو بھر دیتا ہے۔ سُبْحَانَ اللهِ اور الْحَمْدُ لِلهِ آسمانوں سے زمین تک کی وسعت کو بھر دیتے ہیں۔ نماز نور ہے۔ صدقہ دلیل ہے۔ صبر روشنی ہے۔ قرآن تمھارے حق میں یا تمھارے خلاف حجت ہے۔ ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے تو کچھ اعمال کے عوض اپنا سودا کرتا ہے، پھر یا تو خود کو آزاد کرنے والا ہوتا ہے یا خود کو تباہ کرنے والا۔‘‘ (صحيح مسلم، الطهارة، حديث (223)

 غور کریں کہ یہ ایک ایک کلمہ ہیرے جواہرات اور تاج میں لگے موتیوں کی طرح چمک رہا ہے۔ ہر کلمہ اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اس میں ایسے اسرار و رموز پائے جاتے ہیں جن کی تدریس و تعلیم اور تشریح کی ضرورت ہے۔ ہر جملہ دوسرے جملے سے الگ مفہوم رکھتا لیکن آپ نے انھیں ایک لڑی میں اس طرح پر دیا ہے کہ ان میں اختلاف، تضاد، تعارض اور بوجھل پن کا احساس ہوتا ہے نہ باہمی منافرت اور دوری کا شبہ گزرتا ہے۔ اس نہایت مؤثر اور ترغیب دینے والی حدیث پر غور کریں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا :

’’تم اللہ کی حفاظت کرو، اللہ تمھاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ کی حفاظت کرو، اسے اپنے سامنے پاؤ گے۔ آسانیوں میں اللہ سے تعارف بناؤ، وہ سختیوں میں تمھیں پہچان لے گا۔ اور جب تم سوال کرو تو اللہ سے کرو اور جب مدد مانگو تو صرف اللہ سے مانگو۔ جو کچھ ہونے والا ہے، اس کے بارے میں  یقینًا قلم خشک ہو گئے۔ اور اگر سب کی سب مخلوق تمھیں کسی چیز کا نفع دینے کا ارادہ کرے جو اللہ نے تمھارے مقدر میں نہیں لکھا تو وہ نفع دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ تجھے کسی چیز میں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں جو اللہ تعالی نے تیرے مقدر میں نہیں لکھا تو وہ اس کی قدرت نہیں رکھتے۔ اور جان لیجیے کہ ناپسندیدہ معاملات پر صبر کرنا تمھارے لیے بہت بہتر ہے اور اللہ کی مد دصبر کے ساتھ ہے۔ کرب و تکلیف کے ساتھ کشادگی ہے اور ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 2803)

مجھے امید ہے کہ آپ تو دل سے اس حدیث پر غور کریں گے اور اسے ذہن نشین کرنے کے لیے بار بار پڑھیں گے تا کہ یہ آپ کی روح کی غذا بن جائے اور آپ کے دل و جان میں سما جائے۔ بلاشبہ یہ غلطیوں سے پاک اور حکمت و وضاحت سے بھر پور کلام ہے۔

جہاں تک آپ ﷺ کے فرامین کی خوبی کا تعلق ہے تو  یقینًا آپ کا ہر فرمان عالی شان ہے۔ آپ ﷺ کرم کے مخطاب نے دانشوروں کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ آپ کی احادیث لوگوں کی روحوں میں سرایت کر گئیں اور آپ کا کلام اس قدر روشن اور برتر ہے کہ وہ براہ راست دلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو جوامع الکلم عطا فرمائے اور حکمت کے نایاب موتیوں سے نوازا۔ اگر عرب سب قوموں سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے تو نبی مکرم ﷺان میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ ، خوش گفتار اور ٹھوس دلائل رکھنے والے تھے۔

اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو کمال فصاحت و بلاغت عطا فرمائی۔ جامع کلمات عطا کر کے آپ کو باقی تمام انبیاء پر برتری دی۔ امتیازی حیثیت سے نوازا۔ آپ چند حرفی بات کرتے جو نہایت آسان اور عام فہم ہوتی مگر اس میں معانی کا ایک سمندر موجود ہوتا۔ آپ کے جملوں میں روانی اور لطیف اشارات پائے جاتے ہیں۔

