محمدﷺ بحیثیت عبادت گزار
اللہ تعالی کی سب سے عظیم عبادت کرنے والے رسول اللہﷺ ہیں۔ آپ مخلوق میں سب سے بڑھ کر اپنے رب سے ڈرنے والے سب سے بڑے اطاعت گزار اور سب سے زیادہ اپنے مولا کی بندگی کرنے والے ہیں۔ عبادت کا مفہوم اس سے کہیں وسیع تر ہے جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت صرف نماز، روزہ، حج، زکاۃ اور عمرہ وغیرہ کو عبادت سمجھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ امور عبادات کی اصل اور اطاعت کے ارکان ہیں لیکن کتاب وسنت میں ساری زندگی کو عبادت کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾
’’اور میں نے جن اور انسان اس لیے تو پیدا کیے ہیں کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات 56:51)
ہر قول، فعل اور عمل جو اللہ کو پسند ہو، اس کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے، وہ عبادت ہے۔ اس میں ارکانِ اسلام، ارکان ایمان، احسان، دل کے اعمال، نیکی، صلہ رحمی، حسن، اخلاق، سخاوت، ایثار، تواضع ، امر بالمعروف، نہی عن المنكر، لوگوں کو فائدہ پہنچانا، انھیں اذیت دینے سے باز رہنا، ان کے ساتھ رحمت و شفقت کا مظاہرہ کرنا وغیرہ سب چیزیں شامل ہیں۔ حیوانوں اور پرندوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ماحول کو درست کرنے کے لیے تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا، راستوں کی اصلاح کرنا، لوگوں کی مجالس اور راستوں سے اذیت ناک چیزوں کو دور کرنا بھی عبادت ہے۔
عبادت گزاروں کے امام رب العالمین کے رسول ﷺہیں۔ آپ نے امت کو رب کی عبادت کا طریقہ وسلیقہ سکھایا اور آپ ہی نے لوگوں کو ان کے مولا و خالق کا عبادت گزار بنایا۔ جو عبادت آپ ﷺ کے واسطے سے نہ ہو اور آپﷺ اس کی تعلیم نہ دیں، وہ باطل اور مردود ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَّيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَرَدٌّ))
’’جس نے ایسا عمل کیا، جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الأقضية، حديث: 1718)
آپ ﷺ نے ہمیں تمام عبادات: نماز، روزہ، حج، زکاة، دعائیں، اذکار اور عبادت کا ہر طریقہ سکھایا، چنانچہ صحابہ کرام سے آپﷺ فرماتے: ((صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِي أَصَلِّي))
’’نماز ایسے پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:631)
اور آپ ﷺ فرماتے: ((لِتَأْخُذُوْا مَنَاسِكَكُمْ))
’’تا کہ تم حج کے طریقے سیکھو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1297 )
اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَمَا وَاللهِ إِنِّي لَأَتْقَاكُمْ لِلهِ وَأَخْشَاكُمْ لَهُ))
’’سنو، اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ کا تقوی رکھنے والا اور اُس سے ڈرنے والا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصيام، حدیث:1108)
نبی ﷺ کی ساری زندگی عبادت تھی۔ آپ کی نماز ، روزہ ، صدقہ، حج و عمرہ، دعوت سب امور عبادت تھے بلکہ آپ کی نیند، بیداری، کھانا پینا، سانس، حرکات و سکنات اور بولنا سب کچھ عبادت تھا۔
آپﷺ ہی نے مخلوق کو خالق کی عبادت سکھائی اور بندوں کو معبود کی عبادت کا درس دیا۔ نبی نبی ﷺ نے لوگوں کو یہاں تک بتایا کہ اگر وہ اپنے جائز اور لذت دینے والے کاموں میں بھی اپنے رب کی اطاعت کی نیت کر لیں تو اس نیک نیتی کی وجہ سے ان کے یہ کام بھی عبادت بن جائیں گے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’تمھیں اس مال خرچ کرنے پر ضرور اجر دیا جائے گا جس سے تمھارا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہو تی کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث: 56)
