محمدﷺ بحیثیت خاوند

رسول اکرم ﷺہی تمام حالات میں اہل ایمان مرد و خواتین کے لیے بہترین اسوہ اور مبارک نمونہ ہیں۔ جس نے اسوہ اور نمونہ بنا ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان طبعی مراحل سے گزرے جن سے دوسرے لوگ گزرتے ہیں اور زندگی کے وہ  سارے طور طریقے اختیار کرے جو لوگوں کو پیش آتے ہیں۔ ان میں سے ایک شادی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً ؕ﴾

’’اور بے شک  یقینًا ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے، اور ہم نے انھیں بیوی بچوں والے بنایا۔(الرعد38:13)

چنانچہ آپ ﷺ نے شادی کی اور آپ کی اولاد بھی ہوئی۔ آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ کیا۔ ان کی عزت و تکریم کا خیال رکھا۔ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے اور نہایت حسن سلوک میں ان کی سرپرستی کی تاکہ آپ جہان والوں کے لیے اسوہ و نمونہ اور تمام لوگوں کے لیے پیشوا بنیں۔ آپﷺ نہایت نیک و پارسا اور صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ آپ ﷺ کی شادی میں کئی عظیم حکمتیں اور جلیل القدر اسرار و رموز تھے تا کہ آپ ﷺ کی سیرت سوال کرنے والوں کے لیے نشانی اور اس راہ کے مسافروں کے لیے واضح راستہ ہو۔

آپ ﷺ کی ازدواجی زندگی باری تعالی کے اس حکم کی تعمیل کا عملی نمونہ تھی:

﴿وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ﴾

’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔‘‘ (الروم 21:30)

 آپ ﷺ کلام نے پہلی شادی سیدہ خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے پچیس سال کی عمر میں کی جبکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر چالیس برس تھی۔ وہ بیوہ اور تجارت پیشہ تھیں۔ وہ نہایت عقل مند، ذہین و فطین، راست باز ، مجاہدہ، صبر و شکر کرنے والی، وفادار اور نہایت اچھی مشیر تھیں۔

عورتوں میں وہ سب سے پہلے مسلمان ہو ئیں اور زندگی بھر آپ کا ساتھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کے ذریعے انھیں سلام بھیجا اور جنت میں موتی سے بنے یک گھر کی خوشخبری سنائی جس میں شور ہوگا نہ تھکاوٹ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول ! یہ خدیجہ آرہی ہیں۔ ان کے پاس برتن ہے جس میں سالن، کھانا یا مشروب ہے ہے جس میں سالن، کھانا یا مشروب ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو انھیں ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہیں اور انھیں جنت میں موتی سے بنے ایسے گھر کی خوشخبری دے دیں جس میں شور ہوگا نہ تھکاوٹ۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حديث: 3820)

جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا وفات پاگئیں تو آپ شدید غم زدہ رہے یہاں تک کہ ان کے سال وفات کو عام الحزن کہا با جانے لگا۔ پھر آپ ﷺ نے سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی عنہا ان سے شادی کی۔ وہ بھی شروع ہی میں اسلام لائی تھیں اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سہیلی تھیں۔ ان کے بعدآپ ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ان سے شادی کی جو نوجوان اور نہایت ذہین و فطین تھیں۔ بعد ازاں وہ امت کی فقیہ اور مفتیہ بنیں۔ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ نہایت خوبصورت زندگی گزاری۔ ان کے بعد نبی ﷺ  نے کئی عورتوں سے شادی کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سوا  آپ ﷺ کی سب ازواج مطہرات شوہر دیدہ تھیں۔ آپ کی ازواج میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی کنواری تھیں۔ نبی اکرمﷺ کی زیادہ شادیوں کی حکمت شاید یہ تھی کہ آپ کے خانگی امور پوری طرح امت کے سامنے آجائیں کیونکہ آپﷺ کی ذاتی زندگی سے صرف آپ کی بیویاں ہی آگاہ ہو سکتی تھیں۔ اس ذاتی زندگی کو امت کے لیے محفوظ کرنا اور اسے لوگوں تک پہنچانا بہت ضروری تھا اور یہ صرف بیویوں کے ذریعے ہی سے ہو سکتا تھا۔  آپ ﷺ کی بے شمار ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود آپ نے سب بیویوں کو ان کے حقوق دیے اور اپنی مصروفیات کو ان کے حقوق کے درمیان حائل نہ ہونے دیا۔ آپ ﷺ تاریخ انسانی کے سب سے افضل شوہر ہیں۔

