۔ لوگوں کو شرک کی دعوت دینے والوں کی مذمت

172۔سیدنا  عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا:

((إِنِّيْ خَلَقَتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ، وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِيْنِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ، وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُّشْرِكُوا بِي مَا لَمْ اُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا)) (أخرجه مسلم: 2865)

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:  میں نے اپنے تمام بندوں کو (حق کے لیے) یکسو پیدا کیا، پھر شیاطین ان کے پاس آئے اور انھیں ان کے دین سے دور کھینچ لیا اور جو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا، انھوں نے اسے ان کے لیے حرام کر دیا اور ان (بندوں) کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں جس کے لیے میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تھی۔‘‘

توضیح و فوائد: انسان اور شیطان کی جنگ کا آغاز تاریخ انسانی کی ابتدا ہی سے ہو گیا تھا۔ یہ کشمش قیامت تک جاری رہے گی۔ شیطان کی دعوت شرک وکفر اور نفاق ہے اور انسان، یعنی مسلمان کی دعوت توحید اور ایمان ہے۔ شیطان اپنے کارندوں کے ساتھ مختلف روپ دھار کر کم عقل انسانوں کو اپنے ساتھ ملاتا رہا ہے اور قیامت تک ملاتا رہے گا۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالی انبیاء کے مقدس گروہ کو انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجتا رہا اور آخر میں یہ ذمہ داری امت محمد (ﷺ) کو سونپ کر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا۔ مختلف ادوار میں کبھی رحمانی لشکر غالب رہا اور بھی شیطان کی فریب کاری کا چرچا رہا۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ تمام لوگ اس کے لشکر میں شامل ہو کر اس کا ساتھ دے رہے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری پہلی اور فوری ذمہ داری ہے کہ  شیطان کا دجل لوگوں پر واضح کیا جائے اور اللہ کی مخلوق کو شرک سے بچایا جائے۔

173۔سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے آخری زمانے میں سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے نزول، برے لوگوں کے باقی رہ جانے اور شیطان کے کوئی شکل اختیار کر کے ان کے پاس آنے کے متعلق، روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((فَيَبْقٰى شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ وَأَحْلَامِ السَّبَاعِ، لَا يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا، فَيَتَمَثَّلُ لَهُمُ الشَّيْطَانُ، فَيَقُولُ: أَلَّا تَسْتَجِيبُونَ فَيَقُولُونَ: فَمَا تَأْمُرُنَا فَيَأْمُرُهُمْ بِعِبَادَةِ الْأَوْثَانِ.)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 2940)

’’پرندوں جیسا ہلکا پن (جدھر جی میں آیا ادھر اڑ گئے۔ سوچتے ہیں نہ فکر کرتے ہیں۔) اور درندوں جیسی عقلیں رکھنے والے بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے، نہ اچھائی کو اچھا سمجھیں گے، نہ برائی کو برا جائیں گے، شیطان کوئی شکل اختیار کر کے ان کے پاس آکر کہے گا: ’’کیا تم میری بات پر عمل نہیں کرو گے؟‘‘ وہ کہیں گے: تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے؟ وہ انھیں بت پوجنے کا حکم دے گا۔

توضیح وفوائد: قیامت کے قریب ایسا ہی ہوگا اور ایسے ہی بدترین لوگوں پر قیامت قائم ہوگی۔ اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ اس امت میں شرک کا وقوع ناممکن ہے۔

174۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((إِنَّ عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَى الْبَحْرِ، فَيَبْعَثُ سَرَايَاهُ فَيَفْتِنُونَ النَّاسَ، فَأَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةٌ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 2813)

’’ابلیس کا تخت سمندر پر ہے، وہ اپنے لشکر روانہ کرتا رہتا ہے تاکہ  وہ لوگوں میں فتنے برپا کریں۔ اس کے نزدیک (شیطنت کے درجے میں سب سے بڑا وہ ہے جو زیادہ بڑا فتنہ برپا کرے۔‘‘

175۔سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے اللہ تعالی کے اس قول: ﴿ إِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُونِهِ إِلَّٓا إِنَاثًا﴾

’’وہ مشرک اللہ تعالی کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں۔‘‘ کے بارے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں:

((مَعَ كُلِّ صَنَمٍ جِنِيَّةٌ)) (أخرجه أحمد21231)

 ’’ہر بت کے ساتھ ایک جنیہ ہوتی ہے۔‘‘

176۔سیدنا صہیب رومی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ جس شہر اور بستی میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے تو اسے دیکھ کر یہ دعا مانگتے:

((اَللّٰهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظْلَلْنَ، وَرَبَّ الْأَرْضِينَ السَّبْعِ وَمَا أَقْلَلْنَ. وَرَبَّ الرِّيَاحِ وَمَا ذَرَيْنَ وَرَبِّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضْلَلْنَ، نَسْأَلُكَ خَيْرَ هَذِهِ الْقَرْيَةِ وَخَيْرَ أَهْلِهَا، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِهَا وَشَرِ أَهْلِهَا وَشَرِ مَا فِيهَا)) (أخرجه ابن خزيمة 2565، وابن حبان: 2709، والحاكم:  440/1، والبيهقي: 252/5، والطبراني في

 المعجم  الکبیر: 7299)

’’اے اللہ! ساتوں آسمانوں اور ان چیزوں کے رب جن پر یہ سایہ کیسے ہوئے ہیں۔ اور ساتوں زمینوں اور ان چیزوں کے رب جنھیں یہ اٹھائے ہوئے ہیں اور شیطانوں اور ان کے رب جنھیں انھوں نے گمراہ کیا ہے اور ہواؤں اور ان چیزوں کے رب جو انھوں نے اڑاتی ہیں۔ میں تجھ سے اس بستی، اس کے باشندوں اور اس بستی میں موجود چیزوں کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس کے شر سے اور اس کے باسیوں کے شرسے اور ان چیزوں کے شر سے جو ان میں ہیں۔‘‘

توضیح و فوائد:  زمانہ جاہلیت میں لوگ دوران سفر میں جب کسی جگہ یا بستی میں پڑاؤ ڈالتے تو اس علاقے کے بڑے شیطان کی پناہ مانگتے۔ رسول اکرم ﷺ نے اس شرکیہ طریقے کو ختم کر کے لوگوں کو اللہ کی پناہ طلب کرنے کا حکم دیا۔

177۔سیدنا ربیعہ بن عباد دیلی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عکاظ کے بازار میں ابولہب کو دیکھا کہ وہ رسول اللہﷺ کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا اور کہتا تھا:

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ هٰذَا قَدْ غَوَى فَلَا يُغْوِيَنَّكُمْ عَنْ آلِهَةِ آبَائِكُمْ)) (أخرجه أحمد: 16020، والحاكم:  15/1)

’’ لوگو! یہ شخص گمراہ ہو چکا ہے، لہذا یہ تمھیں تمھارے باپ دادا کے معبودوں سے بے راہ نہ کر دے۔‘‘

رسول الله ﷺ اس سے دور ہونے کی کوشش کرتے وہ آپ کے پیچھے پیچھے آتا۔ ہم آپ کے پیچھے ہو جاتے، اس وقت ہم لڑکے تھے گویا کہ میں اس (ابولہب) کو دیکھ رہا ہوں، بھینگا ہے، دو مینڈھیوں والا ہے۔ تمام لوگوں سے سفید اور خوبصورت ہے۔

توضیح و فوائد:  عربوں کے ہاں تین میلے بڑے مشہور تھے جو حج کے مہینوں میں لگتے تھے ان میں سے پہلا میلہ عکاظ تھا۔ یہ نخلہ اور طائف کے درمیان ماہ شوال میں لگتا تھا اور پورا مہینہ جاری رہتا تھا۔ دوسرا میلہ مجنہ، مرالظہران کے پاس ماہ ذوالقعدہ کے پہلے میں دن تک جاری رہتا تھا اور تیسرا ذو المجاز کے نام سے معروف تھا جو عرفات کے قریب ماہ ذوالقعدہ کی بیس تاریخ کے بعد شروع ہو کر حج کے اختتام تک جاری رہتا تھا۔ رسول اکرم ﷺ وہاں جا کر لوگوں کو دعوت توحید پیش کرتے تو ابو لہب شیطانی دعوت پیش کرتا اور لوگوں کو توحید سے دور رکھنے کی کوشش کرتا لیکن رسول اکرم ﷺ اس سے الجھے بغیر نہایت استقامت سے دعوت توحید دیتے رہے۔ آپ بے طلب لوگوں کے پاس خود تشریف لے جاتے تھے اور انھیں اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کی دعوت دیتے تھے۔

178۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((لَتَضْرِ بَنَّ مُضَرُ عِبَادَ اللهِ حَتّٰى لَا يُعْبَدَ لِلهِ اسْمٌ، وَلَيَضْرِ بَنَّهُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَتّٰى لَا يَمْنَعُوا ذَنَبَ تَلْعَةٍ))(أخرجه أحمد:11821)

’’مضر قبیلہ (کفار قریش) اللہ کے بندوں کو ماریں گے تاکہ اللہ کے نام کا ذکر نہ ہو۔ اور پھر اہل ایمان انھیں ماریں گے۔ یہاں تک کہ وہ ((ایسے ذلیل ہو جائیں گے) وادی کے ادنی آدمی کو بھی نہیں روک سکیں گے۔‘‘

……………