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺکے کچھ ساتھیوں نے آپ سے عرض کی: اللہ کے رسول ! زیادہ مال رکھنے والے اجر و ثواب لے گئے۔ وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور اپنے ضرورت سے زائد مالوں سے صدقہ کرتے ہیں (جو ہم نہیں کر سکتے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا اللہ تعالی نے تمھارے لیے ایسی چیز نہیں رکھی جس سے تم صدقہ کر سکو ؟ بے شک ہر دفعہ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے۔ ہر دفعہ اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ ہر دفعہ الحمد للہ کہنا صدقہ ہے۔ ہر دفعہ لا إله إلا الله کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور بیوی سے مباشرت کرنے میں صدقہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو کیا اس میں بھی اسے اجر ملتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بتاؤ اگر وہ یہ (خواہش) حرام جگہ پوری کرتا تو کیا اسے اس پر گناہ ہوتا؟ اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پوری کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1006)
چنانچہ آدمی کا اپنی بیوی سے اس نیت سے مباشرت کرنا کہ میری عزت بھی محفوظ رہے گی اور اس کی بھی تو یہ بھی صدقہ شمار ہوگا۔
غور کریں کہ آپ اس کی زندگی میں عبادت کا مفہوم کس قدر وسیع تھا کہ آپ کی دعوت انسان کی زندگی سے مکمل طور پر ہم آہنگ اور اس کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ))
’’بے شک تم پر تمھارے رب کا بھی حق ہے، نیز تمھاری جان اور تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، لہٰذا تمھیں ہر ایک کے حقوق ادا کرنے چاہئیں۔‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حديث: 1968)
آپ ﷺنے زندگی کے تمام دروازے کھولے اور انھیں اللہ کی عبادت بنا دیا۔ آپ کا دیکھنا عبرت کے لیے، آپ کی خاموشی غور و فکر کے لیے اور گفتگو نصیحت کے لیے تھی۔ آپ کے فکر ونظر، زبان اور تمام اعضاء ہر وقت رب العالمین کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ غور و فکر کرنا انبیاء کی عبادت، متقین کی زندگی کی بہار اور ہدایت کی راہ ہے۔ کائنات ایک کھلی کتاب ہے۔ اس میں اللہ تعالی کی یکتائی اور وحدانیت کی کھلی نشانیاں ہیں۔
ملحدین نے اس کائنات کو اللہ کی ذات سے الگ کر کے فاش غلطی کی ہے۔ وہ آنکھوں سے نظر آنے والے مادی امور کے متعلق بحث کرتے ہیں اور حکمت والے مصور و خالق کو بھول جاتے ہیں جس کے سوا کوئی معبود ہے نہ پروردگار نبی اکرم ﷺکی سیرت کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ آپ ایسی واضح آیات لائے ہیں جو انسان کو کائنات اور اس کے خالق سے جوڑتی ہیں۔ قرآن مجید کے دلائل سے اس نظر آنے والی کائنات کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ ؕ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ﴾
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ کی تسبیح کرتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، اور فضا میں پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی۔ ہر ایک نے یقینًا اپنی نماز (عبادت ) اور اپنی تسبیح جان لی ہے، اور جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔‘‘ (النور 41:24)