آپﷺ نے اس انعام الہٰی کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: ((بُعِثْتُ بِجَوامِع الْكَلِمِ))

’’مجھے جامع کلمات دے کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2977)

چنانچہ جب  آپ ﷺ کلام کرتے تو پوری طرح ناپ تول کر کرتے۔ آپ کی مختصر بات میں کوئی کمی اور خلل ہوتا نہ طویل گفتگو سے کسی قسم کی اکتاہٹ ہوتی۔ آپ موقع کے مطابق نہایت مناسب گفتگو فرماتے جو کمی بیشی کے بغیر اس طرح مکمل ہوتی جیسے جسم کے مطابق سلا ہوا کپڑا ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا کلام دل و جان میں اتر جانے والا اور ہر ایک کو گرویدہ کرنے والا ہے۔ آپ کے کلمات ہیرے اور موتیوں کی لڑی کی طرح مرتب اور نہایت شفاف، روشن، شاندار اور خوبصورت ہیں۔ شہری و دیہاتی، چھوٹا بڑا اور عالم و جاہل ہر کوئی انھیں سمجھ سکتا ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ کے کلام کا نقشہ یوں کھینچا ہے، وہ فرماتی ہیں:

’’رسول اللہ میں تمھاری طرح تیز تیز مسلسل گفتگو نہیں فرماتے تھے۔ آپ کی گفتگو نہایت واضح ہوتی اور ہر کلمہ جدا جدا ہوتا۔ آپ کے پاس بیٹھنے والا اسے یاد کر لیتا‘‘ (جامع الترمذي، أبواب المناقب عن رسول الله، حدیث: 3639)

وہ مزید فرماتی ہیں: نبی اکرمﷺ کوئی بات بیان فرماتے تو (بار بار دہراتے کہ ) اگر شمار کرنے والا اسے شمار کرتا تو اسے ضرور یاد ہو جاتی۔ (صحيح البخاري، المناقب، حدیث: 3567)

آپ ﷺکی بعض احادیث اور کلمات کی تشریح میں حافظ بن ناصر دمشقی رحمۃ اللہ علیہ نے مستقل کتاب لکھی ہے جیسے یہ حدیث ہے:

((كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ، حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ))

’’دو کلے زبان پر ہلکے، ترازو میں وزنی اور اللہ کو بہت پیارے ہیں: وہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ اور سُبْحَانَ اللهِ العَظِيم ہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان والنذور، حديث (6682)

انھوں نے اس حدیث سے معارف و بلاغت کے لعل و جواہر، موتی اور قیمتی خزانے اخذ کیے ہیں۔ نہایت حیرت انگیز معلومات اور فوائد ذکر کیے ہیں۔ زبان و بیان اور ماہرین بلاغت کے اقوال بطور استشہاد پیش کرتے ہوئے اس حدیث پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

بعض اہل علم نے سید الاستغفار والی حدیث پر مستقل کتاب مرتب کی ہے اور اس میں فصاحت و بلاغت کے ایسے اسرار و رموز اور فیضانِ نبوت کے ایسے انوار ذکر کیے جن کا تصور اور وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔

نبی اکرم ﷺکی حدیث کی ایک ایک سطر میں زندگی کا ایک ایسا مکمل ضابطہ موجود ہے جو آپ کو لوگوں کی کئی جلدوں پر مشتمل تحریروں سے بے نیاز کر سکتا ہے۔ اگر آپ کلمات نبوی پر غور کریں تو حیرت زدہ ہو کر رہ جائیں گے بشر طیکہ آپ فصاحت و بلاغت اور علم بیان کا ذوق رکھتے ہوں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جیسی فصاحت و بلاغت، حسن بیان، عمدگی ، شان اور کمال آپ کی احادیث اور گفتگو میں ہے، ویسی اور کہاں ہو سکتی ہے؟! مثلاً آپ ﷺ کا یہ فرمان دیکھیں:

((اتَّقِ اللهَ حَيْثُمَا كُنْتَ وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ))

’’تم جہاں کہیں بھی ہو، اللہ سے ڈرو۔ اور برائی کے پیچھے نیکی کو لگا دو، وہ اسے مٹادے گی۔ اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب البر والصلة، حديث: 1987)