آپ ﷺ عدل پسند، نرم مزاج، وفادار، رحم دل اور لطف و کرم کرنے والے شوہر تھے۔ آپ بیویوں سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار کرتے اور ان کے سامنے اپنی محبت کی صراحت فرماتے۔

آپ ﷺکے اپنی بیویوں سے محبت کے بے شمار واقعات ہیں۔ آپﷺ بطور خاص سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بہت محبت کرتے تھے۔ ابو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کو غزوہ ذات سلاسل کے لیے امیر بنا کر روانہ کیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں (واپسی پر )  آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے عرض کی : آپ کو سب سے زیادہ عزیز کون شخص ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ‘‘ میں نے پوچھا: مردوں میں سے کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:  ’’عائشہ کے والد‘‘ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپﷺ نے فرمایا:

’’عمر‘‘  اس طرح درجہ بدرجہ آپ نے کئی آدمیوں کے نام لیے۔ اس کے بعد میں خاموش ہو گیا کہ کہیں آپ ﷺ مجھے سب سے آخر میں نہ کر دیں۔ (صحيح البخاري، المغازي، حديث: 4358)

ایک دفعہ رسول اکرم ﷺنے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم دنیا و آخرت میں میری بیوی ہو؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم! آپﷺ نے فرمایا: تو پھر تم دنیا و آخرت میں میری بیوی ہو۔ (صحیح ابن حبان، حدیث: 7095)

آپ ﷺسیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں کہا کرتے تھے : ((إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا))

’’مجھے اس کی محبت عطا کی گئی ہے۔‘‘  (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث: 2455)

آپ ﷺہنستے مسکراتے اپنی بیویوں کے پاس آتے تھے۔ ان کے گھر آپ کی آمد سے فرحت و مسرت اور خوشی سے بھر جاتے۔ آپ داخل ہوتے وقت انھیں سلام کرتے اور ان کے لیے خیر اور بھلائی کی دعا کرتے جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ جب صبح کی نماز پڑھتے تو اپنی جائے نماز پر بیٹھے رہتے اور لوگ آپ کے ارد گرد بیٹھ جاتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا۔ پھر آپ اپنی سب بیویوں کے پاس باری باری جاتے اور انھیں سلام کرتے ، ان کے لیے دعا کرتے اور جس بیوی کا دن، یعنی باری ہوتی ، اس کے ہاں بیٹھ جاتے۔ (المعجم الأوسط للطبراني، حديث : 8764)

آپﷺ ان کے ساتھ مزاح کرتے اور انھیں دلی خوشی اور سرور پہنچاتے۔ ان کی ضروریات اور شکوے سنتے اور حلم و بردباری سے کام لیتے۔ کسی بھی بیوی کو زبان یا آنکھ سے اذیت نہ دیتے اور نہ ان کی توہین کرتے بلکہ ان کی مدح و تعریف کرتے۔ پوری توجہ سے ان کی بات سنتے ، ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے اور نہایت نصیحت آموز قصے، حکمت و فوائد سے بھر پور باتیں اور خوبصورت واقعات بھی سنتے سناتے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہﷺ ایک برتن سے، جو میرے اور آپ کے درمیان ہوتا، غسل کرتے۔ آپ میری نسبت جلد پانی لیتے حتی کہ میں کہتی: میرے لیے چھوڑیے، میرے لیے چھوڑیے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث : 321)

