روز قیامت ہر امت کو اس کے معبود کے ساتھ ملائے جانے کا بیان
431۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا:
((هَلْ تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ إِذَا كَانَتْ صَحْوًا؟))
’’ مطلع صاف ہونے کی صورت میں کیا تمھیں سورج اور چاند دیکھنے میں کوئی وقت محسوس ہوتی ہے؟“
ہم نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((فَإِنَّكُمْ لَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ يَوْمَئِذٍ إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَتِهِمَا))
’’پھر یقینًا تمھیں اپنے رب کے دیدار میں کوئی تکلیف پیش نہیں آئے گی جیسے تمھیں سورج اور چاند دیکھنے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی۔ “
پھر فرمایا:
((يُنَادِي مُنَادٍ لِيَذْهَبْ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ فَيَذْهَبُ أَصْحَابُ الصَّلِيبِ مَعَ صَلِيبِهِمْ وَأَصْحَابُ الْأَوْثَانِ مَعَ أَوْثَانِهِمْ وَأَصْحَابُ كُلِّ آلِهَةٍ مَعَ آلِهَتِهِمْ حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ وَغُبَّرَاتٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ ثُمَّ يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ تُعْرَضُ كَأَنَّهَا سَرَابٌ فَيُقَالُ لِلْيَهُودِ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ قَالُوا كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ فَيُقَالُ كَذَبْتُمْ لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلَا وَلَدٌ فَمَا تُرِيدُونَ قَالُوا نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا فَيُقَالُ اشْرَبُوا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ ثُمَّ يُقَالُ لِلنَّصَارَى مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ فَيَقُولُونَ كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ فَيُقَالُ كَذَبْتُمْ لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلَا وَلَدٌ فَمَا تُرِيدُونَ فَيَقُولُونَ نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا فَيُقَالُ اشْرَبُوا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ فَيُقَالُ لَهُمْ مَا يَحْبِسُكُمْ وَقَدْ ذَهَبَ النَّاسُ فَيَقُولُونَ فَارَقْنَاهُمْ وَنَحْنُ أَحْوَجُ مِنَّا إِلَيْهِ الْيَوْمَ وَإِنَّا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِيَلْحَقْ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ وَإِنَّمَا نَنْتَظِرُ رَبَّنَا ))
(أَخْرَجَةُ البُخَارِي:4919، 7439، ومُسْلِم:182)
’’ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجا کیا کرتی تھی۔ جب صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ، بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ اور تمام معبودان باطلہ کی پوجا پاٹ کرنے والے اپنے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالی کی عبادت کرنے والے نیک و بد اور بچے کھچے اہل کتاب باقی رہ جائیں گے۔ اس کے بعد جہنم ان کے سامنے لائی جائے گی جو سراب کی طرح ہو گی، پھر یہود سے پوچھا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیز کی پوجا کرتے تھے۔ انھیں کہا جائے گا: تم جھوٹے ہو، اللہ تعالیٰ کی بیوی ہے نہ اولاد۔ اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم پانی پینا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے سیراب کیا جائے۔ ان سے کہا جائے گا: جاؤ پانی پیوتو وہ دوزخ میں گر پڑیں گے، پھر نصاری سے پوچھا جائے گا، تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے: ہم اللہ کے بیٹے میچ کی پوجا کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ اس کی اولاد ہی ہے۔ اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ جواب دیں گے: ہم پانی سے سیراب ہونا چاہتے ہیں۔ ان سے کہا جائے گا: جاؤ پیوتو وہ بھی دوزخ میں گر پڑیں گے یہاں تک کہ اللہ کی عبادت کرنے والے نیک و بد باقی رہ جائیں گے۔ ان سے کہا جائے گا: تمھیں یہاں کس چیز نے روک رکھا ہے جبکہ باقی سب لوگ اپنے اپنے معبودوں کے ساتھ جاپہنچے ہیں؟ وہ کہیں گے: ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہو گئے تھے کہ ہمیں ان کی زیادہ ضرورت تھی، یعنی ہم دنیا میں ان کے ساتھی نہ تھے اور آخرت میں بھی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ بلاشبہ ہم نے ایک اعلان کرنے والے کو اعلان کرتے ہوئے سنا: ہر شخص اس کے ساتھ چلا جائے جس کی وہ عبادت کرتا تھا۔ (ہم تو اپنے رب کی عبادت کرتے تھے) اس لیے ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:
((فَيَأْتِيهِمُ الْجَبَّارُ فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا))
’’پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انھوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا۔ وہ کہے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: واقعی تو ہمارا رب ہے۔‘‘
