ظاہری اسباب اور حسی امور میں مخلوق سے ان چیزوں کا سوال کرنا یا پناہ مانگنا جائز ہے جس کا ان کے پاس اختیار ہے، تاہم ان پر کلی اعتماد حرام ہے، اور یہ اعتقاد رکھنا فرض ہے کہ یہ محض سبب ہے، جو بذات خود کوئی تاثیر نہیں رکھتا، کسی فوت شدہ، غیر موجود یا کسی سے ایسی چیز کے بارے میں مدد مانگنا یا پناہ طلب کرنا جو صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، شرک ہے

538۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، میں ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے سوار تھا، آپ ﷺ نے فرمایا:

((يَا غُلَامًا إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ:  احْفَظِ اللهَ يَحْفَظْكَ، إِحْفَظِ اللهَ تَجِدُهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰى أَنْ يَّنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ لَكَ، وَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلٰى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ، وَجَفَّتِ الصُّحُفُ )) (أخرجه الترمذي:2516)

’’اے لڑکے! میں تجھے چند باتیں سکھاتا ہوں، تو اللہ کی حفاظت (اس کے اوامر و نواہی کی پابندی) کر وہ تیری حفاظت فرمائے گا، اللہ کا دھیان (اس کے حقوق کا خیال) رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو مانگے تو صرف اللہ سے مانگ اور جب تو مدد طلب کرے تو اللہ سے مدد مانگ اور خوب اچھی طرح جان لے کہ اگر پوری امت اس بات پر متفق ہو جائے کہ وہ مجھے نفع پہنچائیں تو وہ تجھے صرف اسی چیز میں نفع  پہنچا سکیں گے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ وہ تجھے کسی چیز میں نقصان پہنچائیں تو وہ تجھے صرف اسی چیز سے نقصان پہنچا سکیں گے جو اللہ نے تیرے خلاف لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔‘‘

539۔ سیدنا ابو ہریرہ   رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے:

((قَالَ اللهُ تَعَالَى:  قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ . فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ ﴿اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ قَالَ اللهُ تَعَالَى:  حَمِدَنِي عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ: ﴿الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ قَالَ اللهُ تَعَالَى:  أَثْنَى عَلَىَّ عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ:  ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ قَالَ:  مَجَّدَنِي عَبْدِى، فَإِذَا قَالَ:  ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ قَالَ:  هٰذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ:  ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ قَالَ:  هٰذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 395)

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے اور میرے بندے نے جو مانگا، اس کا ہے، جب بندہ ﴿الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ’’سب تعریف اللہ ہی کے لیے جو جہانوں کا رب ہے‘‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  میرے بندے نے میری تعریف کی۔ اور جب وہ کہتا ہے:   ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ﴾ ’’سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہمیشہ مہربانی کرنے والا‘‘ تو اللہ تعالی فرماتا ہے:  میرے بندے نے میری ثنا بیان کی، پھر جب وہ کہتا ہے:  ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّين﴾ ’’جزا کے دن کا مالک‘‘ تو (اللہ) فرماتا ہے:  میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ پھر جب وہ کہتا ہے:  ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْعِينُ﴾ ’’ہم تیری ہی بندگی کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں تو  (اللہ) فرماتا ہے:  یہ  (حصہ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو مانگا، اس کا ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے:  ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ))

’’ہمیں راہ راست دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ غضب کیے گئے لوگوں کی ہو اور نہ گمراہوں کی‘‘ تو  (اللہ) فرماتا ہے:  یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کا ہے جو اس نے مانگا۔‘‘

540۔ سیدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:

((يَا مُعَاذُ! وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ))

’’معاذ اللہ کی قسم! میں تم سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں، اللہ کی قسم! میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں۔‘‘

پھر فرمایا:

((أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ! لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ تَقُولُ:  اَللّٰهُمَّ أَعِنِّي عَلٰى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:  22119، 22126، وأبوداود:  1522، والنسائي في المجتبى:  1304، وفي عمل اليوم والليلة:  109، 118، والبزار في مسنده:2661، وابن خزيمة:751، وابن حبّان:2020، 2021، والطبراني في الکبیر: 110/20، و في الدعاء: 654، و الحاكم: 273/1، 273، 274/3)

’’معاذ! میں تمھیں ایک وصیت کرتا ہوں کہ تم ہر نماز کے بعد یہ کلمات پڑھنا ہرگز نہ چھوڑنا:  اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور حسن عبادت پر میری مدد فرما۔‘‘