چنانچہ غور و فکر کرنا عظیم عبادت ہے جس کا اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ۱۹۰﴾
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ (آل عمران 190:3)
نبیﷺ ہرچیز کو صبر کی نظر سے دیکھے تھے آپ غور وفکر اور تدبر کرنے ولوں کے سردار ہیں بلکہ آپ ہی نے امت کو اللہ کی نعمتوں، اس کی تخلیق اور نشانیوں میں غور وفکر کی عبادت کا طریقہ بتایا۔ قرآن مجید اور آپ ﷺ کا لایا ہوا ہر پیغام ہی کا ئنات میں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ اس میں اللہ تعالی کی عظمت کے جلال ، تقدیر کے مظاہر اور باری تعالی کی کاریگری کی سطور پر غور و فکر کا درس ہے۔ قرآن مجید میں اپنے آس پاس موجود اللہ کی بادشاہی پر غورو فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾
’’(اے نبی!) کہہ دیجیے: دیکھو (اور غور کرو) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔‘‘ (یونس 101:10)
اور اللہ پاک کا فرمان ہے:
﴿ وَ كَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا وَ هُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ﴾
’’اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں کہ وہ ان پر سے گزرتے ہیں اور ان پر دھیان نہیں دیتے۔‘‘ (یوسف 105:12)
قرآن مجید آسمان، زمین، سورج، چاند، ستاروں، پہاڑوں، سیاروں، ٹیلوں، گھنے باغوں، سمندروں، شہروں، پھلوں اور درختوں پر غور و فکر اور تدبر کرنے، نیز ان سے اسباق حاصل کرنے کا درس دیتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ دل و جان سے دن رات اور حضر و سفر میں اس عبادت میں مگن رہتے تھے۔ آپ ﷺدونوں کتابوں کو ایک ساتھ جمع کرتے تھے۔ کائنات کی کتاب اور کتابِ مسطور، یعنی قرآن مجید۔ آپ اللہ کی تخلیق میں پھیلی ہوئی اس کی نشانیوں اور قرآن میں اللہ تعالی کی آیات پر غور و تدبر کرتے تھے۔
اورآپﷺ سے اس عبادت کی کئی صورتیں مروی ہیں۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانات، پرندوں اور حشرات الارض کو نفع پہنچانا بھی عبادت ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ایک شخص جارہا تھا، اس کو سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اترا اور اس سے پانی پیا۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے پانچتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے (دل میں ) کہا کہ اسے بھی شدت پیاس سے وہی تکلیف ہو رہی ہے جو مجھے تھی۔ اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اسے منہ میں لے کر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قدردانی کرتے ہوئے اس کو معاف کر دیا۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے پوچھا: اللہ کے رسول ! کیا ہمیں چوپایوں (کی خدمت کرنے) میں بھی اجر ملے گا؟ آپ نےﷺ فرمایا: ’’ہر وہ جگر جو زندہ ہے، اس کی خدمت میں اجر ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، المساقاة، حدیث: 2363)
مسلمان چوپایوں اور حیوانات حتی کہ چیونٹی ، شہد کی مکھی اور پرندوں وغیرہ کے ساتھ جو احسان کرتا ہے، اس پر بھی اسے اجر ملتا ہے۔
عبادت میں آپ ﷺ کی عبادت کے طریقہ کار کی وضاحت اس آیت میں موجود ہے:
﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ﴾
’’کہہ دیجیے: بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، (سب کچھ) اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ (الأنعام 162:6)
کیا اس آیت نے عبادت اور اطاعت کی کوئی صورت باقی رہنے دی ہے؟!