432۔ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((حَتّٰى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ تَعَالٰى مِنْ بَرٍّ وَفَاجِرٍ، أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِي أَدْنٰى صُورَةٍ مِنَ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا، قَالَ: فَمَاذَا تَنْتَظِرُونَ؟ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، قَالُوا: يَا رَبَّنَا فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا أَفْقَرَ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ وَلَمْ نُصَاحِبُهُمْ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ، لَا نُشْرِكَ بِاللهِ شَيْئًا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا حَتّٰى إِنَّ بَعْضَهُمْ لَيَكَادُ أَنْ يَّنْقَلِبَ، فَيَقُولُ: هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ فَتَعْرِفُونَهُ بِهَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ فَيُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ، فَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ لِلهِ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِهِ إِلَّا أَذِنَ اللهُ لَهُ بِالسُّجُودِ، وَلَا يَبْقٰى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ اتَّقَاءً وَرِيَاءً، إِلَّا جَعَلَ الله ظَهْرَهُ طَبَقَةً وَاحِدَةً، كُلَّمَا أَرَادَ أَنْ يَّسْجُدَ خَرَّ عَلَى قَفَاهُ، ثُمَّ يَرْفَعُونَ رَؤُوسَهُمْ، وَقَدْ تَحَوَّلَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَقَالَ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٍ:183)
’’حتی کہ جب ان کے سوا کوئی نہ بچے گا جو اللہ تعالی (ہی) کی عبادت کرتے تھے، نیک ہوں یا بد (تو) سب جہانوں کا رب سبحانہ و تعالیٰ ان کی دیکھی ہوئی صورت سے کم تر (یا مختلف) صورت میں آئے گا (اور) فرمائے گا: تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہر امت اس کے پیچھے جارہی ہے جس کی وہ عبادت کرتی تھی، وہ (سامنے ظاہر ہونے والی صورت کے بجائے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر) التجا کریں گے: اے ہمارے رب! ہم سب دنیا میں ان کی شدید ضرورت ہونے کے باوجود، ان سے الگ ہو گئے، ہم نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ وہ کہے گا: میں تمھارا رب ہوں، وہ کہیں گے: ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگ بدلنے کے قریب ہوں گے تو وہ فرمائے گا: کیا تمھارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی (طے) ہے جس سے تم اسے پہچان سکو؟ وہ جواب دیں گے: ہاں! تو پنڈلی ظاہر کر دی جائے گی، پھر کوئی ایسا شخص نہ بچے گا جو اپنے دل سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا مگر اللہ اسے سجدے کی اجازت دے گا اور کوئی ایسا نہ بچے گا جو جان بچانے کے لیے یا دکھاوے کے لیے سجدہ کرتا تھا، مگر اللہ تعالی اس کی پشت کو ایک ہی مہرہ بنا دے گا، جب بھی وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر پڑے گا، پھر وہ (سجدے سے) اپنے سر اٹھائیں گے اور اللہ تعالی اپنی اس صورت میں آچکا ہو گا جس میں انھوں نے اسے (سب سے) پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور وہ فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ تو وہ کہیں گے: (ہاں) تو ہی ہمارا رب ہے۔‘‘
433۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہم روز قیامت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ((هَلْ تُمَارُونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ دُونَهُ سَحَابٌ؟))
’’چودھویں رات، جس میں کوئی بادل نہ ہو، کے چاند کو دیکھنے میں تمھیں کوئی شک ہوتا ہے؟‘‘
صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((فَهَلْ تُمَارُونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ))
’’تو کیا تم آفتاب (کے دیکھنے) میں شک کرتے ہو جبکہ اس پر بادل نہ ہوں؟‘‘
صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ہرگز نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
((فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذٰلِكَ، يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعُ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَّتَّبِعُ الشَّمْسَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَّتَّبِعُ الْقَمَرَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هٰذِهِ الْأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَيَقُولُ أَنَا رَبِّكُمْ، فَيَقُوْلُوْنَ: هٰذَا مَكَانُنَا حَتّٰى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ فَيَأْتِيهِمُ اللهُ فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُوْلُوْنَ: أَنْتَ رَبُّنَا..)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:806، 6573، ومُسلم:182)
’’اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالی فرمائے گا: جو (دنیا میں) جس کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے، چنانچہ کوئی تو سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور کوئی چاند کے پیچھے ہولے گا اور کوئی بتوں اور شیاطین کے پیچھے چلے گا۔ باقی اس امت کے (مسلمان) لوگ رہ جائیں گے جن میں منافق بھی ہوں گے۔ ان کے پاس اللہ تعالیٰ ایک نئی صورت میں تشریف لائے گا اور فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ عرض کریں گے (ہم تجھے نہیں پہچانتے ) ہم اسی جگہ کھڑے رہیں گے۔ جب ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے، پھر اللہ تعالی ان کے پاس اپنی اصلی شکل وصورت میں جلوہ گر ہوگا اور فرمائے گا کہ میں تمھارا رب ہوں۔ تو وہ کہیں گے: ہاں تو ہمارا رب ہے۔‘‘
توضیح وفوائد: دنیا میں جیتی جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالی کو کسی نے دیکھا ہے نہ دیکھے گا، البتہ خواب میں نبی اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے اور قیامت کے دن تمام اہل ایمان اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار پر اور اس کی صفات پر یقین رکھا جائے اور دنیا میں اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے۔