بتوں اور مورتوں کی عبادت منع ہے
404۔سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ وحی کے رک جانے کا واقعہ ذکر کر
رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَ نِي بِحِرَاءٍ جَالِسًا عَلٰى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ))
’’میں چل رہا تھا کہ اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنائی دی۔ میں نے اپنا سر او پر اٹھایا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو غار حراء میں میرے پاس آیا تھا۔ وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((فَجُئِثْتُ مِنْهُ فَرَقًا فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَدَثَّرُوْنِي، فَأَنْزَلَ الله تَبَارَكَ وَ تَعَالَى: ﴿يٰٓأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ۔ قُمْ فَأَنْذِرْ۔ وَ رَبَّكَ فَكَبِرْ۔ وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۔ وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ۔﴾)
’’میں اس کے ڈر سے گھبرا گیا، پھر میں گھر واپس آیا تو میں نے (خدیجہ سے) کہا: مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ انھوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا، پھر اللہ تعالی نے یہ وحی ﴿يٰٓأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ۔ قُمْ فَأَنْذِرْ۔ وَ رَبَّكَ فَكَبِرْ۔ وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۔ وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ۔﴾نازل کی۔ ‘‘
﴿اَلرُّجْزَ﴾سے مراد بت ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
((ثُمَّ تَتَابَعَ الوحیُ)) ’’پھر وحی مسلسل آنا شروع ہوگئی۔ ‘‘
(أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيِّ: 4925، ومُسْلِم:161)
توضیح و فوائد: اللہ تعالی کی عبادت اور توحید کا اقرار و اعلان اس وقت قابل قبول ہے، جب بتوں کا انکار کیا جائے۔ اللہ تعالی کے سوا جس کی بھی عبادت کی جائے وہ حرام ہے، خواہ وہ پتھر کا بت یا مورتی ہو یا کسی نبی اور ولی کی قبر کو پوجا جائے۔ یہ سب حرام ہے۔ نبی ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی لوگوں کو غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر اللہ کی بندگی میں لگانا ہے۔
405۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ بنو سعد بن بکر نے ضمام بن ثعلبہ کو قاصد بنا کر
رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، آپ صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔
اس نے پوچھا: تم میں سے عبد المطلب کا بیٹا کون ہے؟ رسول اللہ ﷺنے کہا: (أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ) ’’میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ ‘‘
اس نے پھر پوچھا: محمد ؟ آپ نے فرمایا: ((نعم)) ’’جی ہاں۔‘‘
اس نے کہا: عبد المطلب کے بیٹے! میں آپ سے کچھ دریافت کرنے والا ہوں اور اس میں سختی کروں گا تو آپ مجھ پر ناراض نہ ہوں، آپﷺ نے فرمایا:
((لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي،، فَسَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ)) ’’میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا، جو چاہو پوچھو۔“
اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے اِلٰہ، اور آپ سے پہلے لوگوں کے اِلٰہ اور آپ کے بعد آنے والے لوگوں کے اِلٰہ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: ((اَللّٰهُمَّ! نَعَمْ)) ’’جی ہاں‘‘ اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے اِلٰہ، آپ سے پہلے لوگوں کے اِلٰہ اور آپ کے بعد آنے والے لوگوں کے اِلٰہ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم صرف اس اکیلے کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ان بتوں سے الگ ہو جائیں جن کو ہمارے آباء و اجداد پوجتے تھے؟
آپﷺ نے فرمایا: ((اللَّهُمَّ! نَعَمْ)) ’’جی ہاں۔‘‘
اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے اِلٰہ آپ سے پہلے لوگوں کے اِلٰہ اور آپ کے بعد آنے والے لوگوں کے اِلٰہ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم پانچ نمازیں پڑھا کریں؟
آپﷺ نے فرمایا: ((اَللّٰهُمَّ! نْعَمْ)) ’’یقینا‘‘
پھر ضمام بن ثعلبہ ایک ایک فريضہ اسلام کا ذکر کرتے رہے، یعنی زکاۃ، روزہ، حج اور تمام شرائع اسلام کا ذکر کرتے رہے اور ہر فریضے کے ساتھ آپ کو قسم دیتے رہے جس طرح پہلے ذکر کردہ فریضوں میں قسم دیتے تھے، یہاں تک کہ جب سوال و جواب سے فارغ ہوئے تو کہا: یقینًا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں ان فرائض کو ضرور ادا کروں گا اور ان چیزوں سے اجتناب کروں گا جن سے آپ نے مجھے منع کیا ہے۔
پھر اس نے کہا: میں اس پر نہ اضافہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا۔ جب وہ اپنی سواری کی طرف واپس ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے جاتا دیکھ کر فرمایا: ((إِن يَصْدُقْ ذُو الْعَقِيصَتَيْنِ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ))
’’اگر اس دو مینڈھیوں والے نے سچ کہا تو جنت میں جائے گا۔‘‘
پھر وہ اپنے اونٹ کے پاس آیا، اسے کھولا اور چلا گیا۔ جب وہ اپنی قوم کے پاس پہنچا تو قوم اس کے پاس جمع ہو گئی۔ اس نے سب سے پہلے اپنی قوم سے کہا: برا ہو لات اور عزٰی کا۔ لوگوں نے کہا: ایسے مت کہو ضمام، برص اور جذام کی بیماری سے ڈرو، پاگل پن کی بیماری سے خوف کھاؤ۔
اس نے کہا: تم پر افسوس! یہ دونوں (لات و عزٰی) نہ ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ۔ اللہ عز و جل نے پیغمبر بھیجا ہے اور اس پر کتاب نازل کی ہے کہ اس کے ذریعے سے اس نے تمہیں اس حالت سے بچا لیا ہے جس میں تم ہو۔ میں تو گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں، میں ان کے پاس سے تمھارے لیے وہ لایا ہوں جن کا اس نے تمھیں حکم دیا ہے اور جن سے تمھیں منع کیا ہے۔‘‘
(أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:2380، والحاكم: 64/3، وصححه ووافقه الذهبي، وهو في السيرة لابن هشام:219،221/4 ، عن ابن إسحاق، ومن طريق ابن إسحاق أخْرَجَهُ الدارمي: 652، وابن شبة في تاريخ المدينة النبوية: 522،521/2، وأبو داود: 487، والبيهقي في الدلائل: 375،5374/5، وحديث أنس عند البخاري: 63.)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم اس دن کی شام سے پہلے پہلے جو بھی مرد اور عورتیں وہاں تھیں وہ سارے کے سارے مسلمان ہو گئے۔ ہم نے ضمام بن ثعلبہ سے کوئی افضل قاصدِ قوم نہیں سنا۔
406۔ معاویہ بن قرہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے قادسیہ کے دن اہل فارس کے ذمہ دار سے کہا: ((كُنَّا قَوْمًا نَعْبُدُ الْحِجَارَةَ وَالْأَوْثَانَ، فَإِذَا رَأَيْنَا حَجَرًا أَحْسَنَ مِنْ حَجَرٍ أَلْقَيْنَاهُ وَأَخَذْنَا غَيْرَهُ، وَلَا نَعْرِفُ رَبًّا حَتّٰى بَعَثَ الله إِلَيْنَا رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِنَا، فَدَعَانَا إِلَى الْإِسْلَامِ فَاتَّبَعْنَاهُ)) (أخرجه الحاكم:451/3، وصَحَّحَهُ ووافقه الذهبي)
’’ہم ایسے لوگ تھے کہ پتھر اور بتوں کی عبادت کرتے تھے، جب ہم پہلے پتھر سے زیادہ خوبصورت پتھر دیکھتے تو اسے پھینک دیتے اور اس دوسرے کو لے لیتے، ہم رب کو نہیں پہچانتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ہماری طرف ہماری ہی جنس سے رسول بھیجا اس نے ہمیں اسلام کی طرف بلایا تو ہم نے اس کی پیروی کی۔‘‘
407- سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نجاشی کی طرف وفد بھیجنے کے متعلق روایت ہے کہ سیدنا جعفر بن ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے نجاشی سے کہا:
