لَا إِلٰهَ إِلَّا الله کی لازمی شرائط
189۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ مَّاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا الله دَخَلَ الْجَنَّةَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 26)’’جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ جانتا تھا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
190۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ لَا يَلْقَى الله بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ فِيهِمَا إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 27)
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ بھی ان دونوں (شہادتوں) کے ساتھ، ان میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا، وہ (ضرور) جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
191۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے اپنے نعلین (جوتے) عطا کیے اور ارشاد فرمایا:
((اذْهَبُ بِنَعْلَیَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِن وَرَاء هٰذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا الله مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ))( أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:31)
’’میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس چار دیواری کی دوسری طرف تمھیں جو شخص بھی پورے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دے، اسے جنت کی خوش خبری سنا دو۔“
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے میری ملاقات سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی، انھوں نے کہا: ابوہریرہ! (تمھارے ہاتھ میں یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ کے نعلین (مبارک) ہیں۔ آپ نے مجھے نعلین (جوتے) دے کر بھیجا ہے کہ میں جسے بھی ملوں اور وہ خلوص دل سے لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، اسے جنت کی بشارت دے دوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے میرے سینے پر ہاتھ سے مارا جس سے میں سرینوں کے بل گر پڑا اور کہا: ابو ہریرہ! واپس چلے جاؤ۔
سیدنا ابو ہریرہ یہ فرماتے ہیں کہ جب میں رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا تو مجھے رونا آرہا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ میرے پیچھے (تیزی سے) چلتے ہوئے آئے اور اچانک میرے عقب سے نمودار ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے (مجھ سے) کہا: ((مَا لَكَ يَا أَبا هريرة)) ’’ابو ہریرہ! تمھیں کیا ہوا؟‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول میری ملاقات سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی اور آپ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا، میں نے انھیں بتایا تو انھوں نے میرے سینے پر زور سے مارا جس سے میں سرینوں کے بل گر پڑا اور مجھ سے کہا: واپس چلے جاؤ۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((يَا عُمَرُ مَا حَمَلَكَ عَلٰى مَا فَعَلتَ))
’’عمر! تم نے ایسے کیوں کیا؟‘‘
انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! کیا آپ نے سیدنا ابو ہریرہ کو اپنے نعلین دے کر بھیجا تھا کہ جوشخص انھیں ملے اور خلوص دل کے ساتھ لاالہ الا اللہ کی گواہی دے، اسے جنت کی بشارت دے دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((نعم)) ’’ہاں‘‘
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی: (اللہ کے رسول) ایسا نہ کیجیے، مجھے ڈر ہے کہ لوگ عمل چھوڑ کر بس اسی(گواہی) پر بھروسا کر بیٹھیں گے، انھیں عمل کرنے دیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((فَخَلِّهِمْ)) ’’اچھا تو انھیں چھوڑ دو۔‘‘
توضیح و فوائد: سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اسے بنیاد بنا کر بے عملی کی راہ اختیار کر لیں گے۔ رسول اکرمﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے پر عمل کیا بلکہ کئی مواقع پر وضاحت فرمائی کہ یہ چیز تمھیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دئے۔
192۔سيده اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آئی۔ وہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے، یعنی وہ پریشان کیوں ہیں؟ انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا، (یعنی دیکھو سورج کو گرہن لگا ہوا ہے)۔ اتنے میں لوگ (نماز کسوف کے لیے) کھڑے ہوئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: سبحان اللہ! میں نے پوچھا (یہ گرہن) کیا کوئی (عذاب یا قیامت کی) علامت ہے؟ انھوں نے سر سے اشارہ کیا: ہاں، پھر میں بھی (نماز کے لیے) کھڑی ہوگئی حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی تو میں نے اپنے سر پر پانی ڈالنا شروع کر دیا، پھر (جب نماز ختم ہو چکی تو نبیﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور فرمایا:
((مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلَّا رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي، حَتَّى الجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَأُوحِيَ إِلَيَّ: أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ – مِثْلَ أَوْ – قَرِيبَ – لاَ أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ – مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، يُقَالُ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا المُؤْمِنُ أَوِ المُوقِنُ – لاَ أَدْرِي بِأَيِّهِمَا قَالَتْ أَسْمَاءُ – فَيَقُولُ: هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالهُدَى، فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا، هُوَ مُحَمَّدٌ ثَلاَثًا، فَيُقَالُ: نَمْ صَالِحًا قَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا بِهِ. وَأَمَّا المُنَافِقُ أَوِ المُرْتَابُ – لاَ أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ – فَيَقُولُ: لاَ أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ)) (أَخْرَجَةُ البخاري: 86، 184، 922، 1053، 7287، ومسلم:905)