541۔ سیدنا مخارق رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:  ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرا مال چھینا چاہتا ہے۔  (تو میں کیا کروں؟) آپ ﷺ نے فرمایا:

((ذكِّرْهُ بِالله)) ’’اسے اللہ تعالیٰ کے نام سے نصیحت کرو  (اس کی وعید سے ڈراؤ)۔‘‘

اس نے کہا:  اگر وہ نصیحت نہ مانے تو ؟ آپﷺ نے فرمایا:

((فَاسْتَعِنْ عَلَيْهِ مَنْ حَوْلَكَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ))

’’اپنے آس پاس کے مسلمانوں سے اس کے خلاف مدد حاصل کرو۔‘‘

اس نے کہا:  اگر میرے آس پاس کوئی مسلمان نہ ہو کی مسلمان نہ ہوں تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

((فَاسْتَعِنْ عَلَيْهِ السُّلْطَانَ)) ’’اس کے خلاف حاکم سے مدد طلب کرو۔‘‘

اس نے کہا:  اگر حاکم بھی مجھ سے دور ہو؟ فرمایا:

((قَاتِلَ دُونَ مَالِكَ حَتّٰى تَكُونَ مِنْ شُهَدَاءِ الْآخِرَةِ، أَوْ تَمْنَعَ مَالَك)) (أخرجه النسائي: 4086)

’’ پھر اپنے مال کی حفاظت کے لیے اس سے لڑو یہاں تک کہ تم  (مارے جاؤ اور) آخرت میں شہید بن جاؤ یا اپنے مال کو بچالو۔‘‘

توضیح و فوائد:  بغیر اسباب کے مدد کرنا اللہ تعالی ہی کا خاصا ہے۔ بندے بظاہر اپنی استطاعت کے مطابق صرف معاونت کر سکتے ہیں اور ان کی معاونت بھی انسان کو صرف اس صورت میں فائدہ پہنچا سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ چاہے۔ اللہ پر بھروسا رکھتے ہوئے کسی سے ایسی مدد لینا جس کا کوئی آدمی اختیار رکھتا ہو، جائز ہے۔ جن احادیث میں اللہ کے علاوہ استعانت طلب کرنے کا جواز ہے وہ ایسے ہی ظاہری امور کے سلسلے میں ہے۔ جہاں تک اولاد، صحت، رزق وغیرہ کا تعلق ہے تو اس کا اختیار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ اللہ کے غیر سے ان چیزوں کا سوال کرنا شرک ہے۔

542۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ مشرکین میں سے ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت

میں حاضر ہوا کہ وہ آپ کے ساتھ مل کر کفار کے خلاف جہاد کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:

((اِرْجِعُ إِنَّا لَا نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:  1817، وأبوداؤد:  2732، والترمذي:1558، وأحمد:25158، وابن حِبّان:4726، وابن ماجه:2832)

’’واپس چلے جاؤ، ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے۔“

543۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جمعے کے دن رسول اللہﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا جو دارالقضاء کی طرف تھا۔ وہ رسول اللہﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا:  اللہ کے رسول ﷺ مال مویشی تباہ ہو گئے اور راستے کٹ گئے ہیں، اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی:

((اللَّهُمَّ أَغِثْنَا اَللّٰهُمَّ أَغِثْنَا اَللّٰهُمَّ أَغِثْنَا))

’’اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔ اے اللہ ! ہم پر بارش برسا۔‘‘

 سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:  اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک بادل کا چھوٹا بڑا ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک چھوٹا سا بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے درمیان آیا تو پھیل گیا، پھر برسنے لگا۔ اللہ کی قسم ! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا، پھر اگلے جمعے ایک شخص اسی دروازے سے داخل ہوا جبکہ رسول اللہﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ آپ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا:  اللہ کے رسول ! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے، اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم سے بارش روک لے۔

انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی:

((اَللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اَللّٰهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالفِرَابِ وَ بُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ))

’’اے اللہ! اب یہ بارش ہمارے ارد گرد تو ہولیکن ہم پر نہ برے۔ اے اللہ ! ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر بارش برسا‘‘

سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:  بارش فورًا رک گئی اور ہم  (نماز جمعہ کے بعد) دھوپ میں چل کر گئے۔ (أَخْرَجَهُ البخاري:1013، 1014، 1021، 1033، ومسلم:897)

