بدعت کی مذمت اور صراط مستقیم سے ہٹنے کی ممانعت
252۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں، آواز بلند ہو جاتی اور جلال کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی حتی کہ ایسے لگتا جیسے آپ کسی لشکر سے ڈراتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ وہ (لشکر) صبح و شام (تک) تمھیں آئے گا اور فرماتے: ((بعِثْتُ أَنا وَ السَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ)) ’’میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں۔“
اور آپ اپنی شہادت والی انگلی اور درمیان والی انگلی کو ملا کر دکھاتے اور فرماتے: ((أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدَى مُحَمَّدٍ وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٍ)) (أخرجه مسلم 867، وأخرجه النسائي: 1578)
’’اما بعد! بلاشبہ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور زندگی کا بہترین طریقہ محمد (ﷺ) کا طریقہ زندگی ہے اور (دین میں) بدترین کام وہ ہیں جو خود نکالے گئے ہیں اور ہر نیا نکالا ہوا کام گمراہی ہے۔‘‘
سنن نسائی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
((وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ)) ’’اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: شرک کے بعد شدید نقصان کے اعتبار سے سب سے بڑا گناہ بدعت ہے۔ رسول اکرم ﷺ اپنے ہر خطبے میں یہ اعلان فرماتے تھے کہ بدترین کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
253۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِ نَا هٰذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَرَدٌّ)) (أخرجه البخاري: 2697 ومُسْلِمٌ:1718)
’’جس شخص نے ہمارے اس (دین) میں کوئی ایسی نئی بات شروع کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے۔‘‘
صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ عَمِلَ عملاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ))
’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“
توضیح و فوائد: جو کام رسول اکرم ﷺ نے نہیں کیا اور اس کے کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ بھی نہیں تھی، اسے دین سمجھ کر کرنا بدعت اور گمراہی ہے۔
254۔سیده ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّى لَكُمْ فَرَطٌ عَلَى الْحَوْضِ فَإِيَّايَ لَا يَأْتِيَنَّ أَحَدُكُمْ فَيُذَبُّ عَنِّي كَمَا يُذّبُ الْبَعِيْر الضّال))
’’لوگو میں حوض پر تمھارا پیش رو ہوں گا۔ میرے پاس تم میں سے کوئی اس طرح نہ آئے کہ اسے مجھے سے دور دھکیلا جا رہا ہو، جس طرح بھٹکے ہوئے اونٹ کو (ریوڑ سے) دور دھکیلا جاتا ہے۔“
میں پوچھوں گا: (فِيْمَا هٰذَا؟) ’’یہ کس وجہ سے ہو رہا ہے؟‘‘
تو کہا جائے گا: ((إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ))
’’آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا نئے کام شروع کیے تھے۔‘‘
تو میں کہوں گا: ((سحقا)) ’’دوری ہو؟‘‘(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 2295)
255۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((اَلْمَدِيْنَةُ حَرَمٌ فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوٰى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلٰئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لا يُقبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 1371، وهو عند البخاري: 172، ومسلم: 1370، من حديث عليﷺ)
’’مدینہ حرم ہے۔ جس شخص نے اس میں کسی بدعت کا ارتکاب کیا یا کسی بدعت کے مرتکب شخص کو پناہ دی تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن اس سے کوئی عذر اور
بدلہ وغیرہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
256۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللهِ ثَلَاثَةٌ مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الْإِسْلَامِ سُنَةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِيءٍ بِغَيْرِ حَقٌّ لِيُهْرِيقَ دَمَهُ)). ((أخرجه البخاري: 6882.)
