جو اسماء وصفات اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں مخلوق کے لیے ان کا استعمال حرام ہے
648۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ أَخْنَعَ اسْمٍ عِنْدَاللهِ رَجُلٌ يُسَمّٰى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ))
’’اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بدترین اور ذلیل ترین نام اس شخص کا نام ہے جو اپنا نام شہنشاہ رکھے۔‘‘
صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ((أَغْيَطُ رَجُلٍ عَلَى اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَخْبَتُهُ وَأَغْيَظُهُ عَلَيْهِ رَجُلٌ كَانَ يُسَمًّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ، لَا مُلِكَ إِلَّا اللهُ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2143)
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ گندا اور غضب کا مستحق شخص وہ ہوگا جو اپنے آپ کو شہنشاہ کہلاتا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔‘‘
649۔ سیدنا ہانی بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ اپنی قوم کا وفد لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺنے ان لوگوں کو سنا وہ اسے ابو الحکم کی کنیت سے پکارتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا:
((إِنَّ اللهَ هُوَ الْحَكَمُ وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ، فَلِمَ تُكَنّٰى أَبَا الْحَكَمِ؟)) (أَخْرَجَهُ أبو داود:4955، والنسائي:5389)
’’اصل حکم (فیصلہ کرنے والا) تو اللہ ہی ہے۔ اور اس کا فیصلہ چلتا ہے۔ پھر تمھیں ابو الحکم کیوں کہا جاتا ہے؟‘‘
میں نے عرض کی: بے شک میری قوم کے لوگ جب کسی چیز میں اختلاف کرتے ہیں تو میرے پاس آجاتے ہیں اور میں ان کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہوں اور پھر وہ دونوں فریق راضی ہو جاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((مَا أَحْسَنَ هٰذَا فَمَا لَكَ مِنَ الْوَلَدِ؟))
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تیرے کتنے بیٹے ہیں؟“
میں نے کہا: شریح، مسلم اور عبداللہ۔
آپﷺ نے پوچھا: ((فَمَنْ أَكْبَرُ هُمْ؟)) ’’ان میں سے بڑا کون ہے؟‘‘
میں نے کہا: شریح۔ آپﷺ نے فرمایا:
((فَأَنْتَ أَبُو شُريح)) ’’تو تم ابو شریح ہو‘‘
یعنی آج سے تمھاری کنیت ابو الحکم کی بجائے ابو شریح ہے۔
650۔ سیدنا حکم بن سعید بن عاصی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔
آپﷺ نے پوچھا: ((ما اسمك؟)) ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘
میں نے کہا: حکم۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَنتَ عَبْدُ اللهِ)) ’’آج سے تیرا نام عبد اللہ ہے۔‘‘(أخرجه الطبراني في الكبير:3169)
راوی کہتے ہیں: انھوں نے کہا: ٹھیک ہے اللہ کے رسول (آج سے) میں عبداللہ ہوں۔
651۔ خیثمہ بن عبدالرحمن بن سبرہ سے روایت ہے کہ ان کے والد عبد الرحمن ان کے دادا کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان (کے دادا) سے کہا: ((مَا اسْمُ ابْنِكَ؟)) ’’آپ کے بیٹے کا کیا نام ہے؟‘‘
انھوں نے کہا: عزیز۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لَا تُسَمِّهِ عَزِيزًا، وَلٰكِنْ سَمِّهِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ))
’’تم اس کا نام عزیز نہ رکھو بلکہ عبدالرحمن رکھو۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ خَيْرَ الْأَسْمَاءِ عَبْدُ اللهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ وَالْحَارِثُ)) (أخرجه أحمد: 17606، وابن حبان: 5828، والحاكم:276/4)
’’یقینا تمام ناموں میں سے بہترین نام عبداللہ، عبدالرحمن اور حارث ہیں۔‘‘
توضیح و فوائد: عزیز نام رکھنا جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ عبدالعزیز نام رکھا جائے۔ عزیز میں کیونکہ بظاہر غلبہ اور برتری پائی جاتی ہے، اس لیے آپ نے عبدالرحمن نام رکھنے کا حکم دیا۔ جن ناموں سے بہت زیادہ تزکیہ یا قباحت ظاہر ہوتی ہو، بہتر یہی ہے کہ ان ناموں سے بچا جائے۔