 توضیح و فوائد:  اللہ کے نیک بندوں سے دعا کروانا انھیں پکارنا نہیں ہے بلکہ یہ تو دو جائز وسیلہ ہے جسے اختیار کرنے کا شریعت نے خود حکم دیا ہے۔

544۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی  اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بدر کے دن اپنے صحابہ کرام کی طرف دیکھا، ان کی تعداد تین سو سے کچھ اوپر تھی۔ مشرکین کو دیکھا تو ان کی تعداد ایک ہزار سے کچھ زیادہ تھی، چنانچہ نبی کریمﷺ قبلہ رخ ہوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے، جبکہ آپ ﷺ چادر اور تہبند زیب تن کیے ہوئے تھے، پھر فرمایا:

((اَللّٰهُمَّ! أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي اَللّٰهُمَّ أَنْجِرْ مَا وَعَدْتَنِي، اَللّٰهُمَّ  إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكَ هٰذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الإِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا))

’’یا اللہ! وہ مدد کہاں ہے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا ؟ اے اللہ ! جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما، الله! اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو زمین پر پھر کبھی تیری عبادت نہیں ہوگی۔‘‘

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:  آپﷺ لگا تار اپنے رب تعالیٰ سے مدد مانگتے رہے اور دعائیں کرتے رہے یہاں تک کہ  (آپ کے کندھوں سے) چادر نیچے گرگئی، سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعال یعنہ آئے اور آپ کی چادر پکڑی اور آپ کو اوڑھا دی، پھر پیچھے سے آپ کو چمٹ گئے اور کہا:  اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کی اپیلیں اور دعائیں خاصی ہوگئیں، یقینًا وہ جلد ہی آپ سے کیے ہوئے وعدے پورے فرمائے گا، تو اللہ عز و جل نے یہ آیت نازل فرمادی:

﴿اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِیْنَ۝﴾ (الأنفال9:8)

؛؛جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمھاری وہ فریاد قبول فرما لی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کروں گا جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔‘‘

 پھر جب بدر کا دن آیا اور دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو اللہ عز وجل نے مشرکین کو شکست دی، مشرکین میں سے ستر  (70) آدمی مقتول ہوئے اور ستر ہی قیدی بنے۔“

545۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:  آؤ، اس منافق  (عبد اللہ بن ابی) سے چھٹکارا پانے کے لیے رسول اللہ ﷺ سے مدد لینے چلیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:    ((إِنَّهُ لَا يُسْتَغَاتُ بِي، إِنَّمَا يُسْتَغَاتُ بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ)) . (أورده الهيثمي في المجمع:159/10، ونسبه للطبراني، وأورده أيضًا:40/8، بلفظ:  إنه لا يقام لي، إنما يقام لله. ونسبه للطبراني أيضا، ولم نقف عليه عنده، وهو في الطبقات الكبرى: 387/1، ومسند أحمد:22706)

’’حقیقت یہ ہے کہ مدد مجھ سے نہیں بلکہ صرف اللہ عز وجل ہی سے مانگی جائے۔‘‘

546۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، وَهَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ)) (أخرجه أحمد: 3830،  و ابن ماجه:808)

’’اے اللہ ! بے شک میں شیطان مردود سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اس کے ہمز، نفخ اور نثت سے بھی۔‘‘

 راوی کہتے ہیں، ہمز سے مراد اس کی دیوانگی اور جنوں ہے، نفث سے مراد اس کا شعر ہے اور نفخ سے  مراد اس کا تکبر ہے۔

547- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((سَتَكُونُ فِتَنٌ، اَلْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي. وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفُهُ، وَمَنْ وَجَدَ فِيهَا مَلْجَا أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:  3601،  7081،  7082، ومسلم:2886)

’’عنقریب ایسے فتنے رونما ہوں گے کہ ان میں بیٹھ رہنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ جو شخص ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا وہ  (فتنے) اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ایسے حالات میں جس کسی کو کوئی بھی جائے پناہ یا تحفظ کی جگہ مل جائے تو اسے اس میں پناہ لے لینی چاہیے۔‘‘

توضیح و فوائد:  مطلب یہ ہے کہ ان فتنوں سے بچنے کی جو بھی جائز صورت ممکن ہو اسے اختیار کیا جائے حتی کہ اگر کوئی آدمی معاون بن سکتا ہے تو اس کے ہاں پناہ لے لی جائے یا کسی جگہ چھپنا ممکن ہو تو چھپ جائے۔