رسول کریم ﷺ دن رات اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق گزارتے۔ آپ ﷺ کی دن رات کی عبادات پر کئی کتا ہیں لکھی جا چکی ہیں۔ آپ ﷺ کی تمام حرکات و سکنات، ہر لمحہ اور زبان سے نکلنے والا ہر لفظ عبادت تھا۔ نبیﷺ کی عبادت اخلاص، میانہ روی، توازن، اعتدال اور دوام پر مبنی تھی۔ آپ ﷺاخلاص والوں ، فرماں برداروں اور عبادت گزاروں کے امام ہیں۔ آپ ﷺ اپنی عبادت میں اعتدال پسندی کو اختیار کرتے۔ اس میں افراط و تفریط سے ہرگز کام نہ لیتے اور آپ ﷺ فرماتے تھے:
((إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ)) ’’دین میں غلو سے بچو۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 1851)
اور آپﷺ نے فرمایا:
’’بے شک دین اسلام بہت آسان ہے۔ اور جو شخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الإيمان، حديث: 39)
نبی ﷺکو سب سے زیادہ وہ عمل پسند تھا جو باقاعدگی سے کیا جائے ، خواہ تھوڑا ہی ہو۔ آپ خود بھی جو عمل کرتے ، اس پر ہمیشگی کرتے۔ آپ اپنی عبادت میں بالخصوص اور زندگی میں بالعموم توازن برقرار رکھتے اور اعتدال پسندی کا دامن نہ چھوڑتے۔ ایک حق ادا کرنے کے لیے دوسرے میں کو تاہی نہ کرتے تھے۔ نماز کے لیے الگ وقت تھا۔ تلاوت قرآن کے لیے ایک الگ وقت تھا۔ تہجد کا اپنا وقت تھا۔ اہل وعیال اور مسلمانوں کے لیے بھی الگ وقت مقرر تھا، گویا آپ کی زندگی اپنے مولا و رب کی عبادت کا ایک ایسا گھنا باغ تھا جس میں ہر درخت پھلدار اور بار آور ہو۔ آپ کے باغِ حیات میں خشوع و خضوع والی نماز، تدبر والی تلاوت قرآن، دل و دماغ کی حاضری والا ذکر، مؤثر وعظ، نفع بخش درس ، قبول ہونے والا صدقہ، حسن سلوک، صلہ رحمی، اللہ کی راہ میں جہاد، آن پڑھ کو تعلیم دینا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، لوگوں کے درمیان عدل کا قیام، مظالم کا خاتمہ، مساکین، یتیموں، فقراء اور بیواؤں کے ساتھ رحمت وشفقت، لشکروں کی تیاری، قومی خزانے کی حفاظت، بندوں کی مصلحتوں کا لحاظ، مملکت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی وغیرہ کے مختلف پھل پائے جاتے ہیں۔
یقینًا آپ ﷺنے ساری زندگی کو عبادت میں بدل دیا۔ آپ کا ہر قدم، ہر کلمہ، ہر عبارت اور ہر اشارہ اپنے مولا کی عبادت اور اپنے خالق کی اطاعت تھا حتی کہ آپ ﷺ کا بچوں کے ساتھ مزاح ، اہل و عیال کے ساتھ دل لگی اور صحابہ کرام سے لطف وکرم بھی اپنے مولا کی عبادت تھا۔ اس سے بھی آپ کا مقصود اللہ تعالی سے اجر وثواب کا حصول تھا۔ آپ ﷺ معصوم تھے، اپنی مرضی سے نہیں بولتے تھے اور نہ عام انسانوں کی طرح خود ہی کوئی تصرف یا اقدام کرتے تھے بلکہ اللہ کے برگزیدہ نبی تھے جنہیں اللہ تعالی نے لوگوں کی ہدایت کے لیے چن لیا تھا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ تین آدمی نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آئے تا کہ وہ نبی ﷺ کی عبادت کے متعلق معلومات حاصل کریں۔ جب انھیں (اس کی) خبر دی گئی تو انھوں نے اسے کم خیال کیا۔ کہنے لگے کہ ہمارا نبی ﷺ کی عبادت سے کیا مقابلہ اللہ تعالی نے آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ بخش دیے ہیں، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھتا رہوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے علیحدگی اختیار کرلوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺان کے پاس تشریف لے آئے اور آپ نے ان سے پوچھا:
’’کیا تم نے یہ یہ باتیں کہی ہیں؟ خبر دار! اللہ کی قسم میں تمھاری نسبت اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اس کے علاوہ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے منہ موڑا، وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، النكاح، حديث: 5063)
رسول اکرمﷺ نے زندگی کا یہ تصور پیش کیا کہ پوری زندگی ہی اللہ کی عبادت ہے حتی کہ ہم اپنی زندگی میں جن چیزوں سے لذت حاصل کرتے ہیں، آپ نے ان کو بھی عبادت قرار دیا۔ ہمارا لذیذ کھانا تناول کرنا ، ٹھنڈا پانی پینا، خوبصورت نئے کپڑے پہننا اور آرام دہ نیند سونا اچھی نیت کے ساتھ سب کچھ اطاعت میں بدل جاتا ہے، گویا ہم مسلسل رب العالمین کی عبادت میں مصروف ہیں۔ یہی نبوت کی رہنمائی اور رسالت کی برکت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں نبی مصطفی اور حبیب مجتبی محمد بن عبد اللہﷺ کے ذریعے سے عطا کر کے عزت بخشی ہے۔
اگر کوئی شخص صرف نماز، روزہ اور حج ہی کو عبادت سمجھتا ہے تو یقینًا وہ عبادت کا مفہوم ہی نہیں سمجھ پایا۔ اس نے اسے بہت محدود کر کے چند صورتوں میں بند کر دیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان مرد و عورت کی زندگی اول تا آخر، دن رات، خفیہ و علانیہ، آسانی وتنگی میں اور شدت و خوشحالی میں عبادت ہے بشرطیکہ نیت سچی ہو اور مقصود اللہ تبارک و تعالی کی عبادت اور اطاعت ہو۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب نماز پڑھتے تو بہت لمبا قیام کرتے، یہاں تک کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: اللہ کے رسول ! آپ ایسا کرتے ہیں، حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہوں کی مغفرت کی یقین دہانی کرائی جا چکی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عائشہ کیا میں اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘ (صحیح مسلم، صفة القيامة، حدیث: 2820)
اللہ تعالی نےنبیﷺ کو حکم دیا کہ آپ رات کے وقت اپنے رب سے سرگوشی کریں اور اپنے مولا و خالق کی مناجات سے لطف اندوز ہوں، اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ۖۗ عَسٰۤی اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾
’’اور رات کے کچھ حصے میں بھی آپ اس (قرآن) کے ساتھ تہجد پڑھیں ، اس حال میں کہ (یہ) آپ کے لیے زائد (نفل) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا۔‘‘ (بنی اسراءیل 79:17)
جس طرح آپ ﷺ رات کی تنہائی میں اپنے مولا کی عبادت سے شرف وعزت پاتے ، اسی طرح اللہ تعالی تمام مخلوق کے سامنے آپ کو مقام محمود پر فائر کر کے شفاعت کبری کا شرف عطا کرے گا۔ اور آپ کا رب آپ کو حکم دیتا ہے: ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب﴾ ’’اور سجدہ کریں اور اللہ کا قرب حاصل کریں۔‘‘ (العلق 19:96)
انسان جب ان دونوں کلموں پر غور کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی ﷺ کی طرف سے رب العالمین کے لیے محبت، فرماں برداری، عجز و انکسار اور خشوع کے تمام معانی آجاتے ہیں۔ آپ کا جسم سجدے میں جھکا ہوتا ہے اور روح اپنے مولا و خالق کی طرف بلند پرواز میں چلی جاتی ہے۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو حکم دیا:
﴿وَاعْبُدْ رَبِّكَ حَتّٰى يَأْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾
’’اور آپ اپنے رب کی عبادت کریں حتی کہ آپ کے پاس یقین (موت) آجائے۔‘‘ (الحجر 99:15)
یہ براہ راست اللہ سے تعلق ہے اور زندگی کے آخری سانس تک اس کی عبادت میں لگے رہنے کا حکم ہے۔ اس میں لمحہ بھر کا بھی انقطاع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ﴾
’’چنانچہ جب آپ فارغ ہو جائیں تو سخت محنت کیجیے۔‘‘ (الم نشرح 7:94)
یعنی جب آپ اپنے کاموں، مصروفیات اور دعوتی سرگرمیوں سے فارغ ہو جائیں تو اپنے پروردگار اور مولا کی عبادت میں خود کو تھکا دیں۔
ایک مقام پر فرمایا: ﴿وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا﴾ ’’اور سب سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔‘‘ (المزمل (8:73)