بعض علماء نے اس ایک حدیث کی شرح پچاس سے زیادہ صفحات میں کی ہے۔ آپ نے وہ تمام نصیحتیں اس ایک چھوٹی سی حدیث میں کر دی ہیں جو ہزاروں علماء ، شعراء اور دانشور مل کر بھی بیان نہیں کر سکتے۔

اخلاق کے حوالے سے یہ مختصر حدیث ایک مکمل ضابلے کا درجہ رکھتی ہے۔ آپﷺ کا یہ ارشاد: ((اتَّقِ اللهَ حَيْثُمَا كُنْتَ)) ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے پیغام نبوی ہے۔ اور آپﷺ کا فرمان: ((وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا)) انتہائی جامع اور مبارک ہے۔ اس میں ایسا اختصار اور اعجاز ہے جو بیان سے باہر ہے۔ اور آپ ﷺ کا یہ فرمان: ((وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ)) علم اخلاق اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے مبارک اور کافی وشافی ارشاد ہے۔

سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اسلام کے بارے میں مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے کچھ نہ پوچھنا پڑے۔  آپ ﷺ نے فرمایا : ((قُلْ آمَنْتُ بِاللهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ)) ’’تم کہو : میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ثابت قدم رہو۔‘‘ (مسند أحمد ، حدیث: 15416)

یہ ایک جملے کی حدیث ہے مگر اس نے دین کے تمام امور اور ملت کے تمام مسائل اپنے اندر سمو لیے ہیں۔ اس میں رسالت محمد یہ کا ہر خاص و عام مسئلہ آگیا ہے۔

اسی طرح آپ سے اللہ کا یہ فرمان ہے:

((الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَّطْلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ))

’’نیکی حسن اخلاق کا نام ہے۔ اور گناہ وہ ہے جو تمھاے دل میں کھٹکے اور تم نا پسند کرو کہ لوگوں کو اس کا پتہ چلے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حديث: 2553)

یہ آپ ﷺ کی کمال فصاحت و بلاغت ہے۔ آپ نے اس حدیث میں نہایت مختصر الفاظ میں حسن اخلاق کی جامع تعریف کر دی اور ایک سطر میں ہر طرح کے گناہ کی وضاحت کر دی۔

میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر یہی سوال نبی ﷺ کے علاوہ دنیا کے کسی سب سے زیادہ فصاحت و بلاغت والے سے کیا جائے اور پوچھا جائے کہ نیکی اور گناہ کیا ہے؟ تو کیا کوئی عام انسان اتنا جامع و مانع اور فصیح و بلیغ جواب دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، میرے رب کی قسم ! یہ جواب صرف محمدﷺ ہی دے سکتے ہیں۔

اور آپ ﷺ کے اس فرمان پر غور کریں جو آپ نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے سوال کے جواب میں فرمایا۔

جب انھوں نے پوچھا کہ اللہ کے رسول ! نجات حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:

((أَمْلِكُ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ))

’’اپنی زبان پر قابو رکھ تمھارے لیے تمھارا گھر کشادہ اور کافی ہو اور اپنے گناہ پر رویا کر‘‘ (جامع الترمذي أبواب الزهد، حديث: 2400)

بعض علماء نے اس کی شرح پر پورا لیکچر دیا اور دسیوں صفحات میں اس کی شرح لکھی۔ آپ ﷺ نے یہ حدیث فی البدیہ ارشاد فرمائی۔ اس کے لیے آپ ﷺنے سوچ بچار کی نہ اس کی ادائیگی کے لیے اپنا ذہن تھا یا۔ یہ فرمان خود بخود آپ کے پاکیزہ منہ اور مبارک زبان سے جاری ہوا۔  یقینًا یہ للہ تعالی کی طرف سے الہام ہے۔

اس حدیث میں بیان کردہ تینوں امور انسان کو اللہ کے غضب سے بچانے والے اور رحمن کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان : ((أَمْلِكَ عَلَيْكَ لِسَانَكَ)) زبان کے ادب اور خاموشی اختیار کرنے کے حوالے سے نہایت جامع جملہ ہے۔ اور ((وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ)) ہر قسم کے شرسے دور رہنے اور ہر نفع بخش اور مفید چیز کے ساتھ خود کو جوڑے رکھنے کے معانی پر مشتمل ہے۔