’’جو چیزیں اب تک مجھے نہیں دکھائی گئی تھیں، آج میں نے انھیں اپنی اس جگہ سے دیکھ لیا ہے حتی کہ جنت اور دوزخ کو بھی۔ اور میری طرف یہ دہی بھیجی گئی کہ قبروں میں تمھاری آزمائش ہوگی، جیسے مسیح دجال یا اس کے قریب قریب فتنے سے آزمانے جاؤ گے (راویہ حدیث فاطمہ نے کہا:) مجھے یاد نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے ان (لفظ مثل اور قریب) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا۔ اور کہا جائے گا کہ تجھے اس شخص، یعنی رسول اللہﷺ سے کیا واقفیت ہے؟ ایمان دار یا یقین رکھنے والا… (راویہ حدیث فاطمہ نے کہا:) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے ان دونوں (مومن اور موقن) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا کہے گا کہ یہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جو ہمارے پاس کھلی نشانیاں (معجزات) اور ہدایت لے کر آئے تھے۔ ہم نے ان کا کہا مانا اور ان کی پیروی کی۔ وہ محمدﷺ ہیں۔ تین بار ایسے ہی کہے گا، چنانچہ اس سے کہا جائے گا: تو مزے سے سوجا، بے شک ہم نے جان لیا کہ تو محمدﷺ پر ایمان رکھتا ہے۔ اور منافق یا شک کرنے والا. (رادیہ حدیث فاطمہ نے کہا:) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء نے ان (لفظ منافق اور مرتاب) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا……. کہے گا: میں کچھ نہیں جانتا، ہاں لوگوں کو جو کہتے سنا، میں بھی وہی کہنے لگا۔“
توضیح و فوائد: ’’اس آدمی کے بارے میں تو کیا جانتا ہے؟‘‘ اس سے بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبیﷺ ہر جگہ حاضر ناظر ہیں۔ حالانکہ یہ معاملہ برزخ سے تعلق رکھتا ہے، اس پر دنیا کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا اور اس کا جواب ہر مومن آسانی سے دے دے گا، منافق نہیں دے سکے گا، خواہ اس نے رسول اکرمﷺ کو دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو، پھر بعض روایات میں یہ صراحت ہے کہ پوچھا جائے گا کہ تم اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہو جو تمھارے اندر مبعوث کیا گیا تو مومن آپﷺ کا نام بتا دے گا، منافق نہیں بتا سکے گا، مومن سے پوچھا جائے گا کہ تمھیں کیسے معلوم ہوا تو وہ کہے گا: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔ (صحیح الترغيب، حدیث: 3558)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق نبیﷺ کے وہاں موجود ہونے سے نہیں بلکہ جواب دینے والے کے ایمان اور عمل سے ہے۔
193۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ تَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، يَرْجِعُ ذٰلِكَ إِلَى قَلْبٍ مُوقِنٍ، إِلَّا غَفَرَ الله لَهَا)) (أخرجه النسائي في الكبرى:10909، و ابن ماجه: 3796)
’’جو انسان یہ گواہی دیتے ہوئے فوت ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں (محمدﷺ) اللہ کا رسول ہوں اور یہ گواہی اس نے پختہ یقین سے دی تو اللہ تعالی ضرور اس کی مغفرت فرمادے گا۔‘‘
194۔سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ قَدْ حَرمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا الله يَبْتَغِي بِذٰلِكَ وَجْهَ اللَهِ عز و جل)) (أخرجه البخاري: 425، ومسلم:33)
’’جو شخص الله عز وجل کی رضا مندی کے لیے لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے، اللہ تعالی ایسے شخص پر جہنم کی آگ کو حرام کر دیتا ہے۔‘‘
195۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: ((یا معاذ بن جَبَلٍ)) ’’اے معاذ بن جبل‘‘ انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں، پھر آپﷺ نے فرمایا:
((يا معاذ)) ’’اے معاذ!‘‘
انھوں نے پھر عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ((مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللهُ عَلَى النَّارِ))
’’جو شخص بچے دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘
سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں میں اس کی تشہیر نہ کروں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ((اِذًا یَتَّكِلُوْا)) ’’ ایسے کرو گے تو انھیں اس پر بھروسا ہو جائے گا۔‘‘(أخرجه البخاري:128، 129، ومسلم:30)
بعد ازاں سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات کے قریب، کتمان علم کے گناہ سے بچنے کے لیے یہ حدیث لوگوں کو بیان کی۔
196۔عبد اللہ بن ابوقتادہ اپنے والد (سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ) سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((لَا إِلٰهَ إِلَّا الله، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، فَذَلَّ بِهَا لِسَانُهُ، وَاطْمَأَنَّ بِهَا قَلْبُهُ لَمْ تَطَأْهُ النَّارُ)) (أخرجه البخاري في التاريخ الكبير:2387)
’’جس شخص انے زبان کی روانی اور اطمینان قلب سے یہ کہا: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ آگ اسے نہیں چھوئے گی۔‘‘
197۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ جبریل علیہ السلام آئے اور رسول اللہﷺ کے سامنے بیٹھ گئے۔ انھوں نے اپنی دونوں ہتھیلیاں رسول اللہ کے گھٹنوں پر رکھتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((اَلْإِسْلَامُ أَنْ تُسْلِمَ وَجْهَكَ لِلهِ، وَتَشْهَدَ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.))
