مدینہ کے فضائل
مدینہ اسلام کا مرکز ہے، یہاں پیغمبر اسلام ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں۔ یہ دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آنے والی پہلی اسلامی ریاست ہے، اس ریاست کے پہلے حاکم امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، دنیا جہاں کے مسلمان ہجرت کرکے یہاں آتے تھے، یہاں بہترین مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل پایا، پہلی اسلامی درسگاہ بھی یہاں ہی بنی تھی، جہاد اور دعوت کے لیے یہاں سے ہی قافلے تشکیل پاتے تھے، یہاں سے ہی دنیا کے حکمرانوں کو اسلامی دعوت کے خطوط لکھے جاتے تھے خلفائے راشدین کے سنہری دور میں ماسوائے چند سالوں کے یہاں ہی مسلمانوں کا دارالحکومت رہا ہے
مدینہ کی نشاندہی قدیم مذاہب میں
جیسا کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے پانچویں پادری استاد نے آخری نبی کی علامات بیان کیں
بوقت وفات اس نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا :
لیکن اب ایک نبی کی آمد کا وقت قریب آ چکا ہے،
1اسے دینِ ابراہیمی کے ساتھ مبعوث کیا جائے گا ،
2 وہ عربوں کی سرزمین سے ظاہر ہو گا
3اور ایسے (شہر) کی طرف ہجرت کرے گا جو دو حرّوں (یعنی کالے پتھر والی زمینوں) کے درمیان ہو گا اور ان کے درمیان کھجوروں کے درخت ہوں گے۔ اس کی اور علامات بھی ہوں گی، جو مخفی نہیں ہوں گی۔
4وہ ہدیہ (یعنی بطورِ تحفہ دی گئی چیز) کھائے گا،
5صدقہ نہیں کھائے گا
6اور اس کے کندھوں کے درمیان مہرِ ختمِ نبوّت ہو گی۔ اگر تجھے استطاعت ہے تو (عرب کے) ان علاقوں تک پہنچ جا۔ سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
پھر وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا۔
رواه ابو نعيم في الدلائل و كذا ابن سعد و البيهقي في الخصائص الكبري
و قال الشيخ الالباني : اسناده صحيح . صحيح السيرة لابن كثير . ص ٧٠
اللہ تعالیٰ نے مدینہ کو مسلمانوں کے لیے بطورِ نعمت بیان کیا ہے
فرمایا :
وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور یاد کرو جب تم بہت تھوڑے تھے، زمین میں نہایت کمزور سمجھے گئے تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تمھیں اچک کر لے جائیں گے تو اس نے تمھیں جگہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمھیں قوت بخشی اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، تاکہ تم شکر کرو۔
الأنفال : 26
اس شہر کے نام
اس شہر کا پرانا نام تو یثرب ہے
جیسا کہ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أُمِرْتُ بِقَرْیَۃٍ تَأْکُلُ الْقُرَی،یَقُوْلُوْنَ:یَثْرِبْ
صحیح البخاری:1876
مجھے ایک بستی ( کی طرف ہجرت کرنے ) کا حکم دیا گیا ہے جو دیگر بستیوں کو کھا جائے گی۔لوگ اسے یثرب کہتے ہیں
مدینۃ الرسول
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لے جانے کے بعد اسے مدینۃ الرسول کہا جانے لگا
اس کے علاوہ دارالہجرۃ، طیبہ اور طابہ بھی کہا جاتا ہے
مدینہ کا ایک نام "طیبہ” بھی ہے
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّہَا طَیِّبَۃٌ(یَعْنِیْ الْمَدِیْنَۃَ)وَإِنَّہَا تَنْفِیْ الْخَبَثَ کَمَا تَنْفِیْ النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّۃِ))
صحیح البخاری:1884،صحیح مسلم:1384
’’ بے شک وہ ( یعنی مدینہ منورہ ) طیبہ ( یعنی پاک ) ہے اور وہ ناپاک کو اس طرح چھانٹ دیتا ہے جیسا کہ بھٹی چاندی کے زنگ کو چھانٹ دیتی ہے ۔ ‘‘
مدینہ کا ایک نام طابہ بھی ہے
ابوحمَید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ہم غزوہ تبوک سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس ہوتے ہوئے جب مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا :
” هَذِهِ طَابَةٌ ".
بخاری : 1872
کہ یہ طابہ آگیا۔
طاب اور طیب دونوں مدینۃ المنورہ کے نام ہیں جو لفظ طیب سے مشتق ہیں جس کے معنی پاکیزگی کے ہیں یعنی یہ شہر ہر لحاظ سے پاکیزہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں آئے تو اس میں وبا پھیلی ہوئی تھی جس سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کی بیماری کو دیکھا تودعا کرتے ہوئے فرمایا :
(اَللّٰہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِیْنَۃَ کَحُبِّنَا مَکَّۃ أَوْ أَشَدَّ،اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَفِیْ مُدِّنَا،وَصَحِّحْہَا لَنَا،وَانْقُلْ حُمَاہَا إِلَی الْجُحْفَۃِ)
صحیح البخاری:1889،صحیح مسلم:1376
’’اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے جیسا کہ ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ اے اللہ ! ہمارے صاع اور مد میں برکت دے اور اس ( مدینہ منورہ) کو ہمارے لئے صحت افزا مقام بنا اور اس کی بیماریوں کو جحفہ کی طرف منتقل کردے۔‘‘
ایک روایت میں ہے آپ نے یوں دعا فرمائی :
اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّ
(صحيح البخاري:1889)
ترجمہ: اے اللہ ! مدینے کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے لیے برکت کی دعا کرتے ہیں
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
(( اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِیْنَۃِ ضِعْفَیْ مَا بِمَکَّۃَ مِنَ الْبَرَکَۃِ ))
صحیح البخاری:1885،صحیح مسلم:1369
’’ اے اللہ ! مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ کی بہ نسبت دوگنی برکت دے ۔ ‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب پہلا پھل لایا جاتا تو آپ فرماتے :
(( اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ مَدِیْنَتِنَا وَفِیْ ثِمَارِنَا،وَفِیْ مُدِّنَا وَفِیْ صَاعِنَا، بَرَکَۃً مَعَ بَرَکَۃٍ))
صحیح مسلم:1373
’’ اے اللہ ! ہمارے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے پھلوں ، ہمارے صاع اور مد میں برکت دے ۔ ایک برکت کے ساتھ دوسری برکت ( دوگنی برکت ) دے ۔‘‘
مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
والمدينةُ خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون
.(صحيح البخاري:1875)
ترجمہ: اور مدینہ ان کے لئے باعث خیروبرکت ہے اگر علم رکھتے ۔
مدینہ لوگوں کی چھانٹی کرتا ہے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
(( أُمِرْتُ بِقَرْیَۃٍ تَأْکُلُ الْقُرَی،یَقُوْلُوْنَ:یَثْرِبْ،وَہِیَ الْمَدِیْنَۃُ تَنْفِیْ النَّاسَ کَمَا یَنْفِیْ الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ))
صحیح البخاری:1876
’’ مجھے ایک بستی ( کی طرف ہجرت کرنے ) کا حکم دیا گیا ہے جو دیگر بستیوں کو کھا جائے گی۔ ( یعنی اس بستی سے جو فوج جائے گی وہ دوسری بستیوں کو فتح کرے گی ۔) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے اور وہ لوگوں کی اس طرح چھانٹی کرے گا جیسا کہ ایک بھٹی لوہے کا زنگ چھانٹ کر الگ کردیتی ہے ۔ ‘‘
مراد یہ ہے کہ مدینہ میں صرف وہی لوگ رہیں گے جو خالص ایمان والے ہونگے اور وہ لوگ جن کے ایمان خالص نہیں ہونگے وہ مدینہ سے نکل جائیں گے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اسلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ، پھر دوسرے دن آیا تو اسے بخار ہو چکا تھا ۔
اس نے کہا :
میری بیعت مجھے واپس کردیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا ۔ اس نے تین مرتبہ یہی مطالبہ کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مرتبہ انکار کرتے رہے چنانچہ وہ مدینہ کو چھوڑ کر چلا گیا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَلْمَدِیْنَۃُ کَالْکِیْرِ تَنْفِیْ خَبَثَہَا وَتَنْصَعُ طَیِّبَہَا))
مسلم : 1383
’’ مدینہ بھٹی کی مانند ہے ، یہ ناپاک کو الگ کر کے پاکیزہ کو چھانٹ دیتا ہے ۔ ‘‘
مدینہ گندگی کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کے گند کو
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد کے لیے نکلے توکچھ لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ کر راستے ہی سے واپس ہو گئے، ان کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، ایک گروہ کہنے لگا، آپ انھیں قتل کریں اور دوسرا گروہ اس کے خلاف تھا، تو یہ آیت اتری :
« فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ »
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’یہ طیبہ ہے، یہ گند کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کے گند کو۔‘‘
[ بخاری : 4589 ]
سفر سے واپسی پر مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری تیز کر دیتے
سیدنا انس رضي الله عنه فرماتے ہیں :
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَنَظَرَ إِلَى جُدُرَاتِ الْمَدِينَةِ أَوْضَعَ رَاحِلَتَهُ وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا
(بخاری : 1886)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری تیز فرما دیتے اور اگر کسی جانور کی پشت پر ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔
مدینہ کے قریب زمین ملنے پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خوشی
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اپنی زمین کا تبادلہ کیا تو عبداللہ کی زمین مدینہ سے قریب تر ہو گئی اور عثمان رضی اللہ عنہ کی زمین مدینہ سے بعید ہو گئی تو عبد اللہ نے خوشی میں آکر کہا :
أَنِّي قَدْ غَبَنْتُهُ
میں نے تو انہیں ٹھگ لیا ہے
صحیح بخاری میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ میں نے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی وادی قریٰ کی زمین، ان کی خیبر کی زمین کے بدلے میں بیچی تھی۔
کہتے ہیں جب ہماری خرید و فروخت پوری ہو گئی اور میں نے غور کیا تو معلوم ہوا
أَنِّي قَدْ غَبَنْتُهُ بِأَنِّي سُقْتُهُ إِلَى أَرْضِ ثَمُودَ بِثَلَاثِ لَيَالٍ، وَسَاقَنِي إِلَى الْمَدِينَةِ بِثَلَاثِ لَيَالٍ
صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ. |2116
کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو نقصان پہنچایا ہے کیوں کہ ( اس تبادلہ کے نتیجے میں، میں نے ان کی پہلی زمین سے ) انہیں تین دن کے سفر کی دوری پر ثمود کی زمین کی طرف کر دیا تھا اور انہوں نے مجھے ( میری مسافت کم کرکے ) مدینہ سے صرف تین دن کے سفر کی دوری پر لا چھوڑا تھا۔
دفاع مدینہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے پہرہ دیتے رہے
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ : لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ، ثُمَّ قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا ، أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ پر ( ایک آواز سن کر ) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا یہ فرمایا کہ گھوڑا جیسے سمندر ہے۔
بخاری 2908
یہ حرم پاک ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنها حرَمٌ آمِنٌ
(صحيح مسلم:1375)
ترجمہ: بے شک مدینہ امن والا حرم ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ حَرَّمَ مَکَّۃَ وَدَعَا لِأَہْلِہَا،وَإِنِّیْ حَرَّمْتُ الْمَدِیْنَۃَ کَمَا حَرَّمَ إِبْرَاہِیْمُ مَکَّۃَ،وَإِنِّیْ دَعَوْتُ فِیْ صَاعِہَا وَمُدِّہَا بِمِثْلَیْ مَا دَعَا بِہٖ إِبْرَاہِیْمُ لِأَہْلِ مَکَّۃَ))
صحیح البخاری:2129، صحیح مسلم:1360
’’ بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیااور مکہ والوں کے حق میں دعا کی اور میں مدینہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا اور میں نے اہلِ مدینہ کے ناپ تول کے پیمانوں (صاع اور مد ) میں اُس برکت سے دوگنا زیادہ برکت کی دعا کی ہے جس کی دعا ابراہیم علیہ السلام نے اہلِ مکہ کیلئے کی تھی ۔‘‘
س حدیث سے جہاں مدینہ منورہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے وہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ سے دو گنا زیادہ برکت ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ حَرَّمَ مَکَّۃَ،وَإِنِّیْ حَرَّمْتُ الْمَدِیْنَۃَ مَا بَیْنَ لَابَتَیْہَا،لَا یُقْطَعُ عِضَاہَا وَلَا یُصَادُ صَیْدُہَا))
صحیح مسلم :1362
’’ بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیااور میں مدینہ منورہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں اور اس کے حرم کی حدود سیاہ پتھروں والے دو میدانوں کے درمیان ہے ، لہٰذا اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی اس میں شکار کیا جائے ۔ ‘‘
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا ، أَوْ آوَى مُحْدِثًا ؛ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا”
مسلم : 1370
بخاری کی ایک روایت میں ہے :
لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا
بخاری : 1867
مدینہ کی حرمت اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے :
لَوْ رَأَيْتُ الظِّبَاءَ بِالْمَدِينَةِ تَرْتَعُ مَا ذَعَرْتُهَا
اگر میں مدینہ میں ہرن چرتے ہوئے دیکھوں تو انہیں کبھی نہ چھیڑوں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا حَرَامٌ ".
بخاری : 1873
کہ مدینہ کی زمین دونوں پتھریلے میدانوں کے بیچ میں حرم ہے
اہل مدینہ کے بارے میں برا ارادہ کرنے والے کیلئے وعید
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( مَنْ أَرَادَ أَہْلَ الْمَدِیْنَۃِ بِسُوْئٍ أَذَابَہُ اللّٰہُ کَمَا یَذُوْبُ الْمِلْحُ فِیْ الْمَائِ))
مسلم 1386
’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے بارے میں براارادہ کرے گا اسے اللہ تعالیٰ اس طرح پگھلا دے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا ہے ۔ ‘‘
وفی روایۃ لمسلم 1363
وَلَا يُرِيدُ أَحَدٌ أَهْلَ الْمَدِينَةِ بِسُوءٍ إِلَّا أَذَابَهُ اللَّهُ فِي النَّارِ ذَوْبَ الرَّصَاصِ أَوْ ذَوْبَ الْمِلْحِ فِي الْمَاءِ
مدینہ منورہ میں تخریب کاری کرنے والے پر لعنت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( مَنْ أَحْدَثَ فِیْہَا حَدَثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ،لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ صَرْفًا وَّلَا عَدْلًا ))
صحیح البخاری :1867، صحیح مسلم:1366
’’ جو آدمی اس میں ( یعنی مدینہ منورہ میں ) شرارت کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے روزاللہ تعالیٰ اس سے نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ نفل ۔ (اس کا ایک معنی یہ بھی کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے نہ توبہ قبول کرے گا اور نہ فدیہ ۔)‘‘
فرشتوں کے ذریعہ طاعون اور دجال سے مدینے کی حفاظت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
على أنقابِ المدينةِ ملائكةٌ ، لا يدخُلُها الطاعونُ ، ولا الدجالُ
(صحيح البخاري:7133)
مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔
مدینہ میں دجال داخل نہیں ہو گا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَیْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَیَطَؤُہُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃَ،لَیْسَ لَہُ مِنْ نِقَابِہَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُ صَافِّیْنَ یَحْرُسُوْنَہَا،ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِیْنَۃُ بِأَہْلِہَا ثَلاَثَ رَجْفَاتٍ فَیُخْرِجُ اللّٰہُ کُلَّ کَافِرٍ وَمُنَافِقٍ))
’’ دجال ہر شہر میں جائے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے ، ان دونوں شہروں کے ہر دروازے پر فرشتے صفیں بنائے ہوئے ان کی نگرانی کر رہے ہونگے ، پھر مدینہ اپنے رہنے والوں کے ساتھ تین مرتبہ کانپے گا جس سے اللہ تعالیٰ ہر کافرومنافق کو اس سے نکال دے گا ۔ ‘‘
صحیح البخاری:1881
مدینہ میں دجال کا رعب بھی داخل نہیں ہو گا
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا یَدْخُلُ الْمَدِیْنَۃَ رُعْبُ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ،لَہَا یَوْمَئِذٍ سَبْعَۃُ أَبْوَابٍ، عَلٰی کُلِّ بَابٍ مَلَکَانِ))
صحیح البخاری:1879
’’ مسیحِ دجال کا رعب ودبدبہ مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو گا ، اس دن اس کے سات دروازے ہونگے اور ہر دروازے پر دو فرشتے نگرانی کر رہے ہونگے ۔ ‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ، ان کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ اے اہلِ مدینہ ! تم یوم الخلاص کو یاد کرو ۔‘‘ انھوں نے کہا : یوم الخلاص کیا ہے ؟
توآپ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا:(( یُقْبِلُ الدَّجَّالُ حَتّٰی یَنْزِلَ بِذُبَابٍ،فَلَا یَبْقٰی بِالْمَدِیْنَۃِ مُشْرِکٌ وَلَا مُشْرِکَۃٌ،وَلَا کَافِرٌ وَلَا کَافِرَۃٌ،وَلَا مُنَافِقٌ وَلَا مُنَافِقَۃٌ،وَلَا فَاسِقٌ وَلَا فَاسِقَۃٌ إِلَّا خَرَجَ إِلَیْہِ،وَیَخْلُصُ الْمُؤْمِنُوْنَ،فَذَلِکَ یَوْمُ الْخَلَاصِ))
الطبرانی فی الأوسط برقم:2186بسند لا بأس بہ
’’ دجال آئے گا یہاں تک کہ وہ ذباب میں اترے گا ، پھر مدینہ منورہ کا ہر مشرک مرد اور ہرمشرک عورت ، ہر کافر مرد اور ہرکافر عورت ، ہر منافق مرد اور ہرمنافق عورت اور ہر فاسق مرد اورہر فاسق عورت ، سب کے سب اس سے جا ملیں گے اور صرف مومن بچ جائیں گے ۔ تو وہی دن یوم الخلاص ہو گا ۔ ‘‘
مدینے میں ایمان سمٹ جائے گا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الإيمانَ ليأْرِزُ إلى المدينةِ ، كما تأْرِزُ الحيةُ إلى جُحرِها
(صحيح البخاري:1876)
ترجمہ: مدینہ میں ایمان اسی طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ جاتا ہے۔
مدینہ میں مرنے والے کے لئے شفاعت نبوی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
منِ استطاع أن يموتَ بالمدينةِ فلْيفعلْ فإني أشفعُ لمن ماتَ بها
(السلسلة الصحيحة:6/1034)
جو شخص مدینہ شریف میں رہے اور مدینے ہی میں اس کو موت آئے میں اس کی شفارش کروں گا۔
عمر رضی اللہ عنہ کی مدینہ میں موت کی خواہش
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ دعا کیا کرتے تھے :
(( اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ،وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ صلي اللّٰه عليه وسلم ))
’’ اے اللہ ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما نااور مجھے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں موت دینا ۔ ‘‘
مدینہ میں رہنے والے کی سفارش
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(اَلْمَدِیْنَۃُ خَیْرٌ لَّہُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ،لَا یَدَعُہَا أَحَدٌ رَغْبَۃً عَنْہَا إِلَّا أَبْدَلَ اللّٰہُ فِیْہَا مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْہُ،وَلَا یَثْبُتُ أَحَدٌ عَلٰی لَأْوَائِہَا وَجَہْدِہَا إِلَّا کُنْتُ لَہُ شَفِیْعًا أَوْ شَہِیْدًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ))
صحیح مسلم:1363
’’مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر وہ جانتے ہوتے ۔ جو شخص اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ پر اس سے بہتر شخص لے آتا ہے اور جو شخص تنگ حالی کے باوجود اس میں ٹکا رہتا ہے میں روزِ قیامت اس کیلئے شفاعت کرونگا‘‘
یافرمایا:
’’ اس کے حق میں گواہی دونگا۔‘‘
قابل صدرشک ہیں وہ لوگ جو مدینے میں ہیں یا اس کی زیارت پہ اللہ کی طرف سے بلائے گئے ۔ اس مبارک سرزمین پہ مسجد نبوی ﷺ ہے جسے آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے تعمیرکیا۔
مدینہ میں رہنے کی ترغیب اور اس کی تنگ دستی اور سختیوں پر صبر کرنا
سعید بن ابوسعید نے مہری کے آزاد کردہ غلام، ابو سعید سے روایت کی وہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس حرہ کی راتوں میں آئے (یعنی جن دنوں مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ مشہور ہوا تھا) اور ان سے مشورہ کیا کہ مدینہ سے کہیں اور چلے جائیں اور ان سے وہاں کی گرانی نرخ (مہنگائی) اور کثرت عیال کی شکایت کی اور خبر دی کہ مجھے مدینہ کی محنت اور بھوک پر صبر نہیں آ سکتا تو سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا :
وَيْحَكَ لَا آمُرُكَ بِذَلِكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَصْبِرُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا، فَيَمُوتَ، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا – أَوْ شَهِيدًا – يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا»
مسلم : 3339
کہ تیری خرابی ہو میں تجھے اس کا مشورہ نہیں دوں گا (کیونکہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ کوئی شخص یہاں کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا اور پھر مر جاتا ہے، مگر یہ کہ میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا اگر وہ مسلمان ہو۔
مدینہ منورہ کی کھجور کی فضیلت
حضرت سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ أَکَلَ سَبْعَ تَمْرَاتٍ مِمَّا بَیْنَ لَابَتَیْہَا حِیْن یُصْبِحُ لَمْ یَضُرَّہُ سُمٌّ حَتّٰی یُمْسِیْ ))
مسلم : 2047
’’ جو آدمی صبح کے وقت ( مدینہ منورہ ) میں دو سیاہ پتھروں والے میدانوں کے درمیان والی کھجوروں سے سات عدد کھجوریں کھائے ، اسے شام ہونے تک کوئی زہر نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ ‘‘
مسجد نبوی
یہ وہ مسجد ہے جس کی زمین خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی اور اس کی بنیاد بھی خود آپ ہی نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی اور یہی وہ مسجد ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
{ لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ}
’’جس مسجد کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں ۔ ‘‘
التوبة : 108
اس سے مسجد قباء اور مسجد نبوی دونوں مراد ہیں
مسجد قباء مراد لینے کی دلیل
صحیح بخاری میں ہجرت سے متعلق طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے موقع پر پہلے بنوعمرو بن عوف میں دس سے کچھ زیادہ راتیں ٹھہرے اور اس مسجد کی بنیاد رکھی جو « اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ » ہے اور آپ نے اس میں نماز پڑھی، پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ اونٹنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مسجد کے پاس بیٹھ گئی جو مدینہ میں ہے اور وہ سہل اور سہیل رضی اللہ عنھما کی کھجوریں سکھانے کی جگہ تھی۔
[ بخاری : 3906 ]
اس سےظاہر ہے کہ اس سے مراد مسجد قبا ہے
مسجد نبوی مراد لینے کی دلیل
بعض احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مصداق مسجد نبوی کو بھی قرار دیا
چنانچہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمیوں کی اس مسجد کے بارے میں بحث ہو گئی کہ وہ کون سی مسجد ہے جو « اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ » ہے۔ ایک نے کہا، وہ مسجد قبا ہے۔ دوسرے نے کہا، وہ مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، یعنی مسجد نبوی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’وہ میری یہ مسجد (مسجد نبوی) ہے۔‘‘
[ ترمذی، تفسیر القرآن، سورۃ التوبۃ : ۳۰۹۹ ]
اس کی سند بھی صحیح ہے اور احمد، مسلم اور نسائی میں مذکور احادیث میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد نبوی ہی قرار دیا ہے۔
مسجد نبوی میں نماز کی فضیلت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( صَلاَۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ہٰذَا خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلاَۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ))
صحیح البخاری:1190، صحیح مسلم:1394
’’ میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد میں ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے ۔ ‘‘
مسجد نبوی کی طرف اسپیشل سفر کرکے جانا
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد کی زیارت کا حکم فرمایاہے :
لا تُشَدُّ الرحالُ إلا إلى ثلاثةِ مساجدَ : مسجدِ الحرامِ، ومسجدِ الأقصَى، ومسجدي هذا
(صحيح البخاري:1995)
مسجد حرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ( حصول ثواب کی نیت سے) کسی دوسری جگہ کا سفر مت کرو۔
گویا ثواب کی نیت سے دنیا کی صرف تین مساجد کی زیارت کرنا جائز ہے باقی مساجد اور مقبروں کی زیارت کرنا جائز نہیں۔
البتہ جولوگ مدینے میں مقیم ہوں یا کہیں سے بحیثیت زائر آئے ہوں تو ان کے لئے مسجد نبوی کی زیارت کے علاوہ مسجدقبا،بقیع الغرقد اور شہداء احد کی زیارت مشروع ہے ۔
روضۃ من ریاض الجنۃ
اس میں ایک جگہ ایسی ہے جو جنت کے باغوں میں سے ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن زید المازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ ))
صحیح البخاری:1195، صحیح مسلم:1190
’’ جو قطعۂ زمین میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے وہ جنت کے باغوں میںسے ایک باغ ہے ۔ ‘‘
مسجد قباء کی فضیلت
جوشخص مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرے،اس کے لئے مسنون ہے کہ وہ مسجد قبا کی بھی زیارت کرے اوراس میں بھی دورکعت نماز پڑھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ ہر ہفتے قباکی زیارت کیا کرتے اوراس میں دورکعت نماز ادافرمایاکرتےتھے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
كَانَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ، رَاكِباً وَمَاشِياً، فَيُصَلِّي فِيهِ رَكْعَتَيْنِ
(صحيح مسلم:1399)
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدل یا سوار ہو کر قباء تشریف لاتے اور دو رکعت (نماز نفل) ادا کرتے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہے :
من تطَهَّرَ في بيتِهِ , ثمَّ أتى مسجدَ قباءٍ ، فصلَّى فيهِ صلاةً ، كانَ لَهُ كأجرِ عمرةٍ.
(سنن ابن ماجہ :1412۔ وصححہ الالبانی )
کہ جو شخص اپنے گھر وضو کرے اورخوب اچھے طریقے سےوضو کرے اورپھر مسجد قبامیں آکر نماز پڑھے تواسے عمرہ کے برابر ثواب ملتا ہے ۔
ایک روایت اس طرح بھی آئی ہے ۔
الصَّلاةُ في مسجدِ قُباءَ كعُمرةٍ
(صحيح الترمذي:324)
مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرہ کے برابر ہے ۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ دوسرے ممالک سےصرف مسجد قبا کے لئے زیارت کرکے آنے کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو مدینہ طیبہ میں رہتے ہوں یا سعودی عرب یا سعودی عرب سے باہر سے آنے والے مسجد نبوی کی زیارت پہ آئے ہوں۔