اور آپ کے فرمان: ((وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ))میں عجز و انکسار، گناہوں پر ندامت و افسوس، اور رب تعالی کے حضور گرد گردانے ، گناہ سے تو بہ کرنے نفس کو سرکشی سے باز رکھنے اور لوگوں کو گناہوں سے روکنے کا سامان ہے۔ آپ پر درود و سلام ہوں۔ آپ کا فرمان کسی قدر فصاحت و بلاغت پر مبنی ہے اور اس کی تفصیلات کتنی خوبصورت ہیں! بلاشبہ آپ کے مختصر مگر جامع اور معجزانہ کلمات پر بات کرنے کے لیے کئی جلد میں درکار ہیں۔ ہم اختصار کے ساتھ چند ایک کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں، جیسے آپﷺ کا فرمان ہے:

((الدِّينُ النَّصِيحَةُ قُلْنَا: لِمَنْ قَالَ: «لِلهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ))

’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم (صحابہ) نے پوچھا: کس کی خیر خواہی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حديث: 196)

اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((الظَّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَّوْمَ الْقِيَامَةِ))

’’ظلم قیامت کے دن کئی تاریکیاں اور اندھیرے بن کر سامنے آئے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، المظالم، حدیث:2447)

اور فرمایا: ((النَّاسُ مَعَادِنُ)) ’’لوگ کانوں کی طرح ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الأنبياء، حديث: 3383)

نیز فرمایا : ((دَعْ مَا يَرِيْبُكَ، إِلٰى مَا لَا يَرِيْبُكَ، فَإِنَّ الصَّدْقَ طُمَأْ نِيْنَةٌ، وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيْبَةٌ)) ’’شک والی بات چھوڑ کر ایسی بات اختیار کرو جو شک و شبہ سے پاک ہو۔ بلاشبہ سچائی میں سکون ہے اورجھوٹ میں بے چینی و پریشانی ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة القيامة، حديث: 2518)

اور فرمایا: ((الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ))

’’جس سے مشورہ کیا جائے، وہ اس کا امین ہوتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 5128)

اور فرمایا: ((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ))

’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5200)

اور آپ ﷺنے فرمایا: ((لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ))

’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث: 13)

اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((كُلُّكُمْ رَاعٍٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ))

’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے متعلق باز پرس ہوگی۔‘‘ (صحیح

البخاري، الخراج، حديث (2928)

ان کے علاوہ بھی آپ ﷺ کے بے شمار جامع و مانع ، کافی وشافی اور معطر کلمات ہیں۔

آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلنے والے چند مزید موتیوں سے اپنا دامن بھریں:

سیدنا انس  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ  ایک سفر میں تھے جبکہ انجشہ نامی ایک غلام عورتوں کی سواریوں کو حدی پڑھتا ہوا لیے جا رہا تھا۔ نبیﷺ نے اس سے فرمایا: ((روَيْدَكَ يَا أَنْجَشَةُ سَوْقَكَ بِالْقَوَارِيرِ))

’’اے انجشہ! شیشوں کو آہستہ لے چل۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6210)

جب سیدنا سلمہ بن اکوع  رضی اللہ تعالی عنہ نے بعض نافرمانوں کو بھگایا تو آپ ﷺنے ان سے فرمایا:

((مَلَكتَ فَأَسْجع)) ’’تم ان پر قابو پاگئے ہو، اب جانے دو۔‘‘ (صحيح البخاري، الجهاد والسير، حدیث: 3041)

جب ایک صحابی رسول نے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تو آپﷺ نے فرمایا:  ((دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ))

’’ایسا نہ کرو تا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگے ہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، التفسير، حديث (4905)

حنین کے روز جب بہت سے لوگ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلے تو آپ نے ثابت قدم رہتے ہوئے فرمایا: ((أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبَ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبَ))

’’میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، الجهاد والسير، حدیث : 2864)

آپ ﷺ ہرقل کو خط لکھتے ہیں تو اس میں فرماتے ہیں:

((أَسْلِمْ تَسْلم)) ’’مسلمان ہو جا، محفوظ رہے گا۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث: 7)

ان دو کلموں پر غور کریں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس باب میں جو بھی کہا جا سکتا ہے، وہ ان لفظوں میں موجود ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے آپﷺ کو جوامع الکلم عطا فرمائے۔

آپ اس نصیحت پر غور کریں جو   آپ ﷺ نے سیدنا معاذ  رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمائی، آپﷺ نے فرمایا: ((كُفَّ عَلَيْكَ هٰذَا‘‘ ’’اسے روک کر رکھو۔‘‘ یہ ایک جملہ ہزاروں خطابات، در دس اور کتابوں پر بھاری ہے۔

آپﷺ نے جود وسخا کی فضیلت اور لوگوں سے مانگنے کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمائے:

((الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السُّفْلَى))

’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الزكاة، حديث: 1427)

اس لفظی اعجاز اور بیانی ارتقا پر بات ختم ہو جاتی ہے اور مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں رہتی۔ اب بار بار زندہ ضمیر اور پاکیزہ دل سے نکلنے والے مؤثر، بچے اور دل کو چھو لینے والے کلام پر غور کریں تو یوں محسوس ہو گا جیسے بنجر زمین پر بارش کے قطرے گر رہے ہوں یا صحرا میں میٹھے اور شیریں پانی کے چشمے پھوٹ پڑے ہوں۔

بلا شبہ اللہ تعالی نے اپنےﷺ کو بیان کا سب سے اعلیٰ اور خوبصورت انداز عطا فرمایا اور شاندار معجزاتی گفتگو سے نوازا۔

رسول اکرم ﷺکی درج ذیل حدیث حسن ترتیب، اعجاز ، ظاہری جمال اور قلوب و اذہان کو گرویدہ کرنے میں ضرب المثل ہے اور شریعت میں ایک ضابطے کا درجہ رکھتی ہے۔ سیدنا نعمان بن بشیر  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ﷺ سے سنا:

’’بلا شبہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جنھیں لوگوں کی بڑی تعداد نہیں جانتی۔ جو شبہات سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑ گیا، وہ حرام میں پڑ گیا جیسے چرواہا جو چراگاہ کے ارد گرد (بکریاں) چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ اس چراگاہ میں چرنے لگیں۔ یاد رکھو! بلاشبہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور جان لو کہ اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی اشیاء ہیں۔ سنو! جسم میں ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ ٹھیک رہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم ہی بگڑ جاتا ہے۔ سن لو! وہ دل ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1599)

یہ کیسا عظیم کلام ہے کہ نظر و فکر اس کی مطیع ہو جاتی ہے اور وہ دل و دماغ کو خوش کر دیتا ہے۔ یہ حدیث دین کے بنیادی قواعد میں شامل ہے۔ یہ اربعین نو دی کا حصہ ہے اور چند سطروں میں شرعی اصولوں کی ایک بنیاد ہے۔ دعا میں رسول اکرم ﷺ کی فصاحت و بلاغت، جملوں کی عمدہ ہم آہنگی، خوبصورت ترتیب، منفرد تقسیم اور نظامت ملاحظہ کریں۔ آپﷺ کا فرمان ہے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ، وَضَلْعِ الدِّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ))

’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اور کاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤ سے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2893)

میں تمھیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کون سا ادیب، قائد، خطیب یا شاعر ایسا ہے جو اس طرح کی غیر معمولی عظیم الشان، مبارک اور پر اثر دعا کر سکتے؟!