’’اسلام یہ ہے کہ تم اپنے چہرے، یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع اور فرماں بردار کر دو اور گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
جبریل علیہ السلام نے کہا: جب میں ان امور کو بجالاؤں تو میں مسلمان ہو جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ((إِذَا فَعَلْتَ ذٰلِكَ فَقَدْ أَسْلَمْتَ)) ’’جب تم یہ کام کر لو گے تو یقینًا تم مسلمان ہو جاؤ گے۔‘‘(أخرجه أحمد:2924)
198۔سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الهُدَى وَالعِلْمِ، كَمَثَلِ الغَيْثِ الكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ، قَبِلَتِ المَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ وَالعُشْبَ الكَثِيرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ، أَمْسَكَتِ المَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لاَ تُمْسِكُ مَاءً وَلاَ تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ، وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ)) (أَخْرَجَهُ البخاري: 79، ومُسْلِمٌ: 2282)
’’اللہ تعالی نے جو ہدایت اور علم مجھے دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال تیز بارش کی سی ہے جو زمین پر برسے۔ صاف اور عمدہ زمین تو پانی کو جذب کر لیتی ہے اور بہت سا گھاس اور سبزہ اگاتی ہے، جبکہ سخت زمین پانی کو روکتی ہے، پھر اللہ تعالی اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ لوگ خود بھی پیتے ہیں اور جانوروں کو بھی سیراب کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ اور کچھ بارش ایسے حصے پر بری جو صاف اور چٹیل میدان تھا۔ وہ نہ تو پانی کو روکتا ہے اور نہ سبزہ ہی اگاتا ہے، چنانچہ یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ بوجھ حاصل کی اور جو تعلیمات دے کر اللہ تعالی نے مجھے مبعوث کیا ہے، ان سے اسے فائدہ ہوا، یعنی اس نے انھیں خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ اور یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے سر تک نہ اٹھایا (توجہ تک نہ کی) اور اللہ کی ہدایت کو جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے، قبول نہ کیا۔‘‘
199۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی آدمی نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟
آپ ﷺنے فرمایا: ((وَيْلَكَ وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا))
’’تیرے لیے خرابی ہوا تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟‘‘
اس نے کہا: میں نے اس کے لیے تو کوئی خاص تیاری نہیں کی، البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت ضرور کرتا ہوں۔
آپ ﷺنے فرمایا: ((إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ)) (أخرجه البخاري: 6167، ومسلم: 2639)
’’پھر تم قیامت کے دن ان کے ساتھ ہو گے جن سے تم محبت رکھتے ہو۔‘‘
توضیح و فوائد: لاالہ الااللہ کی شرائط کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کا محض اقرار بھی کافی ہے لیکن اللہ کے ہاں یہ کلمہ اس وقت فائدہ دے گا جب شرائط کے ساتھ اس کا اقرار کیا جائے۔ وہ شرائط ان احادیث کی روشنی میں درج ذیل ہیں:
1۔ زبان سے اقرار ہو۔ 2۔ اس کے معانی کا علم ہو۔ 3۔ اس پر پختہ یقین ہو۔ 4۔اس کے الفاظ و معانی کے حوالے سے کوئی شک و شبہ نہ ہو۔ 5۔ دل اسے کچا تسلیم کرے۔ 6۔دلی اطمینان بھی ہو۔ 7۔اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ محبت ہو۔
……………