((أَيُّهَا الْمَلِكُ كُنَّا قَوْمًا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ، وَنَأْكُلُ الْمَيْتَةَ، وَنَأْتِي الْفَوَاحِشَ، وَنَقْطَعُ الْأَرْحَامَ وَنَسِيءُ الْجِوَارَ يَأْكُلُ الْقَوِيُّ مِنَّا الضَّعِيفَ، فَكُنَّا عَلٰى ذَلِكَ حَتّٰى بَعَثَ الله إِلَيْنَا رَسُولًا مِنَّا نَعْرِفُ نَسَبَهُ وَصِدْقَهُ وَأَمَا نَتَهُ وَعَفَافَهُ، فَدَعَانَا إِلَى اللهِ لِنُوَحِّدَهُ وَنَعْبُدَهُ وَنَخْلَعَ مَا كُنَّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُونِهِ مِنَ الْحِجَارَةِ وَالْأَوْثَانِ وَأَمَرْنَا بِصِدْقِ الْحَدِيثِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَصِلَةِ الرَّحِمِ وَحُسْنِ الْجِوَارِ وَالْكَفِّ عَنِ الْمَحَارِمِ وَالدِّمَاءِ وَنَهَانَا عَنِ الْفَوَاحِشِ وَقَوْلِ الزُّورِ وَأَكُلِ مَالِ الْيَتِيمِ وَقَذْنِ الْمُحْصَنَةِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَعْبُدَ اللهَ وَحْدَهُ لَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَأَمَرَنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّيَامِ قَالَ: فَعَدَّدَ عَلَيْهِ أُمُورَ الإِسْلَامِ فَصَدَّقْنَاهُ وَآمَنَّا بِهِ وَاتَّبَعْنَاهُ عَلٰى مَا جَاءَ بِهِ فَعَبَدْنَا اللهَ وَحْدَهُ فَلَمْ نُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا وَّحَرَّمْنَا مَا حَرَّمَ عَلَيْنَا وَأَحْلَلْنَا مَا أَحَلَّ لَنَا)) (أخرجه أحمد: 1740، 22498، بإسناد حسن، وأبو نعيم في الحلية:11615، وفي دلائل النبوة: 194، والبيهقي في الدلائل:301، 304/2)
’’اے بادشاہ! ہم جاہلیت میں بھٹکے ہوئے لوگ تھے، بتوں کی عبادت کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، بے حیائی کا ارتکاب کرتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے اور ہمسائیگی کے حقوق کا خیال اور لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ طاقت ور کمزور کو کھا جاتا تھا، ہم اسی حالت پر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کے نسب، صدق، امانت اور پاک دامنی کو ہم جانتے تھے، اس نے ہمیں اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف بلایا اور جن پتھروں اور بتوں کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد عبادت کرتے تھے انھیں چھوڑنے کا حکم دیا۔ اور ہمیں سچائی، امانت کی ادائیگی، صلہ رحمی اور ہمسائے سے اچھے سلوک کا حکم دیا۔ حرمتوں کو پامال کرنے اور خونریزی سے ہمیں منع فرمایا، ہمیں فواحش، جھوٹی بات، یتیم کے مال کھانے اور پاک دامن عورتوں پر بہتان لگانے سے منع فرمایا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہمیں نماز، زکاۃ اور روزے کا حکم دیا اور اسے مزید چند دیگر امور اسلام بتائے تو ہم نے اس کی تصدیق کی، اس پر ایمان لائے اور جو وہ لائے اس پر اس کی پیروی کی۔ تو ہم نے اللہ وحدہ کی عبادت کی، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا اور ہم نے ہر اس چیز کو حرام مانا جسے اس نے ہم پر حرام قرار دیا اور ہم نے ہر اس چیز کو حلال سمجھا جسے ہمارے لیے اس نے حلال قرار دیا۔‘‘
408۔ ربعی بن حراش بنو عامر کے ایک شخص سے بیان کرتے ہیں کہ اس نے رسول اللہﷺ سے کہا:
آپ کس چیز کے ساتھ ہمارے پاس تشریف لائے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
((لَمْ آتِكُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ أَتَيْتُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنْ تَدَعُوا اللَّاتَ وَالْعُزْى)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ 23127)
’’میں تمھارے پاس خیر ہی کے ساتھ آیا ہوں۔ میں تمھارے پاس یہ لایا ہوں کہ تم اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرو اور لات و عزیٰ کو چھوڑ دو۔ ‘‘
