کسی متعین مسلمان کے بارے میں جنت اور دوزخ کا فیصلہ صرف شارع علیم کا حق ہے، ہم زیادہ سے زیادہ کسی نیکو کار کے بارے میں جنت کی امید اور نافرمان کے بارے میں جہنم کے خدشے ہی کا اظہار کر سکتے ہیں

71۔ ایک انصاری خاتون سیدہ ام علاء رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے (جو ان عورتوں میں شامل ہیں) جنھوں نے نبی سلام کی بیعت کی تھی، تھی، انھوں نے فرمایا:جب مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم ہوئے تو ہمارے حصے میں سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ آئے، ہم انھیں اپنے گھر لے آئے اور وہ اچانک مرض وفات میں مبتلا ہو گئے۔ جب وہ فوت ہوئے تو انھیں غسل دیا گیا اور انھی کے کپڑوں میں کفنایا گیا۔ اسی دوران میں رسول اللہﷺ تشریف لے آئے تو میں نے کہا: ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو۔ تمھارے لیے میری گواہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں سرفراز کر دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَكْرَمَهُ؟))

’’تمھیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عزت دی ہے؟“

میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آخر پھر اللہ تعالی کسے سرفراز کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

((أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ الْيَقِينُ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ، وَاللهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللهِ مَا يُفْعَلُ بِي؟)) (أَخْرَجَهُ البخاري:1243)

’’بلا شبہ انھیں اچھی حالت میں موت آئی ہے۔ واللہ! میں بھی ان کے لیے بھلائی کی امید رکھتا ہوں لیکن اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہو کر بھی خود اپنے متعلق نہیں جانتا کہ میرے بارے میں کیا معاملہ کیا جائے گا؟‘‘

حضرت ام علاء رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں:اللہ کی قسم! اس کے بعد میں نے کسی کے پاکباز ہونے کی گواہی نہیں دی۔

اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَا يُفْعَلُ به)) ’’میں نہیں جانتا کہ عثمان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔“

72۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہم نے سونے اور چاندی کی غنیمت نہ پائی بلکہ دیگر اموال، یعنی چوپائے، کپڑے اور سامان وغیرہ حاصل کیا۔ قبیلہ بنو شیب کے ایک آدمی رفاعہ بن زید نے رسول اللہﷺ کو ایک غلام ہبہ کیا۔ اسے مدعم کیا جاتا تھا۔ رسول اللہﷺ نے اسے وادی القریٰ بھیجا۔ وادی القربیٰ پہنچ کر وہ رسول اللہ ﷺ کا کجاوا اور پالان اتار رہا تھا کہ اس کی پشت پر ایک تیر آلگا، یہ تیر مارنے والے کا کوئی علم نہ ہو سکا۔ اس تیر نے مدعم کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ لوگوں نے کہا: اسے جنت مبارک ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا))

’’ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کمبل جو اس نے تقسیم سے پہلے خیبر کے مال غنیمت سے چرا لیا تھا اس پر آگ بن کر بھڑک رہا ہے۔‘‘

 جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چپل کا ایک تسمیہ یا دو تسمے لے کر نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا:

((شِرَاكٌ مِّنْ نَّارٍ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَّارٍ)) ’’یہ آگ کے ایک دو تسمے ہیں۔ ‘‘(أخرجه البخاري:6707)

توضیح و فوائد: کسی زندہ مسلمان کے بارے میں جنتی یا جہنمی ہونے کا حتمی فیصلہ اس لیے ممکن نہیں کہ اگر دہ بدر ہے تو ممکن ہے توبہ کرلے اور اگر نیک ہے تو نہ جانے اس کا خاتمہ کیسا ہو۔ اور فوت شدہ کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کا حکم ہے اس کے بارے میں جنت یا جہنم کا حتمی فیصلہ دینا اللہ کے معاملات میں دخل اندازی کرنا ہے اور یہ سخت گناہ ہے، البتہ ظاہری اعمال اگر اچھے ہوں تو جنت کی امید کی جا سکتی ہے اور برے ہوں تو برے انجام کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے، تاہم اگر کوئی کافر مرا ہے تو اس کے جہنمی ہونے کا یقین رکھنا عین ایمان ہے۔ اسی طرح جن کے جتنی ہونے کی گواہی یا خبر رسول اکرمﷺنے دی ہے ان کے جنتی ہونے کا یقین رکھنا بھی ضروری ہے

.………………..