’’اللہ کے ہاں لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ تین طرح کے لوگ ہیں: حرم میں زیادتی کرنے والا، دوسرا جو اسلام میں جاہلیت کی رسوم کا خوگر ہو اور تیسرا وہ جو کسی کا خون ناحق کرنے کے لیے اس کا پیچھا کرے۔‘‘
توضیح و فوائد: بدعت کا ارتکاب اگر حدود حرم میں ہو تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے حتی کہ اس کی فرض اور نفل کوئی عبادت بھی اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ بدعتی کو روز قیامت حوض کوثر سے دھتکار دیا جائے گا۔ سلف صالحین بدعتی کو زانی سے بھی بڑا مجرم سمجھتے تھے۔
257۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمارے لیے (زمین پر)ایک خط کھینچا اور فرمایا:
((هذا سبيل الله)) ’’یہ اللہ کا راستہ ہے۔‘‘
پھر اس خط کی دائیں اور بائیں جانب اور خطوط کھینچے، پھر فرمایا:
((هذه سُبلٌ)) ’’یہ راستے ہیں۔‘‘
راویٔ حدیث یزید ((هذِهِ سُبُلٌ)) کے بعد (مُتَفَزِقَةٌ) یعنی الگ الگ متفرق راستے ہیں۔ کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔
پھر بیان کرتے ہیں: ((عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِّنْهَا شَيْطَانٌ يَّدْعُو إِلَيْهِ)) (أخرجه أحمد: 4142، والنسائي في الكبرى: 1174، والحاكم:318/2(
’’ان میں سے ہر راستے پر ایک شیطان کھڑا ہے۔ جو اس باطل راستے کی طرف بلاتا ہے۔‘‘
پھر آپﷺ نے (سورہ انعام کی) آیت تلاوت کی:
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ) اور بلاشبہ یہ میرا راستہ ہے، نہایت سیدھا، لہذا تم اس کی پیروی کرو اور دیگر راستوں کی پیروی نہ کرو اس لیے کہ وہ اس (اللہ) کے راستے سے تمھیں ہٹا دیں گے۔‘‘ (الأنعام 153: 6)
توضیح و فوائد: اللہ کے راستے سے مراد قرآن وسنت کی راہ ہے اور اس پر عمل کا طریقہ صحابہ و تابعین والا ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ احادیث کو تقلید کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔
258۔سیدنا نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا، وَ عَلٰى جَنْبَتَي الصِّرَاطِ سُورَانِ، فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ، وَعَلَى الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاةٌ، وَعَلَى بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِيعًا، وَلَا تَتَعَرَّجُوا، وَدَاعٍ يَّدْعُو مِنْ فَوقِ الصِّرَاطِ فَإِذَا أَرَادَ يَفْتَحُ شَيْئًا مِن تِلْكَ الْأَبْوَابِ قَالَ: وَيْحَكَ لَا تَفْتَحْهُ، فَإِنَّكَ إِنْ تَفْتَحْهُ تَلِجْهُ، وَالصِّرَاطُ الْإِسْلَامُ، وَالسُّورَان: حُدُودُ اللهِ، وَالْأَبْوَابُ الْمُفَتَّحَةُ: مَحَارِمُ اللهِ، وَذٰلِكَ الدَّاعِي عَلٰى رَأسِ الصِّرَاطِ: كِتَابُ اللهِ وَالدَّاعِي مِنْ فَوْقِ الصِّرَاطِ: وَاعِظُ اللهِ فِي قَلْبِ كُلِّ مُسْلِمٍ.))(أخرجه أحمد: 17634، و الترمذي: 2859)
’’اللہ تعالی ایک مثال بیان کرتا ہے: صراط مستقیم (سیدھی راہ) ہے، اس کے دونوں جانب دو دیوار میں ہیں، ان میں کھلے دروازے ہیں، دروازوں پر پردے لٹکے ہوئے ہیں، صراط مستقیم کے دروازے پر ایک داعی ہے جو کہتا ہے: لوگو! تم سب کے سب اس راستے پر سیدھے چلو، (ادھر اُدھر) مائل نہ ہونا، اس صراط مستقیم کے اوپر بھی ایک داعی ہے، جب چلنے والا ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ کھولنا جا زہ کھولنا چاہتا ہے تو واعی اسے آواز دیتا ہے، تجھ پر افسوس، اسے نہ کھول، اگر تو نے اسے کھول دیا تو اس میں داخل ہو جائے گا۔ اور (پھر آپ میں ہم نے فرمایا) صراط (راستے) سے مراد اسلام ہے، دو دیواریں اللہ تعالی کی حدود و قیود ہیں۔ کھلے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں، صراط کے شروع میں داعی اللہ کی کتاب ہے ۔ اور صراط کے اوپر داعی اللہ تعالیٰ کا واعظ ہے جو ہر مسلمان کے دل میں ہوتا ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: اسلام اور سیدھی راہ کی طرف خارجی دلیل اللہ تعالی کی کتاب ہے اور ظاہر ہے اسے سمجھنے کے لیے نبوی ارشادات بھی وحی کا درجہ رکھتے ہیں۔ جو بھی قرآن مجید کو پڑھے گا، اس کے مفہوم کو سمجھے گا وہ راہ ہدایت پائے گا۔ اور دوسرا راہنما انسان کا دل ہے بشرطیکہ وہ فطرت پر قائم ہو اور اس پر شرک و گناہ کی آلودگی نہ ہو۔ قرآن مجید میں اسے نفس لوامہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یوں دل اگر غافل نہ ہو اور انسان اللہ کی کتاب کو اپنا راہبر بنائے تو وہ سیدھی راہ پر قائم رہ سکتا ہے۔
259– سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضي الله تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّهُ سَيَخْرُجُ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ تَجَارٰى بِهِمْ تِلْكَ الْأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارَى الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ لَا يَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَهُ))
’’بلاشبہ حقیقت یہ ہے میری امت میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں گے، ان میں یہ اہواء (من پسند نظریات اور اعمال کو دین میں داخل کرنا) ایسے سرایت کر جائیں گی جیسے باؤلے پن کی بیماری اپنے بیمار میں سرایت کر جاتی ہے، باؤلے پن کے بیمار کی کوئی رگ اور کوئی جوڑ باقی نہیں رہتا جس میں اس بیماری کا اثر نہ ہو۔‘‘
معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں:
((وَاللهِ يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ لَئِنْ لَمْ تَقُومُوا بِمَا جَاءَ بِهِ نَبِيُّكُمْ، لَغَيْرُكُمْ مِنَ النَّاسِ أَحْرَى أَنْ لَا يَقُومَ بِهِ)) (أجرجه أحمد 16937، و أبوداؤد: 4597)
’’اللہ کی قسم! اے جماعت عرب! اگر تم اس چیز کو قائم نہ رکھو جو تمھارے نبی ﷺ لائے ہیں تو دوسرے لوگ زیادہ لائق ہیں اس کے کہ وہ اسے قائم نہ رکھیں۔‘‘
توضیح و فوائد: باؤلے کتے کے کاٹنے سے جو بیماری لگتی ہے اسے کلب کہتے ہیں۔ اس بیماری میں انسان دیوانوں کی طرح بھاگتا ہے اور جو چیز اس کے سامنے آئے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، یہی حال بدعتی کا ہوتا ہے وہ بدعات کے ارتکاب کے لیے مارا مارا پھرتا ہے اور جب سکون حاصل نہیں کر پاتا تو نئی بدعت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ (أعاذنا الله منه)
260 سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَةٌ سَيِّئَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ. كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ))(أخرجه مسلم: 1017، و بعد حديث: 2674)
’’جس شخص نے کسی اچھے کام کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس پر عمل ہوتا رہا، اس کے لیے (ہر) عمل کرنے والے (کے اجر) جتنا اجر لکھا جاتا رہے گا۔ اور ان (بعد میں عمل کرنے والوں) کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کسی برے کام کا آغاز کیا اور اس کے بعد اس پر عمل ہوا تو اس پر اس (برے) عمل کرنے والوں جتنا گناہ لکھا جاتا رہے گا اور ان کے گناہوں میں کسی چیز کی کمی نہ ہوگی۔‘‘
261۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ دَعَا إِلٰى هُدًى، كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلٰى ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا))(أخرجه مسلم: 2674)
’’جس شخص نے ہدایت کی (طرف) دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کسی گمراہی (بدعت) کی (طرف) دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ ‘‘
262۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺنے فرمایا:
((لَيْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا))(أخرجه البخاري: 7321، و مسلم: 1677)
’’جوشخص بھی ظلم سے قتل کیا جائے، اس کے قتل ناحق کا کچھ بوجھ سیدنا آدم علیہ اللام کے پہلے بیٹے پر بھی ہوگا‘‘
(راوی حدیث) سفیان نے بعض اوقات یہ الفاظ بیان کیے ہیں:
((مِنْ دَمِهَا لِأَنَّهُ سَنَ الْقَتْلَ أَوَّلًا))
’’اس کے خون ناحق کا کچھ حصہ (آدم ایلام کے پہلے بیٹے پر بھی ہوگا) کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے سب سے پہلے قتل ناحق کا طریقہ جاری کیا۔‘‘
توضیح و فوائد: مذکورہ تینوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جس کام کی اصل شریعت میں جائز اور مستحب ہو اور لوگ اسے ترک کر چکے ہوں یا اس میں سستی کر رہے ہوں تو ایسی صورت حال میں اگر کوئی شخص اس کام کو جاری کر دیتا ہے تو اسے تمام عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح اگر لوگ کوئی برا کام چھوڑ چکے ہوں اور کوئی اس کا اجرا کرتا ہے یا نئے سرے سے برا کام کرتا ہے تو بعد میں جتنے لوگ وہ گناہ کریں گے اس کا وبال ابتدا کرنے والے پر مسلسل پڑتا رہے گا۔ ان احادیث کا پس منظر یہ ہے کہ آپ کی خدمت میں قبیلہ م1ر کے فقراء حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان کی حالت دیکھ کر صدقات و خیرات کا حکم دیا۔ اس دوران میں ایک صحابی اٹھے اور گھر سے کچھ لا کر نبی ﷺکی خدمت میں پیش کر دیا۔ یہ دیکھ کر صحابہ نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہی عمل کیا، چنانچہ آپ ﷺنے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا۔ اس سے مراد بدعت ہرگز نہیں کیونکہ وہ تو ضلالت ہے۔
263۔ غضیف بن حارث ثمالی بیان کرتے ہیں کہ میری طرف عبدالملک بن مروان نے پیغام بھیجا: ابو اسماء! ہم نے لوگوں کو دو چیزوں پر جمع کر دیا ہے۔ غضیف نے کہا: وہ دو چیزیں کون سی ہیں؟ کہا: جمعہ کے دن منبروں پر ہاتھوں کو بلند کرنا اور صبح اور نماز عصر کے بعد بیان۔ غضیف نے جواب میں کہا: میرے نزدیک یہ دونوں تمھاری سب سے واضح بدعتیں ہیں۔ میں ان میں سے کسی ایک کو بھی قبول نہیں کروں گا۔ اس نے کہا: کیوں؟ غضیف نے کہا: اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((مَا أَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةً إِلَّا رُفِعَ مِثْلُهَا مِنَ السُّنَةِ)) (أخرجه أحمد:16970، والبزار: 131، والطبراني في الكبير: 178/18، وإسناده ضعيف لضعف أبي بكر ابن أبي مريم الغساني، وجوّد ابن حجر إسناده في فتح الباري: 253/13)
’’جب بھی کوئی قوم کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اس قوم سے اس کی مثل ایک سنت اٹھالی جاتی ہے۔‘‘
264۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ حَجَبَ التَّوْبَةَ عَنْ كُلِّ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حَتّٰى يَدَعَ بِدْعَتَهُ)) (أخرجه ابن أبي عاصم في السنة:21/1، والسيوطي في جمع الجوامع:4785، والطبراني في الأوسط: 4202، والمنذري في الترغيب والترهيب: 45/1)
’’اللہ تعالی ہر صاحب بدعت کی توبہ قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ بدعت چھوڑ دے۔ ‘‘
……………..