بتوں اور مورتیوں کو توڑنا واجب ہے

412۔سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اسلام قبول کرنے کے قصے کے متعلق بیان کرتے ہیں: جب میں جاہلیت کے دور میں تھا تو میں (یہ بات) سمجھتا تھا کہ بتوں کی عبادت کرنے والے لوگ گمراہ ہیں اور وہ کسی دین اور مذہب پر نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھر میں نے مکہ کے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ بہت سی باتوں کی خبر دیتا ہے، میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کے پاس آگیا، اس زمانے میں رسول اللهﷺ چھپ چھپا کر دعوت الی اللہ کا فريضہ انجام دے رہے تھے، آپ کی قوم (کے لوگ) آپ کے خلاف دلیر اور جری تھے۔ بالآخر میں اس راز کو معلوم کرنے کے لیے مکہ میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ سے پوچھا: آپ کیا ہیں؟

آپﷺ نے فرمایا: ((اَنَا نَبِیٌّ)) ’’میں نبی ہوں۔ ‘‘

پھر میں نے پوچھا: نبی کیا ہوتا ہے؟

آپﷺ نے فرمایا: ((أَرْسَلَنِي الله)) ’’مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔

میں نے کہا: آپ کو کیا (پیغام) دے کر بھیجا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((أَرْسَلَنِي بِصِلَةِ الْأَرْحَامِ وَكَسْرِ الْأَوْثَانِ، وَأَنْ يُّوَحَّدَ اللهُ لَا يُشْرَكُ بِهِ شَيْءٌ))

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے صلہ رحمی، بتوں کو توڑنے، اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے (کا پیغام) دے کر بھیجا ہے۔‘‘(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:832)

توضیح و فوائد: نبیﷺ کی بعثت کا مقصد بت پرستی کا خاتمہ کر کے لوگوں کو توحید کی طرف لانا تھا۔ آپ ‎ﷺ نے اس مشن کے تحت دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا۔ آپﷺ نے دعوت اسلام کے آغاز میں بتوں کو  نہیں توڑا لیکن جب اسلام پورے عرب میں پھیل گیا اور اسلامی ریاست قائم ہو گئی تو آپ نے حکم جاری کیا کہ اسلامی ریاست میں کوئی بت خانہ نہ رہنے دیا جائے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان باطل معبودوں کا جو خوف ہے وہ ختم ہو جائے اور ان کے لیے اسلام قبول کرنا آسان ہو جائے، اس لیے یہ اسلامی ریاست کا اولین فرض ہے کہ وہ بت پرستی کے اڈے ختم کرے۔ کسی شخص کو انفرادی طور پر یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔

413۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ﷺ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:  نبی ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ (360) بہت تھے۔ انھیں آپ اپنے ہاتھ کی چھڑی سے مارتے اور فرماتے:

﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ﴾ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ ‘‘  (بنی اسرائیل: 81:17) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 2478 ،4287 ،4720، ومسلم:1781)

414۔ سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا: ((لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيلَ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 3225، وَمُسْلِمٌ:2106)

’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر یا مجسمہ وغیرہ ہو۔‘‘

توضیح و فوائد:  مسلمانوں کے گھروں میں یہ چیزیں اللہ کی رحمت سے دوری کا باعث ہیں۔ چاہے مورتیاں تعظیم کے لیے نہ ہوں، پھر بھی ان سے بچنا ضروری ہے۔ اسی طرح گھروں میں مختلف جانوروں کی پینٹنگ یا مورتیاں وغیرہ رکھنا بھی حرام ہے۔

415۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ایک گھر تھا جسے ذو الخلصہ، کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ کہا جاتا تھا۔ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

((أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ؟)) ’’تم مجھے ذوالخلصہ کو تباہ کر کے کیوں خوش نہیں کرتے؟‘‘

چنانچہ میں (قبیلۂ احمس کے)  ایک سو پچاس سوار لے کر گیا اور اسے توڑ پھوڑ دیا اور اس کے مجاوروں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد میں نے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے  ہمارے اور قبیلہ احمس کے لیے دعا فرمائی۔ (أَخْرَجَةُ البُخَارِي: 3020، 3076، 3823، 4357، 6333، ومسلم:2476)

416۔ سیدنا ابوطفیل بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کر لیا تو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو (وادی) نحلہ کی طرف بھیجا، وہاں پر عزیٰ تھی، سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ وہاں آئے، ٹیلوں پر کیکر کے درخت تھے تو انھوں نے انھیں کاٹا اور وہاں موجود کمرے کو بھی ڈھا دیا، پھر نبیﷺ کے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺکو خبر دی۔

آپﷺ نے فرمایا:((ارْجِعْ فَإِنَّكَ لَمْ تَصْنَعْ شَيْئًا)) ’’واپس جاؤ، تم نے کچھ نہیں کیا۔‘‘

 سیدنا خالد رضی اللہ تعالی عنہ پھر وہاں گئے، جب بت خانے کے مجاوروں نے انھیں دیکھا تو دور پہاڑوں میں بھاگ گئے اور کہنے لگے: عزیٰ! اسے پاگل اور دیوانہ بنا دے، اے عزی! اسے واپس جانے پر مجبور کر دے ورنہ تجھے ذلت کے ساتھ موت آئے۔

 سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ اس کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک ننگی عورت، اپنے بالوں کو کھولے ہوئے اپنے سر پر مٹی ڈال رہی تھی۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے اس پر تلوار کے وار کر کے اسے قتل کر دیا، پھر نبیﷺ کے پاس آئے اور خبر دی۔

آپ ﷺ نے فرمایا:((تِلْكَ العُزّٰی)) ’’یہ عزیٰ تھی۔ ‘‘(أخرجه أبو يعلى: 902، بإسناد صحيح)

417۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے مکہ مکرمہ میں فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي: 2236، 4296، 4633، ومُسْلِم:1581)

’’اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی خرید و فروخت کو حرام کر دیا ہے۔‘‘