ارادہ شرعیہ کی حقیقت

19۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

((يَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى لِأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ كَانَتْ لَكَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا. أَكُنْتَ مُفْتَدِيًا بِهَا فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيَقُولُ:قَدْ أَرَدْتُ مِنْكَ أَهْوَنَ مِنْ هَذَا وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ: أَن لَّا تُشْرِكَ وَلَا أُدْخِلَكَ النَّارَ، فَأَبَيْتَ إِلَّا الشَّرْكَ)) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ:6557، ومُسْلِمٌ:2805 واللفظ له)

’’اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن دوزخ کا سب سے ہلکا عذاب پانے والے شخص سے پوچھے گا:اگر تجھے روئے زمین کی ساری چیزیں مل جائیں تو کیا تو اس عذاب سے جان چھڑانے کے لیے وہ دے دے گا؟ وہ کہے گا:جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:میں نے تو تجھ سے اس سے زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا جبکہ تو آدم کی پیٹھ میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تو نے اس (عہد) کا انکار کیا اور میرے ساتھ شرک پر اڑا رہا۔‘‘

20۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا وَيَكْرَهُ لَكُمْ ثَلَاثًا فَيَرْضَى لَكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا، وَيَكْرَهُ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةً السُّوَّالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ)) ( أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1715)

’’بلا شبہ اللہ تعالی تمھارے لیے تین چیزیں پسند کرتا ہے اور تین نا پسند، وہ تمھارے لیے پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، سب مل کر اللہ کی ہی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ اور وہ تمھارے لیے فضول باتوں، کثرت سوال اور مال ضائع کرنے کو نا پسند کرتا ہے۔‘‘

 توضیح و فوائد: اللہ تعالی چاہتا ہے کہ بندہ موحد اور اس کا فرماں بردار بن کر رہے، اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے ان کی تخلیق سے پہلے توحید ربوبیت کا عہد لیا۔ یہی اس کی رضا اور پسند ہے کہ میرے بندے صرف میری ہی عبادت کریں اور میرے ساتھ شرک نہ کریں۔ اللہ تعالی کی اس چاہت کا نام ارادہ شرعیہ دینیہ ہے۔ اطاعت کے سارے کام اللہ کے اسی ارادے کے تحت ہوتے ہیں۔ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بغیر نیکی نہیں کر سکتا۔ اور جہاں تک برے کاموں اور شرک کا تعلق ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور پسند نہیں۔ لیکن اللہ تعالی کی مشیت کے بغیر کوئی آدمی یہ کام نہیں کر سکتا۔ یہ کام جس ارادے کے تحت ہوتے ہیں اسے ارادہ کونیہ قدریہ یا مشیت کہتے ہیں۔ کافر کا کفر کرنا، ظالم کا ظلم کرنا یا کسی مسلمان کا گناہ کرنا ہی ارادے کے تحت ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی ناپسندیدہ امور کو اللہ کے ارادے سے جوڑا گیا ہے، اس سے مراد ارادہ کونیہ ہے، شرعیہ نہیں، مثلاً:قرآن مجید میں ہے: ﴿يُضِلُّ بِهِ كَثِيْرًا﴾ ’’اس (قرآن) کے ذریعے سے وہ کئی لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے۔‘‘ تو یہ در حقیقت اللہ کی پسند نہیں بلکہ گمراہ ہونے والے کے لیے مہلت ہے جسے ارادہ کونیہ یا مشیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

……………