توضیح و فوائد: لات، منات، عزی، ہبل اور ذو الخلصہ وغیرہ وہ طاغوت تھے جن کی جاہلیت میں اہل عرب عبادت کرتے تھے۔ لات: ایک نیک آدمی کی مورتی تھی، جو حاجیوں کو ستو پلاتا تھا۔ طائف میں بنو ثقیف کے لوگ اس کی پوجا کرتے تھے۔ اسے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے توڑ کر چلایا تھا۔ منات: اہل عرب کا سب سے پرانا بت تھا جو بحیرہ احمر کے ساحل پر قدید کے قریب مشکل میں نصب تھا۔ اوس خزرج اور دیگر کئی قبائل اس کی پوجا کرتے تھے۔ اسے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے توڑا تھا۔ عزٰی: یہ وادی نحلہ میں ببول کا ایک درخت تھا، اس کے اندر ایک شیطانہ رہتی تھی۔ بنو غطفان وغیرہ اس کی پوجا کرتے تھے۔ اسے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے توڑا اور اس کے مجاور کو قتل کر دیا تھا۔ ہبل: یہ قریش کا سب سے بڑا بت تھا جو انھوں نے بیت اللہ کے اندر رکھا ہوا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے توڑ دیا تھا۔ ذو الخلصہ: یہ بت تبالہ کے مقام پر خثم قبیلے کے ایک گھر میں تھا۔ اسے کعبہ یمانیہ کہتے تھے۔ نبی ﷺ نے اسے توڑنے کے لیے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو روانہ فرمایا تھا۔
409۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ غزوہ اُحد کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ابوسفیان نے کہا: آج بدر کے دن کا بدلہ ہو گیا، یقینًا لڑائی تو ڈول کی طرح ہے۔ بلا شبہ تمھارے کچھ مردوں کے ناک، کان کاٹے گئے ہیں، البتہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا لیکن میں اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد ابو سفیان رجز پڑھنے لگا: اونچا ہو جا اے ہبل تو اونچا ہو جا اے ہبل۔
نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے فرمایا:
((اَلَا تُجِيْبُوه)) ’’تم اسے جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘
صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا جواب دیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
((قُوْلُوْا: اللهُ أَعْلٰی وَأَجَلٌ)) ’’تم یوں کہو: سب سے اونچا ہے وہ اللہ سب سے رہے گا وہ اجل‘‘
پھر ابوسفیان نے یہ مصرعہ پڑھا: ہمارا عزیٰ ہے تمھارے پاس عزی کہاں۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
((اَلَا تُجِيْبُوْهُ)) ’’تم اسے جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کیا جواب دیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا:
((قُولُوا: اللهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَى لَكُمْ)) ’’یوں کہو: ہمارا مولی ہے اللہ تمھارا مولی ہے کہاں؟‘‘(أَخْرَجَةُ البُخَارِي:3039، 3986، 4061، 4043، 4067)
410۔ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک صحابی، جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پڑوسی تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو سیدہ خدیجہ سے فرماتے ہوئے سنا:
((أَيْ خَدِيجَةُ! وَاللهِ! لَاأَعْبُدُ اللَّاتَ أَبَدًا، وَاللهِ! لَا أَعْبُدُ الْعُزّٰى أَبَدًا)) (أَخْرَجَهُ أَحَمدٌ: 17947، 23067، بإسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين غير صحابية، وإبهامه لا یضر)
’’خدیجہ اللہ کی قسم! میں کبھی بھی لات کی عبادت نہیں کروں گا، اللہ کی قسم! میں کبھی بھی عزٰی کی عبادت نہیں کروں گا۔‘‘
سیدہ خدیجہ کہتیں: (لوگو!) لات کو چھوڑ دو اور عزٰی کو چھوڑ دو۔
411۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ اس عزٰی کی عبادت کرتے تھے جو ان کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ سفید پتھر ہوتا تھا، جب انھیں اس پتھر سے زیادہ خوبصورت مل جاتا تو وہ اسے پھینک دیتے اور اس سے زیادہ خوبصورت پتھر کی عبادت شروع کر دیتے، اس پر اللہ تعالی نے (سورہ فرقان 43:25کی) یہ آیت نازل فرمائی: ﴿أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوَاهُ﴾ ’’(اے نبی! کیا آپ۔ پ نے وہ شخص دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا اللہ بنا لیا۔ ‘‘ (أخرجه ابن أبي حاتم: 2699/8، وأورده السيوطي في ا لدر المنثور: 72/5)