بلا شبہ اس حدیث میں دنیاوی اور اخروی سعادت کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے آپ ﷺ کی زبان پر حق جاری فرمایا، نہایت خوبصورت انداز میں رسالت کا حق ادا کرنے کی توفیق دی اور آپ کی تصدیق کی۔

آپ ﷺرات کی دعا میں فرماتے ہیں:

((اَللّٰهُمَّ رَبِّ جِبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ))

’’اے اللہ ! جبرائیل، میکائیل اور اسرائیل کے رب! آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والے پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے! تیرے بندے جن باتوں میں اختلاف کرتے تھے، تو ہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ جن باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے، تو ہی اپنے حکم سے مجھے ان میں سے جو حق ہے اس پر چلا۔ بے شک تو ہی جسے چاہے، سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 770)

 آپ ﷺ نے کسی قدر روانی، عمدگی اور فصاحت و بلاغت سے اپنے رب سے دعا کی ہے؟! اس دعا میں کلمات کا عمدہ چناؤ، جملوں کی خوبصورت ترتیب اور رب العالمین کی اطاعت اور عبودیت کا کمال درجہ اظہار نظر آتا ہے۔ میں ان عالم بزرگوار کو زندگی بھر نہیں بھول سکتا جنھوں نے ایک پروگرام میں ہمیں نبی اکرمﷺ کی فصاحت و بلاغت کے بارے میں بتایا اور پھر دلیل کے طور پر رسول اکرم ا کی وہ دعا بتائی جو آپ رات کے وقت کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ رات کے وقت نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے :

((اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَأَخَّرْتُ وَأَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَهِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ))

’’اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اور تیرے ہی لیے حمد ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے۔ اور تیرے ہی لیے حمد ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان میں ہے، اس کا رب ہے۔ اور تو برحق ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے۔ اور تیرا قول اٹل ہے اور تیرے ساتھ ملاقات یقینی ہے۔ اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے۔ اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا اور میں تجھ پر ایمان لایا اور میں نے تجھ پر توکل اور بھروسا کیا اور تیری طرف رجوع کیا اور تیری توفیق سے (تیرے منکروں سے) جھگڑا کیا اور تیرے ہی دربار سے فیصلہ لیا (تجھے ہی حاکم تسلیم کیا)۔ تو بخش دے وہ گناہ جو میں نے پہلے کیے اور جو بعد میں کیے اور جو چھپ کر کیے اور جو ظاہرا کیے۔ تو ہی میرا معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 769)

 نبی اکرمﷺ کی درج ذیل حدیث کا مطالعہ کریں جو حقیقت میں سید ولد آدم منیر کی نبوت کی لفظی دلیل ہے۔ آپ دعا کرتے ہیں:

((اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ))

’’اے اللہ! تو میرا رب ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا ہی بندہ ہوں۔ میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد رو و پیمان پر کار بند ہوں۔ میں ان بری حرکتوں۔ سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو میں نے کی ہیں۔ مجھ پر جو تیری نعمتیں ہیں، میں ان کا اقرار کرتا ہوں اور میں اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، لہذا میری مغفرت کر دے۔ بلاشبہ تیرے سوا کوئی بھی گناہ معاف کرنے والانہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث: 6306)

میں آپ کو تھوڑی دیر کے لیے اس دعا کے اسلوب اور فقروں پر غور وفکر کرنے کا وقت دیتا ہوں۔ آپ ہر کلے کا بغور جائزہ لیں اور پھر خود سے پوچھیں کہ کیا کوئی عام شخص ایسے جملے کہ سکتا ہے، خواہ وہ فصاحت و بلاغت سے کسی بھی درجے پر فائز ہو؟

جب آپﷺ منبر پر براجمان ہوتے تو ایسا فی البدیہ خطاب فرماتے کہ اکثریت دم بخود رہ جاتی۔ آپ ہجوم پر قابو پا لیتے اور قبائل کے لوگ خاموش کھڑے آپ کی بات سنتے۔ آپ ﷺگفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے خاصی دیر خاموش رہتے جس سے آپ کا جلال اور رعب و دبدبہ مزید بڑھ جاتا۔ زبان میں مٹھاس اور متانت و سنجیدگی میں اضافہ ہو جاتا۔ آپ اس وقت تک کلام نہ کرتے جب تک لوگ پوری طرح آپ کی طرف متوجہ نہ ہو جاتے اور نگا ہیں آپ کی طرف لگ نہ جاتیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تکلف کرنے اور بہت زیادہ بولنے والوں کے طریقے سے محفوظ رکھا۔ آپﷺ نور رسالت اور نبوی عصمت کے ساتھ نہایت بامعنی اور جامع گفتگو فرماتے۔ آپ ﷺ کا کلام شریعت، گفتگو وحی اور بول چال سنت مطہرہ ہے۔ آپ ﷺ کا ہر لفظ ملت محمد یہ کے ہار کا موتی ہے اور ہر جملہ نبوت کے دائمی تاج کا ہیرا ہے۔ آپ کی احادیث کے الفاظ میں نہ تو کوئی مغالطہ ہے نہ معنی میں کوئی گھٹیا پن، اضطراب یا تضاد ہے۔ آپ ﷺکھلی کتاب، منظم و مرتب ، مضبوط اور واضح دلیل پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی کی کو تا ہی ہے نہ رکا کت و کمزوری۔