آپﷺ کے اپنے اہل وعیال کے ساتھ حسن معاشرت، لطف و کرم، تواضع ، عمدہ اخلاق اور جود و کرم ملاحظہ کریں کہ غسل میں بھی آپ شریک ہوتے اور دل لگی کرتے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: نبی اکرمﷺ مسواک کرتے اور پھر دھونے کے لیے مجھے دیتے تو میں پہلے خود مسواک کرتی اور پھر اسے دھو کر رسول اکرمﷺ کو دے دیتی۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث:52)

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا فرمان ہے کہ میں ایام مخصوصہ (حیض) کے دوران میں پانی پی کر نبی اکرم ﷺ کو پکڑا

دیتی تو آپ اپنا منہ میرے منہ کی جگہ پر رکھ کر پانی پی لیے۔ اور میں دانتوں کے ساتھ ہڈی سے گوشت نوچتی جبکہ میرے مخصوص ایام ہوتے، پھر وہ (بڑی) نبی ﷺ  کو دیتی تو آپ میرے منہ والی جگہ پر اپنا منہ رکھتے اور بوٹی توڑتے۔ (صحیح مسلم، الحيض، حدیث: 300)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ایام حیض میں رسول اکرم ﷺ کا اس قدر لطف و کرم اور پیار محبت کا اظہار آپ کے کمال حسن اخلاق اور شفقت پر دلالت کرتا ہے۔

آپ ﷺ کی اپنی بیویوں کے ساتھ دل لگی اور ہنسی مذاق کی ایک مثال وہ ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ذکر کیا  ہے۔ وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ غزوۂ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ پڑا ہوا تھا۔ ہوا چلی تو اس نے پردے کی ایک جانب اٹھا دی، جب سامنے میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آئیں۔ آپ نے پوچھا: ’’عائشہ یہ کیا ہے؟‘‘  میں نے کہا: یہ میری گڑیاں ہیں۔ آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دو پر تھے۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’میں ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟‘‘ میں نے کہا: یہ گھوڑا ہے۔ آپ نے پوچھا: ’’اور اس کے اوپر کیا ہے؟‘‘  میں نے کہا: اس کے دو پر ہیں۔ آپ نے کہا: ’’کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: آپ نے سنا نہیں کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے؟ کہتی ہیں: یہ سن کر رسول اللہ ہم اس قدر ہنسے کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں دیکھیں۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4932)

اپنے کریم نبی اور عظیم امامﷺ کو دیکھیں کہ امت کے امور اور ریاست کے معاملات کو بیویوں کے ساتھ لطف و کرم میں آڑے نہیں آنے دیا حتی کہ سیدہ عائشہ ﷺ کے کھلونوں کے متعلق نہایت آرام اور خوشی سے ساری تفصیلات سنیں۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محبت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے محبت کرنے میں رکاوٹ نہیں بنی اور نہ سیدہ عائشہ ﷺ کی محبت باقی بیویوں سے محبت کرنے میں رکاوٹ بنی بلکہ آپ نے ہر بیوی سے اس کی شان کے مطابق محبت کی۔

جہاں تک اختیاری چیزوں میں عدل کا تعلق ہے، جیسے نان و نفقہ، لباس، رہائش، رات گزارنا اور آنا جانا تو اس کے بارے میں آپ ﷺ کی طرف سے زیادتی یا کسی کی حق تلفی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تمام ہویاں آپ کے عدل ، رحمت ، محبت اور شفقت سے مستفید ہو ئیں کیونکہ آپ عدل و انصاف کرنے والوں کے امام ہیں۔

آپ ﷺ ہر معاملے میں ان کے درمیان انصاف کرتے ، خواہ وہ کتنا معمولی اور چھوٹا ہو مگر اس کے باوجود آپ ﷺ ان سے محبت کے بارے میں اللہ سے معافی مانگتے کیونکہ محبت دل کا معاملہ ہے جس میں انسان اختیار نہیں رکھتا، اس لیے اس میں کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ آپﷺ فرماتے:

