خود پسندی، عمل پر غرور اور بھروسا قابل مذمت ہے

317۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَنْ يُنَجِّيَ أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلُهُ))

’’تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل نجات نہیں دلا سکے گا۔‘‘

صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:

((وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللهُ بِرَحْمَةٍ، سَدِّدُوا، وَقَارِبُوا، وَاغْدُوا، وَرُوحُوا، وَشَيْئًا مِنَ الدُّلْجَةِ وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوا))

’’مجھے بھی نہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے، لہذا تم درستی کے ساتھ عمل جاری رکھو۔ میانہ روی اختیار کرو۔ صبح اور شام، نیز رات کے کچھ حصے میں نکلا کرو۔ اعتدال کے ساتھ سفر جاری رکھو اس طرح تم منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے۔‘‘

توضیح وفوائد:  مطلب یہ ہے کہ انسان چوبیس گھنٹے عبادت نہیں کر سکتا۔ استقامت کی راہ اختیار کرتے ہوئے صبح و شام جو نشاط کا وقت ہے اور رات کا کچھ وقت عبادت کے لیے ضرور مختص کیا جائے اور اعمال پر بھروسے کی بجائے اللہ کی رحمت کی امید رکھی جائے۔

318۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے خود نہیں سنا بلکہ میرے سامنے

ذکر کیا گیا کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ فِيكُمْ قَوْمًا يَّعْبُدُونَ وَيَدْأَبُونَ حَتّٰى يُعْجَبَ بِهِمُ النَّاسُ، وَتُعْجِبَهُمْ نُفُوسُهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ))

(أَخَرْجَةُ البُخَارِيَّ: 6463، ومُسْلِمٌ:2816)

أَخْرَجَهُ أَحمد: 12886، 12972، وأبو يعلى:4066)

’’تم میں ایسے لوگ ہوں گے جو عبادت پر ہمیشگی اختیار کریں گے۔ یہاں تک کہ ان کے متعلق لوگ تعجب کا اظہار کریں گے اور انھیں خود بھی اپنا آپ اچھا لگے گا لیکن یہ لوگ دین سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے۔‘‘

 توضیح و فوائد: اعمال کا دار و مدار خاتمے پر ہے، بسا اوقات کوئی شخص اتنی عبادت کرتا ہے کہ لوگ اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کرتے ہیں لیکن وہ عجب پسندی میں مبتلا ہو جاتا اور دین سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

319۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

((لَوْ لَمْ تَكُونُوا تُذْنِبُونَ لَخَشِيتُ عَلَيْكُمْ مَا هُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ الْعُجْبَ)) (أخرجه البزار في كشف الأستار: 3633، والعقيلي:  171، والبيهقي في الشعب: 453/5، وحسنه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب:2921)

’’اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو مجھے تم پر اس سے بھی زیادہ خطرناک چیز کا ڈر تھا اور وہ ہے عجب اور غرور‘‘

 توضیح و فوائد:  گناہ کرنے والے کو احساس ہوتا ہے کہ وہ گناہ کر رہا ہے، اس لیے اس کے توبہ کرنے کا امکان ہوتا ہے لیکن عجب، یعنی خود پسندی اور غرور میں بتلا آدمی تو نیکی سمجھ کر عمل کر رہا ہوتا ہے، اس لیے اسے توبہ کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یوں وہ تباہ ہو جاتا ہے۔

320۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ  سے (سورہ مومنون: 60 کی) اس آیت: ﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ ﴾

’’اور وہ لوگ جو دیتے ہیں، جو کچھ دیتے ہیں، تو اس طرح دیتے ہیں کہ ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ انھیں اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے۔“ کے بارے میں دریافت کیا۔

میں نے کہا: کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:

((لا، يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ، وَلٰكِنَّهُمُ الَّذِينَ يَصُومُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَتَصَدِّقُونَ وَهُمْ يَخَافُونَ أَنْ لَا يُقْبَلَ مِنْهُمْ، ﴿أُولٰئِكَ الَّذِينَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ﴾

