اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا وسیلہ پکڑنا مستحب ہے

677۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ایک آدمی نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے دعا کی: ((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَاتِ وَالْأَرْضِ، يَا ذَالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، يَا حَى يَا قَيُّوْم))

’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس لیے کہ تیری ہی تعریف ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو بے انتہا احسان کرنے والا ہے، آسمان و زمین کو بے مادہ و بے نمونہ پیدا کرنے والا ہے۔ اے جلال و اکرام والے! اے زندہ! اے نگرانی کرنے والے!‘‘

نبی ﷺ نے فرمایا:

((لَقَدْ دَعَا اللهَ بِاسْمِهِ الْعَظِيمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطٰى)) (أخرجه أحمد: 12611، 13570، وأبو داود: 1495، والنسائي:1301، والبخاري في الأدب المفرد:705، والطحاوي في شرح مشكل الآثار:175، وابن حبان:893، والطبراني في الدعاء:116، والضياء في المختارة: 1885، والحاكم:503/1)

’’تحقیق اس نے اللہ تعالی سے اس کے اس عظیم نام کے واسطے سے دعا کی ہے کہ جب اس کے واسطے سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے واسطے سے مانگا جائے تو وہ دیتا ہے۔“

678۔ سیدنا محجن بن ادرع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے، آپ نے

ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنی نماز مکمل کر لی تھی اور وہ تشہد پڑھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا:

  ((اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسَالُكَ يَا اللهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيمُ))

’’میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اے اللہ! اکیلے، بے نیاز نہ جس نے جنا نہ جنا گیا اور کوئی اس کے برابر نہیں ا یہ کہ میرے گناہ معاف فرمادے۔ بے شک تو بہت ہی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔“

آپ ﷺ نے فرمایا: ((قَدْ غُفِرَ لَهُ، قَدْ غُفِرَ لَهُ، قَدْ غُفِرَ لَهُ)) (أخرجه أحمد:18974، وأبو داود:985، والنسائي في المجتبٰى:1302، وفي الكبرى:1224، وابن خزيمة: 724، والطبراني في الكبير:703/20، والحاكم:287/1)

’’تحقیق اسے بخش دیا گیا، بلاشبہ اسے بخش دیا گیا، یقینًا اسے بخش دیا گیا۔‘‘ تین بار فرمایا۔

679۔ سیدنا عمار رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا مانگا کرتے تھے:

((اَللّٰهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي. وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي، أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَكَلِمَةَ الْحَقِّ في الْغَضَبِ وَالرِّضَا، وَالْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنٰى، وَلَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ، وَالشَّوْقَ إِلٰى لقَائِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ، وَمِنْ فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ، اللَّهُمَّ! زَيِّنَا بِزِينَةِ الإيمَانِ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مَّهْدِيِّينَ)) ((أخرجه أحمد:18325، وابن أبي شيبة:264/10، وابن أبي عاصم في السنة:128، 378،424 والنسائي في المجتبٰى:1306، وفي الكبرى:1229، والطبراني في الدعاء:625، والدارقطني في الرؤية:159، 159، والبزار في مسنده: 1392)

’’اے اللہ غیب کو تیرے جاننے اور مخلوق پر تیری قدرت کے واسطے، مجھے زندہ رکھ جب تک تیرے علم میں میرے لیے زندگی بہتر ہے اور مجھے وفات دے جب موت میرے لیے بہتر ہو۔ میں خلوت و جلوت میں تجھ سے تیری خشیت کا سوال کرتا ہوں اور غضب و رضا میں کلمہ حق کا، فقیری اور امیری میں میانہ روی کا اور تیرے چہرے کی طرف لذت نظر کا اور تجھ سے ملاقات کے شوق کا سوال کرتا ہوں۔ اور کسی بھی ایسے نقصان و تکلیف سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو ضرر رساں ہو اور ایسے فتنے سے جو گمراہ کن ہو۔ اے اللہ! ہمیں زینت ایمان سے مزین فرما اور ہمیں ہدایت یافتہ راہبر و راہنما بنا‘‘

680۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم! جب رات کو نماز کے لیے اٹھتے تو اپنی نماز کا آغاز (اس دعا سے) کرتے تھے:

(اَللّٰهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمٌ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اِهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلٰى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ)) (أخرجه مسلم: 770)

’’اے اللہ! جبرائیل و میکائیل اور اسرائیل کے رب! آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والے! پوشیدہ اورظاہر کو جاننے والے! تیرے بندے جن باتوں میں اختلاف کرتے ہیں تو ہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ جن باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے تو ہی اپنے حکم سے مجھے ان میں سے جو حق ہے اس پر چلا، بے شک تو ہی جسے چاہے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔“