توحید کی خصوصی بیعت

سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم نو، آٹھ یا سات آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپﷺ نے فرمایا:

((أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللهِ)) ’’کیا تم اللہ کے رسول کی بیعت نہیں کرو گے؟‘‘ حالانکہ ہم نے ابھی نئی نئی بیعت کی تھی۔ ہم نے عرض کی:اللہ کے رسول! ہم تو آپ کی بیعت کر چکے ہیں۔ آپﷺ نے پھر فرمایا:

((أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللهِ؟)) ’’کیا تم اللہ کے رسول کی بیعت نہیں کرو گے؟“

ہم نے عرض کی:اللہ کے رسول! ہم آپ کی بیعت کر چکے ہیں۔ آپﷺ نے پھر فرمایا:

((أَلَّا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللهِ؟)) ’’کیا تم اللہ کے رسول کی بیعت نہیں کرو گے؟“

تو ہم نے اپنے ہاتھ آپ کی طرف بڑھاتے ہوئے عرض کی: اللہ کے رسول اہم (ایک بار پہلے)  آپ کی بیعت کر چکے ہیں، اب کس بات پر آپ کی بیعت کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ((عَلٰى أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، وَتُطِيعُوا الله وَأَسَرَّكَلِمَةً خَفِيَّةً، وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 1043)

’’اس بات پر (بیعت کرو) کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، پانچ نمازیں ادا کروں گے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کرو گے………. اور یہ جملہ آپﷺ نے آہستہ سے فرمایا……. اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے۔“

(سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں) اس کے بعد میں نے ان میں سے بعض افراد کو دیکھا کہ ان میں سے کسی کا کوڑا بھی گر جاتا تو وہ کسی سے یہ نہیں کہتا تھا کہ کوڑا اٹھا کر میرے ہاتھ میں دے دو۔

توضیح و فوائد: رسول اکرمﷺ ایمان و اسلام اور جہاد کی بیعت کے علاوہ بعض اوقات دیا کے علاوہ بعض اوقات دیگر اہم امور پر بھی بیعت لیتے تھے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں توحید پر قائم رہنے، شرک نہ کرنے اور نماز کی پابندی وغیرہ کی خصوصی بیعت کا ذکر ہے۔ نبیﷺ کے بعد خلفائے راشدین سے صرف حاکم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی بیعت کا ذکر ملتا ہے۔ دیگر امور طاعت پر خصوصی بیعت ان سے ثابت نہیں۔ اس لیے صوفیاء اور طریقت و سلسلوں کی بیعت اور پیری مریدی کی بیعت قطعاً مسنون نہیں۔

31۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ (سورہ ممتحنہ کی) اس آیت کے نزول کے بعد ان مومن خواتین کا امتحان لیا کرتے تھے جو ہجرت کر کے آپﷺ کے پاس (مدینہ طیبہ)  آتی تھیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَكَ عَلٰۤی اَنْ لَّا یُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَیْـًٔا وَّ لَا یَسْرِقْنَ وَ لَا یَزْنِیْنَ وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَ لَا یَاْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَهٗ بَیْنَ اَیْدِیْهِنَّ وَ اَرْجُلِهِنَّ وَ لَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْهُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝﴾

’’اے نبی! جب مومن عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اپنے ہاتھوں اور پیروں سے (کسی کے خلاف بے بنیاد اور بلا ثبوت)  بہتان طرازی نہیں کریں گی اور آپ کی کسی نیک کام میں نافرمانی نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت کر لیں۔ اور آپ ان کے لیے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں، بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘(أَخْرَجَهُ البخاري: 4891، ومُسْلِمٌ: 1866)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:جو مسلمان عورت ان شرائط کا اقرار کر لیتی تو رسول اللہ ﷺزبانی طور پر اس سے فرماتے: ((قَدْ بَايَعْتَكِ)) ’’میں نے تمھاری بیعت قبول کر لی۔‘‘

اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپﷺ کے ہاتھ نے بیعت لیتے ہوئے کسی عورت کا ہاتھ چھوا ہو۔

32۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ امیمہ بنت رقیقہ، رسول اللہ ﷺکی خدمت میں اسلام پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ((أُبَايِعُكِ عَلٰى أَنْ لَا تُشْرِكى بِاللهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقِي، وَلَا تَزْنِي، وَلَا تَقْتُلِي وَلَدَكِ، وَلَا تَأْتِي بِبُهْتَانٍ تَفْتَرِينَهُ بَيْنَ يَدَيْكِ وَرِجْلَيْكِ، وَلَا تَنُوحِي، وَلَا تَبَرَّنِي تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولى)) (أَخْرَجَهُ أحمد:6850)

’’میں اس بات پر تم سے بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، چوری نہیں کرو گی، زنا نہیں کرو گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گی، اپنے ہاتھوں اور پیروں سے (کسی کے خلاف بے بنیاد اور بلا ثبوت) بہتان طرازی نہیں کروگی، نوحہ نہیں کرو گی اور قدیمی جاہلیت جیسی زینت اختیار کر کے باہر نہیں نکلو گی۔ ‘‘