آج تک جتنے انسانوں نے کلام کیا ہے، ان میں  آپ ﷺ کا کلام سب سے عظیم ہے۔ جب آپ ﷺ خطاب فرماتے تو زمان و مکان اور انسان تسلیم ورضا اور اعتراف و ایمان سے لبریز ہو جاتے۔ جب آپ منبر پر کلام کرتے تو آپ کی آواز بلند ہو جاتی ، غصہ بڑھ جاتا، آنکھیں سرخ ہو جاتیں جیسے کسی لشکر سے ڈراتے ہوئے کہہ رہے ہوں: وہ تم پر صبح یا شام حملہ کر دے گا۔ آپ ﷺ کا تاریخی اور بین الاقوامی خطبہ ملاحظہ کریں جو آپ نے حجتہ الوداع کے موقع پر مقام عرفہ میں دیا۔ یہ ایسا عظیم خطبہ تھا کہ زمین میں اس سے پہلے ایسا خطبہ دیا گیا نہ پوری دنیا میں اس جیسا کلام سنا گیا۔ آپ ﷺ نے توحید باری تعالی، عدل و انصاف، مساوات، بھائی چارے، تقوے، انسانی حقوق عورت کے حقوق اور عوام کے مال و جان اور عزتوں کے تحفظ کے بارے میں گفتگو کی، پھر لوگوں کو گواہ بنا کر فرمایا:

’’میں تمھارے اندر ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا، تو اس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے، اور وہ ہے اللہ کی کتاب (قرآن مجید ) تم لوگوں سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بتاؤ کیا کہو گے؟ انھوں نے جواب دیا: ہم گواہی دیں گے کہ بلاشبہ آپ نے (کما حقہ دین) پہنچا دیا، (اللہ کی طرف سے سونپی گئی) امانت ادا کر دی اور آپ نے امت کی ہر طرح سے خیر خواہی کی۔ اس پر آپ نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ فرمایا۔ آپ اسے آسمان کی طرف بلند کرتے تھے اور (پھر) اس کا رخ لوگوں کی طرف کرتے تھے (اور فرماتے تھے ): ’’اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ اے اللہ! تو گواہ رہنا۔‘‘ (آپ نے) تین مرتبہ (ایسا کیا )۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ضماد مکہ آیا۔ وہ قبیلہ از دِشنوءہ سے تھا اور آسیب کا دم کیا کرتا تھا (جسے لوگ ریح کہتے تھے، یعنی ایسی ہوا جو نظر نہیں آتی، اثر کرتی ہے۔) اس نے مکہ کے بے وقوفوں کو یہ کہتے سنا کہ محمد ﷺکو جنون ہو گیا ہے (نعوذ باللہ) اس نے کہا: اگر میں اس آدمی کو دیکھ لوں تو شاید اللہ تعالی اسے میرے ہاتھوں شفا بخش دے، چنانچہ وہ آپ سے ملا اور کہنے لگا: اے محمد ﷺ! میں اس نظر نہ آنے والی بیماری (ریح) کو زائل کرنے کے لیے دم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے میرے ہاتھوں شفا بخشتا ہے۔ تو کیا آپ چاہتے ہیں (کہ میں دم کروں ؟) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ الْحَمْدَ لِلهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَّهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ:

’’ یقینًا تمام حمداللہ کے لیے ہے۔ ہم اس کی حمد کرتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں۔ جسے اللہ سیدھی راہ پر چلائے ، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ چھوڑ دے، اسے کوئی راہ راست پر نہیں لا سکتا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ وہی اکیلا (معبود) ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور بلا شبہ محمد (ﷺ) اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے، اس کے بعد !