یعنی ہر عام و خاص سے کٹ کر صرف اللہ کی طرف متوجہ ہو جائیں اور ہر حال میں دل و جان سے اس کے ہو جائیں۔ آپ نے اس کی تعمیل کی اور مکمل یکسوی سے سجود و قیام میں لگ گئے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات میں نے اللہ کے رسولﷺ کو تلاش کیا تو آپ اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس قدر گریہ زاری کر رہے تھے جیسے خود کو مٹا دیں گے۔ وہ فرماتی ہیں: میں نے اندھیرے میں ہاتھ مارا تو آپ کے مبارک قدموں پر پڑا۔ بحالت سجدہ آپ کے قدم مبارک کھڑے تھے اور آپ کی روح اپنے مولا و خالق سے محو مناجات تھی۔ آپ یہ دعا پڑھ رہے تھے:
((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أحْصِي ثَنَاءَ عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ))
’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضامندی کی پناہ میں آتا ہوں۔ تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔ اور تجھ سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں۔ میں تیری ثنا پوری طرح بیان نہیں کر سکتا۔ تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود بیان کی۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 486)
اللہ اللہ ! جب اولاد آدم کے سردار اور ہر گناہ سے پاک و محفوظ ہستی محمد رسول اللہ ﷺ کا عالم یہ ہے کہ آپ اس قدر عجز و انکسار کا اظہار کرتے ہیں تو ہمارے لیے آپ کی پیروی کے سوا کون سی راہ باقی رہ جاتی ہے ؟! ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب آپ رات کو اٹھتے تو نماز کا آغاز اس دعا سے کرتے:
((اَللّٰهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ، وَمِيْكَائِيْلَ، وَإِسْرَائِيلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْمَا كَانُوْا فِيهِ يَخْتَلِفُوْنَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِيْ مَنْ تَشَاءُ إِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ))
’’اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والے! پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے! تیرے بندے جن باتوں میں اختلاف کرتے تھے تو ہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ جن باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے، ان میں سے جو حق ہے تو ہی اپنے حکم سے مجھے اس پر چلا۔ بے شک تو ہی جسے چاہے، سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث:770)
سمجھ میں نہیں آتا آدمی کس چیز پر تعجب کرے ؟ آپ ﷺ کی لمبی نماز پر یا فرماں برداری و خشیت الہی پر یا آپ کے اپنے مولا کے سامنے عجز و انکسار پر ؟! یا آپ کے حسن کلام اور فصیح و بلیغ دعا یا اپنے پروردگار اور خالق کی خوبصورت عبادت پر ؟!
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے تو ایسے معلوم ہوتا تھا کہ اس مہینے میں آپ بالکل روزہ نہیں رکھیں گے اور جب روزے رکھتے تو اتنے مسلسل رکھتے کہ ہم سوچتے کہ آپ اس میں بالکل ناغہ نہیں کریں گے۔ اور رات کے وقت نماز ایسے پڑھتے تھے کہ تم جب چاہتے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جب چاہتے آپ کو محو خواب دیکھ لیتے۔ (صحيح البخاري، التهجد، حديث (1141)
اے عالم دین، امیر و حاکم، وزیر، انجینئر ، ڈاکٹر، فوجی، سپاہی، کسان، صحافی، درزی، بڑھئی، کاتب اور شاعر حضرات! تم سب اگر اپنی نیت کی اصلاح کر لو اور تمھارا مقصد اپنے کام سے رضائے الہی کا حصول ہو تو تم سب کو تمھارے کام مبارک ہوں اور تمھارے لیے عظیم اجر و ثواب کی نوید ہے۔ تم اپنے نبی مختارﷺ کے اس فرمان کو یاد رکھو: ((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوٰى))
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا۔‘‘ (صحیح البخاري بدء الوحي، حديث:1)
افراط و تفریط اور غلو اور لاپروائی سے بچو۔ آپ ﷺکی سنت کو لازم پکڑو کیونکہ کامیابی و کامرانی کا دارومدار آپ کی پیروی پر ہے۔ سنت میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا بدعت میں بہت زیادہ محنت و کوشش سے ہزار درجے بہتر ہے۔ اتباع کرو اور بدعت سے بچو۔ یہ تمھیں ہر چیز سے کافی ہو جائے گی۔
………………….