33۔سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ((مَنْ يُّبَايِعُنِي عَلٰى هٰذِهِ الْآيَاتِ؟)) ’’کون ہے جو مجھ سے ان آیات پر بیعت کرے‘‘ پھر آپﷺ نے سورہ انعام کی تین آیات مکمل پڑھیں:

﴿قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ۚ وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۚ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰی ۚ وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَۙ۝ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝﴾ (الأنعام 6: 151،153) (أَخْرَجَهُ الحاكم في المستدرك:318/2)

’’کہہ دیجیے: تم آؤ میں پڑھ کر سناتا ہوں جو کچھ تمھارے رب نے تم پر حرام کیا ہے، (اس نے تاکیدی حکم دیا ہے) کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ خوب نیکی کرو، اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمھیں اور انھیں بھی رزق دیتے ہیں، اور بے حیائیوں کے قریب نہ جاؤ، خواہ وہ ظاہر ہوں یا چھپی ہوئی ہوں اور کسی ایسی جان کو قتل مت کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہو، سوائے اس کے جس کا قتل برحق ہو۔ ان ساری باتوں کا اللہ نے تمھیں تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ  تم سمجھو۔ اور تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچ جائے، اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو، ہم کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے۔ اور جب تم کوئی بات کہو تو انصاف سے کام لو اگرچہ (معاملہ تمھارے) قریبی رشتے دار (کا) ہو، اور تم اللہ کا عہد پورا کرو۔ ان ساری باتوں کا اللہ نے تمھیں تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ  تم نصیحت حاصل کرو۔ اور یقینًا یہ میرا راستہ سیدھا ہے، لہٰذا تم اس کی پیروی کرو، اور تم دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو، وہ تمھیں اللہ کے راستے سے الگ کر دیں گے۔ اللہ نے تمھیں اس کی تاکید کی ہے، تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو۔‘‘ (اور پھر فرمایا):

((فَمَنْ وَفٰي فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ وَمَنِ انْتَقَصَّ شَيْئًا أَدْرَكَهُ الله بِهَا فِي الدُّنْيَا كَانَتْ عُقُوْبَتَهُ، وَمَنْ أُخِّرَ إِلَى الْآخِرَةِ كَانَ أَمْرُهُ إِلَى اللهِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ))

’’جس نے اسے پورا کیا اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور جس نے کسی چیز میں کمی کی، پھر اللہ تعالی نے اسے دنیا ہی میں اس کی سزا دے دی تو یہ اس (کے کیے) کی سزا ہے اور جس (کی سزا) کو آخرت کے لیے مؤخر کیا گیا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے معاف کردے۔‘‘

34- سیدنا جریر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے عرض کی: (اللہ کے رسول!) ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ اور شرطیں آپ خود بتا دیجیے کیونکہ شرائط کے متعلق آپ زیادہ جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((أَبَایِعُكَ عَلٰى أَنْ لَّا تُشْرِكَ بِاللهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُوتیَِ الزَّكَاةَ، وَتَنْصَحَ الْمُسْلِمَ، وَتُفَارِقَ الْمُشْرِكَ)) (أَخْرَجَهُ أَحمد:19233، 19238، والنسائي:4182)

’’میں تم سے بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، نماز قائم کرو گے، زکاۃ ادا کرو گے، ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرو گے اور مشرکین سے الگ رہو گے۔‘‘

توضیح و فوائد: مسلمانوں اور خصوصاً صحابۂ کرام سے توحید پر بیعت لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کی توحید میں بھی خلل آسکتا ہے، نیز مشرکوں سے الگ رہنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ان کے ملکوں میں رہائش اختیار نہ کی جائے جیسا کہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ کمزور ایمان کی صورت میں ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان کے ساتھ دلی دوستی نہ کرو، البتہ حسب ضرورت ان سے میل جول رکھا جا سکتا ہے اور دعوت و تبلیغ اور دیگر دینی مقاصد کے پیش نظر ان کے ملکوں میں رہائش اختیار کی جاسکتی ہے بشرطیکہ ایمان کمزور اور ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔

35۔ سیدنا اسود بن خلف رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺکو فتح مکہ کے دن لوگوں سے بیعت لیتے ہو۔ ہوئے دیکھا، آپﷺ تشریف فرما ہوئے تو چھوٹے بڑے اور عورتیں سب لوگ آئے، انھوں نے آپ ﷺ سے اسلام اور شہادت پر بیعت کی۔ میں نے پوچھا:اسلام کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

(اَلْإِيْمَانُ بِاللهِ) ’’اللہ پر ایمان لانا۔ ‘‘

میں نے کہا: شہادت کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((شَهَادَةُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ))

’’اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘(أخرجه الحاكم في المستدرك:296/3)

………………