وہ بول اٹھا: اپنے یہ کلمات مجھے دوبارہ سنائیں۔ رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ یہ کلمات اس کے سامنے دہرائے۔ اس پر اس نے کہا: میں نے کاہنوں، جادو گروں اور شاعروں (سب) کے قول سنے ہیں۔ میں نے آپ کے ان کلمات جیسا کوئی کلمہ کبھی نہیں سنا۔ یہ تو بحر (بلاغت) کی تہ تک پہنچ گئے ہیں۔ اور کہنے لگا: ہاتھ بڑھائیے! میں آپ کے ساتھ اسلام پر بیعت کرتا ہوں، چنانچہ اس نے آپ کی بیعت کر لی۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 868)

ضماد از دی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیں کہ اپنے خیال میں نبی اکرم ﷺکے جنون کا علاج کرنے کے لیے آیا اور نبی اکرمﷺ کے چند مبارک اور پاکیزہ کلمات جونہی اس کے کانوں سے ٹکرائے، وہ کافر سے مومن اور گمراہ سے ہدایت یافتہ ہو گیا۔

کیا پوری کائنات میں کسی خطاب کرنے والے نے ایسے بے مثال، مرتب، مؤثر ، مقدس اور حمد و شکر سے معمور افتتاحی کلمات کہے ہیں؟! ان کی ترتیب نہایت انوکھی، اسلوب اچھوتا اور نظم و بندش نہایت خوبصورت اور کمال ہے؟

درود و سلام ہوں   آپ ﷺ پر، آپ کا کلام کس طرح باطل کا خاتمہ کرنے والا، آپ کی حدیث کسی قدر شیریں اور آپ کا قول کس قدر خوبصورت ہے!

پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے نبی ﷺ  کے کلام کو شرف قبولیت بخشا اور اس میں دل موہ لینے والی مٹھاس رکھی۔ اس کلام میں قوت تاثیر اور منفعت کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ نبی اکرم ﷺنے ایسے چن چن کر الفاظ کا انتخاب کیا جیسے باغبان لذیذ کھجور یں چنتا ہے۔

آپﷺ کی گفتگو کو مزین، خوبصورت، پاکیزہ اور صاف شفاف کرنے والی چیز آپ کی کمال درجے کی صداقت و اخلاص ہے جو چمکتے سورج کی طرح روشن اور نمایاں ہے۔

میں ان اوراق میں عالم اسلام کے مدارس، جامعات اور سکولوں کے منتظمین کو اس مقدس میراث ، نبوی ترکے، حدیث شریف اور سنت مطہرہ کا اہتمام کرنے کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس کے ساتھ اپنی نسل اور اولاد کی تعلیم و تربیت کریں۔ انھیں آپ کا کلام سمجھائیں۔ آپ کی زبان سے نکلنے والے عالی شان الفاظ سے فائدہ اٹھائیں۔ آپ کی احادیث پڑھنا عبادت، آپ کے الفاظ کا مطالعہ اطاعت، آپ کے قول کی پیروی سنت، آپ کی اتباع نجات اور آپ کی میراث سے تعلق قائم کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔

کامل و دائمی درود و سلام ہوں اس ہستی پر جن کی احادیث نے بڑے بڑے شعراء، بلغاء الفصحاء، عوام و خواص اور چھوٹوں بڑوں سب کو لاجواب کر دیا۔

مجھے نبی ﷺ  کی بلاغت کی مدح کرنے اور آپ کی فصاحت کے ترانے گانے سے حیا آتی ہے کیونکہ میں اس قابل نہیں ہوں۔ لیکن میرے لیے یہی کافی ہے کہ میں آپ کی بزرگی کے دربار میں خادم اور آپ کی عظمت کے دیوان میں ادنی سا نوکر ہوں۔ میرے حروف آپ کی خوشبو سے معطر  اور میرے الفاظ آپ کی سخاوت کے دریا سے صاف ہوتے ہیں اور میری عبارتیں آپ کے پاکیزہ ذکر سے شرف پاتی ہیں۔

………………