تلبیہ توحید کی عظمت و فضیلت

356۔ سیدنا جابر  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ حجۃ الوداع کے متعلق کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے توحید کا تلبیہ پکارا:

((لَبَّيْكَ اَللّٰهمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لا شَرِيكَ لَكَ)) (أخرجه مسلم: 1218)

’’حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ بلاشبہ تمام تعریفیں نعمتیں اور بادشاہی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔“

357۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک پرانے کجاوے پر اور ایک ایسی (معمولی) چادر اوڑھ کر حج ادا کیا جس کی قیمت چار درہم یا چار درہم کے برابر بھی نہ تھی۔

آپﷺ نے فرمایا: ((اَللّٰهُمَّ حِجَّةٌ لَا رِيَاءَ فِيهَا وَلَا سُمْعَةَ)) (أَخْرَجَهُ ابن ماجه:  2890)

’’اے اللہ! حج (کے فرض کی ادائیگی مقصود ہے، دکھلاوا اور شہرت (مقصود)  نہیں۔ ‘‘

358۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے، اس حج میں جس میں رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع سے پہلے انھیں امیر بنایا تھا، ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ لوگ قربانی کے دن لوگوں میں اعلان کریں:

((لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوْفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 369، 1622، 4363، 4656،4657، ومُسْلِم:1347)

’’اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے گا۔‘‘

359۔ راوی حدیث حمید بن عبد الرحمن کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو پیچھے سے بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ وہ اعلان براءت کریں۔

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی ہمارے ساتھ نحر کے دن منی میں موجود لوگوں میں اعلان براءت کرتے ہوئے فرمایا:

((وَأَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوْفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:4656)

’’آئندہ سال کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ ہو کر اس کا طواف ہی کرے۔‘‘

توضیح و فوائد:  حج مالی اور بدنی عبادت ہے، اس کی قبولیت کا دار و مدار بھی توحید پر ہے، بلکہ تلبیہ جو جج کی نیت اور بنیادی رکن ہے، وہ توحید ہی پر مشتمل ہے۔ شرک اکبر ہو یا اصغر (ریا کاری) ہر دو صورت میں حج باطل ہے، اس لیے حج کرنے سے پہلے عقیدے کی اصلاح انتہائی ضروری ہے۔

360۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کہا کرتے تھے:

((لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ))

’’ ہم حاضر ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ تو رسول اللہ علیہ فرماتے: ((وَيْلَكُمْ قَدْ قَد)) ’’تمھاری بربادی! بس کرو، بس کرو (یہیں پر رک جاؤ)۔‘‘ (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 1185)

مگر وہ کہتے:  مگر ایک ہے شریک جو تمھارا ہے، تم اس کے مالک ہو، وہ مالک نہیں۔ وہ لوگ یہی کہتے تھے حالانکہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوتے تھے۔

361۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقُ رَجَعَ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ)) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيَّ: 1521، 1819، وَمُسْلِمٌ:1350)

’’جو شخص محض اللہ کے لیے حج کرے، پھر کسی گناہ کا مرتکب ہو، نہ بخش کام کرے اور نہ فسق و فجور ہی میں مبتلا ہو تو وہ ایسے گناہوں سے پاک واپس ہو گا جیسے اس کی ماں نے آج ہی اسے جنم دیا ہو۔‘‘

توضیح و فوائد:  مطلب یہ ہے کہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ وہ حج بنے گا جو خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ حج کرنے والا اللہ کی توحید کا پر چار کرنے والا ہو اور شریعت کے منع کردہ کاموں سے بھی باز رہے۔

………………………