((اللّٰهُمَّ هٰذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ))

’’اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جو میرے بس میں ہے۔ اور اس بات میں مجھے ملامت نہ فرمانا جس کا تو مالک ہے اور میرا اس پر اختیار نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث : 2134)

آپﷺ ہدیے یا تحفے میں کسی بیوی کو دوسری پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہﷺم (ہم ازواج) میں باری مقرر کرنے کے معاملے میں، یعنی ہمارے پاس ٹھہرنے کے معاملے میں ہم میں سے کسی کو کسی پر فضیات نہ دیا کرتے تھے۔ اور آپ تقریبا ہر روز ہم سب کے پاس چکر لگایا کرتے تھے اور ہر بیوی کے قریب ہوتے مگر صحبت نہیں کرتے تھے حتی کہ اس کی باری کا دن آ جاتا اور رات اس کے ہاں گزارتے۔ (سنن أبي داود، النكاح، حديث: 2135)

جب آپ  ﷺ سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے اور قرعہ میں جس کا نام آتا، اسے ساتھ لے جاتے۔ آپ ﷺکی عدل پسندی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ جس بیماری میں فوت ہوئے، اس بیماری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس رہنے کے لیے بھی باقی بیویوں سے اجازت طلب کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہﷺ اپنے مرض وفات میں پوچھتے رہتے تھے: ’’کل میرا قیام کہاں ہوگا؟ کل میں کہاں رہوں گا ؟‘‘ آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کے منتظر تھے۔ آخر کار تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن نے آپ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر قیام کی اجازت دے دی اور آپ کی وفات انھی کے گھر میں ہوئی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4450)

نبیٔ اکرم ﷺنے دوسری بیویوں کی حق تلفی کر کے کسی ایک کی طرف میلان رکھنے سے منع کیا اور فرمایا: ((مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ، فَمَالَ إِلٰى إِحْدَاهُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ مَائِلٌ)) ’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور پھر وہ کسی ایک کی طرف مائل ہو گیا تو وہ قیامت کے روز اس کیفیت میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔‘‘ (سنن أبي داود، النكاح، حديث: 2133)

آپﷺ ایسے معلم ہیں جنھوں نے بات کرنے سے پہلے اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آپ نہ بہت زیادہ چیخنے والے، نہ غضب ناک ہونے والے اور نہ سختی کرنے والے تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو ان امور سے بچایا اور محفوظ رکھا۔ آپ ﷺ اکثر مزاج اور سخت گیر بھی نہ تھے بلکہ آپ کے رب نے آپ کو ان صفات سے پاک رکھا۔ اللہ پاک نے فرمایا:

﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۪﴾

’’ پھر (اے نبی !) آپ اللہ کی رحمت کے باعث ان کے لیے نرم ہو گئے۔ اگر آپ بد خلق، سخت دل ہوتے تو  یقینًا وہ سب آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔‘‘ (آل عمران 159:3)

ہر اعلی و ارفع مثال اور صفت میں آپﷺ  ہی اسوہ حسنہ ہیں۔ گھر والوں کی خدمت کرنا، ان سے حسن معاشرت اور ان سے قریب ہونا آپ کی اعلی اخلاقی خوبیوں میں شامل ہے۔

جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی اکرمﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا: آپ گھر والوں کے کام، یعنی اہل و عیال کی خدمت کرتے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لیے چلے جاتے۔ (صحيح البخاري، الأذان، حديث (676)

ایک دوسری روایت میں ہے: آپﷺ بھی بشر ہی تھے۔ آپ کپڑوں سے کھٹمل وغیرہ نکال لیتے ، بکری کا دودھ دوہ لیتے اور اپنے کام کر لیتے۔ (مسند احمد، حدیث: 26194)