’’نہیں، صدیق کی بیٹی! لیکن یہ وہ لوگ ہیں، جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اور صدقہ و  خیرات کرتے ہیں اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی طرف سے نا مقبول نہ ٹھہریں۔ پھر آپ نے اس سے اگلی آیت تلاوت فرمائی)  ’’یہی لوگ ہیں، جو نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے ہیں اور یہی ان کی طرف آگے نکلنے والے ہیں۔‘‘ (أخرجه الترمذي:3175)

321۔سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام حمران بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا عثمان بن عفان کے پاس وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا جبکہ وہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اچھی طرح وضو کرنے کے بعد فرمایا: میں نے نبیﷺ کو اسی جگہ وضو کرتے دیکھا ہے، آپ نے اچھی طرح وضو کیا، پھر فرمایا: ((مَنْ تَوَضَّأَ مِثْلَ هٰذَا الْوُضُوءِ، ثُمَّ أَتیَ الْمَسْجِدَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 6433، وَمُسْلِمٌ:226)

’’جس نے اس طرح وضو کیا، پھر مسجد میں آیا اور دو رکعتیں ادا کیں، پھر وہیں بیٹھا رہا تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا: نبیﷺ نے (یہ بھی) فرمایا:

((لا تَغْتَرُّوا)) ’’اس پر مغرور نہ ہو جاؤ۔‘‘

322۔سیدنا ابو ہریرہ ہی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((دَخَلَتِ امْرَأَةُ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَّطَتْهَا، فَلَا هِيَ أَطْعَمَتُهَا، وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتّٰى مَاتَتْ هَزَلًا))

’’ایک عورت بلی کے معاملے میں جہنم میں ڈال دی گئی جسے اس نے باندھ رکھا تھا۔ اس نے نہ اسے کھلایا، نہ اسے چھوڑا ہی کہ وہ زمین کے چھوٹے چھوٹے جانور کھا لیتی، وہ لاغر ہو کر مرگئی۔“

راوی حدیث زہری کہتے ہیں:

((ذٰلِكَ لِئَلَّا يَتَّكِلَ رَجُلٌ وَلَا يَيْأَسَ رَجُلٌ))

’’یہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ کوئی شخص نہ صرف (رحمت پر) بھروسا کرے اور نہ صرف مایوسی ہی کو

اپنا لے۔‘‘

323۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  ((بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي حُلَّةٍ تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَهُ إِذْ خَسَفَ اللهُ بِهِ فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيَّ: 5789، وَمُسْلِم:2088)

’’ایک آدمی جوڑا پہنے ہوئے اور اپنے بالوں میں کنگھی کر کے فخر و غرور سے چل رہا تھا کہ اچانک اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا، وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی چلا جائے گا۔‘‘

 توضیح و فوائد:  عجب کا مطلب اپنی عبادت یا کام پر اترانا اور فخر کرتا ہے۔ خوش ہونا مراد نہیں کیونکہ نیکی کر کے خوش ہونا ایمان کی علامت ہے۔ عبادت کا مقصد رحمت الہی کا حصول ہے، محض عبادت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر کوئی شخص عبادت یا نیکی پر تکیہ کرلے اور اس پر اترانے لگے تو یہ بیکار ہو جاتی ہے بلکہ بعض اوقات ایسی نیکی تباہی کا باعث بن جاتی ہے، اس لیے مطلوب یہ ہے کہ حکم الہی کے مطابق عبادت کی جائے اور عجز و انکسار کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کی جائے۔ اعمال کے رد ہونے کا خوف اور قبول کی امید رکھتے ہوئے نیک اعمال پابندی سے جاری رکھے جائیں۔ ایسا رویہ اور چال ڈھال بھی جس میں تکبر کا اظہار ہوتا ہو، انسان کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔

…………………