ایک اور روایت میں ہے: آپ اپنے کپڑے سی لیتے ، جوتے مرمت کر لیتے اور اسی طرح کام کرتے جس طرح مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ (مسند احمد، حدیث: 24903)

آپ ﷺنہایت نرم دل، لطف و کرم کرنے والے، رحم دل اور بردبار شوہر تھے۔ لوگوں کو بھی حسن معاشرت، اچھے برتاؤ اور نرمی کرنے کا حکم دیتے جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ  نے فرمایا: ((إِنَّكَ مَهمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلٰى فِي امْرَأَتِكَ))

’’تم جو مال بھی خرچ کرو گے، دو تمھارے لیے صدقہ ہو گا حتی کہ وہ لقمہ جسے تم توڑ کر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے، وہ بھی صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الوصايا، حديث (2742)

یعنی اگر خاوند بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے تو وہ بھی نیکی ہے جس پر اسے ضرور اجر ملے گا اور ایسا صدقہ ہے جو اس کے نامہ اعمال میں درج ہوگا۔

آپ ﷺنے ساری زندگی کبھی اپنی کسی بیوی کو مارا، نہ اس کی تذلیل کی اور نہ گالی ہی دی بلکہ آپ نہایت شفیق و نرم مزاج، رحم دل اور برد بار شوہر تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا۔ کسی عورت کو نہ کسی غلام کو، مگر یہ کہ آپ اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے ہوں۔ اور جب بھی آپ کو نقصان پہنچایا گیا تو کبھی (ایسا نہیں ہوا کہ) آپ نے اس سے انتقام لیا ہو مگر یہ کہ کوئی اللہ کی محرمات میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا تو آپ اللہ عز وجل کی خاطر انتقام لیتے۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2328)

اگر آپﷺ کی کوئی بیوی تکرار کرتی تو آپ نظر انداز کر دیتے۔ اگر کوئی فطری غیرت کی وجہ سے کوئی اقدام کرتی تو آپ صبر کرتے، چنانچہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو غیرت آئی تو آپ نے صبر کیا، غصہ پی گئے اور مسکرا کر نہایت لطف و کرم اور سکون سے اپنے مہمانوں سے فرمایا:

((غَارَت أُمُّكُم)) ’’تمھاری ماں کو غیرت آگئی۔‘‘ (صحيح البخاري، النکاح، حدیث: 5225)

جب آپﷺ کی کوئی بیوی بیمار ہو جاتی تو آپ اس کی تیمار داری کرتے۔ اس کے ساتھ لطف و کرم والا معاملہ کرتے۔ اس کا حال دریافت کرتے اور یہ باور کراتے کہ اس کی بیماری سے آپ اہم شدید تکلیف میں ہیں۔ یہاں تک کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حج کے دوران میں حیض آگیا اور آپ گھر تشریف لائے تو وہ رورہی تھیں۔ آپﷺ نے ان سے فرمایا :

’’تجھے کیا ہوا؟ کیا حیض آگیا ہے؟‘‘  انھوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: ”یہ امر تو اللہ تعالی نے بنات آدم پر لکھ دیا ہے، لہٰذا تم وہ تمام کام کرو جو حاجی کرتا ہے، البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔‘‘ (صحیح البخاري، الحيض، حديث: 294)

پھر آپﷺ نے ان کی دلداری کے لیے انھیں ان کے بھائی سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا تا کہ وہ عمرہ کر لیں اور انھیں دلی سکون مل جائے کہ وہ بھی حج کے ساتھ عمرہ کر کے واپس جا رہی ہیں۔ آپ کتنے ہی کریم اور لطف و کرم کرنے والے خاوند تھے! یہ برتاؤ کسی قدر اعلیٰ اخلاق کا مظہر ہے!

ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ تھی اور یہ میری باری کا دن تھا۔ میں سواری کی وجہ سے لیٹ ہو گئی۔ رسول اکرمﷺ میرے پاس آئے تو میں رو رہی تھی۔ میں نے کہا: آپ نے مجھے مست اونٹ پر سوار کر دیا۔ رسول اکرم ﷺ اپنے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کرنے کے لگے اور مجھے چپ کرانے لگے۔ (السنن الكبرى للنسائي، حديث : 9117)

اللہ تعالی آپﷺ کو بہترین جزا عطا فرمائے جو وہ کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے دیتا ہے۔ آپ کس قدر رحیم ولطیف اور آپ کا ساتھ کسی قدر پیارا اور شیریں تھا!

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ہم مدینہ کی طرف نکلے تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺسیدہ صفیہ رضی اللہ تعالی عناہ کی وجہ سے اپنے پیچھے اپنی چادر سے پردہ کیے ہوئے ہیں، پھر آپ اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ گئے اور اپنا گھٹنا کھڑا رکھا۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ کے گھٹنے پر اپنا پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2893)

رسول اکرمﷺ کے اس عمل پر غور کریں کہ کس طرح آپ نے اونٹ کو روکا اور اپنی بیوی کی اعانت کی تاکہ وہ سوار ہو جائے ؟!

عصر حاضر میں اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی سب لوگوں کے سامنے اپنی بیوی کے لیے کار کا دروازہ کھولے، اس کی مدد کرے اور اس کے کپڑے سمیٹے حتی کہ وہ آرام و اطمینان سے بیٹھ جائے۔ اللہ کی قسم! آج بھرے مجمع میں لوگوں کے سامنے کون ایسا کرتا ہے؟ لیکن رسول کریم ﷺصحابہ کے سامنے سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مدد کرتے ہیں اور نہایت لطف و کرم اور اچھے انداز سے انھیں اونٹ پر سوار کرتے ہیں۔

آپ ﷺاپنی ازواج کی دلداری کرتے، ان کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے اور ان کا دل نہ توڑتے جیسا کہ آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:

((سُوقًا بِالقَوَارِير)) ’’ان آبگینوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6149)

 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ مجھ سے فرماتے:

’’میں خوب جان جاتا ہوں جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور جب مجھ سے ناراض ہوتی ہو۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں نہیں، مجھے رب محمد کی قسم ! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں نہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم !‘‘ میں نے عرض کی: ہاں اللہ کے رسول اللہ کی قسم !غصے کے وقت میں صرف آپ کا نام زبان پر نہیں لاتی (جبکہ دل آپ کی محبت میں فرق ہوتا ہے )۔ (صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5228)

رسول اکرم ﷺنے عورت کے مقام و مرتبہ کا تحفظ کیا اور اس کی عزت و تکریم کرنے کا حکم دیا۔ عورت کو عزت دینے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ اپنی بیویوں سے مشاورت کرتے تھے۔ آپﷺ نے حدیبیہ کے روز سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مشورہ کیا اور ان کا مشورہ تمام مسلمانوں کے لیے نہایت خیر و برکت کا باعث بنا۔ انھوں نے آپﷺ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا: اللہ کے نبی! کیا آپ یہ چاہتے ہیں (کہ لوگ احرام کھول دیں ؟) آپ خود باہر نکلیں اور کسی سے کوئی بات نہ کریں یہاں تک کہ آپ اپنی ہدی کو نحر کر دیں اور اپنے حجام کو بلا کر سر کے بال منڈا لیں۔ (صحيح البخاري، الشروط، حديث: 2732)

جب آپ ﷺ نے ایسا کر لیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جلدی جلدی اٹھے اور فوراً آپ کے حکم کی تعمیل کی، حالانکہ اس سے پہلے وہ حدیبیہ کی شرائط صلح کی وجہ سے غم زدہ اور پریشان ہونے کی بنا پر پس و پیش کر رہے تھے۔

آپ ﷺ کے اس فرمان: ((إِنَّ النِّسَاءَ شَقَائِقُ الرِّجَالِ)) ’’بلاشبہ عورتیں اصل خلقت میں مردوں ہی کا طرح ہیں‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 236) سے عورتوں کی جو تکریم واضح ہوتی ہے، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی تکریم و تعظیم ہے؟!

آپﷺ گھر والوں کے ساتھ ہمیشہ آسانی والا معاملہ فرماتے۔ انھیں مخاطب کرنے میں بھی سہولت کا پہلو پیش نظر رکھتے۔ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے اور حسن معاشرت کا مظاہرہ کرتے جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے : رسول اللہﷺ بہت نرم خو تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا جب بھی کوئی خواہش کرتیں، آپ ﷺان کی بات مان لیتے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1213)

رسول اکرم ﷺنے اپنی بیویوں کے ساتھ وفا کی نہایت اعلیٰ اور انوکھی مثالیں قائم کیں جس کی سب سے خوبصورت تصویر آپ کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ وفا ہے جو مشکل حالات اور بعثت کے آغاز کی انتہائی کربناک راتوں میں آپ کے ساتھ رہیں۔ جب کفار نے آپ کو سخت اذیتیں دیں، اس وقت بھی آپ کا ساتھ دیا۔ آپﷺ انھیں ہمیشہ یاد کرتے۔ ان کے لیے دعا کرتے۔ ان کے ساتھ بیتے ایام کو یاد کرتے اور جب کوئی چیز آپ کے پاس لائی جاتی تو آپ فرماتے: ’’یہ فلاں خاتون کو دے دو، وہ خدیجہ کی سہیلی ہے۔ یہ فلاں کے گھر دے دو کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی ہے۔‘‘ (الأدب المفرد للبخاري، حديث : 232)

کیا عظیم شان ہے اس عالی مرتبت اور عظیم نبی کی جو با صفا، باوفا اور پاک باز ہیں! اور آپ اپنے صحابہ کو یہی نصیحت کرتے تھے۔ آپﷺ فرماتے تھے:

((أكمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ))

’’ایمان میں وہ مومن زیادہ کامل ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہو اور تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الرضاع، حديث (1162)

ایک اور موقع پر فرمایا: ((أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ))

’’خبردار! عورتوں کے بارے میں میری طرف سے خیر خواہی کی وصیت قبول کرو۔ بلا شبہ وہ تمھارے ہاتھوں میں امیر (قیدی) ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الرضاع، حديث: 1163)

ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: ((خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي))

’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے حق میں بہتر ہے اور میں تم سب سے اپنے اہل کے حق میں بہتر ہوں۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب المناقب، حديث: 3895)

آپ ﷺ کے اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور بیویوں کے ساتھ لطف و کرم کی دلیل یہ ہے کہ آپ کی ہر بیوی کی سب سے بڑی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ آپ کی خوبصورت شکل کا دیدار کرلے اور یہ چاند اس کے آنگن میں اترے۔

آپ ﷺ نے عورت کی دلداری کرنے ، اس کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرنے اور اس کے روشن پہلوؤں کو سامنے رکھنے کی ترغیب دلائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا :

((لَّا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ))

’’کوئی مومن مرد مومن عورت سے نفرت نہ کرے۔ اگر اسے اس کا کوئی اخلاق نا پسند ہے تو کوئی دوسرا پسند بھی ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 1469)

اس سے ازدواجی تعلقات مضبوط اور مستحکم رہتے ہیں اور حالات درست رہتے ہیں کیونکہ ازدواجی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ کبھی اچھے دن آتے ہیں اور کبھی بدمزگی ہو جاتی ہے۔ عقل مند اور باشعور مومن کو چاہیے کہ وہ ازدواجی زندگی کی مشکلات میں اللہ رب العالمین کا تقویٰ اور سید المرسلین ﷺکی اتباع ملحوظ رکھے۔ آپ کا اپنی بیویوں سے برتاؤ نہایت اعلیٰ اور انتہائی نرمی و شفقت کا تھا۔

…………..